ایک گاوں کی کہانی ۔۔۔ نور العین ساحرہ
ایک گاوں کی کہانیاا
نور العین ساحرہ
نہر کے کنارے چلتے چلتے زمرد ٹھٹھک کر رکی، اچانک پلٹی اور پوری طرح اس منظر کی ہولناکی کا شکار ہو گئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا اور قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ منہ اندھیرے اپنے محبوب سے چوری چھپے ملاقات کا نشہ ہرن ہو گیا اور اس کی جگہ دہشت نے لے لی۔ اضطراری حالت میں قریب ہی موجود کانٹوں بھری جھاڑی کو سہارے کے لئے پکڑنا چاہا تو ہاتھ لہو لہان ہو گیا۔ وہ اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ صورت حال کو کچھ کچھ سمجھنے کے قابل ہوئی تو بے اختیار چیخنے چلانے لگی۔ چند ہی قدم کے فاصلے پر پل کے قریب گاؤں کی مسجد کے امام مولوی ہاشم الدین کی خون میں لت پت لاش پڑی ہوئی تھی۔
چالیس سالہ مولوی ہاشم الدین کے قتل نے پورے گاؤں میں فرقہ وارایت کی لہر دوڑا دی۔ کئی مردوں کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور کئی ہاتھ اپنے ہتھیاروں کی طرف بڑھ گئے تھے۔ متوقع ہنگاموں کے خوف سے تمام عورتوں کے دل لرز رہے تھے۔ شادی شدہ عورتوں نے اپنے بچوں کو گھروں کے اندر بند کر لیا تھا اور شوہروں کی ہر ہر حرکت پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھیں تاکہ ہر صورت ان کو باہر جانے سے روک سکیں۔ مولوی صاحب کو دفنایا جا چکا تھا اور پورے گاؤں کی گلیاں بالکل سنسان پڑی تھیں۔ ہواؤں میں ایک عجیب پراسرار خوف بسا ہوا تھا۔ ابھی کل ہی تو جمعے کے خطبے میں مولوی صاحب نے مخالف فرقے کے ایک مذہبی تہوار کو نہ صرف غیراسلامی اور شرک قرار دیا تھا بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ بھی کر دیا تھا۔ اسی لئے سب کا گمان تھا کہ مولوی صاحب کا قتل گاؤں کے چوہدری شفیق نے اپنے لاڈ پیار میں بگڑے بیٹے سراج کی خواہش پر کروایا تھا۔ جو چوہدری صاحب کی شادی کے اکیس سال بعد بہت منتوں مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔ حد سے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اس کی کوئی بات ٹالنا ممکن ہی نہیں تھا۔ سراج نے بہت بڑے پیمانے پر نہ صرف یہ مذہبی تہوار منانے کا ارادہ کر رکھا تھا بلکہ شہر سے بطور خاص بہت سے دوستوں کو بھی بلایا ہوا تھا۔ مولوی ہاشم کو پہلے بھی سراج کی کچھ معمولی سی غیرشرعی حرکتوں پر اعتراض رہتا تھا۔ مگر اس بار تو بات حد سے بھی بڑھ گئی تھی جس کی نہ صرف مولوی صاحب نے سخت مذمت کی تھی بلکہ ہاتھ سے برائی کو روکنے کا عندیہ بھی ظاہر کیا تھا۔ یہ اور بات کہ دوسرے فرقے والوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کو قتل کر کہ اپنی فتح کا جھنڈا گاڑ دیا تھا۔
مولوی صاحب کی چھبیس سالہ جوان بیوہ ہاجرہ نے جب یہ اندوہناک خبر سنی تو شدت غم سےحواس کھو کر پتھر کی مورتی میں بدل گئی۔ نہ آنکھ سےکوئی آنسو ٹپکا نہ کوئی گریہ زاری کی۔ آسمان کی جانب نظریں اٹھائے ساکت و جامد بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ ابھی تو بستر کی سلوٹوں میں بچھڑ جانے والےکا لمس تازہ تھا اور سامنے ہی ان کے ایک پاؤں کا جوتا، دوسرے پر الٹا پڑا تھا۔۔۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ جوتے پر جوتا الٹا پڑا رہتا؟ ہرگز نہیں، وہ تو کھانا بھی درمیان میں چھوڑ کر پہلے اسے سیدھا کرتے۔ ہاجرہ کی نظر اپنے سامنے پڑے سیب پر جیسے جم کر رہ گئی تھی۔ گیارہ سال سے یہی معمول تھا۔ ہر رات سونے سے پہلے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے کاٹ کر سیب کھلایا کرتے تھے۔ کل رات بھی معمول کے مطابق کاٹا تو تھا مگر کھانے کی نوبت ہی نہ آ سکی تھی۔ مولوی صاحب کے خیال میں وہ خود سے بہت لاپروا اور بےنیاز تھی۔ جسے نہ تو کھانے پینے کا کوئی شوق تھا اور نہ ہی پہننے اوڑھنے سے کوئی دلچسپی۔ بس ہر وقت چپ چاپ سر جھکائے شوہر کی خدمت میں مگن رہتی۔ اسی لئے مولوی صاحب شوہر کے ساتھ ساتھ ایک ماں کی طرح اپنی بیوی کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ویسے بھی دنیا میں ایک دوسرے کے سوا ان دونوں کا تھا ہی کون، جبکہ محلے والوں کے بقول سونی گود بتاتی تھی کہ دور کہیں آسمانوں پر اس جوڑے کو بےاولاد رکھ کر آزمائے جانا کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ہی تو ابھی تک جیتے آئے تھے۔ اب وہ کیوں اور کس کی خاطر زندہ رہےگی؟ یہ ہی سوچ سوچ کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔
زاہد کی بیٹھک میں مولوی صاحب کے حامیوں کا گٹھ جوڑ ہو رہا تھا۔ خالد غصے کے مارے منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے بولا ‘’آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور ناک کے بدلے ناک، ہمارے ہوتے ہوئے مولوی صاحب کا خون رائگاں نہ جائےگا’’ صمد نے بھی خالد کو بڑھاوا دیا اور بولا ‘’پچھلی بار بھی انہوں نے ہمارے سات بندے ماردیے تھےجبکہ ہم ان کے صرف چھ ہی مار سکے۔ ایک کا ادھار چکانا ابھی باقی ہے اور اب مولوی صاحب بھی ان میں شامل ہو گئے’’ زاہد نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا ‘’ہم کوئی نامرد ہیں؟ تم سب حامی تو بھرو ایک کے بدلے میں چار چار بندے مار دیں گےان شاءاللہ۔ اس بار ہمارا پلڑا بھاری نہ ہوا تو سمجھو ہماری تو عزت خاک میں مل گئی‘’ اس کے بعد وہ سب مل کر اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ان کافروں کے نام پیش کرنے لگے جن جن سے دین اسلام کو سخت خطرہ درپیش تھا۔ چوہدری کے بیٹے سراج کے نام پر سب ہی متفق تھے کہ چوہدری کی طرف سب کا کچھ نہ کچھ ادھار نکلتا تھا۔ وہ چکانے کا اس سے بہتر موقع اور کب ملےگا بھلا؟ اس کے علاوہ بھی تیزی سے اسلام دشمن عناصر کی فہرست ترتیب پانے لگی۔
زاہد نے اپنے ہمسائے نذیرے کمہار کا نام بھی پیش کیا جس نے پچھلے سال دو جوان دبئی پلٹ بیٹوں کے ایماء پر اپنی دیوار زاہد جیسے بڑے زمیندار سے اونچی کر کے گویا ان کی خاندانی غیرت پر طمانچہ رسید کر دیا تھا۔ سب نے سر ہلا کر منظوری دے دی بلکہ صمد کا خیال تھا نذیرے کمہار کی بجائے اس کے دونوں جوان بیٹوں کو مارنا اسلام کی کہیں زیادہ بڑی خدمت ہوگی۔ اس کے بعد صمد نے چھ جوان بیٹیوں کے باپ ماسٹر کرم اللہ کا نام پیش کیا جس نے صمد کو آوارہ کہ کر اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ سب نے تائیدی انداز میں سر ہلا کر اس کی پیٹھ ٹھونکی۔
اچانک خالد کے چہرے پر رحم کے جذبات چھلکے اور پریشانی سے بولا ‘’باپ کو مار دیا تو اس کی چھ جوان بیٹیوں کا کیا بنےگا؟’’ یہ سن کر باقی دو نے ایک دوسرے کو خباثت بھری نظروں سے دیکھا اور صمد ایک آنکھ بھینچ کر ہنسا ’’فکرک یوں کرتے ہو یارا؟ ہم تینوں ہیں ناں، مل کر دو دو کا بوجھ اٹھا لیں گے’’۔ کچھ سوچ کر تینوں مسکرانے لگے۔ اسلام کے مجاہدین نے ان کافروں کو جہنم واصل کرنے کا منصوبہ مکمل کر لیا تو جدا ہونے سے پہلے بہت پرجوش نعرہ لگایا اور ہاتھ ملا کر رخصت ہو گئے۔
دوسری طرف چوہدری اور اس کے حواری بھی آنے والے طوفان سے ہرگز بے خبر نہ تھے۔ وہ بھی صبح سے اسی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ یہاں بھی بہت عرق ریزی کے بعد ان دشمنان اسلام کی فہرست بنائی جا رہی تھی جن کے زندہ رہنے سے اسلام کا تابناک مستقبل خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ ان کافروں کی فوری سرکوبی بہت ضروری تھی۔ اس فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر چوہدری کی زمین سے متصل زمین والی بیوہ عورت کا سولہ سالہ بیٹا جمال تھا۔ جس کو مار دینے کے بعد یہ زمین خودبخود چوہدری کے حصے میں آ جانی تھی۔ بھلا ایک ان پڑھ بیوہ عورت بعد میں چوہدریوں کا کیا بگاڑ لیتی؟ رو دھو کر صبر کر لیتی بلکہ سہارے کی تلاش میں ان کی نوکرانی بھی بننے کو تیار ہو جاتی۔ دوسرے نمبر پر اپنے بیمار بوڑھے باپ، تین بہنوں اور ایک بیوہ پھوپھی کے واحد کفیل سرمد کے ناپاک وجود سے دھرتی کو پاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ چوہدری کے بیٹے سراج کو زمرد پسند تھی جبکہ زمرد کو سرمد کے علاوہ کائنات میں کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ سو زمرد کی نظر میں وسعت پیدا کرنے کے لئے سرمد کا منظر سے ہٹایا جانا اشد ضروری ہو چکا تھا۔ تیسرے اسلام دشمن عنصر کا نام موچی منظور تھا۔ وہ بچارہ غریب انجانے میں چوہدری صاحب کے بظاہر عالم دین نظر آنے والے چچا کو رنگے ہاتھوں مےنوشی کرتے دیکھنے کا مرتکب ہو چکا تھا۔ اپنے چچا سمیت پورے خاندان کی عزت ایک موچی کے ہاتھوں برباد کرنے کا خطرہ مول لینے سے بہتر تھا کہ مذہب کی آڑ میں سر پر منڈلاتا خطرہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ چوہدری کے خیال میں اچھائی اور برائی میں اس وقت تک کوئی تمیز نہیں کی جا سکتی تھی جب تک کہ وہ اتفاقیہ دنیا پر ظاہر نہ ہو جائے۔ سو چھوڑنے کی بجائے برائی کو چھپائے رکھنا اہم تر تھا۔
شام کا ملگجا سا اندھیرا پھیلتے ہی کسی کونے سے پہلی گولی چلنے کی آواز آئی اور اس کے بعد تو جیسے تانتا ہی بندھ گیا۔ دشمنان اسلام کی بنائی گئی فہرست تو کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اب تو یہ آگ اس قدر بھڑک چکی تھی کہ بچے بوڑھے کا لحاظ کیے بغیر سب کو خاکستر کرتی جا رہی تھی۔ ہر دو طرف سے ایک مسلمان کے بدلے چار پانچ کافر جہنم واصل کیے جا رہے تھے۔ چوہدری کی زمین سے متصل زمین والی بیوہ عورت کا سولہ سالہ بیٹا جمال اس پورے معاملے سے بے خبر صبح سویرے اپنے دوست سے ملنے شہر گیا ہوا تھا۔ اس کی ماں دروازے میں کھڑی رو رو کر منتوں پر منتیں مانے جا رہی تھی کہ آج اس کا بیٹا کسی صورت گاؤں واپس نہ آ سکے۔ جانے کیوں آج اس ماں کی دعا کو شرف قبولیت نہ بخشا گیا اور جمال اس سارے معاملے سے لا علم، مکمل اندھیرا ہونے سے قبل اپنے گھر پہنچنے کی کوشش میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا آ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے پھوٹتی خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔
سب گاؤں والوں کا راج دلارا پیارا نوجوان، جس کے بارے سب کہتے تھے کہ یہ بڑا ہو کرملک و ملت کا نام روشن کرےگا۔ بہت بڑا انجنئیر یا سائنسدان بنے گا۔ اس کے پاس ہمیشہ ہر مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکل آتا تھا۔ اس نے چھوٹی چھوٹی بیٹریوں اور کئی بےکار چیزوں کو جوڑ توڑ کر اپنی محلے والوں کی سہولت کے لئے کئی چھوٹی موٹی ایجادات کر رکھی تھیں۔ چارہ کاٹنے کی مشین کو بھی برقی بنا دیا تھا اور کنوئیں سے پانی نکالنا بھی آسان کر دیا تھا۔ اسے اپنی ماں کے کندھوں میں شدید درد کے باوجود دودھ بلونے والی مشقت بہت تکلیف دیتی تھی۔ ہر وقت اس کام کو آسان بنانے کے طریقوں پر غور کرتا رہتا تھا اور آخرکار آج اس نے دودھ بلونے والی برقی مشین بھی بنا لی تھی۔ وہ اپنی ماں کو یہ خوشخبری سنانے کو بےتاب، بڑی بڑی چھلانگیں لگاتا دوڑا چلا آ رہا تھا۔ ویسے بھی آج صبح شہر جانے سے پہلے اس نے اپنی ماں سے اپنے پسندیدہ کوفتے کا سالن پکانے کی فرمائش کی تھی۔ جس کا ذائقہ کئی بار صبح سے اپنی زبان پر محسوس کر چکا تھا۔ جیسے ہی وہ گاؤں میں داخل ہوا تو کوفتے سے ذرا چھوٹے سائز کی گولی زبان کو چھوڑ کر عین اس کے دل والے مقام پر پیوست ہو گئی۔ اس نے حیرت سے ایک نظر اپنے دل سے بھل بھل بہتے ہوئے خون کو دیکھا اور دوسرے ہی لمحے نا سمجھ آنے والے خوف اور تکلیف سے آنکھیں بند کر لیں۔ جبراً ملنے والی اس غیرمتوقع شہادت نے اس کو مہلت ہی نہ دی کہ کچھ سوچ سکے ورنہ شاید وہ اس مسئلے کا بھی کوئی نا کوئی حل ڈھونڈھ ہی لیتا۔ اس کی غیر معمولی ذہانت کے ساتھ ساتھ اپنی ماں، ملک اور مذہب سے والہانہ محبت خون کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی زمین کی گہرائیوں میں جذب ہوتی جا رہی تھی۔
ادھرگاؤں کی عورتوں نے پورا دن بہت کوشش کی تھی کہ مولوی صاحب کی بیوی ہاجرہ کچھ رو پیٹ لے اور آنسو بہا لے تاکہ اس کے دل کو چین مل جائے مگر وہ تو کسی پتھر کی طرح بے جان نظر آ رہی تھی۔ میت کے سرہانے بھی یوں ہی بےحس و حرکت بیٹھی رہی جسے مرنے والے سے کوئی جان پہچان تک نہ ہو۔ اس کی نظریں تو ابھی تک اسی آدھے سیب پر جمی تھیں جو کل رات مولوی صاحب نے اس کے لئے کاٹا تھا مگر اس نے سختی کے ساتھ کھانے سے انکار کر دیا تھا۔ گزری ہوئی رات کا ایک ایک منظر ذہن کے پردے پر جیسے نقش ہو چکا تھا۔ کل سارا دن برستی ہوئی بارش نے اس کو اندر تک اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا کہ اس کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ اس کے تن من کی پیاس اور تڑپ اس قدر بڑھ گئی کہ وہ اپنی گیارہ سال تک دی گئی قربانی کو بھی بھول گئی تھی اور چیخ چیخ کر بار بار مولوی صاحب سے اپنے مکمل ہونے کا یقین مانگنےلگی جو ان کے بس میں نہیں تھا۔
یہ بحث نما لڑائی صبح چار بجے تک مسلسل جاری رہی۔ ہمیشہ کی طرح مایوس ہونے کے بعد ہاجرہ نے آزادی مانگ لی جس پر مولوی صاحب کسی طور بھی راضی نہ ہوئے تو اس نے بغاوت کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ مولوی صاحب کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں بھڑکتی ہوئی بغاوت کی آگ اور دھونکنی کی طرح چلتی ہوئی تیز سانس کو بغور دیکھتے رہے اور پھر صبح ہوتے ہی اسے ہمیشہ کے لئے آزاد کر دینے کا عندیہ دیتے ہوئے دروازہ کھول کر نہر کی طرف چلے گئے تھے۔