انگڑائی ۔۔۔ ممتاز شیریں
انگڑائی
ممتاز شیریں
’آپا، گلنال آپا! وہ دیکھو مجھ فنا۔۔۔‘‘ جاوید ننھے ننھے ہاتھوں سےمیری ساری کھینچ رہاتھا۔
’’ارے ہٹ بھی۔جب دیکھو آپا آپا۔۔۔ دیکھ تو میری ساری کاناس کیے دے رہاہے۔ سفید ساری کل ہی تو پہنی تھی۔ اور یہ دھول میں اٹے ہوئے ہاتھ! مٹی سے کھیل رہا تھا کیا بدتمیز!‘‘ میں نے غصہ سےاس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔ اس نے رونی صورت بنالی۔ ’’نیںہ تو آپا۔۔۔ مجھ فنانچھ ہمالے لو ڈپل۔۔۔‘‘ اس نے سسکتےہوئے کہا۔ ’’انہیں بلاؤنا۔۔۔ مچھ فنانچھ کتنی اچھی ہیں۔ اچھ دن مجھے کیک دیا تھا اول کو کو۔۔۔ کیچھی اچھی کوکو۔۔۔ آپا انہیں بلالو اچھی آپا۔‘‘
’’ارے!‘‘ میں چونک پڑی۔ ’’مس فنانس یہاں!‘‘ میں نے دریچہ کی طرف نگاہ ڈالی، ہاں وہ سچ مچ کچھ دور پر کسی عورت سے باتیں کرتی ہوئی آرہی تھیں۔ ’’تو انہیں بلالوں؟‘‘ میں نے سوچا۔ پھر جلدی سے کمرہ کاجائزہ لینے لگی۔ کتابیں بکھری ہوئی اور فرنیچر! ایک کرسی دیوار کی طرف منھ کیے کونے میں پڑی ہے۔ تو ایک کمرے کے عین بیچ میں، گویا اپنی پالش سے بے نیازی پر نازاں بیٹھی ہو۔ اور صوفہ! ہونہہ، یہ بڑا سا سوراخ اور اس میں سے میلی میلی روئی جھانکتی ہوئی۔۔۔ ٹیبل کلاتھ؟ اس پر تو جاوید نے بڑے ہی خوشنما نقش بنارکھے ہیں۔ اور سیاہی کے برتنے میں تو بڑی فیاضی دکھائی ہے۔ میرے اللہ! ایک چیز بھی سلیقہ کی ہے؟ اف کس بدتمیز نے فرش پر کاغذ بکھیرے ہیں؟ ایسے شریر بچے بھی کسی کے ہوتے ہیں؟ اور یہ دھول کی ایک انچ موٹی تہ! یہ کریمن بھی کہاں مرگئی؟ کم بخت سے یہ بھی نہیں ہوتا کہ صبح صبح کمروں میں جھاڑو دے دیا کرے۔
’’کریمن! او کریمن ذرا جھاڑن لیتی آنا! کیا تم نے یہ دھول بیچنے کے لیے جمع کر رکھی ہے؟‘‘
’’آئی بی بی! ابھی آئی۔ ذرا توے سے روٹی تو اتارلوں، جل جائے گی۔‘‘ بھاڑ میں جائے وہ اور اس کی روٹی۔ کمبخت ہر وقت چولہے میںگھسی رہتی ہے۔۔۔ آخر میں کیوں اتنا جل رہی تھی۔ مجھے خود شرم آنے لگی۔ بے چاری غریب کیا کرے ایک ہی تو تھی اور گھر کا سارا کام اسی کے سر۔ ہم ایسے کوئی امیر تو نہ تھے کہ دس نوکر رکھتے۔ ایک بھی غنیمت ہے۔
میں نے جلدی سے ٹیبل کلاتھ بدلا اور کرسیوں کو اپنی اپنی جگہ گھسیٹ کر فرش پر بکھرے ہوئے کاغذ سمیٹنے لگی۔ سمیٹتے سمیٹتے اٹھ کر کھڑکی پر نظر ڈالی تو میری سانس جیسے رک گئی۔ اُف مس فنانس کتنی نزدیک آگئی تھیں! ’’زکیہ! زبیدہ!‘‘ میں حلق پھاڑ چلائی، جواب ندارد! دروازے میں جاکر دیکھا تو بس جل ہی گئی۔ دونوں آنگن میں موجود! زکیہ جاوید کو اٹھائے کھڑی تھی تو زبیدہ گیٹ پر چڑھی ہوئی گردن بڑھا بڑھا کر مس فنانس کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’زکیہ! کچھ مدد بھی کروگی؟ شرم نہیں آتی تمہیں یوں باہر کھڑی ہو۔‘‘
’’ خفا کیوں ہوتی ہو آپا! میں ہمیشہ گیٹ میں تھوڑے ہی کھڑی ہوتی ہوں؟ یونہی آج‘‘۔۔۔پھر وہ میرے پھولے ہوئے چہرہ کو دیکھ کر ہنسی پڑی۔ ’’اخاہ، آپا! آج تو آپ کے غصہ کا پارہ سوڈگری پر چڑھا ہوا ہے۔ اہاہا، ابھی اتارے دیتی ہوں۔ اپنی آپا کاٹمپریچر۔ دیکھونا، ایسے مزے کی بات بتاؤنگی۔‘‘ منہ بناکر تالی بجاتے ہوئے، ’’بتادوں آپا؟ ۔۔۔ او۔۔۔ اوں۔۔۔ مس فنانس یہاں سے گذر رہی ہیں۔‘‘
’’یہ تو معلوم ہی ہے، اچھا آؤ ذرا کمرے کو صاف کرنے میں مدد دو، تمہیں تو بس باتیں ہی آتی ہیں۔‘‘ میں نے بے پروائی سے کہا۔
’’تو آپا مس فنانس کو بلاؤگی؟‘‘ اس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔ زبیدہ بھی ناچ رہی تھی۔ اوہ! ابھی تک یہ بچے مس فنانس کو اتنا چاہتے ہیں!
زکیہ پھر دروازے کی جانب تکنے لگی۔ میں بھناگئی۔ کاغذ سارے کمرے میں پھیلے پڑے تھے۔
’’ہونہہ! میں نہیں بلاؤں گی! دیکھو تو گھر کتنا صاف ہے۔‘‘ میں نے جھنجھلاکر سمیٹتے ہوئے کاغذوں کو زمین پر دے مارا۔
’’کیا کہہ رہی ہوآپا؟ زکیہ تعجب سے میرا منہ تکنے لگی۔ میں نے اس کی طرف توجہ کئے بغیر زبیدہ کو پکارنا شروع کیا۔ ’’زبیدہ! آجاؤ اندر۔‘‘
’’کیوں آپا؟‘‘ زبیدہ نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
’’آجاؤ! اگر مس فنانس تمہیں دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہمارا ہی گھر ہے اور وہ یقیناً مجھ سے ملنے آئیں گی۔‘‘ میں نے جاوید کو بھی اندر گھسیٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ تو اور اچھا ہوگا، وہ کیوں نہ آئیں آپا؟‘‘
’’گویا تم نےگھر کو بہت اچھی طرح سجا رکھا ہے!‘‘
’’ ہم ابھی سب ٹھیک کردیں گے انہیں آنے دو آپا!‘‘ دونوں نےنہایت اشتیاق سے التجا کی۔
’’کہہ جو دیا کہ نہیں بلائیں گے۔‘‘
’’اور آپا! مس فنانس! اور اتنے دنوں کے بعد انہیں دیکھنا نصیب ہوا۔ آخر تمہیں کالج چھوڑے ہوئے دو تین ماہ ہوگئے نا؟ اتنے دنوں بعد اتفاقاً وہ خود ہمارے شہر میں آئیں، ہمارے گھر پر سے گذریں اور تم! ۔۔۔ تم انہیں نہ بلاؤ۔آپا تم تو مس فنانس پر، ‘‘ زکیہ سنجیدہ لہجہ میں کہتی کہتی یکایک زور سے ہنس پڑی اور شرارت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔
’’ہوں! اچھا میں جان گئی ۔۔۔ جب سے پرویز بھیا۔۔۔‘‘
’’اری چپ! بہت باتیں بنانے لگی ہے۔‘‘ میں نے زور سے اس کے ایک چٹکی لی۔
’’ہونہہ آپا! تم بہت بنتی ہو۔ ابھی دیکھو نا پرویز کا نام آتے ہی کیسے شرما گئیں۔‘‘ میں یونہی شرماتی لجاتی، سمٹی سمٹائی سب کچھ بھول کر وہیں کھڑی رہی گویا اس نام نےمجھ پر جادو کر دیا ہو۔ کیسا حسین نام ہے۔ کتنا پیارا نام ہے! پرویز!
میں اس شیریں تصور سے چونکی تو سامنے کیا دیکھتی ہوں، دروازے کے کواڑ کھلے پڑے ہیں، پردہ ہوا سے اُڑا جارہا ہے اور مس فنانس ہمارے گھر کے بالکل مقابل میں کھڑی مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہیں۔ جونہی میں نے انہیں دیکھا وہ مسکراکر ہمارے گھر کی طرف بڑھنے لگیں۔
’’یا اللہ! اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں زکیہ کو جھنجوڑنے لگی۔ ’’اب تم ہی سب کچھ دیکھ لو۔ دیکھو وہ آرہی ہیں۔‘‘ میں بے تحاشا وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے میں جاکر دم لیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے جھانک کر دیکھا مس فنانس برآمدنے کے بازو والے کمرے میں کرسی پر بیٹھی تھیں اور زکیہ ایک خوشنما برتن میں کیلےاور سنگترے لیے ہوئے ان کے پاس کھڑی تھی۔ ’’گلنار کو بلاؤنا‘‘ مس فنانس کہہ رہی تھیں، اچانک انہوں نے مجھے جھانکتے ہوئے دیکھ لیا، اور مسکراکر آوازدی، ’’گلنار!‘‘ میں شرماکر دروازے کی اوٹ میں ہوگئی۔۔۔ میرے یوں شرماجانے سے وہ کیا سمجھی ہوں گی؟ یہی نا کہ میرے جذبات ان کی طرف اب بھی ایسے ہی ہیں۔ ہونہہ! انہیں کیا معلوم کہ میں اب ۔۔۔ مگر انہیں یہ غلط فہمی ضرور ہوگی۔ میں پہلے تو ان کے سامنے یونہی شرمایا کرتی تھی۔ جب وہ کہیں سے آنکلتیں تو میں بھاگ کر کہیں جا چھپتی۔ وہ میری طرف دیکھتیں تو دونوں ہاتھوں میں منہ چھپالیتی، گو دل تو یہی چاہتا کہ وہ یونہی دیکھتی رہیں۔ عجیب لڑکی تھی کچھ سال پہلے! رفتہ رفتہ میں اُن سے کھل کر بات کرنے لگی تھی۔ پھر بھی جب کبھی اُن سے اچانک مڈبھیڑ ہوجاتی تو میری بدحواسی نہ پوچھیے۔ وہ دن بھی کیا دن تھے! چھٹی ہونے پر کالج کے برآمدے میں گھنٹوں ان کا انتظار کرنا میرا معمول تھا۔ ہفتہ بھر میں جس دن ان کا گھنٹہ نہ ہوتا وہ دن کس قدر منحوس دکھائی دیتا تھا! ہاں میں ان پر مرتی تھی ، انہیں دیوانگی کی حد تک چاہتی تھی۔ اور لڑکیاں کیسے مجھے تنگ کرتی تھیں ’’گلنار! نہ جانے تم کیوں مس فنانس پر مرتی ہو وہ کون سی ایسی حسین ہیں کہ بلکہ انہیں بدصورت بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘ جی چاہتا ان چڑیلوں کے منہ نوچ لوں۔ انہیں کیا معلوم کہ وہ مجھے کیسی حسین نظر آتی تھیں! دوسری لڑکیاں تو کیا میں زرینہ سے بھی اس دن خفا ہوکر روٹھ گئی تھی گو زرینہ میری سب سے پیاری سہیلی تھی۔ ہاں اس دن میں نے کالی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ اور پربھا سے سادو مانگ کر سیاہ، بوٹو، بھی لگایا تھا۔ میں اور زرینہ ہاسٹل کے کامپونڈ میں ٹہل رہے تھے۔ اندرا بھی کہیں سے آنکلی۔ ’’اہا۔ آج تو تم بلا کی حسین نظر آرہی ہو گلنار! مس فنانس کی سی؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا تھا۔ ہونہہ! مس فنانس! زرینہ نے طنز سے کہا تھا۔ ’’مس فنانس! وہ تین دفعہ مرکر جنم لیں تو شاید تمہارا حسن انہیں نصیب ہو!‘‘ مجھے کتنا غصہ آیا تھا اس پر۔ ’’اوہ روٹھ گئی گل؟ اچھا بھئی وہ تجھ سے پانچ گنا زیادہ حسین ہیں! خوش ہوگئی اب تو؟‘‘ پھر وہ قہقہہ پرقہقہہ لگانے لگی۔ اور اندرا بھی مسکرانے لگی۔ جی میں آیا زرینہ سے لڑپڑوں، آخر وہ کون ہوئی مس فنانس کی توہین کرنے والی! یہاں میرا جی جل رہا ہے اور وہ یوں کھڑی ہنس رہی ہے! اگر ایک بات بھی ان کے خلاف کہی جاتی تو میں زرینہ سے تو کیا کالج بھر کی لڑکیوں سے لڑنے کے لیے تیار تھی۔ بھلا میں ایک ہی تھی کئی لڑکیاں میرا ساتھ دیتیں۔ اور بھی تو بہت سی لڑکیاں انہیں چاہتی تھیں۔ للیتا، غریب لڑکی وہ تو مجھی کو ان کی محبت کا حق دار سمجھتی۔ میرے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا کرتی بلکہ مس فنانس کو مجھ سے محبت کرتے دیکھ کر اور خوش ہوتی۔ کیسی بے لوث لڑکی تھی! اس کے برخلاف وہ لکشمی! حسد کی پتلی! کیا کیا جتن نہ کرتی تھی کہ مس فنانس کی توجہ میری بجائے اس پر ہو۔ نہ جانے کہاں سے لاتی تھی ایسی خوبصورت ساریاں اور انہیں کس سلیقہ سے پہننے کی کوشش کرتی۔ جھوٹے موتیوں سے طرح طرح کے زیور بناکر پہناکرتی اور بعد میں تو اس نے برقی مشین سے اپنے بالوں کو گھنگھریالے بھی بنالیا تھا، ہونہہ۔ ان سب جتنوں سے کیا ہوتا وہ حسین تو تھی نہیں۔ مس فنانس مجھی کو دیکھا کرتیں۔ وہ جل مرتی۔ مس فنانس کے خاص سبجیکٹ پر تو وہ دنیا بھر کی کتابیں پڑھتی۔ مگر کہیں مجھ سے اچھا لکھ سکتی تھی! مجھ سے زیادہ نمبر بھی کبھی لئے تھے؟ آخر کچھ بن نہ پڑتا تو مجھ سے خوب جلاکرتی اور ہمیشہ اسی کوشش میں لگی رہتی کہ ایسی باتیں کرے جن سے میرے دل کو ٹھیس لگے، یہ دیکھ کر کہ میں حسین سمجھی جاتی تھی وہ کیسے کڑھتی تھی۔ کہا کرتی ’’ہونہہ! سرخ و سفید رنگ کے بغیر بھی کوئی حسین کہا جاسکتا ہے۔ دراز قد اور چھریرا بدن تو حسن کے ضروری جزو ہیں۔‘‘ وہ خود بھی گوری تو نہ تھی لیکن تھی درا زقد اور دبلی پتلی مگر اس کے چھریرے بدن میں خاک بھی حسن نہ تھا۔ وہ ایسے دکھائی دیتی تھی گویا ایک لانبی سی لکڑی کو تراش کر صاف کردیا گیا ہو، نہ وہ بدن کے دلکش نشیب و فراز، نہ کوئی لچک، نہ کوئی ادا، چپٹی بے جان لکڑی! جی چاہتا منہ توڑ جواب دوں۔ ’’ہونہہ! خوبصورتی کے لیے دلکش نقش صبیح رنگ سے زیادہ ضروری ہیں اور بھرا ہوا گول بدن اتنا ہی خوبصورت ہوتا ہے جتنا نازک جسم بلکہ اس سے کہیں زیادہ دلکش۔‘‘ مگر مسکراکر چپ ہو رہتی اور یہ ظاہر نہ ہونےدیتی کہ میں اس کے طعن کو سمجھ گئی ہوں۔ کبھی وہ کسی کی گوری رنگت والی لڑکی کو دکھاکر کہتی، ’’دیکھوگلنار وہ لڑکی کیسی حسین ہے۔‘‘ اور اس کی بتائی ہوئی لڑکی، اتنی بدصورت، اتنی کریہہ صورت ہوتی کہ میں بے اختیار ہنس پڑتی نکٹی ناک، پھیلے ہوئے نتھنے، بے حد موٹے ہونٹ، بھدا جسم، مگر ہاں سفید رنگت! میں ہنس کر کہتی، ’’تمہاری حسن شناسی کی داد دیتی ہوں۔‘‘ جب ان باتوں سے کام نہ چلتاتو سیدھی ذاتیات پر اتر آتی اور بار بار مجھے ’کالی‘ کہتی حالانکہ میرا رنگ اچھا خاصہ گندمی تھا۔۔۔ اور زینت وہ تو مس فنانس کے پیچھے ہی لگی رہتی تھی۔ کیسی سادگی سے شکایت کرتی تھی، ’’گلنار! مس فنانس تو تمہیں کو زیادہ چاہتی ہیں۔‘‘ اور وہ بیحد موٹی لڑکی، لڑکی نہیں بلکہ عورت ۔۔۔ وہ بھی تو انہیں کادم بھراکرتی تھی! اور اپنی محبت کیسی عجیب طرح سے جتایا کرتی تھی۔ مس فنانس کو بھی بے اختیار ہنسی آجاتی اور نلینی۔۔۔
’’گلنار بی بی!‘‘
’’کیا ہے کریمن؟‘‘
’’بیگم نے میٹھے ٹکڑکے اور سموسے بنانے کے لیے کہا ہے۔ وہ جو کوئی مس صاحب آئی ہیں نا!‘‘
’’بہت کام ہی بیٹی، ذرا اس روٹی کے ٹکڑے تو کاٹ لو۔ اچھی بیٹی عمر بھر دعا دیتی رہوں گی۔‘‘
میں نے کواڑ کھولے اور آہستہ آہستہ سے جھانک کر دیکھا کہ کہیں مس فنانس ادھر دیکھ تو نہیں رہی ہیں؟ امی بھی پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ امی سے باتیں کرنے میں مشغول تھیں۔ میں نظر بچاکر جلدی سے باورچی خانہ میں چلی آئی۔ چاقو کواچھی طرح صاف کرکے روٹی کاٹنے بیٹھ گئی۔ کریمن نے گلا ہوا قیمہ چولھے پر رکھا اور اس میں نمک مرچ پیاز ڈال کر بھوننے لگی۔۔۔ تو یہ میٹھے ٹکڑے پکائے جارہے ہیں۔ یہ انہیں بہت مرغوب تھے نا! اور میں نے کتنی دفعہ میٹھے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے پکاکر انہیں بھیجے تھے۔ ان دنوں وہ یہیں کالج میں پروفیسر تھیں اور جب ان کا ٹرانسفر ہوا تھا تو میں کتنا روئی تھی! وہ منارہی تھیں، تسلی دے رہی تھیں اور میں روتی جاتی تھی۔۔۔ پھر میں نے رودھو کر ابا کو مجھے اسی جگہ بھیجنے پر رضامند کرلیا جہاں مس فنانس کام کر رہی تھیں اور ان سے جاملی تھی۔ دیکھتے دیکھتے دو سال یونہی گذر گئے۔ مجھے اس کالج کا آخری امتحان دینا تھا اور اس کے بعد مس فنانس سے دائمی جدائی! میں اس کا خیال بھی نہ کرسکتی تھی۔ کاش اس کالج میں ایم-اے کاکورس بھی ہوتا اور میں دو اور سال ان کے ساتھ رہ سکتی! پھر میں نے اس مرتبہ فیل ہونے کی ٹھان لی تھی۔ ایک ایسی لڑکی کے لیے جو جماعت میں ہمیشہ اول آیا کرتی ہو ، فیل ہونا کتنی شرم کی بات تھی۔ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آتا تھا۔ پروفیسروں نے مجھ سے کتنی امیدیں باندھ رکھی تھیں،میں کانوکیشن میں بہت سے تمغے اور انعامات حاصل کروں گی۔ سب لڑکیوں میں اول آنا تو میرا معمول تھا، اس کے الگ تمغے ملے گیں۔ سوشیالوجی اور انگریزی میں تو ریاست بھر میں اول رہوں گی۔ لڑکے دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے۔ اور کالج کا نام کیسے چمکے گا ، ان کی امیدوں پر پانی پھرنے کی مجھے پروا نہ تھی۔
آخر وہ دن آگیا جب امتحان ختم ہوچکا تھا اور میں مس فنانس سے آخری بار ملی تھی۔ انہیں خدا حافظ کہہ کر جب ہاسٹل لوٹی تو سیدھے اپنے کمرے میں جاکر بستر پر گر پڑی اور تکیوں میں منہ چھپاکر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی۔ اتنا کہ آنکھیں سرخ ہوگئیں اور تکیہ پوش بھیگ گیا۔ پھر جب زرینہ آئی تو اس نے مجھے گلے لگالیا اور تسلی دینی شروع کی۔ وہ جتنا مناتی تھی میں اور زیادہ روتی جاتی تھی۔۔۔.. اس رات زرینہ کتنی دیر تک میرے پاس بیٹھی سمجھاتی رہی یہاں تک کہ میری آنکھیں جو رونے کی وجہ سے بری طرح جل رہی تھیں۔ نیند کے غلبے سے بند ہونے لگیں۔ کتنی محبت کرنے والی لڑکی تھی زرینہ!
’’تو تم نے ٹکڑے کاٹ لیے بیٹی؟ ادھر لاؤ انہیں میں گھی میں بھون دوں اور اچھی بیٹی ذرا ان پوریوں میں قیمہ بھر کے سموسے بنالینا۔ بیگم نے جلدی تیار کرنے کا حکم دیا۔ کیا کروں بیٹی! تم دیکھتی ہو بہت بوڑھی ہوگئی ہوں۔ ہاتھ سے زیادہ کام نہیں بن پڑتا۔ ورنہ میں تمہیں کام کرنے کو کہتی، توبہ توبہ اس بوڑھے منہ میں کیڑے نہ پڑجاتے یہ نازک نازک ہاتھ جو صرف قلم پکڑتےتھے، ان کو میں، موئی نوکرانی، کام کرتے دیکھتی! آنکھیں نہ پھوٹ جاتیں!‘‘ بوڑھی کریمن خوشامد کرنے لگی، میں بغیر جواب دیے، قیمہ بھرکر سموسے بنانےلگی۔
وہ خود بھی مجھے کتنا چاہتی تھیں۔ کئی بار انہوں نے مجھے اپنے گھر پر بلایا تھا اور کتنا اصرار کرتی تھیں کہ میں ان کے ساتھ سیر کوجایا کروں۔ اس دن ان کی آواز میں کیسی التجا تھی، ’’صرف ایک بارآجاؤ گلنار! میں تمہیں اپنی کار میں گھمالاؤں گی۔ فلاں فلاں گارڈن لے جاؤں گی ۔‘‘ میں نےبصد ناز ان کی التجا کو ٹھکرا دیا تھا۔۔۔ اور اپنے پرچوں میں مجھے کتنے زیادہ مارکس دے دیتی تھیں، اسی پچاسی فیصدی! یہ دیکھ کر لڑکیاں مجھ سے بہت جلتیں، کہا کرتیں، ’’آخر تم تو ان کی فیوریٹ ہونا! ہمیں کہاں سے ملیں اتنےنمبر‘‘۔۔۔ میرانام اس چٹخارے سے لیتی تھیں گویا ان کے منہ میں لذیز مٹھائی رکھی ہو۔ جب میری طرف دیکھ کر مسکراتی تھیں تو ان کا تبسم کتنامحبت آمیز ہوتاتھا۔ میرے دل میں بے اختیار یہ خواہش پیدا ہوتی کہ انہیں مس فنانس کی بجائے ’’اینجلنا‘‘ کہاکروں یاکم از کم ایک بار چپکے سےکہہ دوں ’’میری اینجلنا‘‘۔ مگر مجھے کبھی جرأت نہ ہوئی تھی۔ ان کے سامنے کہتی نہیں تھی تو کیا خطوں میں تو جو جی میں آیا لکھ دیتی تھی۔ میرے دل کی ملکہ، میری جان، ملکہ حسن، میری آسمانی، اینجلنا، اور کیا کچھ نہیں لکھا کرتی تھی۔ عجیب رومان بھرے خط لکھا کرتی تھی میں تو! اور وہ کبھی خفا نہ ہوتی تھیں۔ انہوں نے بھی تو ایک دن ۔۔۔ اس دن میں اور للتا ان کے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ میں بیٹھی تھیں۔ باتوں میں للتا نے پوچھا تھا، ’’مس فنانس آپ گھوڑے کی سواری جانتی ہیں؟‘‘ ’’نہیں،‘‘ انہوں نےجواب دیا۔ ’’مگر بہت دنوں سے سیکھنے کی خواہش ہے۔ اور اس کے لیے رائڈنگ سوٹ بھی سلانے والی ہوں۔‘‘ اور پھر اچانک میری طرف مخاطب ہوکر کہا، ’’کوٹ اور پتلون گلنار!‘‘ اس انداز سے کہا تھا کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی۔ ’’میں تو اس سوٹ میں بالکل مرد معلوم ہونگی نا؟‘‘ میں دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے بیٹھی رہی۔ ہاں ان میں کچھ کچھ مردانہ جھلک بھی تو تھی۔ بہت دراز قد، چوڑا چکلا سینہ، اور ایسی نظروں سے دیکھتی تھیں کہ میں بے اختیار شرماجاتی۔ خواہ وہ کتنی ہی لڑکیوں کی بھیڑ میں کھڑی ہوں، وہ باتیں تو اور لڑکیوں سے کر رہی ہوتیں مگر نظر مجھی پر جمی ہوتی اور نارنجی ساری میں وہ کیسی بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ شاید ساری کی عکس کی وجہ سے چہرہ کارنگ سنہری ہوجاتا اور رخساروں پر ہلکی سرخی جس میں کچھ نیلاہٹ کی آمیزش بھی ہوتی۔۔۔ اور دور سے تو چیچک کے داغ بھی دکھائی نہیں دیتے تھے۔
میں نے سموسوں کی سینی کریمن کے آگے رکھ دی۔ کریمن انہیں تلنے لگی۔ اب کہیں فرصت ملی ان کاموں سے! اتنی دیر چولھے کے پاس بیٹھنے سے بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھوئے، ساری کے آنچل سے انہیں خشک کرتےہوئے پھر اس کمرے کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں مس فنانس بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہی ساحرانہ مسکراہٹ جو مجھ پر جادو ساکردیتی تھی۔ اب میں بخوشی ان کے پاس جانے کو تیار تھی۔ دفعتاً میری نظر ساری پر پڑی۔ جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اور جاوید کے ہاتھوں کےنشان صاف نظر آرہے تے۔ میں یہ ساری پہن کر کیسے جاسکوں گی؟ اتنےمیں زبیدہ آنکلی۔
’’زبیدہ!‘‘ میں نے آواز دی۔ توجہ کیے بغیر بھاگی جارہی تھی۔ ’’زبیدہ ادھر تو آؤ۔‘‘
’’ہونہہ! نہیں آؤنگی مجھے مس فنانس کے پاس جانا چاہیے۔‘‘
’’میری اچھی منی مان لے گی اپنی آپا کی بات۔ چاکلیٹ دوں گی منی کو!‘‘
’’کیا ہے آپا؟‘‘ چاکلیٹ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’اچھی منی مجھے الماری میں سے ایک ساری لادونا! دیکھو یہ کیسی میلی ہو رہی ہے۔ مس فنانس کے پاس یہ پہن کر کیسے جاؤں۔ یہ لو الماری کی کنجیاں!‘‘
’’ہاں آپا، جلدی جاؤ مس فنانس بار بار تمہیں یاد کر رہی ہیں۔‘‘
تو وہ اب بھی مجھے چاہتی ہیں؟ ہاں شاید دو ماہ پہلے میں نے ایک لڑکی کے ذریعہ انہیں خط بھیجا تھا۔ اس نے مجھ سے کہاتھا نا کہ وہ خط پاکر کیسے خوش ہوگئی تھیں اور اس دن بھی تو وہ خوشی سے دیوانی ہوئی جارہی تھیں نا جب میں اطلاع دیے بغیر اچانک اس کالج میں آگئی تھی جہاں وہ اب کام کر رہی تھیں۔ میں ایک ایسی جگہ چھپ گئی تھی جہاں سے میں تو انہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر وہ مجھے نہ دیکھ سکتی تھیں۔ اور ایک لڑکی کو ان کے پاس بھیجا تھا کہ انہیں اطلاع کردے۔ میں اس کالج میں داخلے کے لیے آئی ہوں۔ انہوں نے فرطِ مسرت سے کئی بار میرا نام دہرایا تھا۔ ’’گلنار! گلنار! گلنار! یہاں! سچ کہو۔‘‘ لڑکی نےانہیں یقین دلایا۔ ’’وہ کہاں ہیں بتاؤنا؟‘‘ لڑکی انہیں بتا رہی تھی میں کس جگہ ہوں مگر وہ دیکھے بغیر ’’گلنار! گلنار، تم کہاں ہو؟‘‘ کہتی ہوئی ہر طرف گھوم رہی تھیں۔ انہیں یوں بے تاب دیکھنے میں بڑا ہی مزہ آیا تھا۔
’’لو اللہ اللہ کرکے سب چیزیں تیار ہوگئیں اب میں اس بوڑھے جسم کو ذرا آرام تو دے لوں۔‘‘
کم بخت بوڑھی جب دیکھو بڑبڑاتی رہتی ہے۔ میں جھلا کر رہ گئی۔
’’خدا بھلا کرے گلنار بی بی کا مجھ بوڑھی کی کتنی مدد کرتی ہے۔‘‘ کریمن باورچی خانہ میں ٹاٹ بچھاکر وہیں لیٹ گئی۔ ’’اہا بیٹی تم یہیں ہو۔ ابھی ابھی یاد کر رہی تھی۔ دیکھا بہت دراز عمر ہوگی۔ میری بی بی کی!اور بیٹی تمہارے لیے کتنی ہی دعائیں میرے منہ سے نکلتی ہیں۔ جھوٹ نہیں کہتی۔ کتنی ہی جگہ کام کیا، پرنا بابا ایسی بچی کہیں نہ دیکھی۔ ذرا سے لونڈے تک مجھے ڈانٹ بتاتے تھے۔ میری بی بی نے تو اب تک ایک سخت لفظ بھی نہ کہا۔ اب تو میرے کام کرنے کے دن گئے۔ اسی لیے تو تمہارے ہاں بھی کام چھوڑ دیا تھا۔ سچ کہتی ہوں بیٹی۔ صرف تمہاری شادی کی خبر سن کر آئی۔ تمیں ان آنکھوں سے دلہن بنی دیکھوں۔ بہت دنوں سے یہی ارمان ہے۔ خدا کرے بہت اچھا دولہا نصیب ہو۔‘‘
بھلا پرویز سے اچھا دولہا بھی کوئی ہوگا؟ ایک ہلکی سی مسکراہٹ میرے لبوں تک آگئی ۔میں نے جلدی سے منہ پھیر لیا کہ کہیں کریمن دیکھ نہ لے۔
پھر جیسے دماغ خیالات سےیکلخت خالی ہوگیا ہو۔ اور ان کی جگہ پرویز! پرویز! پرویز! پرویز! اور میں ایک حسین دنیا میں جاپہنچی، جذبات کی ایک رنگین دنیا، ہاں نہایت حسین، کالج اور مس فنانس والی دنیا سے کہیں زیادہ حسین!
کبھی میں یہ سوچا کرتی تھی کہ میری شادی ہوجائے تو میں اپنے شوہر سے محبت بھی کرسکوں گی۔ ایک دفعہ زرینہ نے جو پامسٹری جانتی تھی میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا، ’’تمہارے شوہر کو تم سے بیحد محبت ہوگی۔‘‘ تو مجھےاپنے اس ہونے والے شوہر پر کتنا رحم آیا تھا کہ میں اس کی محبت کاجواب نہ دے سکوں گی اور اب؟ اب تو میں اپنے پرویز کو دیوانہ وار چاہوں گی۔
’’آپا ساری لے لو۔‘‘ میں نے زبیدہ سے ساری لے کر میز پر رکھ دی، اور بال بنانے لگی۔
آخر میں مس فنانس کو کیسے بھلاسکی؟ وہ بھی تو مجھے بہت چاہتی تھیں۔ ہونہہ! چاہتی ہوں گی۔ کبھی انہوں نے زبان سےاس کااظہار بھی کیا تھا؟ میں ساتھ ہوتی تھی تو ڈر کے مارے مری جاتی تھیں۔ ’’گلنار! لڑکیاں کیا کہتی ہوں گی؟ گلنار اگر پرنسپل دیکھ لیں تو؟‘‘
لڑکیاں دیکھیں تو دیکھیں کیا ہم نے کوئی جرم کیا تھا کہ یوں ڈریں، اُف رے بزدلی! اور جب ہمارے مضامین کی کاپیاں تصحیح کرکے کلاس میں لاتی تھیں تو میرے لکھے ہوئے نظریوں اور نکتوں کی تو بہت تعریف کرتیں۔ مگر کبھی لڑکیوں کو بتایا بھی تھا کہ یہ میرے پیش کیے ہوئے نکتے ہیں۔ جوابات کے پرچے واپس کرتے ہوئے تو کبھی بھولے سے بھی میرا نام لیا تھا۔۔۔ مگر وہ مجھی کو سب سے زیادہ نمبر دیتی تھیں۔ ہونہہ! یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ میں تو ہر پرچہ میں اول آتی تھی لیکن کوئی استانی اتنے نمبر نہیں دیتی تھیں۔ مس فنانس تو اسی پچاسی دے دیتی تھیں۔ ہونہہ! صرف زیادہ نمبر دے دیے تو کیا ہوا۔ مجھے کتنی خوشی ہوتی اگر وہ کلاس میں لڑکیوں کے سامنے میری تعریف کرتیں اور کہتیں،دیکھو گلنار نے کتنے نمبر لیے ہیں۔ فلاں نمبر نے اتنے مارکس لیے ہیں، فلاں نمبر نے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے، وہ کیا ہے، فلاں نمبر، فلاں نمبر، میں تو بس ’’فلاں نمبر‘‘ ہی ہو کر رہ گئی تھی اور وہ مس جونس تھیں آکسفورڈ کی ایم-اے، وہ تو آدھ آدھ گھنٹے تک میرے مضمون کی تعریف کرتی تھیں۔ گو ان کے جانچنے کا معیار بہت ہی اعلیٰ تھا۔ اور مسز سوشیل! سروجنی نے کہا تھا کہ وہ میرا پرچہ لیے بھاگی بھاگی پھر رہی تھیں۔ ’’ماشاء اللہ گلنار نے تو اس دفعہ کمال ہی کردیا۔ کتنے اچھے جواب ہیں۔ میں نے تو اس پرچہ کو کئی مرتبہ پڑھا۔‘‘ وہ دوسری ٹیچرس اور لڑکیوں کے سامنے ہمیشہ میری تعریف کرتی رہتی تھیں۔ اور مس کملا بائی بھی۔ لیڈی ٹیچرس تو کیا مرد پروفیسر بھی میری ذہانت اور قابلیت کی داد دیتے تھے! فقط تھیں تو مس فنانس جو تعریف میں ایک لفظ بھی کہنا شاید اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھیں۔ ہونہہ!
اور میرا دل کیسے چاہتا تھا کہ وہ میرے حسن کی تعریف کریں۔ ہمیشہ نہ سہی کبھی کبھی بے تابی سے کہہ دیں۔ ’’گلنار! تم کتنی حسین ہو!‘‘ کم از کم ایک دفعہ بے اختیار ان کے منہ سے نکل جائے۔ ’’آج تو تم بہت خوبصورت نظر آرہی ہو گلنار!‘‘ یا یہی سہی۔ ’یہ ساری تو تمہیں بہت سجتی ہے۔‘‘ میں اس کے لیے کتنے ہی جتن کرتی تھی ۔جس دن ان کا گھنٹہ ہوتا وہی ساریاں پہنتی جو مجھے بھاتی تھیں۔ بالوں کو خاص توجہ سے سنوارتی۔ کبھی کبھی بوٹو لگاتی۔ اچھی اچھی خوش رنگ چوڑیاں پہنتی اور مجھے اپنی کلائیوں اور انگلیوں پر بہت ہی ناز تھا۔ میں اپنے ہاتھ میز پر اس انداز سے ٹیکے رہتی کہ چوڑیاں جم کر کلائیوں پر آپڑیں۔ اور مس فنانس کی سیٹ سے انگلیوں کی خوبصورتی کا اچھی طرح جائزہ لیا جاسکے۔۔۔ مگر یہ تو ظاہر تھا کہ وہ مجھے حسین سمجھتی تھیں۔ ورنہ یوں نہ تکتی رہتیں۔ اور جب کبھی مجھے محسوس ہوتا کہ آج خصوصیت سے اچھی نظر آرہی ہوں ایسے موقعوں پر تو وہ مجھے بہت ہی توجہ سے دیکھ رہی ہوتیں۔ ان کی نگاہ مجھ پر سے ہٹتی ہی نہ تھی۔۔۔ اچھا یوں ہی سہی۔ لیکن کیا میں ایک پتھر کا مجسمہ تھی یا نقاش کی کھینچی ہوئی تصویر تھی کہ یو ں خاموش داد ملتی۔ آخر میں ایک انسان تھی۔ ایک سترہ سالہ نوخیز لڑکی رومانی اور جذباتی! کبھی تعریف کردیتیں تو ان کاخزانہ کھوجاتا؟ مانا بھی کہ وہ پروفیسرتھیں مسزسوشیل بھی تو پروفیسر ہی تھیں۔ کیا وہ میری صورت کی تعریف نہ کرتی تھیں۔ اس دن جب مجھے ایک ٹیابلو میں حصہ لینا تھا جس میں یہ بتایا جانےوالا تھا کہ ملکہ نورجہاں رقص اور موسیقی سےلطف اندوز ہو رہی ہے۔ مسز سوشیل میرا میک اپ کرتی ہوئی کیسے سراہتی جاتی تھیں، ’’گلنار! نور جہاں کی تمثیل کے لیے تم ہی موزوں ہو۔‘‘ ’’تم کیسی اچھی انگریزی لکھتی ہو۔ مسٹر سوشیل بھی تمہارے ہی گن گاتے رہتے ہیں، وہ بھی تمہارے ٹیچر رہ چکے ہیں نا؟‘‘ پوڈر، لپ اسٹک، روج لگاچکنے کے بعدانہوں نے کہا۔ ’’اب آنکھیں اوپر اٹھاؤ ان کامیک اب بھی کردوں۔‘‘ اورمیں نے آنکھیں اٹھائیں تو واللہ کتنی خوبصورت آنکھیں!!‘‘ اور کس شدت سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش مسز سوشیل کی بجائے مس فنانس ہوتیں! آخر میں مسز سوشیل کو ہی کیوں نہ چاہتی تھی؟ مس فنانس میں کون سے سرخاب کے پر لگے تھے؟ اور زرینہ بھی تو میری آنکھوں کی تعریف کرتے تھکتی ہی نہ تھی! اور للتا! وہ تو اشعار لکھا کرتی تھی میری آنکھوں پر! زینی بھی کہا کرتی تھی نا۔ ’’گلنار،تم چشمہ نہ پہناکرو۔ یہ تمہاری حسین آنکھوں کو چھپادیتا ہے۔‘‘ سبھی تعریف کرتی تھیں۔ اسی لیے تو میں اس کا خاص خیال رکھتی تھی کہ مس فنانس میری آنکھوں کو دیکھیں اور ان کی کلاس میں چشمہ بھی تو اتار کر رکھ دیتی تھی۔
گو مجھے بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے میں مجھے بہت دقت ہوتی۔ ہونہہ! اس بے حس پر کچھ اثر بھی ہوتا تھا؟ مگر پرویز، پرویز کی حسن شناس نگاہیں پہلی ہی نظر میں میری آنکھوں کا حسن دیکھ لیں گی۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھیں گے۔ ’’تمہاری آنکھیں، غزالی آنکھیں، کتنی سیاہ! کیسی مدھ بھری!‘‘ کالج ڈے میں میں نے صرف اس لیے ڈرامہ میں پارٹ کیا تھا کہ مس فنانس دیکھیں ’’سینٹ جون‘‘ (Saint Joan) کاانتخاب ہوا تھا۔ اور میں جون بنی تھی۔ مجھے کیسی اچھی طرح سنوارا گیا تھا۔ میں خود آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ پھر مجھے ہنسی بھی آگئی۔ جون، ایک دیہاتی لڑکی، پھر ایک قیدی جو کورٹ میں لائی جارہی تھی۔ کیا اس وقت وہ بنی سنوی ہوگی۔ لیکن یہاں کے فلموں اور اسٹیجوں پر تو صرف یہی خیال رکھاجاتا ہے کہ جو لڑکی ہیروئن کا پارٹ کرے وہ خوبصورت ہو اوراسےاچھی طرح سنوارا جائے۔ لیکن یہ تو مسز سوشیل اور مس جونس کی غلطی نہ تھی۔ انہوں نے میرا ٹھیک ہی میک اپ کیا تھا۔ مس جونس نے اپنی خاکی رنگ کا رائڈنگ سوٹ مجھے پہنایا تھا۔ خاکی کوٹ اور خاکی پتلون۔ اور میرے لانبے بال پنوں میں لپیٹ کے شانوں پر ڈال دیے گئے تھے۔ بالوں میں کنگھی تک نہ کی تھی۔ بال پیشانی پر اور رخساروں پر نہایت بے ترتیبی سے بکھیر دیے گئے تھے۔ غلطی تو ویدیہی کی تھی جس نے ڈیوک اوف وارک کا پارٹ کیا تھا۔ وہ اپنے لبوں پر لپ سٹک لگا رہی تھی۔ ڈرامے کاوقت ہوگیا تھا۔ مجھے جاتی دیکھ کراس نے ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچ لیا۔ ’’ہائے گلنار! یہ کیا؟ تم تو ہیروئن ہو، نہ روز نہ لپ سٹک!‘‘ اس نے جلدی سے میرے ہونٹوں پر لپ سٹک لگادیا اور گالوں پر روژمل دیا۔ اور جاتے ہوئے میں نےآئینہ پر نظرڈالی تو خود ہی ٹھٹک گئی۔ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے روکھے بال تو اور بھی اچھے لگ رہے تھے۔ مجھے یقین تھا مس فنانس آج میری تعریف ضرورکریں گی۔ بلکہ تعریف کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ ڈرامے کے اختتام پر مسز سوشیل، مس جونس،مسزڈیانیل، دوڑی ہوئی اسٹیج پر چڑھ آئیں اور پردے کے پیچھے آکر بڑی گرم جوشی سےمیرا ہاتھ دباتے ہوئے مجھے مبارک باد دی کہ میں نے جون کے سے مشکل پارٹ کو بہت اچھی طرح نبھایا تھا۔ سب میری اداکاری پر عش عش کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ اور مس فنانس؟ انہوں نے حاضرین میں شامل ہوکر ڈرامہ دیکھا تک نہیں۔ پردے کے پیچھے کھڑی ہوکر اداکارلڑکیوں کو ہدایات دیتی رہیں۔ میں نے کتنی التجا کے ساتھ کہا تھاکہ حاضرین میں بیٹھ کر ڈرامہ دیکھیں۔ ان کے دونوں شانے پکڑ کرنہایت ملتجی نگاہوں سے انہیں دیکھا تھا۔ میری یہ ملتجی نگاہیں تو پتھر سے دل کو پگھلادیتیں۔ لیکن وہ تو شاید پتھر سے بھی زیادہ بے حس تھیں۔ ’’گلنار کیا کروں میں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے تو مجھے کرنا ہی ہوگا، واہ رے تمہارا کام! تاہم انہوں نے پردے کے پیچھے سے تو دیکھا تھا۔
اس رات مجھے ہاسٹل لوٹنے میں بہت دیر ہوگئی تھی گو ہاسٹل کالج ہی کے کمپاؤنڈ میں تھی۔ لڑکیاں قدم قدم پر مجھے گھیرے لیتے تھیں۔ گلنار! تم نےتو کمال ہی کردیا، تمہاری اداکاری کے کیا کہنے۔ ’’تم اسٹیج پر کیسی حسین نظر آرہی تھیں گلنار!‘‘ ان سب سے پیچھا چھڑا کر تھکی ہاری ہاسٹل لوٹی۔ زرینہ باہر کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ ’’میری اچھی گلنار! تم بال کٹواکر یونہی میک اپ کیا کرونا۔ آج تو تم پری معلوم ہو رہی ہو۔ لیکن بھئی، جون کےلیے تمہارامیک اپ ٹھیک نہ تھا۔ اِنکویزیٹر (Inquisitor) کہہ رہاتھا۔ “Joan you look very pale today” اور تمہارے گالوں سے شفق پھوٹ رہی تھی!‘‘ ہم دونوں ہنسنے لگے۔ اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہم دوڑتے ہوئے ڈائننگ ہال پہنچے۔ سب لڑکیاں کھانےپر بیٹھ چکی تھیں۔ میرے جاتے ہی سبھوں نےتعریفوں کی بوچھار کردی۔ اور اس رات میں کیسی خوش خوش بستر پر جالیتی تھی۔ نیند ہی نہ آتی تھی۔ ہونہہ! ان سب تعریفوں کی مجھے کیا پروا؟ کل میں اپنی مس فنانس اپنی اینجلنا سےملوں گی تو وہ یہ کہیں گی۔ یوں تعریف کریں گی۔ دوسری صبح ان امنگوں اور امیدوں کو لیے ہوئے گئی تو اپنی اینجلنا کے پاس کیا رکھاتھا؟ ایک جذبات سےعاری چہرہ اور پھیکی بے مزہ باتیں۔ زرینہ سچ کہتی تھی۔ ’’گلنار تم اتنی رومانوی لڑکی اور مس فنانس کی سی بےحس اور سرد مہر کہیں تمہارا جوڑ بھی ہے۔ تم تو آگ ہو اور وہ برف۔ ہاں وہ ضرور جذبات سےبالکل عاری تھیں۔ بے حس اور مردہ دل۔ پتھر کامجسمہ برف کاتودہ! بھلا پرویز سے ان کی کیا مناسبت؟ میرے پرویز کی رگ رگ میں زندگی ہے، بجلی ہے۔تصویر ہی میں وہ کتنے رومانٹک معلوم ہوتے تھے اور میں نے اس دن چوری سے جھانک کر انہیں دیکھ بھی لیا تھا نا! جب ابا نے انہیں سلامی دینے (نذرانہ پیش کرنے کے لیے) کھانے پر مدعو کیا تھا۔ اس دن بھی زرینہ آئی ہوئی تھی اور جین بھی۔ ’’دولہا بھائی آگئے۔‘‘ زبیدہ کی آواز آئی اور میرا دل کیسے دھڑکنےلگا۔ زرینہ اور جین بھاگ کر کھڑکی میں جاکر کھڑی ہوئیں۔ زرینہ مجھے بھی گھسیٹنے لگی۔ اٹھو گلنار! تم بھی اپنے دولہا کو دیکھ لو نا۔‘‘ میں پہلے تو جھجکی۔ گو میرا جی بے اخیاگر چاہ رہا تھا کہ انہیں ایک نظر دیکھ لوں۔ ’’امی کیاں کہیں گی؟‘‘ ’’اری امی کی بچی اُٹھ۔ ایسا زریں موقع کھودے گی۔‘‘ زرینہ نے آخر مجھے کھینچ ہی لیا۔ وہ ابا کے سامنے کیسے شرمائے شرمائے کھڑے تھے۔ پھر جب وہ ہال میں آئے تو ہم نےدروازے کے سوراخوں میں سے جھانکنے کی کوشش کی۔کمبخت سوراخ کتنے چھوٹے تھے! آخر ہمیں ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔ جین نے ہمارے کمرےکی روشنی گل کردی تاکہ باہر والے ہمیں دیکھ نہ سکیں۔ اور زرینہ نے آہستہ سے چٹخنی کھول کر ایک کواڑ کو ذرا ساکھول دیا۔ پھر کیا تھا جین اور زرینہ دونوں ٹوٹ پڑیں مگر میں جانے کیوں پیچھے ہٹ گئی۔
’’بڑا خوبصورت نوجوان ہے گل!‘‘ زرینہ نے فرطِ مسرت سے گلے لگالیا۔ میں نے شرماکر آنکھیں جھکالیں۔ ’’میری گل!‘‘ ایسا اچھا جوڑ ہے تیرا اور اس کا‘‘ وہ میرے ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر اٹھاتےہوئے بولی۔ اس کی آنکھوں سے کیسی محبت ٹپک رہی تھی! وہ پھر جھانکنے لگی۔ فارم بھی بہت اچھا ہے، اور آنکھیں کیسی حسین ہیں۔ ’’ اِدھر آ تو گل! بڑی آئی کیںی کی امی سے ڈرنے والی۔‘‘ زرینہ مجھے پھر گھسیٹنے لگی۔ ’’دیکھا تو نے اپنے پرویز کی آنکھوں کو؟ بخدا تیری آنکھوں کا جواب ہیں وہ تو!‘‘ ہاں میں نے دیکھا سب کچھ دیکھا۔ اس خوبصورت چہرہ کو، ان تبسم آمیز ہونٹوں کو، ان حسین آنکھوں کو جن میں شوخی اور بے تابی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔۔۔ ’’اری بڑا رومیانٹک معلوم ہوتا ہے گل! تجھ پر دیوانہ نہ ہوجائے تو میرے ذمہ! ابھی سے کہے دیتی ہوں گل، وہ تجھے آنکھوں میں بٹھائے گا، گلے کا ہار بنا لے گا۔‘‘ اورمیں وفورِ جذبات سے پھنکی جارہی تھی۔ اسکےبازوؤں میں گر پڑی۔ ’’دیوانی، مس فنانس پر مری جاتی تھی۔ آخر تو نےکیا امیدیں باندھ رکھی تھیں اس پتھر کی سی بے حس عورت سے۔ مسرت ہو یا رنج، غصہ ہو یا بے تابی، وہی پھیکا چہرہ، وہی بے نور آنکھیں! پرویز کو دیکھ کتنا اکسپریشن ہے اس کے چہرہ پر، گویا جذبات کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔‘‘ ہاں وہ اس وقت مجسم اضطراب نظر آرہے تھے۔ ان کی آنکھیں کس بےتابی سے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ کہیں میں نظر آجاؤں؟
جی بے اختیار چاہ رہا تھا کہ دروازے توڑدوں، سب کی موجودگی کو فراموش کرتے ہوئے ان کےسامنے جاکھڑی ہوجاؤں۔۔۔ کاش میں کسی پردہ کی آڑ ہی میں کھڑی ہوتی، ایک لمحہ کے لیے پردہ کھسک جاتا اور میں ان کی طرف شوخ نظروں سے دیکھ کر مسکرادیتی۔ پھر جلدی سےنظریں جھکاکر شرماجاتی اور انہیں دم بخود کردیتی! ہاں وہ ضرور دم بخود ہوجاتے۔ میں اس نیلی جارجٹ کی نقرئی بارڈر والی ساری میں بہت دلکش نظر آرہی تھی نا۔۔۔ ہونہہ! میں یہ ساری کیوں پہن کر جاؤں۔ میں جارجٹ کی ساری پہنوں گی جو میرے پرویز کی لائی ہوئی ہے۔ میں نےساری کھینچ کر پھینک دی جو ابھی ابھی پہن رہی تھی۔ اور ذکیہ کو آواز دی۔ ذکیہ ایک برتن میں سموسے لیے جارہی تھی۔ ’’ذکیہ، ذرا میری نیلی ساری لے آنا وہی جارجٹ کی۔‘‘
’’اچھا لے آؤنگی، مگر تم جلدی آنا امی کہہ رہی تھیں کہ وہ مس فنانس کے ساتھ کھانے پر نہیں بیٹھیں گی۔ ان کی بجائے تم بیٹھو تو بہتر ہے۔‘‘
میں نے بے پروائی سے اس کمرے کی طرف نگاہ کی۔ مس فنانس ہاتھ پر ٹھوڑی رکھے اوپر دیکھ رہی تھیں۔ جذبات سے خالی بے نور آنکھیں، بے حد پتلے، پھیکے رنگ کے ہونٹ، زرد چہرہ جس پر چیچک کے داغ ہی داغ تھے۔ مجھے ایسا دکھائی دینے لگا کہ وہ داغ بڑھ رہے ہیں، گہرے ہو رہے ہیں اور پھیلتے جارہے ہیں، ان کی صورت کیسی کریہہ ہوتی جارہی تھی! میں جلدی سے اندرکھسک گئی اور سرکو زور سےجھٹکا دیا کہ دماغ پر کھینچی ہوئی تصویر مٹ جائے۔ اس کی جگہ دماغ کے پردہ پر ایک اور تصویر ابھر نے لگی۔ پرویز کی! وہ خوبصورت نیلی آنکھیں، بڑی بڑی، بادامی، نشیلی، لانبی خمیدہ پلکیں، بیضوی چہرہ، کشادہ حسین پیشانی، اور ہونٹ؟ کتنی حسین تراش تھی ان ہونٹوں کی۔ رسیلے بھرے ہوئے اور کناروں پر وہ ہلکا سا خم گویا وہ مسکرانے کے لیے ہی بنائے گئے ہوں۔ وہ سانولا سانولارنگ، شیام سندر، ہاں میرے شیام اور میں رادھا! میں نے میز پر رکھی ہوئی تصویر اٹھالی، پرویز کی، اور فرطِ بے تابی سے اسے چوم لیا۔ ’’یہی ساری نا؟‘‘ میں نے گھبراکر تصویر رکھ دی۔ ذکیہ ساری لیے کھڑی تھی۔ ’’ہاں یہی‘‘۔ ’’آپا جلدی آؤنا۔ سموسے ٹھنڈے ہو رہے ہیں اور یہاں ساریوں پر ساریاں بدلی جارہی ہیں۔ ادھر یہ بے پروائی اور ادھر دیکھو تو بے چاری مس فنانس نے گلنار گلنار ہی کی رٹ لگارکھی ہے۔‘‘
’’اچھا ابھی آئی۔ میں نے پھر تصویر اٹھالی۔ اور سب کچھ بھول کر اسی حسین تصور میں کھو گئی۔ کیسا ہنس مکھ چہرہ۔ آہا یہ ہونٹ، نظر پہلے اِن ہونٹوں پر ہی جا جمتی تھی۔ یہ ہونٹ اور اُف ۔۔۔کیا خیال آگیا۔ میں مارے شرم کےعرق عرق ہوگئی۔ میں نےتصویر رکھ دی اور ساری پہننے لگی۔ ان کی شخصیت میں کتنی دلکشی تھی! اُف کس بلا کاسجیلا پن! گٹھا ہوا بدن، درازقد، چوڑا چکلا سینہ، لانبے مضبوط بازو۔ ان بازوؤں میں ۔۔۔ اُف پھر کیسے خیال آرہے تھے۔ جیسے رگ رگ میں بجلیاں کوند رہی تھیں، دل کی دھڑکن کیسی تیز ہو رہی تھی! اور خون جیسے اُبلا جارہاہو۔ نس نس میں گرمی،آگ اُف یہ جذبات کاہجوم، یہ طوفان! میں بستر پر گرپڑی اور تکیوں میں منہ چھپا لیا۔ یہ ہیجان، کیسی لذت تھی اس میں!
’’گلنار آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے؟‘‘ میں نے چونک کر دیکھا۔ امی کھڑی تھیں۔ ان کاچہرہ غصہ سےتمتما رہاتھا۔ ’’مس فنانس کب سےتمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ تمہیں کچھ پاس بھی ہے بڑوں کا۔ اور وہ تو تمہاری استانی ہیں۔‘‘ امی بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں۔
’’تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘ ’’تمہیں کو یاد کر رہی ہیں۔‘‘ ’’تمہارے نام کی رٹ لگارکھی ہے۔‘‘ اچھا بھئی جاؤں گی.. ہاں، کیوں نہیں؟ ضرور جاؤں گی۔ یہ ساری پہن کر جو میرے پرویز نے لاکر دی ہے۔ اور ہاں وہ انگوٹھی بھی پہنوں گی جوپرویز سے میرے منسوب ہونےکی نشانی ہے۔ میں نے ایک چھوٹی سی مخمل کی ڈبیا نکالی۔ کیسی خوبصورت انگوٹھی تھی۔ میری انگیجمنٹ رنگ ‘P-Engagement Ring’ پرویز کے نام کا پہلا حرف کس خوبصورتی سے تراشاگیا تھا! ہیرو ں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی۔ اور ان سفید نگینوں میں ایک سبزرنگ جگمگا رہا تھا۔ میں نے فخر سے دیکھا اور انگوٹھی پہن لی۔ ہاں اسی طرح جاؤں گی اور انہیں بتادوں گی کہ مجھے اپنی شادی کی کس قدر خوشی ہے۔ وہ اپنےدل میں خیال کر رہی ہوں گی کہ میں ان سےشرمندہ ہوں۔ منہ بسوائے ہوئے بڑی ہی مغموم صورت بنائے ان کے پاس آؤں گی، درد بھرےلہجہ میں اپنی مصیبت بیان کروں گی کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے اور شاید رونے بھی لگوں۔ ہونہہ! میں انہیں کیسے حیران کردوں گی! ساری پر نظر پڑتے ہی کہہ اٹھیں گی نا ’’کیسی خوبصورت ساری ہے‘‘ اور میں بڑے فخر سے کہوں گی کہ یہ پرویز لائے ہیں۔ پرویز ہی کی باتیں کروں گی۔ خوشی سے جھومتی ہوئی انہیں بتاؤں گی کہ پرویز کس قدر حسین ہیں۔ انہیں میری شادی میں شرکت کرنے کے لیے اصرار کروں گی اور جذبات کی شدت کا پورے طور پر اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دوں گی کہ میں پرویز سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ یہ سن کربس جل ہی جائیں گی جلیں گی؟ ضرور۔ اس وقت جب میں چھٹی لیے بغیر گھر آئی تھی۔ وہ بار بار پوچھ رہی تھیں نا۔ ’’گلنار! کہیں تمہاری شادی تو نہیں ہو رہی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ انہیں یقین ہی نہ آتا تھا۔’’ تم مجھ سے چھپاتی ہو گلنار!‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘۔ انہیں یقین ہی نہ آتا تھا۔ ’’تم مجھ سے چھپاتی ہو گلنار!‘‘ اورجبھی تو انہوں نےمیری منگنی کی خبر ملنے پر مبارک باد تک نہ لکھ بھیجی تھی اور اب تو میرے چہرے پر بجائے رنج کے یہ و فورِ شوق، مسرت اور بے تابی دیکھ کر کیسے جل اٹھیں گی۔ ہونہہ! جلیں گی تو جلیں! خوب جلیں میری بلا سے!
میں نےچلتے چلتے پرویز کی تصویر بھی لے لی۔