قانون کے سائے میں ۔۔۔ کافکا/خالد سہیل
قانون کے سائے میں
فرانز کافکا/ ڈاکٹر خالد سہیل
قانون کے دروازے پر ایک پہرہ دار کھڑا ہے۔ اس پہرہ دار کے پاس دیہات سے ایک شخص آتا ہے اور اندر داخل ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ پہرہ دار کہتا ہے کہ اسے اس وقت اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ وہ دیہاتی کچھ دیر سوچتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ کیا اسے بعد میں کبھی اجازت ملے گی۔
’ایسا ممکن ہے‘ پہرہ دار کہتا ہے ’لیکن اس وقت نہیں‘
چونکہ دروازہ کھلا ہے اور پہرہ دار ایک طرف کھڑا ہے۔ وہ شخص جھک کر اندر دیکھتا ہے۔
جب پہرہ دار اس دیہاتی کو اتنا متجسس پاتا ہے تو ہنستا ہے اور پھر کہتا ہے ’اگر تم میں اندر جانے کی خواہش اتنی ہی شدید ہے تو میرے منع کرنے کے باوجود اندر چلے جاؤ لیکن یہ یاد رکھو کہ میں طاقتور ہوں لیکن باقی پہرہ داروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمزور بھی ہوں۔ اس عمارت کے ہر دروازے پر ایک پہرہ دار کھڑا ہے اور ہر اگلا پہرہ دار پچھلے پہرہ دار سے زیادہ طاقتور ہے۔ تیسرے دروازے کا پہرہ دار تو اتنا سخت گیر ہے کہ میں بھی اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا‘ ۔
اس دیہاتی کو اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ قانون کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا رہتا ہے اور ہر کسی کو ہر وقت اس کے اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
۔ ۔ ۔
یہ سوچنے کے بعد وہ دیہاتی اس پہرہ دار کا بغور مطالعہ کرتا ہے جو ایک دراز قد شخص ہے اور اس نے کسی جانور کی کھال کا کوٹ پہن رکھا ہے۔ اس کی ناک نوکیلی اور داڑھی لمبی ہے۔ وہ دیہاتی فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک دروازے کے باہر انتظار کرے گا جب تک کہ اسے اندر جانے کی اجازت نہیں مل جاتی۔ پہرہ دار اسے ایک تپائی دیتا ہے تا کہ وہ دروازے کے پاس بیٹھ کر انتظار کرے۔
وہ دیہاتی وہاں دنوں، ہفتوں، مہینوں اور برسوں بیٹھا رہتا ہے۔ وہ کئی دفعہ پہرہ دار سے اندر جانے کی اجازت مانگتا ہے لیکن منع کر دیا جاتا ہے۔ وہ پہرہ دار کبھی کبھار اس سے بہت سے ذاتی سوال پوچھتا ہے۔ کبھی اس کے گھر کے بارے میں ’کبھی اور چیزوں کے بارے میں۔ وہ سوال اس سے بڑے شاہانہ انداز سے پوچھے جاتے ہیں لیکن اسے اندر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ وہ شخص جو دیہات سے اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لایا تھا پہرہ دار کو رشوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پہرہ دار ہر چیز کو یہ کہتے ہوئے قبول کر لیتا ہے‘ نہیں میں نہیں چاہتا کہ تم سمجھو کہ تمہاری کوشش میں کوئی کمی رہ گئی ہے ’۔
انتظار کی اس طویل مدت کے دوران وہ دیہاتی اپنی تمام تر توجہ اس پہرہ دار پر مرکوز کر دیتا ہے۔ وہ باقی پہرہ داروں کو بھول جاتا ہے اور اس پہلے پہرہ دار کو بھی قانون تک رسائی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ شروع میں تو وہ اپنی بدقسمتی کو بآواز بلند کوستا ہے لیکن جوں جوں وہ بوڑھا ہوتا جاتا ہے ’صرف بڑبڑاتا رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے اور پہرہ دار کی کھال کے کوٹ پر جو کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں ان سے مدد کا خواستگار ہوتا ہے تا کہ وہ پہرہ دار کے مہربان ہونے میں اس کی مدد کر سکیں۔ آہستہ آہستہ اس کی بینائی کمزور ہونے لگتی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا واقعی تاریک ہو رہی ہے یا اسے وہ ایسی نظر آ رہی ہے لیکن اس تاریکی میں بھی وہ اس روشنی سے باخبر ہے جو قانون کے دروازے سے نمودار ہو رہی ہے۔
وہ جانتا ہے کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا اور جب وہ برسوں کی امیدوں اور انتظار کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے ایسا سوال جو وہ پہرہ دار سے پوچھنا چاہتا ہے۔
وہ دیہاتی اس پہرہ دار کو ہاتھ کے اشارے سے قریب بلاتا ہے کیونکہ بڑھاپے اور نقاہت سے اس کا جسم اتنا اکڑ گیا ہے کہ وہ خود پہرہ دار کے پاس نہیں جا سکتا۔ پہرہ دار اس کے قریب آ کر اس پر جھکتا ہے کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے درمیان قدوں کا فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ دیہاتی اپنے آپ کو بہت چھوٹا اور حقیر سمجھنے لگا ہے۔
’اب تم اور کیا جاننا چاہتے ہو۔ کیا تمہارے سوالوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا؟‘
’ ہر شخص قانون تک رسائی چاہتا ہے‘ دیہاتی کہتا ہے ’لیکن کیا وجہ ہے کہ ساری عمر میں اس دروازے کے آگے منتظر رہا اور اس دوران کسی اور شخص نے اس دروازے سے اندر جانے کی اجازت نہیں چاہی؟‘
پہرہ دار سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کا آخری وقت آ گیا ہے اور اس کی سماعت بھی کمزور ہو گئی ہے اس لیے وہ اس کے کان میں چیخ کر کہتا ہے ’اس دروازے سے کوئی اور داخل ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے بنایا گیا تھا اور اب میں اسے بند کرنے لگا ہوں‘ ۔ ( بشکریہ ہم سب )