عام سا ایک دن ۔۔۔ ذکیہ مشہدی
عام سا ایک دن
ذکیہ مشہدی
’ناشتہ لگادیا ہے بھیا، آجائیے۔‘‘ بوانے آواز لگائی۔
رفیع کچھ کھسیانا سا ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔ رمضان چل رہے تھے۔ دن بھر کسی بکری کی طرح پان تمباکو کی جگالی کرنے والی نجبن بوا تیسوں روزے رکھتی تھیں اور روزہ خور گھر والوں کے لیے دسترخوان چنتی رہتی تھیں۔
میز پر سادی چپاتیاں، انڈے، بھنڈی کی سوکھی سبزی اور چائے۔ یہ سارے لوازمات سجے ہوئے تھے۔ فاخرہ دلیہ بھی کھاتی تھی۔ اس کے لیے ایک پیالے میں دلیہ رکھا ہوا تھا۔ عام دنوں میں دونوں میاں بیوی ٹوسٹ اور انڈوں کا ہلکا ناشتہ کیا کرتے تھے۔ لڑکوں کاناشتہ البتہ جوان، محنت کرنے والے مردوں جیسا ہوتا تھا لیکن رمضان میں رفیع اور فاخرہ بھی بھرپیٹ ناشتہ کرکے گھر سے نکلا کرتے تھے۔ اس لیے کہ رمضان کے احترام میں پھر باہر کچھ نہیں کھاتے تھے۔ روزے خوری کا احساس تو تھا۔ نجبن بوا کو دیکھ کر اور بڑھ جاتا۔ کھانا پکانے پر عرصے سے وہی تعینات تھیں۔ کبھی کبھی بھنبھنانے لگتیں۔ چلو بھیا اور بیگم ساب تو دن بھر نوکری پر رہتے ہیں۔ عمر بھی آگئی لیکن جوان جہان لڑکوں کو تو روزہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ایک بار نوید نے جاکر بوا کے شانے پکڑلیے۔ ’’بوا جس زمانے میں روزے فرض ہوئے تھے ایسی سخت پڑھائی نہیں تھی۔ نہ کارپوریٹ سیکٹر کی نوکریاں نہ ایسے مقابلے کے امتحان۔ ہماری طرح رات رات بھر ماتھا پچی کرو اور پھر اس خوف میں گرفتار رہو کہ اس بار بھی کچھ نتیجہ برآمد ہوگا کہ نہیں تب پتہ چلے گا۔‘‘ اس نے شرارت سے ان کا دوپٹہ گھسیٹ کرسرسے اتاردیا۔ وہ جھنجھلا کر اسے پھر برابر کرنے لگیں۔ نوید کی نفسیات ان کی سمجھ سے پرے تھی۔
نوید نے بوا کی دکھتی رگ پکڑی۔ ’’بوا نماز پڑھو ہو؟ ہم بھی نہ پڑھیں ہیں لیکن جمے کے جمے تو ہو ہیں آں ہیں۔ نماز کے بغیر روزہ فاقہ ہے فاقہ۔ کرتی رہوفاقے۔‘‘ اس نے بوا کے لہجے کی نقل کرتے ہوئے کہا۔
’’بھیا ہمیں ناآتی نماز پڑھنی۔ کسی نے سکھائی ہی نہیں۔ وہ تمہاری اماں مما ہی سکھادیتیں۔ اب اللہ مارے یا جلائے ہم تو منکر نکیر سے یہی کہہ دیں گے۔ روزہ ناچھوڑیں گے مگر۔۔۔‘‘ بوا کو تمباکو چڑھا ہوا تھا اس لیے بہت تنک کے بولی تھیں۔
دونوں لڑکوں کو انہیں چڑانے میں بڑا مزا آتا تھا۔ ہنستے ہوئے بھاگ نکلے۔ اب یہ کہنا تو ذرا زیادہ ہوجاتا ہے کہ بوا نماز پڑھو نہ پڑھو ممی کی غیرحاضری میں گرم مسالے، شکر، گھی اور جو ہاتھ لگے، لے نہ بھاگا کرو، آخر ممی خود بھی تو سب جانتے ہوئے نظریں چرالیا کرتی تھیں۔ گھر بوا کے سہارے چل رہاتھا۔ صبح سات بجے آجاتیں اور شام کو سات بجے واپس جاتیں۔ رات کا کھانا پکاکر رکھ جاتیں۔ لڑکے کالج یا کوچنگ سنٹر اور ماں باپ اپنی اپنی ملازمت پر۔ آفس جانے سے پہلے لنچ ٹفن باکس میں سلیقے سے پیک ہوجاتا۔ وقت بے وقت لڑکے لوٹ آتے تو انہیں جو چاہیے ہوتا وہ تیار ملتا۔ روز کاسودا سلف بھی بوا ہی لایا کرتی تھیں، حساب کبھی یاد نہیں رکھتی تھیں۔ پان تمباکو کا خرچ آرام سے نکال لیتی تھیں۔ رمضان میں ان کی چوریاں سمٹ جاتیں لیکن عید گزرجاتی تو وہ پوری بھرپائی کرلیا کرتی تھیں۔ غنیمت یہ تھا کہ بڑا ہاتھ کبھی نہیں مارا تھا۔ اسی لیے ان پر اتنا بھروسہ تھا۔ بے چاری ککڑی کی چور۔
وطن میں ایک قریبی عزیز تھے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ، ان کا سارا کنبہ قیدیوں کا کھانا کھایا کرتا تھا۔ کوئی عزیز کوئی چیز پہنچانا یا ملنا چاہتا تو اس سے رشوت الگ لیتے۔ روزے لیکن نہایت پابندی سے رکھا کرتے تھے۔ پھر حج بھی کرآئے۔ کسی بے تکلف رشتہ دار نے پھبتی کسی تو بولے یار میں حج اپنی تنخواہ سے بچائے ہوئے پیسوں سے کرکے آیا ہوں ویسے اگر میں کسی سے پیسہ لیتا ہوں تو اسے سہولیات بھی بہم پہنچاتا ہوں۔ یہ ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ قیدیوں کے کھانے کے لیے ان کاالگ جواز تھا۔ وہ اتنا زیادہ آتا ہے کہ ہم لوگ نہ حصہ لگائیں تو پھنکا پھنکا پھرے گا۔ ارے ہم تو حق لگاتے ہیں۔ کہنے والے اپنا سا منہ لے کے رہ گئے ویسے وہ خود بھی دودھ کے دھلے نہیں تھے۔
رمضان بھر رفیع کچھ چڑچڑا سا رہا کرتا تھا۔ روزے نہ وہ رکھ پاتا نہ لڑکے رکھتے لیکن اسے اور فاخرہ دونوں کو احساس گناہ تو ڈنک مارتا تھا۔ کیا کیاجائے بینک کی نوکری، دہلی کے فاصلے۔ ٹریفک میں پھنسا رہ کر وہ کبھی کبھی تو رات کو آٹھ بجے گھر آتا۔ فاخرہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکری کرتی تھی۔ اس کا اور براحال تھا۔ بھلا ہوبینک کی ملازمت جس کے آسان قرض کی وجہ سے دونوں کے پاس گاڑی تھی۔ لڑکے گریجویشن کرکرکے مقابلے کے امتحانوں میں بیٹھ رہے تھے۔ ابھی کہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ کوچنگ سنٹر جوائن کر رکھے تھے۔ ان سے روزے رکھنے کو کہنے کا منہ نہیں تھا۔ نگوڑے ناتھے، تنہا کنبوں میں پرورش پائے ہوئے بچے۔ نانا۔ نانی، دادا، دادی کے یہاں تفریحاً جانے اور بعد میں تفریحاً جانے کی تجویز سے بھی انکار کرنے والے (کہ کالج کی چھٹیوں میں دوستوں کے ساتھ ہل اسٹیشن یا گوا جیسی جگہوں کے پروگرام بن جاتے ) انہیں کیا پتہ روزوں کا مزا کیا ہوتا ہے اور مذہب کے ارکان کیا ہیں۔ پھر جب ماں باپ ہی مذہبی ارکان کی پیروی نہ کر رہے ہوں تو لڑکوں کا کیا قصور۔
پچھلی بار ہی موسم بہت سخت ہوگیا تھا اور اس سال تو غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ تین چار روزے رکھ کر ہی رفیع اور فاخرہ پست ہوگئے۔ بڑا لڑکا کہنے لگا، ’’امی، پاپا، ہوش کے ناخن لیجیے۔ رٹائرمنٹ کے قریب آچکے ہیں۔ بیمار پڑیں گے تو کوئی دیکھنے والا نہ ملے گا۔ نماز پابندی سے پڑھ لیا کیجیے۔ چندہ خیرات کرلیجیے یہ جسم پر ظلم کرکے کیا ملے گا۔ لوگوں نے رمضان کو تہوار بنا رکھا ہے۔‘‘
دوسرا بھائی زور سے ہنس پڑا۔ ’’روزہ رکھ کر لوگ عام دنوں سے زیادہ کھاتے ہیں۔ ذرا ٹی وی کھول کے دیکھو۔ ہر چینل یہی دکھا رہا ہے کہ رمضان میں لوگ کیا کیا کھا رہے ہیں۔ پھر گیارہ مہینے سارے گناہ کرکے ایک مہینہ روزے رکھ لو۔ سارے گناہوں کی علی الاعلان معافی۔‘‘ دل ہی دل میں تو رفیع بھی ہنس پڑا لیکن وہ خود نماز روزہ کا پابند نہ ہو، ان سچائیوں پر اتفاق رائے کی مہر لگاکر لونڈے کی پیٹھ نہیں ٹھوکنا چاہ رہا تھا۔
رفیع کی بوڑھی پھوس دادی سارے روزے رکھا کرتی تھیں۔ سحری کے وقت ایک ایک کے بستر کے پاس جاکر جگاتیں۔ کوئی روزے نہ رکھنا چاہتا ہوتا تو اسے بھی شرم آ جاتی۔ دادی کا موتیا کا آپریشن ہوا تھا۔ ایک آنکھ کی روشنی واپس ہی نہیں آئی۔ دوسری میں بھی کم کم۔ کمر سے جھک گئی تھیں۔ بال سن سفید۔ ان کے وقت میں خضاب کاتصور نہیں تھا۔ ہاں موتیا کا آپریشن ناکام ہونے کا تصور تھا۔ آپریشن کے بعد ہفتہ بھر اسپتال میں رہنے اور کھانسی کے قابو میں رکھے جانے کا تصور بی تھا۔ کھانسی الٹتی تو ٹانکے ٹوٹ جاتے۔ دادی کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ اب کتنی چیزیں کیسی آسان ہوگئی ہیں۔ موتیا کا آپریشن آسان ترین آپریشنوں میں سے ہے۔ شاذونادر ہی ناکام رہتا ہے۔
اب ستر کا ہوجانے پر بھی بوڑھوں کی کمر نہیں جھکتی۔ دانت بھی کم ٹوٹتے ہیں۔ ٹوٹے تو آسانی سے لگ جاتے ہیں۔ خضاب سے بال رنگنا سب جانتے ہیں۔ آج کل کے دادا، دادی بڑے اسمارٹ ہوگئے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے کے بیشتر لوگ کھسک کھسک کر اونچے متوسط طبقے میں شامل ہوگئے ہیں۔ نہ بھی ہوئے ہوں تو چوہا دوڑ میں توضرور لائن میں لگے ہوں گے۔ محلے والے کالونیوں میں رہنے لگے ہیں اور عید! عید محلوں سے نکل کر کالونی میں آکر بس عام سا ایک دن بن گئی ہے۔
گھر میں دادا، دادی، امی ابو اور چار سگے بہن بھائی کے علاوہ دوکزن اور گھروالوں کے علاوہ ایک بن بیاہی پھوپھی بھی تھیں۔ گھر میں آگے تھوڑا سا کچا حصہ چھوٹا ہوا تھا۔ اس میں مہندی کی باڑھ تھی (چاندرات کو اس کی شامت آجایا کرتی تھی کہ گھروالوں کے علاوہ محلے کی لڑکیاں بالیاں بھی پتیاں نوچ لے جاتی تھیں ) رات کو سحری کے لیے جگانے والے آتے تھے۔ ان میں ایک گورا سالڑکا کان میں درپہنے اور اس کاادھیڑ عمر باپ سرپر گول ٹوپی لگائے، باچھوں میں پان کی سرخی لیے، اب تک یاد ہیں۔ بے چارے مفلوک الحال لوگ، لڑکے کے گلے میں ہارمونیم ہواکرتا تھا اور باپ کے گلے میں ڈھولک، وہ بڑی دل آویز آواز میں نوحے پڑھا کرتے تھے۔ ارے لاشے پہ بانو کہہ رہیں، اکبر اٹھو اٹھو، اور دادی دہل کر کہتی، اے ہے باپ بیٹا دیوانے ہوئے ہیں، سحری میں اٹھانے کے لیے نوحے پڑھتے ہیں۔ لیکن کسی نے انہیں ٹوکا نہیں۔ وہ سالہا سال آتے رہے اور یونہی اپنے مقرر کردہ نوحے پڑھتے رہے۔ ایسی گونجیلی پختہ آواز تھی کہ سارامحلہ جاگ جاتا۔ کچھ ہندو گھر بھی تھے۔ ان کی نیند بھی خراب ہوتی لیکن بے چارے ایسے روادار اور متحمل مزاج لوگ کہ کبھی کچھ نہ کہتے۔ پھر وہ دونوں عید کے دن آتے اور سب کے یہاں بیٹھ کر سویاں کھاتے۔ انعام اکرام کے طور پر روپیہ، دوروپیہ پایا کرتے۔ بچوں کی عیدی بھی اس وقت بس روپیہ دوروپیہ ہوا کرتی تھی۔
رفیع احمد عرف رفن اس وقت کوئی چودہ پندرہ سال کے تھے۔ جب روزے سخت گرمی میں پڑا کرتے تھے۔ شرع کے اعتبار سے روزہ ان پر فرض تھا۔ اس لیے جان نچھاور کرنے والے والدین اور صدقے واری جانے والی دادی کو بھی ان کا سوکھا ہوا منہ دیکھ کر قطعی ہمدردی نہیں ہوا کرتی تھی۔ بس خوشی ہوتی تھی کہ بچہ تو اب کما رہاہے۔ ’’میرا روزہ دار نوشہ میرا دولہا۔‘‘ اب یہ دادی جانے کیوں، زیادہ محبت آئی تو لڑکوں کو نوشہ اور دولہا کہا کرتی تھیں۔ رفن کو ایسے میں وہ بہت بری لگتیں۔ گرمی کے رمضانوں میں پیاس سے ویسے ہی حالت خراب رہا کرتی تھی۔ ہمہ وقت سوچتے رہتے کہ اب کل سے روزہ نہیں رکھیں گے، سحری کھاکے کہیں چپکے سے شکر کی پڑیا پھانک کے پانی پی لیں گے۔ لیکن روزہ کے وقت جیسے ہی ٹھنڈے ٹھنڈے روح افزا کا گلاس پیٹ میں پڑتا سوچ بدل جاتی۔ ایسا کیا مشکل ہے روزہ رکھنا۔ آہ! اس لمحے کی لذت جب پیاے کو ٹھنڈا میٹھا شربت نصیب ہو۔ کل رکھیں گے ضرور رکھیں گے بھائی۔
شربت کے گلاس کے بعد جون پور کے خربوزے اور فرخ آباد کے تربوز کی لال سرخ پھانکیں دہی، پھلکی، دوقسم کے پکوڑے۔ کبھی چنے کی گھونگھنی بھی۔ رات کے کھانے میں گوشت ضرور ہوتا۔ کھانے کے وقت تو پانی اور شربت پی پی کر پیٹ پھول چکا ہوتا تھا۔ وہ پیٹ پر مکہ مارتے تو لگتا پیٹ میں کچھ چھلک رہاہے۔ سارے بچے یہ تماشا کرتے اور خوب ہنستے۔ کھانا کم کھایا جاتالیکن سحری کے وقت تک بھوک چمک اٹھتی تھی۔ دودھ میں بھیگی ڈبل روٹی بالکل ملائی جیسی لگتی۔ ابلے انڈے، چائے اور پاپے، یہ سحری ہواکرتی تھی۔ کبھی کبھی ڈبل روٹی کی جگہ پھینیاں لے لیتی تھیں۔ تب یہی نعمتیں تھیں۔ نہ کسی کو پزامعلوم ہوتا تھا، نہ کوئی برگر اور پاستا سے واقف تھا۔
نیند کبھی کبھی ان نعمتوں سے زیادہ پیاری لگتی لیکن دادی لٹیا کھٹکھٹاتی سب کی چارپائیوں کے پاس پہنچ جاتیں۔ اماں ہنستی تھیں اور دادی کو شہر کوتوال کہا کرتی تھیں جس سے سب ڈریں بشمول ابا۔ شاید ہی کبھی کوئی روزہ چھوڑتا رہا ہو۔ ہاں کوئی معقول عذر ہوا تو بات دوسری تھی لیکن اتنا معقول عذر ہوا توصرف نوجوان عورتوں کو چھوڑ کر باقی لوگوں کے پاس شاذونادر ہی ہواکرتا تھا۔ سب ساتھ مل کرافطار پر بیٹھتے، رات کو سحری کھاتے۔ کیسی سیری کااحساس ہوتا تھا۔ کم آمدنی میں بھی افطاری دوسروں کے ساتھ بانٹی جاتی۔ مسجد میں بھیجی جاتی۔ اماں افطاری کے علاوہ کبھی کبھی رات کے کھانے میں سے بھی کوئی اچھی چیز کسی پڑوسی کے یہاں بھجوادیتیں۔ ایک پیالہ کڑھی، چار پانچ شامی کباب، یا پھر ایک پلیٹ پلاؤ ایک کٹوری رائتے کے ساتھ۔
رمضان کے دوسرے ہفتے سے ہی عید کی خریداری شروع ہوجاتی۔ ابا جگ رام داس کی دوکان پر جاتے اورپاجاموں کے لیے لٹھے کے تھان گھر بھجوادیا کرتے تھے۔ دادی کی گھیردار شلوار بھی اسی تھان سے بن جاتی۔ ہاں اماں، لڑکیوں اور پھوپھی کے لیے پرنٹڈ ساٹن یا حال میں مروج ’’لیڈی منٹن‘‘ یا ’’دھوپ چھاؤں‘‘ کے تھان آتے۔ خواتین پسند کرکے بتادیتیں کہ کس میں سے کتنا کپڑا چاہیے۔ وہ کٹ کر آجاتا اور درزی کے حوالے کردیا جاتا۔ چھوٹی بچیوں کے کپڑے، لڑکوں کے علی گڑھ پاجامے اور دادی کی شلوار اماں گھر پر ہی پھوپھی کے ساتھ مل کر سی لیا کرتی تھیں۔ دوہفتے مشین لگاتار کھڑکتی رہتی۔ عید کی شب تو لگ بھگ رات بھر رت جگا رہا کرتا تھا۔ مردوں کے پاجاموں میں ازاربند ڈالے جاتے، سلیقے سے استری کیے ہوئے نئے کرتوں اور بنیانوں کے سیٹ بنابناکر سب کے سرہانے رکھ دیے جاتے۔ چاند کا اعلان ہوتے ہی منیہارن چوڑیوں کا ٹوکرا لے کے آجاتی۔ خواتین چوڑیاں پہنتیں اور کام نمٹاکر مہندی لگاتیں۔
مہندی لگے ہاتھ اور چوڑی بھری کلائیاں لے کر لڑکیاں داداکو سلام کرتیں تو وہ سب کے ہاتھوں کابغور معائنہ کرتے۔ کسی کی مہندی سب سے زیادہ رچی ہے۔ کسی کی چوڑیاں زیادہ کامدار ہیں، ایک بار ربّو نے اماں سے کہا تھاتم بھی اپنی مہندی چوڑی دادا کو دکھاکے آؤ نا۔ تم کیوں نہیں دکھاتی ہو۔ تو انہوں نے پنکھے کی ایک ڈنڈی جمائی تھی ربو کی پیٹھ پر۔ وہ بے چاری پریشان کہ ایسا کیا کہہ دیا تھا اس نے۔ ابا یہ سب نہیں دیکھتے تھے۔ اس زمانے میں باپ اولادوں سے ذرا الگ تھلگ ہی رہاکرتے تھے اور انتظار کرتے تھے کہ کب وہ دادا بنیں کہ بچوں کولاڈ پیار کرسکیں۔ (اور جب ابا کے دادا بننے کا وقت آیا تو اولادیں گھر سے غائب ہوچکی تھیں۔ زندگی نے ایک بڑی کروٹ لی تھی۔ مہندی چوڑی کا اتنا چلن نہیں رہ گیا تھا۔ عید کے دن کبھی کبھی ہی بال بچوں میں سے کوئی آگیا ہوتا لیکن زیادہ تر امی کے ساتھ اکیلے تہوار مناتے ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہتے تھے )
مہندی چوڑی دکھانے کے نام پر تو اماں نے ربّو کو پنکھیا کی ڈنڈی رسید کی تھی لیکن پیشانی پر نصف گھونگھٹ نکال کر دادا کو سلام کرنے ضرور آتی تھیں۔ وہ دیر تک دعائیں دیتے رہتے تھے۔ یہ ضرور تھا کہ وہ دعائیں زیادہ تر ان کے بیٹے کے حق میں جاتی تھیں۔ لیکن پھر یہ بھی تھا کہ اماں کی قسمت دادا کے بیٹے کی قسمت سے الگ تھی بھی کہاں۔ سرڈھکتیں تو پیر کھلتے اور پیر ڈھکتیں تو سر۔ لیکن ان قناعت پسند، خوش باش لوگوں کے گھر عید کتنی خوشیاں لے کرآیا کرتی تھی۔ باقی سارے سال کے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے قوت برداشت دے جاتی تھی عید۔
رفیع اب عید سے گھبرانے لگا تھا۔ اور لڑکوں کو عید سے کوئی مطلب تھا ہی نہیں۔ صبح سویر سے آفس کے دوستوں کے فون آنے لگتے۔ عید مبارک، جیسی مشینی مبارک باد ویسا ہی میکانیکی اندازکا جواب۔ ’ہاں بھائی شکریہ۔ آپ کو بھی مبارک۔ کوشش کریں گے شام کو آئیں بھابھی کے ہاتھ کاچکن قورما کھانے۔ ضرور، ضرور، عید مبارک! عید مبارک! جیسے کوئی ٹیپ بج رہا ہو۔ کہیں کوئی خلوص نہیں۔ کوی اندر کی خوشی نہیں۔ رسم دنیا، موقع اور دستور نبھائے جاتے رہتے تھے۔
وہ جانتانہیں تھا کہ ان میں سے کئی لوگ آفس میں اس کی برائیاں کرتے ہیں اور کئی تو باضابطہ اس کا پروموشن رکوانے کے پھیر میں رہتے ہیں۔ کچھ اس کے بیٹوں کے ابھی تک ملازمت میں نہ آنے پر ہمدردی جتاکر تجویز پیش کرتے کہ فلاں کورس اور کرڈالیں یا کوئی ٹریننگ لے لیں لیکن صاحب لگتا تھا کہ اندر اندر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ اور رشتے دار؟ جیسے وہ اپنی جڑوں سے ٹوٹ کر دورآن پڑا تھا۔ ویسے ہی وہ بھی جانے کہاں کہاں جاپڑے تھے۔ ایسے جیسے سیمل کا پھل پھوٹنے پر اس کی ریشمی روئی اڑکر جانے کہاں کہاں اڑی پھرتی تھی۔ گرمی شروع ہوتے ہی سیمل کے درخت سرخ پھولوں سے یوں لدجاتے جیسے ان میں آگ لگ گئی ہو۔ پھر ان میں ڈورے آتے۔ وہ پختہ ہوکر پھوٹتے تو روئی کے ریشے آس پاس کی سڑکوں پر بھر جایا کرتے تھے پھر اڑتے اڑتے جانے کہاں کہاں پہنچ جاتے۔ دلی میں بھی ان درختوں کی بھرمار تھی اور گل ہر کی بھی۔ پتے ندارد اور پھولوں کی بھرمار۔ ایسا حسین منظر ہوتا تھا کہ کیا کہیے۔ لیکن اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی سازگار ذہن چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے۔۔۔ جیسے عید کی خوشیوں کو محسوس کرنے کے لیے۔ رمضان کے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے۔
صبح صبح کچھ دوسرے شہروں میں رہنے والے عزیزوں کے فون آجاتے تھے، کچھ تو چاند کا اعلان ہونے پر ہی فون کرلیا کرتے تھے کہ چلو پاجامے میں ازاربند ڈالنے اور بچوں کے جوتے بنیان لانے یا سیٹ کرکے رکھنے کی طرح اس فرض سے بھی نمٹ لیا جائے۔ عید کے دن کتنا یاد رکھا جائے کہ کس کس کو فون کرنا ہے۔ زیادہ تر پیغامات نہایت مشینی انداز میں ہی کہے گئے معلوم ہوتے تھے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو جوڑا ضرور ہے لیکن توڑنے کا کام بھی کیا ہے۔ آواز سننے سنانے کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ ایک ٹیکسٹ میسج تیار کیا اور سب کو کلک کردیا۔ اللہ اللہ خیرصلا۔ فون کرنے پر تو دوچار باتیں کرنی ہی پڑجاتی ہیں۔ سب خیریت؟ ’جی ہاں اللہ کا کرم ہے ‘ ’اور آپ کے یہاں؟ ‘ ’جی ہاں یہاں بھی اللہ کا کرم ہے ‘ چلیے پھر بات ہوگی آج تو تہوار ہے۔ جی ہاں آج کی ملاقات بس اتنی، اسے پتہ ہے اب شاید اگلی عید کو ہی آواز سنائی دے گی یا شاید عیدالاضحیٰ میں سنائی دے جائے لیکن وہ بشاش لہجے میں کہتا ہے، ’’جی ضرور، ضرور، آج تو سبھی مصروف ہیں۔‘‘ اپنی مصنوعی بشاشت پر اسے خود شرم آتی ہے۔
چاند کا اعلان رات کو بارہ بجے ہوا تھا۔ سب سے پہلے فون سالے صاحب کا آیا۔ بھائی جان سب خیریت؟ عید مبارک ہو۔ آپ کو بھی مبارک ہو اور ہاں اللہ کا کرم ہے۔ کہنے کو تو کہہ دیا لیکن جی میں آیا کہے کہاں کا کرم اور کہاں کی خیریت۔ تمہاری بہن نے جان ضیق میں کر رکھی ہے۔ دس ہزارکے کپڑے مال سے اٹھالائیں۔ وہ بھی ایسے کہ عید کے لیے موزوں بھی نہ ہوں۔ ٹوکا تو بولیں عید میں پچھلے سال کا سوٹ پہن لوں گی۔ اسے ایک بار کے بعد پھر کہاں پہنا تھا۔ یہ ٹراؤزر سوٹ آفس میں کام آئے گا وہاں بھی تو گیٹ ٹوگیدرز ہوتے رہتے ہیں لیکن سالے صاحب سے یہ سب کہہ ڈالنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ لو آپا سے بات کرو۔ کہتے ہوئے فون اس نے بیوی کو تھمادیا۔
روزے اس بار بہت سخت تھے۔ شاید ادھر سے سالے صاحب نے کہا۔ ’ہاں بھئی تھے تو‘ کتنے رکھے؟ ’پندرہ سولہ تو رکھ ہی لیے ‘ بیوی نے جواب دیا جو سراسر جھوٹ تھا۔ وہ سمجھ گیا عزت بچارہی ہے۔ اب یہ اللہ میاں ہیں کیا۔ ان سے مطلب۔ ہم روزے رکھیں یا نہ رکھیں۔ چوری نہیں کرتے، حتی الامکان جھوٹ نہیں بولتے، بولتے بھی ہیں تو دروغِ مصلحت آمیز، کسی کا مال ابھی تک نہیں مارا، بہن کو پورا شرعی حق دلوادیا۔ زکوٰۃ کا بڑا حصہ ادا کردیتے ہیں جب کہ ہم تنخواہ دار مسلمانوں پر دوہری مار ہے۔ ٹیکس تو سورس پر ہی کٹ جاتا ہے۔
بہن کثیر العیال تھی اور مالی طور پر کمزور اس لیے عید میں سارے گھر کے کپڑے رفیع نے اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ عیدی کے نام پر ایک خاصی بڑی رقم بھیج دیا کرتا تھا۔ فاخرہ نے اس کولے کرکبھی تیوریاں تو نہیں چڑھائیں لیکن ایک مرتبہ یہ ضرور بولی تھی کہ تم یہ رقم زکوٰۃ کی مد میں کیوں نہیں ڈال دیتے۔ غریب رشتہ داروں کو تو پہلا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ رفیع ذلت کے احساس سے جل اٹھا اور اس دن میاں بیوی کے درمیان خاصی تکرار ہوگئی۔ فاخرہ کے کپڑوں یا مہنگی خوشبوؤں پر اعتراض کرنے کا اس کا منہ نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کہہ دیتی کہ وہ خود کماتی ہے اور اپنے کسی رشتے دار پر یوں پابندی سے خرچ نہیں کرتی۔ شادی بیاہ اور تقریبوں کی بات الگ ٹھہری۔
فلیٹ کی قسط بھرنی تھی اور اس قدر کی خریداری۔ لڑکوں کے لیے بھی بہترین کپڑے خریدے علاوہ کرتے پاجامے کے۔ ڈیزائنر کا اسے خبط تھا۔ مشہور برانڈ نام کا پیسہ لیتے ہیں اور کچھ نہیں لیکن اسے کون سمجھاتا۔ عید کے دودن پہلے ہی وہ غصے میں تن پھن کر رہا تھا۔ ادھر چاند کا اعلان ہوا اور ادھر فون بجنا شروع ہوئے۔ پھر علی الصبح لوگوں کو یہ خیال بھی نہیں رہا کہ عید میں نماز کے لیے جانا ہوگا۔ مبارک باد قبول کرتے اور دیتے اور ہم کار لوگوں کو شام کے لیے دعوت دیتے دیتے دوپہر ہوگئی۔ کھانا کھاکے وہ سوگیا۔ اتوار کے علاوہ اور دنوں میں دوپہر میں سونے کا عیش کبھی کبھی ہی نصیب ہوا کرتا تھا۔ اب گرمی کی بھری دوپہر میں کوئی شاید ہی آئے۔
شام کو فاخرہ کے آفس کے کچھ قریبی لوگ معہ فیملی مدعو رہا کرتے تھے۔ کوئی آٹھ دس اور، کوئی آٹھ دس رفیع کے دوست احباب، اور چار چھ دوست لڑکوں کے۔ بازار سے منگائے گئے کھانوں کا بل بھی آٹھ دس ہزار ہو ہی گیا۔ ایک فیملی میں دوکم سن بچے تھے وہ مچل گئے کہ پزا ہی کھائیں گے۔ باقی کھانوں میں سے ان کی ناک میں کچھ نہیں سمایا۔ خیر فوراً ہی آرڈر کردیا گیا۔ دو کنبے ایسے تھے جن کے بچوں کو عیدی بھی دی تھی۔ دلی میں پیسے برستے ہیں۔ سو، دو سو کوئی کچھ نہیں گردانتا۔ پانچ سو تو ابتدائی رقم ہوتی ہے۔ باقی آپ کی جیب اور آپ کے تعلقات کی گہرائی پر منحصر رہتاہے۔
دوسرے دن کچھ مسلمان کنبے بھی آئیں گے۔ ان میں تین چار رشتے دار ہیں اور باقی دوست احباب۔ خاص عید کے دن شاید ہی کوئی آتا ہے۔ سب اپنے اپنے گھر میں مصروف۔ امی پاپا کو لاکھ بلاؤکسک کے نہیں دیتے۔ یوں تو کبھی کبھار آنکلتے ہیں۔ ہفتہ دس دن رہے پھر لاکھ منتیں کرو کیا مجال جو رک جائیں۔ عید پرکبھی نہیں آتے۔ کہتے ہیں میاں عید پردیس میں نہیں گھر میں ہوتی ہے۔ فاخرہ اور لڑکوں کو لے آؤ کہ ہم سب کی عید ہوجائے۔ تمہاری بھی اور ہماری بھی۔ بٹیا کو بھی کسی طرح بلوالیں گے۔ وہ بھی کہاں آپاتی ہے۔ پانچ بچے ہیں کبھی کوئی بیمار تو کبھی کسی کے امتحان۔
’’اچھا اگلی بار امی۔‘‘ کہتے ہوئے رفیع عرف رفن کی آواز میں رقت تھی۔ کتنی بار اس نے کہا تھا۔ ’اچھا اگلی بار‘ اور امی نے جواب میں انشاء اللہ کہا تھا لیکن اس بار بولیں، ’’میاں یہ تمہارا اگلی بار کس نے دیکھا ہے۔‘‘ ایک سردلہر کہیں سے اٹھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ بھاری دل کے ساتھ اس نے فون رکھ دیا۔ گھنٹی فوراً ہی بج اٹھی۔ کوئی ہم کار مبارکباد دے رہاتھا۔ اس نے بھاری دل کوالگ رکھا۔ لہجے میں بشاشت پیدا کی، ہاں بھائی شکریہ، آپ کو بھی مبارک۔ شام کو آئیے گا۔
رات کو بارہ بجے تک دھماچوکڑی مچتی رہی۔ لڑکوں کے کمرے میں ان کے ہم عمر دوستوں نے تیز میوزک کے ساتھ اتنی تیز آوازوں میں اپنی واقف کار لڑکیوں کے خواص بیان کیے، کچھ کی ’برا‘ کے سائز زیر بحث آئے۔ پھر وہ سب کھانے پر ٹوٹے۔
رفیع کے ایک کو لیگ نے کہا، یار یہ تمہارے یہاں اچھی پابندی ہے۔ عمدہ دعوت کے ساتھ لال پری نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ جی ہاں چڑیا کی جان گئی اور کھانے والے کو مزا نہ آیا۔ لیکن رفیع نے یہ کہا نہیں۔ ہنس کر خاموش ہوگیا۔ جب سب چلے گئے تو وہ پست ہوکر بستر پر آن پڑا۔ کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا اس لیے کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بیوی بڑبڑا رہی تھی، ’’سارا بچا ہواسامان فرج میں واپس رکھنا بھی ایک مصیبت ہے۔ اب یہ تو آن کے لیٹ گئے۔ لونڈے بھاگ لیے اتنی رات کو بائک لے کر آئس کریم کھانے۔ سوئیاں پکی ہیں تو ان سے مطلب نہیں۔ انتیس کی عید میں ایک فائدہ ہے کہ جو ہنگامہ ہونا ہے ہوچکے اور چھٹی ملے۔ اب میں فالتو ہوں، مفت کی نوکرانی تو کسی کو کیا پروا تیس کی عید ہو کہ انتیس کی۔ سب سنبھال لوں گی۔‘‘ بڑبڑاہٹ سنتے سنتے وہ سوگیا اور اس نے خواب میں دیکھا۔۔۔
تخت پر لانبے سے زرد، سرخ دسترخوان پر مٹی کے پیالوں میں دودھ والی سوئیاں تھیں اور درمیان میں امی کے جہیز کی جاپانی قاب میں بنارسی قوامی۔ دہی پھلکیوں کے ساتھ پلاؤ تھا اور شامی کباب۔ ان ہندو محلے داروں کے یہاں جو یوں تو بے حد خلوص برتتے تھے لیکن کھانے پینے میں پرانی روایات پر قائم تھے دادی نے خشک سوئیاں، شکر اور میوے بھجوائے تھے۔ کچھ لوگ لڑکوں بالوں کو بھیج دیتے تھے کہ سوئیاں کھاآئیں۔ اس نے عیدگاہ سے لوٹ کر دادا کو سلام کیا تو انہوں نے دو دو روپئے سب بچوں کے ہاتھ پر رکھے۔ دروازے پر بوڑھے فقیر نے صدالگائی ’’کالا کمبل، اندھا گھوڑا، چلتا چھپر، دوخدا کی راہ میں۔‘‘ اس کی فرمائش تو شاید کسی نے پوری کی ہو، ہاں چار آنے آٹھ آنے اور سوئیاں، کہیں پورا کھانا ہرگھر سے مل جاتے تھے۔ کہیں سے وہی عید لادو خدا کی راہ پر۔ اسے لگا وہ وہی بوڑھافقیر ہے اور صدا لگا رہاہے۔ لیکن اس کے چاروں طرف ایک بھول بھلیوں والا جنگل ہے جس میں ہر شخص پریشان حال دوڑا چلاجارہا ہے۔ خواب میں ہی اس نے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ امی پاپا میں ضرور آؤں گا۔ ’اگلی بار‘ ہوگی ضرور ہوگی۔ اب یہ عید تو گزرہی گئی۔ بہت سی پچھلی عیدوں کی طرح۔ عام سے کسی بھی دن کی طرح۔