افسانے کا فسانہ ۔۔۔ محمود احمد قاضی
افسانے کا فسانہ
محمود احمد قاضی
دو افسانہ نگار ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں۔ خاموش۔ پھر ایک خاموشی توڑتا ہے۔ تم نے پچھلے کچھ عرصے سے کچھ نہیں لکھا، کیا ڈرائی سیزن چل رہا ہے ؟
نہیں۔ میں ویسے ہی جان بوجھ کر کچھ نہیں لکھ رہا
کیوں ؟
وہ اس لیے کہ میں چاہتا ہوں اب کے ایسا لازوال افسانہ لکھوں جو مجھے بھی لا زوال کر دے۔
اور اگر ایسا نہ ہوا تو
تو ۔۔۔۔ تو ۔۔۔ وہ بوکھلا گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکا۔
دیکھو اُس بہت اچھی تحریر کے آنے تک اپنا پینڈا کھوٹا نہ کرو۔ انٹ شنٹ جو بھی ذہن میں آتا ہے اسے ہی ایک ترتیب میں ڈھالو اور لکھ ڈالو۔ اسی دال دلیے میں سے معیار چیز برامد ہو سکتی ہے جو کام و دہن دونوں کو مطمئن کر دے گی۔ تمہیں یاد ہوگا جب ہم حساب کا پرچہ حل کیا کرتے تھے ، فل سکیپ صفحے کے بایئں جانب لمبائی میں ہم ایک لمبی لکیر لگاتے تھے یا اسے معمولی سا فولڈ کر دیتے تھے۔ اوپر لکھتے تھے۔ زاید عمل۔ جو جمع تفریق ضرب تقسیم سوال حل کرنے کے لیے ضروری ہوتی تھی وہ اس حصے میں درج کرتے جاتے تھے کہ اصل سوال صاف ستھرا رہے اور گند سے صافی ملے۔ تو عزیز من۔ اب بھی تم یونہی کرو ۔ وہی عمل دہراو ۔ کچھ نہ کچھ زاید عمل کے خانے میں بھی درج ہونے دو ۔ یہیں سے اصل اور سچا ادب وصول ہوگا۔ ہمیں بعض اوقات اچھا، بہت اچھا اور اعلی لکھنے کا خوف کچھ بھی لکھنے نہیں دیتا۔ میرے بھائی اس فرض انقبافی سے نکلو اور خم ٹھونک کر میدان میں آو۔ رام بھلی کرے گا۔
دوسرا مسکراتا ہے جیسے بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے خاموشی دونوں کے درمیان آتی ہے۔
وہی پہلا، جو اکسانے والا ہے، پھر بول پڑتا ہے۔ میری ایک تجویز ہے اگر تم اس پر عمل کرو تو اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ آو دونوں اپنا اپنا افسانہ سوچتے ہیں۔ پھر لکھنے کا آغاز کرتے ہیں۔ پہلے ذہن میں پھر کاغذ پر۔
دوسرا پھر مسکراتا ہے لیکن بے یقینی سے۔
پہلا مطمئن انداز میں کسی سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ چند لمحون بعد گویا ہوتا ہے۔ لو میں اپنی کہانی کا آغاز کرتا ہوں۔
رات ہے۔ آدھی اندھیری آدھی روشن۔ کبھ چاند بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے کبھی اپنا ننگا اور روشن منہ لے کر سامنے آتا ہے۔ اسی آنکھ مچولی میں اسے نظر آتا ہے ایک جنگل۔ ایک نہایت گھنا ایک خاموش مکاری میں ڈوبا جنگل۔ اس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کہ یہ وہم و گمان سے شاید بڑھ کر ہے۔ چاند کے لشکارے میں ایک پگڈنڈی نظر آتی ہے ۔ تنگ دشوار گذار پگڈنڈی۔ آسے پاسے مہیب جنگل، جھاڑ جھنکار ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ادھر پھاڑ کھانے والے جانور بھی ہوں لیکن جنگل بے آواز ہے۔ کسی جانور کی سانس تک سنائی نہیں دیتی۔ کوئی گلہری، چوہا، بلی، خرگوش تک نہیں۔ ہاں کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے قریب ہی کہیں کوئی اژدھا موجود ہے۔بے پھنکار اژدھا۔ وہ پاوں دھرتا ہے۔ سفر طے کرنے کے لیے پہلا قدم تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ تبھی زلزلہ سا آ جاتا ہے ۔ جنگل جو سویا ہوا تھا جاگ پڑتا ہے۔ لگتا ہے وہ اسی کی آمد کا منتظر تھا۔
کڑ کڑ، تڑ تڑ، ہر طرف شور ہے ۔ وہ اس ڈراوے سے بے خوف ہو کر چلتا ہے، چلتا رہتا ہے۔ راستہ اور تنگ ہو رہا ہے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، کبھی اسے فراخی کا سامنا ہوتا ہے ۔راستہ روشن اور ملنسار ہوتا چلا جاتا ہے۔اوپر کسی درخت پر کوئی پرندہ چہکتا ہے۔ اس کی آواز میں سُر ہے۔ مٹھاس ہے۔ نغمگی ہے۔ ہمارا دلاور ٹریولر بھی ترنگ میں آ کر گنگنانے لگتا ہے۔ پرندہ چپ ہو جاتا ہے۔ یہ پھر بولنے لگتا ہے۔ یعنی گنگنانے لگتا ہے۔ پھر دونوں باری باری اپنے نغمے بکھیرتے ہیں۔ آگے دریا ہے۔ وہ کمر تک پانی میں ڈوب کر اس کو پار کرتا ہے۔ پانی اتنا مانوس سا ہے کہ وہ اس کی گیلاہٹ کو اپنے دل میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ تب ہی سامنے لق و دق صحرا آ جاتا ہے۔ سر کنڈے جھاڑیاں ، سانپوں کی سرسراہٹ ۔ گرم ریت، زبان خشک ہو کر تالو سے جا لگتی ہے ۔ جسم کے ہر مسام سے پسینہ بہہ نکلتا ہے۔ اسے ایک کالا ہرن نظر آتا ہے۔ یہ بھی اس کے پیچھے جاتا ہے۔ ہرن سامنے نظر آنے والے سر سبز درختوں کے جھنڈ کی جانب گامزن ہے۔ یہ بھی اس کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ دونوں کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ ہرن جھنڈ میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اس کے پیچھے جاتا ہے۔ ارے یہ کیا، وہاں تو ایک چٹیل میدان ہے۔ ہرن کدھر گیا۔ وہ اسے ڈھونڈتا ہے۔ وہ کہیں نہیں ہے۔ وہ اسے جُل دے گیا ہے۔ پھر وہ دیکھتا ہے ۔ یہ ایک بھیڑیا تھا جو ہرن کے تعاقب میں تھا۔ وہ دعا کرتا ہے کہ کاش یہ ظالم بھیڑیا اس معصوم ہرن تک نہ پہنچ پائے۔کاش۔ آگے سے نیا دن طلوع ہو رہا ہوتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہمارے مسافر کے چہرے کو چھو کر اسے بیدار کرتا ہے۔
لو بھئی یہ افسانہ تو یہاں ختم ہوا اور تم۔ ۔۔۔ تم نے کچھ سوچا ہے۔ یہ دیکھتا ہے کہ دوسرا سویا ہوا ہے۔ یہ کچھوے اور خرگوش والی بات ہو گئی۔ وہ شاید سوچتے ہوئے سو چکا ہے کہ ابھی اٹھے گا تو اپنی منزل یعنی افسانے کو پا لے گا۔ لیکن کہاں۔ اس کے خراٹوں سے سارا آل دوالا گونجتا رہتا ہے۔
یہ مطمئن ہے کہ اس نے نیا افسانہ تشکیل دے دیا ہے۔ زائد عمل سے کچھ تو برامد ہوا۔ دوسرا سوتا ہے۔ غفلت کی نیند۔ آہلکی۔ ایک افسانہ لکھنے والے کے لیے ساری چیزیں اس کے فن کا گلا دبانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ پہلا مسکراتا ہے اور دوسرا سوتا رہتا ہے۔