کھلواڑ ۔۔۔ محمد جاوید انور
کھلواڑ
جاوید انور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکنڈے کی چھتوں والی کچی جھُگیوں کی مٹی بھری گلی میں بچے اپنی مخصوص جگہ پر گھر وندے بنا رہے تھے ۔ اُس نے دُور ہی سے فقیر حسین اور پینو کی جوڑی کو پہچان لیا ۔ وہ ہمیشہ کی طرح دوسرے بچوں سے ذرا ہٹ کر اپنا شاہکار تخلیق کرنے میں منہمک تھے ۔
اُسے یقین تھا کہ اُن کا چکنی مٹی سے بنایا شاہکار باقی بچوں کے گھروندوں سے بہت بہتر ہوگا ۔
“ کاش یہ گھروندہ صرف کھیل نہ ہوتا۔ کاش یہ واقعی ان کا گھر ہوتا ۔ کاش یہ ان کا مستقل ٹھکانہ ہوتا جس میں دونوں گھر گھرہستی چلاتے اور اپنی اگلی نسل دیکھتے “
نیاز علی نے سوچا ۔ لیکن خیال تو خیال ہی ہوتا ہے نا۔ سوچ تو بس سوچ ہوتی ہے ۔ خواہش تو معصُوم ہوتی ہے نا۔
انجام سے لا تعلق اور بے نیاز۔
نیاز علی گھٹنوں سے اُوپر تک رکھ کر اُڑسا، کیچڑ میں لت پت تہہ بند اور میلا کھُردرا کُرتا پہنے ،سر پر صافہ لپیٹے ، بائیں کاندھے پر کَسِّی رکھے کھیتوں سے تھکے قدموں واپس لوٹا ۔
چک نمبر تین سو سات تبھی آباد ہوا تھا جب اس غیرمزرُوعہ علاقے سے نہر گزری ۔
زیر زمین کھاری پانی کے اُگلے شوریدہ ناسُور پر پہاڑوں سے اُترے ٹھنڈے ، میٹھے ،شفاف پانی نے پھاہا رکھا ۔بنجر زمین نے قیمتی فصلوں اور پھلدار باغات کی سوغات اُگل دی۔
رائے احمد یار ایک اہم مقامی زمیندار تھا ۔ اُس کی کئی مربعوں پر مشتمل زمیں چک نمبر تین سو سات کے بالکل ساتھ لگی تھی ۔کینو ، مالٹے ، اور آم کے باغات سنبھالنے کے علاوہ کماد ، گندم ، کپاس اور سبزیوں کی کاشت ،دیکھ ریکھ اور برداشت کے لئے بہت سے کارکُن درکار تھے ۔اُس نے اپنے پہلے مربعے کا چک سے منسلک ایک ایکڑ زرعی رقبہ ان کارندوں کی جھونپڑیوں کے لئے وقف کردیا جو کھُلے علاقے میں پھرتے پھراتے نئے آباد چکُوک کے گرد روزگار کے حصول کی امید پر اکٹھے ہونے لگے تھے ۔
یہ خانہ بدوش ، رزق کی تلاش میں بھٹکتے آوارہ گرد گروہ عارضی سے جھونپڑے بنا کر زمینداروں کے مختص کردہ زمین کے ٹکڑوں پر ٹک کر رہنے لگے۔
انہی گھر گھروندوں یا جھونپڑ پٹی میں پیدا ہوا نیاز علی کھیلتا کُو دتا بڑا ہو گیا اور کام دھندے پر لگ گیا تواس کی شادی پھاتی سے کردی گئی جس کا اصل نام ،فاطمہ ، سب بھول ہی چکے تھے۔
اسی کھیل کھیلے میں نوجوان جوڑے کے گھر فقیر حسین نے آنکھ کھولی ۔
جھونپڑ پٹی کے بچے سکُول بھیجنے کا رواج نہیں تھا ۔ ماں باپ سورج طلوع ہوتے ہی کھیتوں کو نکل جاتے ۔ بچے سب مل کر دُھول بھری گلیوں میں گھر گھروندہ ، چھُپن چھپائی ،شٹاپُو ، باندر کلا ، پٹھُوگرم ، اور گُلّی ڈنڈا کھیلتے ۔
کچھ کھیل تو صرف لڑکوں کے کھیلنے کے تھے ، لیکن کچھ کھیل ایسے تھے جسے لڑکے اور لڑکیاں مل کر کھیلتے ۔
فقیرحسین کا پسندیدہ ترین کھیل “ گھر گھروندہ ” تھا ۔
وہ پروین کے ساتھ مل کر چکنی مٹی سے گھروندہ بناتا ۔ دونوں پوری دلجمعی سے رہائشی کمرہ ، دالان ، چُولہا چوکا ، سیڑھیاں اور اُن کے ساتھ اُوکھلی، تندُور اور چکی بناتے ۔ لیپا پوتی کے بعد جب سب بچوں کے بنائے گھروندوں کا مقابلہ ہوتا تو منصف بچہ ہمیشہ اُن کے بنائے گھر وندے کو اوّل قرار دیتا ۔
چک تین سو سات کے پاس ، بس دس پندرہ کلومیٹر دور ایک شہر تھا ۔ شروع میں تو شہر اور چک کے بیچ کھُلے کھیت کھلیانوں اور درختوں نے واضح تقسیم قائم کر رکھی تھی لیکن یہ فاصلے تیزی سے مٹنے لگے۔
بڑے شہر کی آبادی کا بم پھٹ رہا تھا اور قریبی دیہات مرتے جا رہے تھے ۔
اسی کھیل میں اس مضافاتی گاؤں پر بھی نزع کا عالم طاری ہوا ۔
پھر ہونی بیت کر رہی ۔
گاؤں کو ایک مضبوط دیوار کے پیچھے مسدود کر دیا گیا ۔ سادہ ، خالص دیہاتی زندگی کا ایک اور منظر سمٹ گیا ۔نئی ، متمول اور جدید دُنیا آباد ہونا شروع ہوگئی ۔
شور مچاتی مشینوں کے زور پر بدبُودار تارکول والی سڑکوں کا جال بچھا اور کھیت ختم کردئیے گئے ۔ بد شکل کرینوں کی مدد سے سیوریج کے بڑے بڑے پائب دبائے گئے ۔ زیر زمین برقی اور مواصلاتی کیبلز کا جال بُن کر سب ممکنہ جدید سہولیات کا بندوبست کیا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے رہائشی پلاٹ مربعوں کے مربعے نگل گئے ۔
معقول رقم اور بہت سے پلاٹس کی فائلیں وصول کر کے رائے احمد یار نے بھی اپنی زمینیں ہاؤسنگ سوسائیٹی کے حوالے کردیں ۔ کالونی نے پر پُرزے نکالے اور جھونپڑ پٹی سمیت سارا زرعی رقبہ پلاٹوں میں بٹ گیا ۔کھیت ختم ہُوئے ،نئے گھر سر اُٹھانے لگے تو کھیت مزدُور تعمیراتی مزدور بن گئے ۔ کھیتوں اور باغوں کو مکان اور دوسری عمارتیں نگلنے لگیں ، جھونپڑ پٹی کا نام و نشان مٹ گیا ۔
پھر ایک دن اشرف ٹھیکیدار نے اپنے ہی جیسی عُمررسیدہ لیکن مضبوط نیلی کار گھاس پھُونس اور جنگلی جھاڑیوں سے اٹے غیر ہموار پلاٹ کے سامنے کھڑی کی ، دروازہ زور سے بند کیا اور مسکین صورت نیاز علی سے مخاطب ہوا۔
“نیاز علی ! ڈیرہ ساتھ والے خالی پلاٹ میں بنا لو ۔ میں نے اجازت لے لی ہے ۔ اسلم صاحب کے لوگ سامان لے کر پہنچ رہے ہیں ۔ پانی کے لئے بورنگ آج ہی شروع ہو جائے گی۔
چھیدا ٹریکٹر لے کر دس بجے آجائے گا اور بلیڈ لگا کر سارا جھاڑ جھنکاڑ صاف کر دے گا ۔
تُم اب ادھر ہی رہو گے ۔
جِیا جَن٘ت چاہے دو دن بعد لے آنا۔
میرا ارادہ ہے کہ پرسوں بنیادیں کھودنا شروع کردیں ۔ “
یہ کم و بیش وہی تقریر تھی جو ہر نئے مکان کی سائیٹ پر دوھرائی جاتی تھی ۔
اشرف پُرانا ٹھیکیدار تھا جس کا تجربہ چار دہائیوں پر محیط تھا ۔ اُس کے لئے پانچ مرلے سے لے کر چار کنال تک کا گھر تعمیر کرنا اب معمول تھا ۔وہ معروف تعمیراتی کمپنی ہاشمی ایسوسی ایٹس کے ساتھ پچھلے بیس سال سے جُڑا تھا ۔اشرف جیسے سینکڑوں ٹھیکیداروں کا کاروبار اس فرم کے بل بوتے پر چلتا تھا۔
اور نیاز علی ؟
نیاز علی تاندلیانوالہ کے نواحی چک تین سو سات کا کھیت مزدور اب ٹھیکیدار اشرف کی سائیٹ کا چوکیدار بن چُکا تھا ۔پھاتی اور فقیر حسین کے ساتھ ہر زیر تعمیر مکان کے ساتھ بنے ڈیرے میں رہتا اور مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر اپنے چھوٹے سے خاندان اور مختصر سامان کے ساتھ اگلے پلاٹ پر نئے ڈیرے میں جا اُترتا ۔
ہاشمی ایسوسی ایٹس مضافاتی دیہات کو نگل کر متمول بستیاں قائم کرتی ہاؤسنگ سوسائیٹز میں عُمدہ محل وقوع والے پلاٹ خریدتے ، جدید ،دیدہ زیب مکان تعمیر کرتے اور بیچ کر آگے نکل جاتے ۔
بہترین تعمیراتی ڈیزائن ، معیاری خام مال کے استعمال اور فرم کی ساکھ کی بنیاد پر اکثر مکان مکمل ہونے سے بھی پہلے بک جاتے ۔
یوں فرم کا کام پھیلتا ہی چلا جاتا ۔
نیاز علی کو نئے ماحول میں ڈھلنے میں کوئی دقّت پیش نہ آئی ۔ اُس نے بچپن ہی سے کام کرنا سیکھ لیا تھا ۔رائے اللہ یار کے مویشیوں کی دیکھ بھال ہو، ،کھیتوں کو پانی لگانا ہو، باغات کی رکھوالی ہو ، گنے کے کھیت میں کٹائی ہو یا گندم کی بوائی ، اُسے تو بس کام کرنا تھا ۔
جو بتا دیا گیا وہ کر لیا ۔
اب یہاں مٹی ، اینٹ ، ریت ، بجری اور شور شرابے کے بیچ زندگی گزرنے لگی ۔
ایک مکان بنا تو ڈیرہ توڑ دیا ۔نئے پلاٹ میں جا ڈیرہ بسایا اور یُونہی چل سو چل۔
وقت گزر جاتا ہے سو بہت سا وقت گزر گیا ۔
اب نیلی گاڑی سے اُتر کر نیاز حسین اور ٹھیکیدار اشرف پھر ایک نئے پلاٹ کے سامنے کھڑے تھے ۔
ایک ڈیرہ ، ایک نیا چھوٹا سا گھر بسانا تھا اور ایک نیا بہت بڑا مکان تعمیر کرنا تھا ۔
نیاز علی نئی سائیٹ سے واپس اُس مکان پر گیا جو تقریباً مکمل ہو چُکا تھا ۔
وہاں اب ڈیرہ گرائے جانے کا وقت تھا اور اُس کے چھوٹے سے خاندان کی ایک اور ہجرت کا لمحہ۔
ریڑھا منگوایا گیا ۔ اچھا بُرا ، ٹُوٹا پھُوٹا اور سالم سامان ریڑھے پر لادا گیا ۔ نیاز علی ، پھاتی اور فقیر حسین بھی سامان کے ساتھ ہی گھُس گھسا کر ریڑھے پر بیٹھے اور نئی سائیٹ کو روانہ ہوئے ۔
دو مستری اور چار مزدور نئے ڈیرے کی دیواریں بنا چکے تھے ۔ چھت پر سرکنڈوں کی سِرکی پر پلاسٹک شیٹ بچھا کر ،گیلی مٹی ڈال کر اسے واٹر پرُوف بنایا جا رہا تھا ۔
سامان ریڑھے سے اُترا اور ڈیرے کے سامنے ڈھیر ہو گیا ۔ نیازعلی بھی جِیَاجَنࣿت کے ساتھ سامان کے ساتھ ہی ٹک گیا ۔ ڈیرہ مکمل ہوا تو نیا گھر آباد ہو گیا۔
ایسے ہی بہت بار یہ کہانی دوھرائی گئی اور یُونہی یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔
پھر نیا گھر ، نیا ڈیرہ ، اور پھر پُرانا ماحول اور پرانی کہانی ۔
وہی پرانا کھیل۔
وُہی دُھول ، مٹی ، اینٹ ، سیمنٹ ، بجری ، سرئیے کی مہک ۔کنکریٹ مکسر کا شور ، سریا کُوٹنے کی جھنکار اور مزدوروں کے تعمیراتی سامان کے ساتھ بھاگ بھاگ کر چکر پر چکر۔
وہی سُپروائیزر اور ٹھیکیدار کے نعرے ۔
وہی مزدوروں کے للکارے۔
وہی زمین اور وہی آسمان۔
فقیر حسین اب سیانا ہو چکا تھا ۔کوئی بہن نہ بھائی ۔ ماں باپ لڑائی کرتے تھے لیکن کبھی کبھار ۔ ہلکی پھلکی ۔
جانتے تھے صلح کروانے والا کوئی نہیں ۔
فقیر حسین کو شروع شروع میں اپنا پرانا گاؤں ، جھونپڑیاں، دُھول بھرے راستے ، ساتھی بچے اور خاص طور پر پروین بہت یاد آتے ۔ اُن دونوں کے مل کر بنائے گھر وندے کئی بار اُسے خواب میں بھی نظر آئے لیکن دن کو سب منظر ہی بدل جاتے ۔
وہ شروع شروع میں بہت اداس رہتا لیکن پھر نئے ماحول میں دل لگانے کے طریقوں میں لگ گیا ۔
پھاتی صبح ہی صبح اُٹھ کر ناشتہ بناتی ۔ نیاز علی چکر لگا کر تسلی کرتا کہ کچھ چوری تو نہیں ہوا ۔ پھر مزدوروں کے آنے کا وقت ہوتا ۔مستری آ جاتے ۔ آٹھ بجے کے قریب کام شروع ہوتا ۔
پھاتی مختصر سے گھر کی صفائی کرتی ، فقیر حسین کا منہ اپنے سامنے دُھلاتی ، کھانا کھلاتی ،چولہا چوکا کرتی ، برتن مانجھتی ، کپڑے دھوتی اور صبح کو شام کرتی ۔
نیاز علی رات اُتاری گئی ریت بجری کی ٹرالیوں ، اینٹوں کے پھیروں اور سیمنٹ کی بوریوں کا حساب جوڑتا اور اشرف کو مطمئن کرتا ۔
فقیر حسین سارا دن کھیل کود میں وقت گزارتا ۔ ڈیرے کے ساتھ لگی سڑک پر آباد کوٹھیوں کے سرونٹ کوارٹروں سے نکل کر قریب گاؤں کے سرکاری سکول جاتے بچوں کو حیرت اور حسرت سے دیکھتا ۔ اپنے سامنے خالی پلاٹ سے شروع ہو کر مکمل تعمیر تک آتی روز روز کی تبدیلی پر غور کرتا ۔
اس بار چار کنال کے پلاٹ پر مکان بن رہا تھا ۔فقیر حسین کی عُمر کے بچوں جتنا مشاہدہ اور کچھ نہ کچھ سوچ تو اُس کی تھی نا۔
اُس کی نظروں کے سامنے ڈیرہ مکمل ہو کر اُن کا گھر بنا ، سامنے کے پلاٹ پر بنیادیں کھدیں ، بیسمنٹ مکمل ہو کر لینٹر پڑا، پہلی منزل مکمل ہوئی ، لینٹر پڑا اور دوسری منزل مکمل ہو کر چھت کا لینٹر پڑا۔
کچھ دیر مکان کو ویسا ہی چھوڑ کر چہاردیواری مکمل کی گئی ، بڑا سا آہنی گیٹ لگا ، پانی کی ٹینکی تعمیر ہوئی اور پھر پلاسٹر شروع ہو گیا۔
فرش ڈلے ، ٹائلیں لگیں ، لکڑی کا کام ، دروازے ،کھڑکیاں مکمل ہوئے بجلی کا پکا، تھری فیز ،کنکشن لگ گیا ۔ پھر رنگ و روغن شروع ہوگیا ۔
اسی دوران نرسری والا ٹھیکیدار آیا اور تقریباً ڈیڑھ کنال کا لان تیار کرنے کے لئے گھاس پھُوس ، درخت پودے سب لگا دئیے گئے ۔
سات آٹھ مہینے میں مکان ہر لحاظ سے مکمل تھا اور مکینوں کا منتظر ۔
نئی کوٹھی کے مالک گاہے گاہے چکر لگاتے رہتے ۔
اب اُن کے اپنے ، سکیورٹی ایجنسی کی وردی والے ، دو گارڈ آ گئے جو بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے لگے ۔
جب تک مکان بن رہا تھا فقیر حسین اپنے ڈیرے سے زیر تعمیر مکان تک بلا روک ٹوک چلا جاتا ۔ وہ بنتی ہُوئی ہر دیوار ، ہر ستُوں اور ہر کھڑکی دروازے سے مانوس ہو گیا ۔
پھر چہاردیواری بنی تو اُسے چھوٹا سا چکر کاٹ کر سڑک کی طرف سے زیر تعمیر مکان تک جانا پڑتا ۔
جب گیٹ لگ گیا تو اس کا نئے مکان میں جانا محدُود ہو گیا ۔پھر بالآخر جب گارڈ آ گئے تو فقیر حسین کا نئے گھر کے اندر جانا بالکل بند ہو گیا ۔
رات چھُٹی کرنے سے پہلے اشرف نے نیاز علی سے کہہ دیا تھا کہ کل اُسے نئے پلاٹ کے لئے روانہ ہونا ہے ۔ نئی سائیٹ پر پہنچنا ہے ۔ ڈیرہ تیار ہے ۔
وہ سامان باندھ کر “ جِیاجَنتࣿ” سمیت تیار رہے ۔
ریڑھے کا بندوبست کردیا گیا تھا ۔
اور پھر اگلے دن دس بجے کے قریب ارشد ریڑھا بان ریڑھا لے کر آن پہنچا ۔
دونوں مردوں نے مل کر سامان ریڑھے پر لاد دیا ۔ پھاتی ریڑھے کی پچھلی سائیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی ۔ نیاز علی نے فقیر حسین کی دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اُسے اُٹھا کر پھاتی کے پاس بٹھانا چاہا تو وُہ خود کو چھُڑا کر دُور کھڑا ہو گیا ۔ پھر ساتھ کے پلاٹ پر مکمل ہو چکے مکان کو دیکھتے ہُوئے بولا،
“ اَبّا ! ہم گھر گھر وندہ ہی کیوں کھیلتے رہتے ہیں ؟
گھر کے اندر کیوں نہیں جاتے ؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔