ایک زندہ کہانی ۔۔۔ نگار عظیم
ایک زندہ کہانی
نگار عظیم
( بھارت)
میری زبان پر آیا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ نوری نے جھپٹ کر اتنی زور سے میرا منہ بند کیا کہ میں چھٹپٹا گئی۔ اگروہ کچھ دیر اور دبائے رکھتی تو یقیناً میری آنکھیں باہر آ جاتیں۔
نوری واقعی بہت خوبصورت تھی۔ ذہین اور بے باک۔ فیصلے کرنے میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر اور سفاک بھی تھی اور یہی سفاکی اس کی شخصیت کا منفرد پہلو اجاگر کرتی تھی۔ کسی کی پرواکیے بغیر دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنا اسے خوب آتا تھا۔ تعلیم میں اول نہ ہونے کے باوجود موضوعِ بحث رہتی۔ نئے نئے دوست اس کے حلقہ میں آتے لیکن زیادہ دن نہ ٹکتے۔ اس کے ساتھ دوستی کا طویل سفر طے کرنے والوں میں صرف میں تھی۔ وہ کم بولتی۔ لیے دیے رہتی تو اکثر مغرور بھی سمجھی جاتی۔ حالانکہ نوری مغرور باکل نہیں تھی۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز تک ہم نے ساتھ قدم بڑھائے۔ چھوٹی بڑی، اچھی بری، جھوٹی سچی تمام شرارتیں ہم نے ایک ساتھ کیں۔ سزائیں بھی ایک ساتھ بھگتیں۔ کئی مرتبہ تو دل بھی ایک ساتھ دھڑکے۔ اسکول سے کالج آتے آتے ہماری دوستی بہت پختہ ہو چکی تھی۔ ہم دونوں میں تکراربھی ہوتی لیکن جتنی تکرار ہوتی محبتیں بھی بڑھتیں۔ ہماری محبتیں اور تعلقات ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہو چکے تھے۔
کالج پہنچ کر وہ سائکلوجی کی طرف چلی گئی میں فائن آرٹس کی طرف، لہٰذا ڈپارٹمنٹ بھی الگ ہوگئے لیکن پھر بھی کینٹین اور کامن روم میں اکثر ملاقاتیں ہوتیں۔ نت نئے دوستوں کا اضافہ ہوا تو رونقیں بھی اوربڑھ گئیں۔ ہم سبھی اب عمر کے اگلے حصہ میں قدم رکھ چکے تھے لہٰذا بحث ومباحث کے موضوعات بھی تبدیل ہوگئے۔ عشق و محبت، جنس، مرد، شادی، تنہائی، نفسیات، عورت کے حقوق اور سماجی برابری پر خوب خوب گرماگرم بحثیں ہوتیں۔ لیکن جب بھی بات عورت، شادی اور جنسی رشتوں پر آتی نوری غصہ اور نفرت سے بھر جاتی۔ اس کی زبان سے زہر بھرے نشتر نکلنے لگتے۔ مردہمیشہ اس کے نشانے پر ہوتا۔ اس کے خیال میں شادی بالکل بےکار کابندھن ہے۔ عورت کی زندگی شادی کرکے جہنم بن جاتی ہے اس کی تمام صلاحیتیں معدوم ہو جاتی ہیں، اس کے مقدرمیں صرف غلامی رہ جاتی ہے، وہ چوبیس گھنٹے کی ملازمہ اور بچے پیدا کرنے کی مشین بن جاتی ہے۔ جنس کے بارے میں بھی اس کا نقطۂ نظر بہت مختلف تھا۔ وہ مانتی تھی کہ اس رشتہ کی شروعات ہی عورت کے زیر ہونے سے ہوتی ہے۔ وہ صاف کہتی مجھے چت ہوتی ہوئی عورت سے نفرت اور کراہیئت آتی ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ شوہر کے لیے بس جسم بن جاتی ہے۔اس کے نتائج بھی عورت کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ وہ نوماہ تک مرد کی جبلت کو اپنی کوکھ میں لیے پھرتی ہے، اپنا حسن کھوتی ہے، اپنی خودمختاری کھوتی ہے اوریہ عمل باربار دہراتی ہے۔یہ تو عورت کی ہار ہے۔ کیا عورت اس رشتہ کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی۔ کیا کوئی محبت کرنے والا ایسا مرد یا ایسا شوہر مل سکتا ہے جو ہر طرح کاخیال رکھے اور جسم کا مطالبہ نہ کرے یا اس ضرورت کو عورت کی مرضی پر چھوڑ دے………؟ نہیں۔ اس بحث میں اکثر و بیشتر نوری آپے سے باہر ہو جاتی۔
نوری ایک متوسط روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ سات بہن بھائی تھے۔ دو بھائی پانچ بہنیں۔جن میں نوری دوسرے نمبر پر تھی۔ سب سے بڑا بھائی ناظم اب چوبیس برس کا ہو گیا تھا۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ لگاتار پانچ بہنوں کے بعد سب سے چھوٹا حاتم بھی اب دس برس کا ہو گیا تھا۔ نوری کے بابا کہیں سرکاری ملازم تھے۔ بڑا کنبہ تعلیمی اخراجات اور قلیل آمدنی۔ اوپر سے پھوپھی جان، جنھوں نے شادی نہیں کی تھی اور ساتھ ہی رہتی تھیں۔ کسی فیملی پلاننگ سینٹر میں ملازمت کرتی تھیں۔ آزادانہ مزاج کی مالک تھیں اور کسی کی پرواہ کیے بغیر دل کھول کر جیتی تھیں۔ ہاں کبھی کبھی بہ وقت ضرورت پیسوں سے ابا کی مدد کر دیا کرتیں۔ لیکن نوری کوان کی ایک بات سخت ناپسند تھی۔ وہ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ہمیشہ اس کی امی کو لعن طعن کرتی رہتیں۔ امی بالکل خاموش رہتیں اسے امی کی مظلومیت پر ترس آتا اور اپنے ابا کاامی اور پھوپھی جان کے بارے میں لاتعلقی جیسا سرد رویہ سخت ناگوار گزرتا۔ بچے امی نے اکیلے تو پیدانہیں کردیے تھے لیکن پھوپھی جان کی جلی کٹی صرف امی کو سننا پڑتی تھی۔
اِدھر تعلیم مکمل ہوئی اور ادھر رشتوں کی لائن لگ گئی۔ عمر کے پچیس برس پر لگا کر اڑ چکے تھے۔ ناظم نے بھی اپنے لیے لڑکی کا انتخاب کرلیا تھا۔ نوری کی شادی کے بعد وہ بھی اپنی شادی کرنا چاہتا تھا۔لیکن اچانک…. دوٹوک الفاظ میں نوری نے اپنے کنوارے رہنے کا اعلان کر دیا… بس پھر کیا تھا نوری پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ محبتوں کے تمام دروازے اس کے لیے بند ہو گئے۔ ناظم تو اس کی شادی کامنتظر تھا ہی باقی بہنیں بھی جوانی کی دہلیز پار کررہی تھیں۔ انھیں بھی اپنا مستقبل لرزتا ہوا محسوس ہوا۔ پھوپھی البتہ نوری کے حق میں تھیں لہٰذا نند بھاوج میں جم کر لڑائی ہوئی۔ یہاں تک کہ پھوپھی گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔ نوری کے ابا کے لیے بھی اس صورت حال کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ بھائی بہنوں اور والدین کی نفرت جھیلنا نوری کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ آہستہ آہستہ شاید وہ اندر ہی اندر ٹوٹنے لگی تھی… تبھی تو اس نے شادی کے لیے ہاں کہہ دی۔
سب کے چہروں پر رونق واپس آ گئی۔ ماں نے بلائیں لے ڈالیں ہنسی خوشی شادی ہوئی اور نوری رخصت ہوکر سسرال چلی گئی۔
نوری بھاری بھرکم لباس اور زیوارات سے لدی پھندی دلہن بنی کمرے میں بیٹھی آنے والے وقت کا انتظار کر رہی تھی۔ طرح طرح کے وسوسے اس کے ذہن کو گھیرے ہوئے تھے… یکایک آؤ آؤ آؤ کرتی ہوئی پٹ کھول کر دو بلیاں کمرے میں گھس آئیں ایک کے پیچھے ایک… دوڑتے بھاگتے کمرے میں رکھے لیمپ کی ڈوری ان کے لپیٹے میں آئی اور لیمپ دھڑام کی آواز سے گرپڑا۔ نوری گھونگھٹ کے پٹ کھول کر ہانپتی کانپتی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کمزور نحیف سی بلی کو دوسری موٹی بلی نے جو شاید بلا تھا گردن سے منہ میں دبوچ رکھا ہے۔ نوری نے ہشت ہشت کرکے دونوں کو بھگانا چاہا۔ اپنی جوتی اٹھا کر پھینک کر ماری۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ پل بھر میں ہی بلی ہار مان گئی اور بلا اس پر حاوی ہو گیا۔ غصہ کے مارے نوری کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ وہ پسینہ پسینہ ہو گئی۔ حلق سوکھ گیا۔ اس کا کپکپاتا جسم بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا اس کا کمزور وجود کسی کی گرفت میں پھنسا بےبس ہوکر بری طرح تڑپ رہا ہے۔
یکایک شہریار کمرے میں داخل ہوئے اس نے ہمت کرکے خود کو سمیٹا اور اٹھ بیٹھی… گردن گھما کر فرش پرنگاہ ڈالی جہاں کچھ دیر پہلے بلیاں ایک دوسرے میں خلط ملط تھیں۔ اس نے دیکھا دونوں بلیاں کچھ ہی فاصلے سے ایک دوسرے کے سامنے آرام سے بیٹھی ہیں۔ کمرے کا منظر دیکھ کر دلدار خاں شاید بلیوں کی شرارت بھانپ گئے تھے ۔انھوں نے بلیوں کو بھگایا۔ لیمپ ایک طرف رکھا اور نوری کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن نوری کے چہرے پر ایک عجیب سی سختی اور سپاٹ پن کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شاید وہ اپنے دل میں کوئی فیصلہ کر چکی تھی۔ دراصل نوری نے شادی تو کر لی لیکن اس رشتہ کے لیے وہ اپنے اندر کی عورت کوراضی نہیں کر سکی لہٰذا پہلی ہی رات میں اس نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔
طلاق…؟؟ شہریار ہکا بکا رہ گئے۔
آپ جانتی بھی ہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
آپ جب تک راضی نہیں ہوں گی ہم آپ کو چھوئیں گے بھی نہیں۔ لیکن خدا کے لیے ایسا مذاق نہ کیجیے۔ زمین اور آسمان لرز جاتے ہیں اس ایک لفظ سے… ایسی مبارک رات کو ایسا منحوس لفظ…
یہ مذاق نہیں سچ ہے… نوری نے بڑے سرد لہجے میں جواب دیا۔
کیا کسی نے آپ کی دل شکنی کی ہے؟؟
ہم سے کوئی گستاخی سرزد ہوئی ہے؟ وہ اپنے طیش کو دباتے ہوئے انتہائی نرمی سے بولے…
’مجھے مرد کا غلام نہیں بننا…‘
کیسی غلامی؟ یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ یہ تو قدرت کا نظام ہے۔ یہ ایک مقدس رشتہ ہے اور پھر یہ شادی کوئی زبردستی نہیں تھی۔ سب کی رضامندی سے ہی ہمارا نکاح ہوا ہے اور نکاح غلامی نہیں سنت اور عبادت ہے۔ اس سے عورت کی تکمیل ہوتی ہے۔ وہ ماں بنتی ہے قدرت کے حسین تحفے اس کو سرشاری عطا کرتے ہیں۔ اگرایسا نہ ہوتا تو ماں کے قدموں تلے جنت نہ ہوتی۔ آپ کو کسی نے گمراہ کیا ہے۔ آپ اپنے دل سے تمام شکوک نکال دیں۔ آج کی رات ہم دونوں کے ملن کی رات ہے۔
’یہ سب ڈھکوسلہ ہے جسے آپ ملن کی رات کہتے ہیںیہ عورت کے زیرہونے کا ایک ناقابل فراموش المیہ ہے جس کے نتائج اسے زندگی بھر بھگتنے پڑتے ہیں۔‘نوری نے سفاکی سے جواب دیا۔
شہریار نے ہر پہلو اور ہر زاویہ سے نوری کو شادی شدہ زندگی کاعکس دکھایا لیکن نوری زیر نہیں ہوئی۔ وہ اپنی ضد پرہی اڑی رہی۔ لہٰذا صبح ہوتے ہی نوری کو اس کے گھر پہنچا دیا گیا۔ نوری کا گھر پہنچنا تھا کہ قیامت آ گئی۔ دوخاندانوں کی عزت داؤ پر لگاکر نوری گھر آکر بیٹھ گئی…. اپنے چاروں طرف نفرت کے دہکتے الاؤ اور دل کو چیرتے ہوئے سیکڑوں نشتر وہ برداشت نہیں کر سکی۔ اسے والدین کا گھر چھوڑ کر پھوپھی جان کے یہاں پناہ لینا پڑی۔ انھوں نے بھی نوری کو آڑے ہاتھوں لیا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنی جلدی ہمت ہار جاؤگی اورشادی کے لیے ہاں کہہ دوگی۔ تمہاری وجہ سے میں بھی بری بنی۔ اب جب کر ہی لی تو پھر واپس کیوں آ گئیں۔ وہاں رہنا تھا۔ ویسے تو شہریار اچھا لڑکا تھا۔ جب تک شادی نہیں ہوتی ایک ہی سوال ہوتا ہے کیوں نہیں کی؟ اب ظاہرہے دو خاندانوں کامعاملہ ہے دسیوں سوال ہیں اورجگ ہنسائی الگ۔ تویہ نفرت تو تمھیں جھیلنا ہی پڑےگی۔ خود کو تیار کر لو اس کے لیے۔
نوری نے نفرت بھی جھیلی عذاب بھی سہے۔ اس کی خاموشی نے اسے نئی راہ دکھائی۔ اس نے ایک این جی اوجوائن کر لیا۔ زندگی کچھ آسان ہوئی۔ وقت کا پنچھی پر لگاکر اڑ گیا۔ نوری نے عمر کی چار دہائیاں پار کر لی تھیں۔ وہ ماہر نفسیات بن گئی تھی۔ پھوپھی جان اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھائی بہنوں اور والدین کی نفرتوں کی دیوار کم ضرور ہوئی تھی لیکن ختم نہیں۔
وقت بھی کس کس طرح کروٹ بدلتا ہے کوئی نہیں جان سکتا۔ این جی او میں نوری کے رابطہ میں نواب دلدار خاں آتے ہیں جو کچھ ذہنی پریشانیوں کا شکار تھے۔ نوری نے ان کی نبض پر ایسا ہاتھ رکھا کہ چندماہ میں ہی ان کی پریشانیاں دور ہو گئیں اور نوری بیگم دلدارخاں بن گئیں۔
نواب دلدارخاں لمبے چوڑے سرخ وسپید تنومند بڑی ہی پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ عمر پچاس کے لپیٹے میں۔دولت کی فراوانی تھی۔ کھیتی کسانی ،باغات، پرانی حویلی، نوکر چاکر سبھی عیش و آرام سے اللہ نے نوازا تھا۔ اکلوتی اولاد تھے۔ بیٹے کی شادی کا ارمان دل میں سجائے والدین رخصت ہو گئے تھے۔
نوری کے نصیب پرسب عش عش کرتے۔ خیرسے کئی ماہ گزر گئے۔ لیکن میرے دل میں ایک خواہش بار بار سر ابھارتی کہ نوری سے اس تبدیلی کی وجہ ضرور پوچھوں۔
ایک دن میں نے نوری کی محل سراکارخ کیا۔ اس کے ٹھاٹ باٹ شان و شوکت عیش و آرام دیکھنے لائق تھا۔ نوری کے حسن میں چارچاند لگ گئے تھے۔ وہ انتہائی خوش وخرم تھی۔ خوب گپ شپ ہوئی۔ اسکول اور کالج کی بہت سی یادیں تازہ ہوئیں۔ پرتکلف چائے پی گئی۔
ہمارے بہنوئی صاحب کہاں ہیں بھئی؟؟
دلدار…؟ نوری کے لبوں پران کا نام لیتے ہوئے تبسم نمودار ہوا۔
وہ آج فارم ہاؤس گئے ہوئے ہیں کچھ نئے پیڑپودے لگوانا تھے۔
کیسے ہیں وہ نوری…؟ میرامطلب مزاج عادت۔
بہت اچھے ہیں وہ… بے مثال… جیسا میں چاہتی تھی۔
تجھے پسند تو ہیں نا؟؟
لیکن یہ تو بتا یار تیرے اندریہ تبدیلی ہوئی کیسے؟؟ کیا تونے خود کو بدل دیا…؟ چت کون ہوا؟ وہ کہ تم…؟ میں نے چٹخارہ لیتے ہوئے پوچھ ہی ڈالا۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد نوری نے جواب دیا کوئی بھی نہیں۔
کوئی نہیں… ہاہاہاہائیں… کوئی نہیں۔ کیا مطلب؟ توکیا ابھی تک…؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟
ایسا ہی ہے تجھے پتہ ہے میں جھوٹ نہیں بولتی۔
توکیا… وہ… نا… اس سے پہلے کہ میں لفظ مکمل کرتی نوری نے جھپٹ کر اپنے ہاتھ سے میرامنہ بندکردیا۔