ساز زندگی ۔۔۔ قیصر نذیر خاور
ساز زندگی
قیصر نذیر خاور
اس جیل میں کوٹھی لگے، قدیر کو یہ چھٹا مہینہ اور چوتھا دن تھا۔ سورج طلوع ہو چکا تھا جس کا اندازہ اس نے اپنی کال کوٹھری کے ننھے سے روشندان میں آتی ، گنتی کی ان چند کرنوں سے لگایا جو بس طلوع آفتاب کے وقت ہی اس کی کوٹھری میں گھڑی دو گھڑی کے لئے در آئیں ننگی دیواروں اور فرش پر رینگتیں پھر سے غائب ہو جاتی تھیں اور اُسے ان کو دوبارہ دیکھنے کے لئے اگلے چوبیں گھٹنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہ جیل کا وہ حصہ تھا، جس میں موت کی سزا پائے قیدی کوٹھڑیوں میں بند تھے اور اپنی پھانسی کے منتظر ، اپنے شب و روز ایک ایسی تنہائی میں گزارتے تھے کہ ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا تھے ۔
اس کا وارڈن اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے قدیر کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھمایا۔ قدیر نے اس پر لکھی عبارت کو پڑھنا چاہا لیکن نیم تاریکی اور اپنی دن بدن کمزور ہوتی بینائی کی بنا پروہ اسے پڑھ نہ سکا۔ وارڈن نے اس کی مشکل کو سمجھتے ہوئے اسے بتایا کہ موت کی سزا کے خلاف کی گئی اُس کی آخری اپیل بھی نا منظور کر دی گئی ہے اور جیسے ہی اس کو پھانسی دیئے جانے کے انتظامات کے بارے حکم موصول ہوا، اس سے اگلی صبح اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
یہ حکم کب موصول ہوگا ؟ ، قدیر نے وارڈن کی بات سن کر پوچھا۔ کسی وقت بھی ، شاید کل ہی ، وارڈن نے جواب دیا اب تم ہمارے لئے ایک ایسے مہمان ہو جس کو کسی وقت بھی رخصت کیا جا سکتا ہے۔ مجھے بتاؤ! کیا میں تمہارے لئے کچھ کر سکتا ہوں؟” ” کیا آپ مجھ سے میری آخری خواہش پوچھ رہے ہو ؟ ” ، قدیر نے اس کے دھندلے جثے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں وہ تو جیلر صاحب تم سے خود پوچھیں گے اور اسے قلم بند کراتے ہوئے اس کو پورا کریں گے ، وہ بھی اگر ان کے بس میں ہوا تو ! ، وارڈن بولا یہ تو میں ایسے ہی اپنی طرف سے تم سے پوچھ رہا ہوں۔“
وارڈن ایک نرم دل کا مالک انسان تھا اور جیل کے دوسرے بند و بستیوں اور جیلر کے برعکس قیدیوں سے نسبتا بہتر سلوک روا رکھتا تھا، خاص طور پر جن کو کوٹھی لگ چکی ہو۔
میں کچھ دیر اس دریا کے بہتے پانی کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں جو کہیں نزدیک ہی بہتا ہے اور میں اس کے بہنے کی آواز یہاں سنتا ہوں ۔ “، قدیر نے کہا۔
لیکن یہ تو ناممکن ہے۔ میں تمہیں جیل سے باہر نہیں لے جا سکتا۔‘ ، وارڈن نے اپنی معذوری
ظاہر کی۔
میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ آپ مجھے جیل سے باہر لے کر جاؤ ، قدیر نے سکون سے جواب دیا۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ بہتے پانیوں کو جی بھر کے دیکھ لوں جسے میں نے پچھلے چھ سالوں سے نہیں دیکھا۔ موت کی سزا ہونے کے بعد جب سے مجھے اس جیل میں لایا گیا ہے، میں ہر رات ، جب ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے، بہتے پانیوں کی آواز سنتا ہوں اور ہر آنے والی رات میری پانی کی لہروں اور اس کی چھلوں کو دیکھنے کی خواہش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیا دریا جیل کے بہت قریب
سے گزرتا ہے؟”
ہاں ! ، وارڈن نے روشندان والی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ” در یا اس دیوار کے پر لی طرف جنگلی جھاڑیوں کے ساتھ سے گزرتا ہے۔”
تو پھر یہ تو آسان ہے، آپ مجھے کچھ دیر کے لئے اس بیرک کی چھت پر لے جاؤ۔ میں وہیں سے دریا کو دیکھ کر اپنی آرزو پوری کرلوں گا۔ ، قدیر نے لجاجت سے کہا۔
میں ایسا کرنے سے بھی قاصر ہوں۔ کوٹھی لگے قیدیوں کو یوں چھت پر لے جانے کی بھی مناہی ہے۔ وہ کود کر بھاگنے یا آپ گھات کرنے کی کوشش بھی تو کر سکتے ہیں ۔ ” ، وارڈن نے ایک بار
پھر معذوری کا اظہار کیا ، وہ جانے کے لئے مڑا تو قدیر بولا ؟
میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں نے ایسا کرنا ہوتا تو قتل کرنے کے بعد میں خود کو پولیس کے حوالے نہ کرتا۔ پولیس کے سامنے میرا پہلا اقبالی بیان ہی ساری عدالتوں کی آخری کا رروائی تک ، ایک ہی رہا ہے، نہ ایک لفظ زیادہ ، نہ ایک لفظ کم۔ بہر حال میں آپ کی مجبوری کو بھی سمجھتا ہوں ۔“ وارڈن نے گردن گھما کر، بنا کچھ بولے، قدیر کونظر بھر کر دیکھا؟ اسے قدیر کی بات میں سچائی کی پختگی نظر آئی۔ اس جیل میں گزرے پچھلے چھ ماہ کے دوران قدیر کا بطور قیدی اچھا رویہ بھی اس کے ذہن میں گھوم گیا البتہ اسے اس بات پر اکثر حیرت ہوتی تھی کہ اس نے قدیر کو کبھی عبادت گزاری کے عالم میں نہیں دیکھا تھا۔ کچھ توقف کے بعد ، وہ بولا ؛ د میں وعدہ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ کسی طرح تمہاری یہ آرزو پوری کر سکوں ۔ ہاں اگر میں ایسا نہ کر سکا تو تم اسے اپنی آخری خواہش کے طور پر بھی تو پورا کروا سکتے ہو !‘، یہ کہہ کر اس نے کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور جب وہ باہر نکل کر قفل لگا رہا تھا تو اس نے سنا۔
قدیر کہہ رہا تھا : ” میری آخری خواہش اس سے الگ ہے۔ بہتے پانیوں کو دیکھنے کی خواہش نہ بھی
پوری ہو تو خیر ہے۔ ویسے مجھے امید ہے کہ آپ میری آرزو ضرور پوری کرو گے۔“ قدیر نے اس دیوار پر جہاں وہ چکنی مٹی کے ڈھیلے سے گنتی لکھ کر دنوں اور مہینوں کا حساب رکھتا تھا،
ایک دن کا اور اضافہ کیا لیکن اس بار اس نے اس پر کانٹے کا نشان بنادیا۔
رات کے سنانے میں بہتے پانیوں کی آواز اور لمحوں کے لئے در آتی سورج کی کرنیں تو پہلے ہی اس کی ساتھی تھیں اب ان میں امید کی یہ کرن بھی شامل ہو گئی کہ شاید وارڈن اس کی آرزو پوری کر دے۔
اُسے زیادہ دن انتظار نہ کرنا پڑا، تیسرے روز ہی سہ پہر کے بعد جب دن کی سفیدی میں رات کی سیاہی نے اپنا گھول شروع کیا تو قدیر نے کوٹھڑی کا قفل کھلنے کی آواز سنی تو چوکنا ہوا ، شاید یہ رات میرے جیون کی آخری رات ہے ، اس نے سوچا، آنے والا غالبا یہی خبر دینے آیا ہے۔ دروازہ کھلا تو وارڈن سامنے تھا۔ چلو جلدی کرو، اٹھو، میں تمہیں چھت پر لے جاتا ہوں۔ لیکن وعدہ کرو کہ تم کودنے کی کوشش نہیں کرو گے ۔ بہتے دریا کو دیکھنے کے لئے تمہارے پاس کچھ ہی منٹ ہوں گے ۔ وارڈن نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا ” مجھے مغرب کی اذان ہونے سے پہلے تمہیں اس کو ٹھڑی میں دوبارہ مقفل کرتا ہے۔“ ، وارڈن نے بیڑیوں میں جکڑے قدیر کو سہارا دیا ، پاؤں آزاد کیے، اسے ہتھکڑی لگائی ، اس کی زنجیر اپنی پیٹی سے منسلک کی اور اسے لئے باہر نکل گیا۔ چھت پر پہنچ کر اسے قدیر کو اس طرف لے جانے کی ضرورت پیش نہ آئی جس طرف دریا بہتا تھا۔ قدیر کے قدم بہتے پانیوں کی مانوس آواز کی طرف خود بخود بڑھا رہے تھے۔ منڈیر کے پاس پہنچ کردہ رک گیا۔ سامنے اباسین کا پانی اسی سکون سے بہہ رہا تھا جو اس وقت فضا پر بھی طاری تھا۔ وارڈن اس سے چند قدم پیچھے زنجیر مضبوطی سے تھامے کھڑا تھا۔
قدیر کو بہتے دریا میں پانی کے کئی رنگ نظر آنے لگے جن میں ایک رنگ اس کی اپنی زندگی کا بھی تھا۔ اس نے اپنے ایک ہمسائے کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب اس ہمسائے نے اُس کی بیوی کو بد کردار کہتے ہوئے اس کی نندا کی تھی۔ اسے تو مر کر بھی سمجھ نہ آئی ہوگی کہ اس کی بیوی اور وہ الگ کیوں ہوئے تھے ۔مقتل کے وقوعے سے تین سال پہلے اس نے اپنی بیوی کو اس بنیاد پر خود سے الگ کر دیا تھا کہ زرینہ نے اس سے کی شادی پر ندامت محسوس کرنا شروع کر دی تھی اور اسے یہ حساس ہوئے لگا تھا کہ اس نے اپنے والدین کی خواہش کے خلاف چالیس سال پہلے قدیر سے شادی کر کے غط قدم اٹھایا تھا اور قدیر کی اشترا کی سوچ، جس پر اُس وقت وہ بھی یقین رکھتی تھی، نا تھی۔ وہ دھیرے دھیرے مذہب کی طرف رجوع ہوتی گئی تھی۔ نوکری اور سیاسی مصروفیات کے باعث وہ اس تبدیلی کو محسوس نہ کر سکا۔ قدیر کو اس بات کا پہلا واضح احساس اس وقت ہوا تھا جب زرینہ نے ہے کہہ کر اپنا کمرہ اور بستر الگ کر لیا تھا کہ وہ ایک اشترا کی کے ساتھ ایک ہی بستر پر نہیں ہوسکتی۔ بہتے پانی نے ایک گرے درخت کے تنے سے اور پاس پڑے پتھروں سے ٹکرا کر چھل پیدا کر کے شور کیا تو اسے یاد آیا کہ انہوں نے شادی کے بعد سے ہی برابری کی بنیاد پر گھر چلایا تھا۔ اس نے گھر کے کاموں میں زرینہ کا ساتھ دیا تھا جبکہ وہ بھی نوکری کر کے معاشی طور پر گھر چلانے میں اس کی ہمراہی رہی تھی۔ دونوں نے محنت کر کے اپنے تینوں بچوں کو ملک کے اچھے تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم دلوائی تھی اور بعد ازاں یہ سب کے سب اعلیٰ روزگار پر لگ گئے تھے۔
اسے تب یہ بھی یاد آیا : وہ ان کی بڑی بیٹی کے نکاح کا دن تھا ؛ قدیر نے لڑکے والوں کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد نکاح کے سرکاری فارم ٹائپ کروائے تھے جن میں ملک کے عائلی قوانین کے مطابق اس شق کو بھی اس طرح پر کروایا تھا جس سے بیٹی کو طلاق لینے کا حق اسی طرح حاصل ہو سکے جس طرح مرد کو حاصل ہوتا ہے۔ اس شق کو اس طرح سے تحریر کر دانے پر زرینہ ہی تھی جس نے اسے غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے کر اس کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی حالانکہ لڑکے اور اس کے گھر والوں کو یہ حق تفویض کرنے میں کوئی اعتراض نہ تھا۔ ایسا اس وقت بھی ہوا تھا جب ان کی دوسری بیٹی بیاہی گئی تھی۔ بیٹا تو اپنی شادی والے دن اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا کہ وہ اس شق پر کاٹا’ لگوائے گا۔ وہ تو لڑکی والوں نے اس کا بھرم رکھ لیا تھا کہ وہ انکار پر اتر آئے تھے کہ اگر ان کی بیٹی کو یہ حق نہیں ملے گا تو انہوں نے یہ رشتہ ہی نہیں کرتا۔
بہتے پانیوں کے ساتھ اور بھی بہت سے ایسے بھی واقعات اس کی نظروں کے سامنے سے پھسلتے چلے گئے جو بالآخر اس وقت ختم ہوئے جب قدیر کے لئے زرینہ کو ایک ہی چھت تلے برداشت کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس کا بیٹا بیوی اور اپنی ماں کو لے کر علیحد ہ ہو گیا تھا اور قد بر تمہا رہ گیا تھا۔
قدیر اباسین کے پائیوں میں اور بہت کچھ بھی تلاشنا چاہتا تھا لیکن اس کے ذہنی تسلسل کو وارڈن کی
آواز نے توڑ دیا؟
چلو اب واپس جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ مغرب کی اذان کسی بھی لمحے ہوا چاہتی ہے اور اس سے
پہلے تمہارا کوٹھڑی میں موجود ہونا ضروری ہے۔”
ساتھ ہی اسے اپنے اور وارڈن کے درمیان بندھی زنجیر میں تناؤ بھی محسوس ہوا جو اسے پیچھے کھینچ رہی تھی۔
کو ٹھری میں پہنچ کر قدیر نے بہتے پانیوں کا نظارہ سامنے پھیلائے رکھا اور اپنی زندگی کے دھارے کے دیگر واقعات کو یاد کرتا رہا جن میں اس کے بچوں کا ماں کی طرح مذہبی ہوتا، بنا کسی معاشی و منطقی جواز کے بدیس جابستا اور اپنی دھرتی ماں کی خدمت کرنے کی بجائے اس سے کٹ جانا بھی شامل تھا۔ اس نے انہیں بھی اسی طرح خود سے الگ کر دیا تھا جس طرح زرینہ کو خیر باد کہا تھا۔ اس کی بڑی بیٹی جو ایک نامی وکیل بن چکی تھی اور اس کے مقدمے کی پیروی کرنا چاہتی تھی ، وطن آئی بھی لیکن قدیر نے نہ صرف اُس کی اس پیروی کو رد کیا بلکہ اس سے ملاقات بھی نہ کی۔ اس کے مقدمے کی تمام کارروائی سرکار کی طرف سے مقرر کردہ وکیل نے ہی بھگتائی تھی۔
پھانسی سے ایک روز قبل وارڈن کے ہمراہ جیل پولیس کے دو اہلکار اس کی کوٹھڑی میں آئے اور اسے ساتھ لئے جیلر کے کمرے میں لے گئے۔ جیلر نے اسے بتایا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اگلے روز پو پھٹنے پر اسے پھانسی دے دی جانی تھی اور یہ کہ وہ اپنی آخری خواہش بیان کرے تاکہ
اسے پورا کیا جاسکے۔ قدیر نے جیلر سے استدعا کی کہ اس کی ہتھکڑی کھول دی جائے اور اسے کاغذ قلم مہیا کیا جائے تا کہ وہ اپنی آخری خواہش تحریر کر سکے۔ جیلر نے اس کی درخواست قبول نہ کی اور
بولا:
تم بولو، میری محررا سے لکھ لے گا اور تم سے انگوٹھا لگوا کر دستخط بھی کروا لے گا ۔” اس نے جو لکھوایا وہ یہ تھا؛
میں ایک اشترا کی ہوں، کسی مذہب کا پیروکار نہیں ہوں ۔ میری آخری خواہش ہے کہ؛ میرے پاس کسی مولوی ، پادری یا ند ہی نمائندے کو نہ بھیجا جائے اور نہ ہی ایسا کوئی مذہبی نمائندہ اس وقت میرا ہمراہی ہو جب مجھے پھانسی کے لئے لے جایا جائے۔ میرے کلبوت کو نہ تو کسی کے حوالے کیا جائے اور نہ ہی کسی مذہبی رسم کے ساتھ جوڑا جائے اور اسے اس وقت تک نذر آتش کیا جائے جب تک یہ مکمل طور پر سرمئی راکھ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
… میرے کلبوت کی اس راکھ کولا ہور کے نواح میں واقع سائفن کے اس مقام پر بہایا جائے جہاں سے پانی بی آر بی نہر میں داخل ہوتا ہے تا کہ یہ کھیتوں میں جا کر میرے جنم بھوم کا حصہ بن سکے۔“
محرر نے یہ سب لکھتے ہوئے کئی بار اس کی طرف اچنبھے سے دیکھا اور بجائے اس سے دستخط کروانے اور انگوٹھا لگوانے کے لکھا بیان، جیلر کے سامنے رکھ دیا۔ جیلر ، وارڈن اور کمرے میں موجود دیگر اہل کار اُس کے اس بیان پر حیران تھے۔ باریش جیلر کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اور دانت پیستے ہوئے تفصیلی نظروں سے وارڈن کو اشارہ کیا کہ وہ قدیر کو واپس لے جائے ۔ قدیر کو واپس لے جاتے ہوئے وارڈن سوچ رہا تھا کہ اشترا کی کون ہوتا ہے؟ کیا یہ خدا کا منکر ہوتا ہے؟ کیا وہ خود کو دفن کروانے کی بجائے
جلوانے کی خواہش کرتا ہے۔۔۔؟
قدیر کو کوٹھڑی میں پہنے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ جیل کا ڈاکٹر وارڈن کے ہمراہ اندر داخل ہوا اور اس کا سرسری طبی معائنہ کر کے واپس چلا گیا۔ ابھی رات بھیگی نہ تھی کہ اس کی کوٹھڑی کا قفل پھر کھلا اوروارڈن اندر داخل ہوا۔
تمہیں صبح پھانسی نہیں دی جارہی ، جیلر صاحب نے اس کی معطلی کا حکم نامہ حاصل کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق تمہارا ذہنی توازن درست نہیں ہے، پہلے اسے درست کرنا ہوگا۔ “، وارڈن نے کہا۔
اگلی صبح چھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑے قدیر کو جیل کی گاڑی میں بٹھایا گیا اور کڑے پہرے میں ذنی امراض کے ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا جہاں ساز زندگی کی ایک نئی دھن اس کی منتظر تھی۔