صاف دماغوں والی/جاتک کہانی۔۔۔محمود احمد قاضی
صاف دماغوں والی
(جاتک کہانی)
محمود احمد قاضی
میونسپلٹی کلرک رشید اپنی سیٹ پر کام کرتے ہوئے جب تیسری بار اونگھا تو ہیڈ کلرک دھاڑا۔ رشید، ہوش کرو اور اپنے کام کی طرف توجہ دو، کیا تم رات بھر جاگتے رہے ہو۔ شادیاں ہماری بھی ہوئی تھیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۔۔۔۔ اس کے کولیگ ہنسنے لگے۔
سوری سر۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اصل میں جب سے میں نے دوسری ٹیوشن پکڑی ہے تو رات کو دیر سے گھر پہنچتا ہوں اس لیے نیند پوری نہیں ہوتی۔
رشید۔ یہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے۔ دفتر کو تو کام چاہیئے۔ نکمے لوگ مجھے ویسے بھی پسند نہیں۔ سروس میں رشید کو پہلی بار یوں سر عام سارے سٹاف کے سامنے جھاڑ پڑی تھی۔ وہ شرمندہ ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر باہر گیا۔ اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور دوبارہ کام میں جت گیا۔
ایک کولیگ نے کہا ہمارے گروپ میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے۔ خود بھی عیش کرو اور بچوں کو بھی کراو۔
ناممکن وہ بولا۔
پھر تو یہ سب کچھ تمہیں بھگتنا ہی ہے۔ بھگتو۔
جب سے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی بیوی کی چھاتیوں میں مناسب مقدار میں دودھ نہ اترنے کے باعث اسے بچے کو ڈبے کے دودھ پر لانا پڑا تھا۔ خرچہ بڑھ گیا تھا اور گزاراہ مشکل تھا۔ اس لیے وہ دوسری ٹیوشن کی طرف آ گیا تھا۔
وہ ایک بھرے پرے گھر کا فرد تھا۔ اسے ماں باپ کے علاوہ پانچ بہن بھایئوں اور اپنے سمیت اب بیوی اور بچے کا معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ اس بوجھ نے اس کی کمر دوہری کر دی تھی۔ سارے گھر والے اس کی کم آمدنی کا رونا رو رہے تھے۔ پوری نہیں پڑ رہی تھی۔ سب سے چھوٹے بھائی نے جس کی عمر پندرہ سال تھی اور نویں جماعت کا طالب علم تھا اچانک سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ آوارہ لڑکوں کے ساتھ سارا دن گلی میں کنچے، کوڑیاں اور اخروٹوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ گھر میں اس کے بھائی کے حوالے سے اور طرح کی شکایات بھی سننے میں آنے لگی تھیں۔ وہ جتنی وضاحتیں پیش کرتا اتنا ہی شک کے دائرے میں آ جاتا۔ سب کچھ کا ذمہ دار اسے ہی ٹھہرایا جا رہا تھا۔ بلکہ آخری تان جو ٹوٹ رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب سے اس کا بیٹا پیدا ہوا تھا تب سے خرچہ کنٹرول سے باہر ہوا تھا۔ اس کے دوسری ٹیوشن پکڑنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے گھر والے اس سے خوش رہیں لیکن کس طرح ؟ وہ جان نہیں پا رہا تھا۔
ایک دن جب وہ پورے ہفتے کی پوری نہ ہونے والی نیند کے بعد جاگا تو اس نے دیکھا کہ ایک طرف ایک پنجرہ پڑا تھا۔ اس میں صاف دماغوں والی چہک رہی تھی۔ اس نے چھوٹے بھائی کو بلایا۔ اس سے پنجرے کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا یہ اسے اس کے ایک دوست نے تحفے میں دیا تھا۔
اور یہ ۔۔۔۔ اس نے پرندے کی جانب انگلی کی۔
یہ بھی گفٹ ہی ہے۔ ایک بندے کے پاس یہ تعداد میں خاصی ہو گئی تھیں۔ اس نے زائد سمجھ کر مجھے دے دی۔ وہ میرے اسی دوست کا ابا ہے۔
رشید اس کا جواب سن کر کسی حد تک مطمئن ہو گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جب سے یہ چہکنے والی گھر میں آئی تھی گھر والوں کا مزاج معتدل ہونے لگا تھا۔ اس کا پنجرے میں پھدکنا، ٹہلنا سب کو بھلا لگتا تھا۔ آتے جاتے وہ دیکھتا اور محسوس کرتا کہ پرندہ جب بھی چونچ کھولتا تو اس کی آواز مختلف ہی ہوتی تھی ۔ اس کے بولنے اور چہکنے کے انداز مختلف ہوتے تھے۔ دو درجن تک تو اس نے یہ اندازے گنے تھے۔ پر وہ تھک گیا اور صرف لطف اندوز ہونے پر اکتفا کرنے لگا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ صاف دماغوں والی زخمی تھی۔ اس کے ایک بازو اور سر سے خون رس رہا تھا۔ وہاں ایک قسم کی دوائی بھی لگی ہوئی تھی۔ وہ دکھی ہو گیا۔ اس نے بھائی سے پوچھا۔ میں اسے باہر لے گیا تھا۔ وہاں یہ اپنے ہم جنس سے مار کھا گئی۔ زخمی ہو گئی۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔ دوائی لگا دی ہے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گی۔
اس نے یہ جواب دیا اور چلا گیا۔ وہ سمجھ رہا تھا بھائی نے اسے ٹرخا یا تھا۔ وجہ شاید کوئی اور تھی۔ گھر والوں سے پوچھا وہ بھی ٹال گئے۔ مگر وہ مطمئن سے دکھائی دیے جیسے انہیں کوئی غیر متوقع نعمت مل گئی ہو۔ والد کے حقے کی گڑ گڑ میں تیزی تھی ۔ والدہ کی نمازوں کے سجدے قدرے لمبے ہو گئے تھے۔ وہ سبزی لینے کی غرض سے گلی کی جانب آیا تو اسے ایک بندہ ملا۔ اس نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اب تو آمدنی خوب بڑھ گئی ہو گی۔ میں سمجھا نہیں، اس نے کہا۔ وہ شخص معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پرے چلا گیا۔ گھر آ کر اس نے کریدا۔ پتہ چلا کہ چھوٹا بھائی صاف دماغوں والی کو دوسری ہم جنس سے لڑا کر شرط جیت رہا تھا۔ اس کے برا منانے پر والدہ نے کہا ۔ تو اس میں برائی کیا ہے۔ تم جتنا ایک ماہ میں کماکر لاتے ہو وہ ایک ہی ہلے میں بٹور لیتا ہے۔ وہ غم زدہ ہو کر اٹھا کہ سب ہی بے حس بنے اس زائد آمدنی پر رضامند ہو گئے تھے۔ اس نے پنجرے کی جانب دیکھا ۔ اسے بھائی کی بر بریت پر شرم آئی۔ وہ معصوم پرندے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
رات کو جب سب سو رہے تھے وہ چپکے سے اٹھا۔ اس نے پنجرے کا دروازہ کھول کر پرندے کو اڑا دیا۔ وہ بستر پر آ کر لیٹا تو مطمئن تھا جیسے اس کے سینے سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ اگلے دن اس نے ایک تیسری ٹیوشن پکڑ لی۔