جمالیات و رجایئت میں لگا ڈر کا خیمہ ۔۔۔تنویر قاضی
جمالیات و رجائیت میں لگا ڈر کا خیمہ
شہناز پروین سحر کی شاعری کی کتاب ,ایک اور آخری دن,کے تناظر میں
…………………………………………………………………………
بھیتر کوئی ڈر ہے.
جو, ایک اور آخری دن, کی جمالیات و رجائیت میں اضافہ کرتا ہے.
یہ ڈر زرا اور طرح کا ہے کہ جو شاعرہ کو اگلے قدموں کھیلنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے. محاذِ حیات کے بارود کی بُو میں سانس لینا سہل نہ تھا سو گرد آلود روئیں روئیں کو رجائیت زدہ یادوں سے عطر بیز رکھا گیا..منیر نیازی نے کہا تھا ,ڈر, نے بِلّی کو شیر بنا دیا تھا.
یہ
وہ
ڈر
ہے
جو شہباز پروین سحر نے پال رکھا ہے.,اتنا ڈر ضروری بھی ہے.اسی خوبصورت ڈر کی بنا پر یہاں خوف زدہ ہونے کی بجائے جمالیات و رجائیت نے خیمے گاڑے. اسی ڈر کے بھیتر سے شاعرہ کا خواب حصے کی نیند مانگتا ہے اور نیند کے لئے آنکھ چاہیئے.ڈر کی ونگی دیکھیں.
خود بنا لیتی تھی میں تو اپنی سب گڑیوں کے گھر
مجھ سے کیوں میرا گھروندا بن نہ پایا عمر بھر
سانس کی حدت سے رُخ کی چاندنی سنولا گئی
سانپ کی پُھنکار سی ہے زندگی کی رہگزر
زندگی کو یوں ہوائیں تھام کر چلنا پڑا
باندھ کر آنکھیں چلے رسی پہ جیسے بازیگر
کہا اجالوں پہ دسترس ہے کہا کہ اب چاند پر بھی بس ہے
کہا وہ میرے سبھی ستارے اک اور چُنری میں ڈال دے گا
ہم ترے دل کے مہاجر ہیں ہمیں حوصلہ دے
آخری بار جو کہنا تھا وہ سب کہنے دے
اس ڈر میں پسپائی کہیں نہیں دکھائی پڑتی..گھاؤ ہیں پر ایک رفو گری سی بیچ اپنی ہی روٹیشن میں ہوتی محسوس ہوتی ہے.
اوپر تلے ہیں سنگِ حیات اور سنگِ مرگ
چکی کے دونوں پاٹ میں جا دی گئی مجھے
دریا کو کس کے ہجر نے پامال کر دیا
پھر چاند رات میں اُٹھی دیوانگی کی لہر
اک خوف اُتر رہا تھا سحر دل کے آر پار
میں ڈر گئی تھی دیکھ کے پرچھائیوں کا رقص
چہک پرندے کی کلکار ننھے بچے کی
وہ اپنے جبر سے سب کی زبان باندھےگا
کیا پتہ کب جدائیاں آ لیں
آئینے میں بھی آج دھمکی ہے
یہاں سیاسی دشمنی میں بچوں کو بھی پرندوں کی طرح نشانہ بنایا گیا..ان پر آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے..انہیں گھسیٹا, اچھالا اور پٹخا گیا..گولیاں برسائی گئیں.ماڈل ٹاؤن لاہور اور اسلام آباد کی تصویریں اور سی سی ٹی وی کیمرے گواہ ہیں.
خوف کے کچھ اور پیرائے سایہ سایہ اس شاعری کا جزو بنتے گئے ہیں جنہیں بہت جدید اور منفرد طریق پر برتا گیا یعنی سرایت کرتا ڈر بھی رَس رکھتا ہے.جو جمالیات و رجائیت کا عکس بھی ہے..
اب مجھے کیل سے لٹکنا ہے
پینٹنگ سی بنا رہا ہے مجھے
برف پہ اپنے نام کُھدے ہیں
سر پر سورج آن کھڑا ہے
جسم ہیں قبر کی حراست میں
روح آزاد ہے دفینوں میں
کھلونے میں دھماکے کی خبر ہے
مگر بچہ بہلنا چاہتا ہے
طشتری میں طلائی خنجر تھا
لاش دلہن کی تھی چٹائی پر
یہ ہماری ایک بہت اہم شاعرہ کی شاعری کی کتاب ہے.
ولی دکنی سے اگر شروع کریں تو غزل کے تناظر میں میر,غالب,فیض,منیر,ناصر اور شکیب سنبھالے نہیں سنبھلتے,نظم کے زمرے میں نظیر سے ثروت حسین تک اور پھر ڈاکِٹر وحید احمد,سعید الدین, نصیر احمد ناصر اور فیصل عجمی تک اکیسویں صدی نظم کی ہو کر رہ جاتی ہے..
جدید اور جدید تر شاعری کے قافلے میں فیض..میرا جی..ن م راشد..مجید امجد..اختر حسین جعفری.. محمدسلیم الرحمن..فہمیدہ ریاض..کشور ناہید..شہناز پروین سحر.. نسرین انجم بھٹی..سارہ شگفتہ..یاسمین حمید..پروین شاکر..عدیم ہاشمی..صابر ظفر..اقبال ساجد..سلیم کوثر..نجیب احمد..خالد احمد..غلام محمد قاصر شامل ہیں
,پنجاب رنگ, سلکھنا ہے سوگندھی بھرا ہے پر تھوڑا ہے چلیں تبرک سمجھ لیتے ہیں پر ہمیں زیادہ شاعری چاہیئے تھی اتنی. رواں اور سچجی شاعری پنجابی کی. ڈر کی لہر یہاں بھی برا جمان ہے. یہاں ,مہاندرے گواچن دا عذاب, گیند کی شکل اختیار کر کے رُلا گیا..یہ گیند ہے یا صدیوں کا پیچھے لگا ڈر. اور پھر دل کی خواہشوں کے چِھجدے لباس ڈھکنے کا دھڑکُو بھی تو بے چین کئے دیتا ہے..
اوہدےناں دیاں ساریاں ٹہناں وارو واری پگ گءیاں
ساڈی واری آؤندیاں آؤندیاں گیند گواچا ہانی دا
کچا رنگ تے کچے تاگے کچی ہر اک تند سحر
چِھجدے جاون ہولی ہولی لیڑے دل دیاں چاواں دے
نظموں میں بھی اوپری سطح اور وریدوں بھیتر ہراس نے پر پھیلا رکھے ہیں. بلکہ فضا کو پوری طرح حراست میں لے رکھا ہے.تشدد آمیز,ایک ڈر بلینڈڈ نظم دیکھتے ہیں.
,ایک اور آخری دن,
,,ان پڑھ
جاہل
گھامڑ عورت
تیرے ساتھ اب ایک بھی پل
میں نہیں رہوں گا
ابھی خریدوں گا اشٹام اور
آج ہی ہو گی لکھت پڑھت سب
آج یہ قصہ
ختم سمجھ لے
تیرے بعد تو جو بھی آئی
تجھ سے زیادہ بہتر ہو گی
میرے ساتھ یہ
آج ترا
بس آخری دن ہے.,,
بائیوگرافک نظمیں شہناز پروین سحر کا یونیک کام ہے.لیکن یہ نظمیں بھیتر سے باہر کی مسافت میں سیّارے کے سبھی مانسوں کی دوریوں کی کہانیاں ہیں.سمندر پار کی یا شہرِ خموشاں کی دوریاں..,میرے پیا گئے رنگوں, نظم میں جھانکتے ہیں. یہ نظمیں والدین یا سینیئر سٹزنز کے حوالے سے سبھی کی ہیں.
,,چھٹی والا دن ہوتا تھا
میں,ابو
اور ابو کے پالے ہوئے کبوتر
خوب کھیلتے
اگلے دن جب ابو اپنے دفتر جاتے
ایک کبوتر
اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ کر لے جاتے تھے
اور پھر جب کچھ دیر گزرتی
وہی کبوتر
گھر کی منڈیر پہ واپس اُڑ کر آ جاتا تھا,,
,,تو جب اپنے گھر جائے گی
وہاں بھی ایک کبوتر
روز آئے گا,,
,, ماں ……وہ اُجلا
اور سنہرا پنچھی
شوکمار بٹالوی والا
شکرا تھا
لیکن تم کیسے سمجھو گی
ماں
تم نے تو شکرا پڑھی نہیں ہے
میں نے خود پر
جھیلی ہے,,
,کسیرا بازار, نظموں کی نظم ہے.ایک بڑی نظم ہے. کسمپرسی و پائمالی کو کیسے بنت میں ڈالا گیا..یہ نظم ایک رہتل بہتل کے بکھراؤ کا آغاز ہے اور کتنا سنگین ہے.یہ دھرتی وسیب کے تناظر میں قرأت کرتے نیندیں خراب کرنے والی ایک خطرناک نظم ہے..زیور بک جانے کا دھڑکُو اور بیماری ایک ساتھ حملہ آور ہیں
,,ابو کا اک اک پیسہ
میری بیماری چاٹ چکی تھی
اور اب امی کے زیور بھی
بکنے لگے تھے
امی کے زیور ہی کیا تھے
کچھ تانبے کچھ پیتل کے چمکیلے برتن
گھر میں سجے ہوئے وہ جھلمل برتن
چھوٹی سینیاں…..بڑی سی سینیاں
دیگچیاں جگ
اور گلاس
بڑی سی پیتل کی گاگر تھی
گڑوی,لوٹا,پاندان
نقشین کٹورے
عطر دان گلدان
پراتیں اور رکابیاں
چند صراحیاں
یہ سب برتن
ماں کو اپنے زیور جیسے ہی لگتے تھے,,
وہ غزل اور نظم یکساں دسترس سے کہتی ہیں پر یہاں نظم کا پلڑا بھاری ہے.اور پھر یہ صدی بھی نظم ہی کی ہے آہستگی سے غزل ایک مشق بن جائے گی شاعری سے پہلے کی کہ نظم ہی گلوبل ولیج میں ترسیل کا کام کرتی ہے غزل کینوس چند منطقوں تک محدود ہے.
ان نظموں میں بھی قدرِ مشترک ڈر کی پرچھائیں ہے جس نے چہار اطراف سے گھیر رکھا ہے. ڈر کی لہر,ایک اور آخری دن ,کی وساطت سے ہمیں جگاتی ہے Alienation سے باہر آنے میں مددگار ہے
ان نظموں کا کھلا پن وسیع تر امکانات رکھتا ہے اسی کی بنا پر اس کتاب کی غزل کا رچاؤ فیسینیٹ کرتا ہے اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے یہ نظم کی دین ہے..
فیض..منیر نیازی..خورشید رضوی..افضال احمد سیّد..سرمد صہبائی..سعید الدین..نصیر احمد ناصر..وحید احمد اور دوسرے معتبر شاعر نظم کی ہی بنیاد پر اچھے غزل گو بھی ہیں.
,نہ کر میریاں مینڈھیاں مائے,
,,کل جب تم صبح اُٹھو گی
بال تمہارے گھونگر گھونگر ہو جائیں گے
کیا بلکل ایسے
میں نے خوشی سے ماں کی لٹ کو چوم کے پوچھا
ان سے بھی اچھے
نہیں نہیں
ان سے اچھے نہیں ناں ناں
بس بلکل ایسے
آگلے دن جب مینڈھیاں کھولیں
میرے بال بھی ماں جیسے تھے,,
یہاں تک جب میں نے یہ نظم پڑھی تو لگا,ایک اور آخری دن, پر چھایا ڈر کافور ہو چکا تھا..
پھر کُھلے بالوں لوگ دھمال میں آتے جاتے تھے.
بیگانگی کی چادریں اُتر رہی تھیں ڈر نے بِلّی کو جیسے شیر بنا دیا ہو..
تنویر قاضی شہرِ نظم سے