مور کو ناچنے دو ۔۔۔ ممتاز حسین

مور کو ناچنے دو

ممتاز حسین

کی۔۔۔۔۔۔۔واہ ۔۔۔۔۔آ۔۔واہ ۔۔۔۔ کانو ں کو چیرتی ہوئی  بلند آواز  نے میجر  حارث  کو پریشان کر دیا  یہ  آواز  بار بار آرہی تھی ۔ ایسے لگ رہا تھا   کہ جیسے  کوئی انسان مدد کے لیے پکار رہا ہو اور رو رہا ہو۔میجر حارث نے ذرا کانوں پر زور دیا اور غور سے آواز کو  سننے کی کوشش کی تو بہت ہی ہائی پچ  میں ۔۔۔ می آوں ۔۔۔ میو ۔ جیسے بلی بہت زور سے، لمبی  آواز سے  رو رہی ہو۔  یہ آواز بار بار آ رہی تھی اورایک تال میں آ رہی تھی،  آواز  میں  ترنم  اور آہنگ کے ساتھ  یکسانیت تھی۔ جیسے پانی  میں کشتی   نازک ہچکولوں  سے پانی  میں ہی سو گئی ہو۔ آ واز بلند   تھی، ایسا  لگ  رہا تھا کوئی  ضرورت مند          اپنی لاچاری میں مدد کے لیے  پکار رہا ہے اور بہت ہی تکلیف میں پھنسا ہوا ہے  ۔

اس کے ساتھ ہی کچھ پھڑپھڑانے   کی آواز  نے  میجر حارث کواور بھی پریشان کر دیا اور وہ اپنے بٹ مین کو آوازیں  دینے لگا ۔’’ غلام  رسول ۔ غلام  رسول  ۔ تم یہ آواز سن رہے ہو۔  یہ کس کی آواز ہے ؟۔   غلاام رسول  نے   بےاعتنائی  سے جواب دیا  جیسے کوئی فکر  کی بات نہ ہو   جسے  وہ آواز سن کر اس کے  مزاج   میں  ایک گنگناہٹ  سی  پید    ا ہو رہی ہو ۔ اس کے چہرے پر شادابی جیسے اس کی  بیوی مہ رنگ  کا خیال اس کے چہرے  کو پھول کی مانند کھلا دیتا ہو ۔

’’سر یہ  مورنی ہے ۔ بہار کا موسم ہے!، وہ تو اپنے ساتھی کو یاد کر رہی ہے ‘‘۔  میجر حارث  نے حیران ہو کے  پوچھا  ’’تمہیں سمجھ  آ جاتی ہے کہ مور ہے یا مورنی  اور وہ کیاکہہ رہی ہے‘‘۔غلام رسول نے بڑے وثوق سے جواب دیا ،’’سر ایک ایک لفظ  کی سمجھ آ رہی ہے ،‘‘ تو بتاو ‘‘   ۔ غلام رسول نے گنگناتے ہوے جواب دیا ’’ تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آوں گا۔ لوٹ آو  میرے  پردیسی بہا ر آئی ہے‘‘

مورنے  اپنے پر پھڑ پھڑاے  اپنی پونچھ  کے پروں  کو ایسا  پھیلایا جیسے کوئی شاطر جواری   تاش کے پتوں کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی انگلیوں سے پتوں کا  پھول بناتا ہے ۔ مورنی نے  مور کی پونچھ پر  بکھرے ہوے تاش کے پتوں  میں پان کا بنا ہو ا  دل ڈھونڈھنا شروع  کر دیا ،مور نے  پان کے پتے کے بعد  یکا  پونچھ  سے پھڑ کی   آواز کے ساتھ نکالا تو مورنی  کے دل کی دھڑکن نے دھک سے اپنی آنکھوں کو موند لیا جیسےجیسے بادشاہ وزیر کے پتے  پھڑ پھڑ  کی آواز کے ساتھ نکالتا جا رہا تھا۔ اس کی پونچھ پر کھلی ہوئی آنکھوں نے باہر نکلنا شروع کر دیا اور مورنی نے ان   کو گننا    شروع   کر دیا ،مورنی مور کے بکھرے پتوں  سے  بازی کھیلنے لگی۔  مور نے   جب پان کے پتے کے بعد  یکا   پونچھ  سے پھڑ  کی آواز کے ساتھ زور سے  نکالا  تو مورنی  نے ملکہ کا پتہ  آگے  کر کے مور کو اپنا بادشاہ تسلیم کر  کے  رضا مندی   ظاہر کرنے لگی  کہ تجھ کو میرے جسم پرپورا اختیا ر ہے   تو میرے سریر  کا مالک ہے تو ہی میری حفاظت کرسکتا ہے  اور تیری پونچھ  کے پروں پر جتنی آنکھیں  کے پھول ہیں  اتنا ہی   تو  مورانہ وجاہت کا حامل ہے  تو دنیا  کا خوبصورت  مور ہے ۔ میں  تیرےبچوں  کی ماں بننےکا رتبہ حاصل  کرنے میں فخر محسوس کروں گی۔

مورنی زمین پر بیٹھ گئی اور مور نے پیچھے سے آ کر مور نی کی گردن  کو دبوچ لیا ۔

مور اور مورنی بہت خوش تھے  دونوں نے اپنی گردنوں کو  ایک دوسرے کی گردن  کے گرد ایسے لپٹا  دیا جسے  کوئی چاہت کے ریشم کی ڈوری  سے رسی   گوندھ  رہا ہو ۔ دونوں نے اپنی چونچوں سے  ایک دوسرے کےبوسے لیے ، جیسے  محبت کا فطری  جزبہ صرف انسانوں  میں ہی نہیں  جانوروں،  پرندوں میں  بھی ہوتا ہے ۔ میجر حارث نے غلام رسول کو اس کے خیالات سے باہر نکالنے کے لیے  پوچھا 

’’تم تو  ایسے باتیں کر رہے ہو جیسے تم نے   حیاتیات میں پی ایچ ڈی  کی ہوئی ہے ‘‘۔   غلام رسول نے جواب دیا  ’’ سر میں چاغی    گاوں کا باسی ہوں اور یہاں پلا بڑھا ہو ں موروں سے ہم اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا ہم اپنی محبوبہ سے ۔ پورا چاغی گاوں ان کی حفاظت  کرتا ہے اپنے حصے کا کھانا انہیں کھلاتا ہے ، یہ تو ہمارے علاقے کو حسن ہے جیسے ہمارے علاقے کی حسین عورتیں   چاپ ناچ  ایک دائرے میں ناچتی ہو ں یہ ویسے  ناچ کرتے ہیں ۔ ہمارے پرکھوں کی روحیں ان موروں میں ہیں ۔ میرے والد صاحب  بہت ہی  خوبصورت جوان تھے  وہ جب بھی میری والدہ کو دیکھتے تھے وہ  موروں کی طرح پیلاں ڈالتے تھے ناچتے تھے میری والدہ ان سے بہت پیار کرتی تھی ۔ سر اس چھاونی کے پیچھے جو میدان ہے  اس میں ایک  موروں کا جوڑا رہتا ہے ، ان کی عادات  بالکل میرے ماں باپ جیسی ہیں جب بھی وہ مجھے دیکھتے ہیں  مجھے ایسے لگتا ہے میرے ماں باپ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ چاغی کا کوئی بھی جوان ان موروں کو  نہیں پکڑتا  حالانکہ آپ کو پتہ اس علاقے میں کتنی غربت ہے لوگوں  کے  پاس کھانے کو روٹی نہیں لیکن  کبھی سوچ بھی نہیں سکتے  ا پنے ماں باپ کو بیچ کھائیں گے ، یہ تو  باہر سے چور کے بچے آتے ہیں    چوری کرتے ہیں ہم تو ان چوروں کو قتل کر دیتے ہیں ۔ سر یہ مور ہمیں دعا دیتے ہیں ہمارے بچوں کو ان کی دعا سے شفا ملتی ہے ۔سر مور ناراض ہو جاہیں تو چاغی کے لوگوں پر کوئی بیماری یا آفت ضرور نازل ہوتی ہے  یہ ہمارے  لیے خوش قسمتی کی علامت ہیں ۔

میجر حارث نے پوچھا آ پ لوگ مور کو نہیں کھاتے نہیں صاب یہ ہم پر حرام ہے  ۔ میجر حارث نے جواب دیا  لیکن اسلام   میں تو  یہ حلال  ہے  اور تمہیں پتہ ہے اس میں کتنی زیادہ  پروٹین  ہوتی ہے  مور کا گوشت  وٹامن بی  چھ  اور بی بارہ  کے علاوہ پوٹاشیم سے بھرپور ہے اور سب سے اچھی بات  کلوسٹرول کا   لیول ہمیشہ نیچے رکھتا ہے ۔

غلام رسول  کو میجر حارث  کو باتیں ناگوار  لگنے لگیں ۔ ’’صاب  ہمیں  نہیں پتہ کہ اس کے گوشت میں کتنی طاقت ہے اور  یہ مرد یا  عورت کے رانوں  میں  کتنی آگ بھڑکا  دیتا ہے۔ کیا چوری کے مور پر بھی یہ تکبیر پڑھ کر حلال کرے گا  یہ  کہاں کا حلال ہوا۔   انسان کے گوشت میں بھی بہت طاقت ہو گی ۔ کیا آپ اپنے  باپ کا گوشت کھا  لیں گے‘‘۔

 میجر حارث کا منہ یہ سن   کر  سرخ ہو گیا ۔ تمہیں پتہ ہے تم  کس سے بات کر رہے ہو ۔ اگر  مجھے تمہاری ضرورت نہ ہوتی کہ تم چاغی کے واحد باشندے   ہماری یونٹ میں بٹ مین ہو ہم تمہیں کھڑے کھڑے نوکری سے نکال باہر کرتے۔

صاب ہم زیادہ بحث میں   نہیں پڑتا آ پ میرے افسر ہیں  میری عزت کا مقام ہیں  آپ خود  اندازہ لگایئں    ۔ آپ کو اپنے والد  کا سن کر   کتنا    غصہ آیا ہے  جو بھی  اگر ان کا گوشت کاٹ کھائیں گے تو ہم ا س کا گوشت چیلوں کووں گِدھوں  کے آگے ڈال دیں ۔ ہمارے یہ مور مورنیاں ماں باپ ہیں     اور  آپ ہمارے علاقے  سے معدنیات گیس سونا جو مرضی  نکالیں  ہم  کچھ نہیں   کہیں گے لیکن ہمارے پرندں کو گالی مت  دیو ہم  ان سے بہت محبت کرتا ہے ۔

میجر صاحب کو سمجھ  آ گیا   اس  گنوار سے موروں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہیے ۔ اس دن سے اس کے دل میں موروں  سے ایک نا انجانی سی  نفرت پیدا ہوگئی ۔ یہ تو کفر ہے  جو یہ سمجھ  رہا ہے ۔    یہ کم  عقل لوگ   پروندوں کو  ماں باپ  اور اپنا دیوتا مانتے ہئں ۔

کچھ دنوں کے بعد  غلام رسول بہت ہی جوشیلے  انداز میں بھا گتا  باگتا آیا  ۔ ’’ صاب خوشخبری ہے  موروں کے جوڑے  نے  انڈوں   دیے ہیں   اور مورنی مان بن  کر  موروں کے انڈوں  کی حفاظت    کر رہی ہے ‘‘میجر  حارث اس  کی اس خوشخبری  کا کوئی جواب دینا نہیں چاہ   رہا تھا ۔  لیکن اس  کو طعنہ  دینے  کے لیے     دبی مسکراہٹ  سے کہا ’’ پھر تو ان موروں  کے بچوں   میں تمہاری یا تمہاری بچوں کو روحوں ہوں گیں کیونکہ ان  مورو  ں  کے والدین  تو تمہارے  ما ں باپ  ہیں۔  انگریزی میں  دوسری  طرف منہ کر کے ہنسی کو روکتے ہوے ’’ خیال رکھنا  کہیں تمہارے بچوں    کی پیٹھ  سے پر نہ  نکل آیئں ‘‘

غلام رسول  کوانگیریزی  کی سمجھ  نہ آئی اور جواب دیا ’’ جی بالکل  مجھے بھی یہی  لگتا ہے ۔   میجر  حا رث  نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’ دیکھو ا پنی فیملی اور پرندوں کی باتیں  اپنے پاس رکھو   اور ڈراہیور سے کہو   تیا ر ہو جاے  ہمیں  جگہ کے معا ئنہ  کے لیے جانا ہے ‘‘ غلام رسول نے  مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کہا ’’ جو حکم سرکار۔ میری ضرورت ہے تو میں بھی تیا ر ہو  جاتا ہوں‘‘   میجر  نے سوچتے  ہو ے جواب دیا ’’ ہم ٹیم کے ہمراہ  جا رہے ہیں کیونکہ تم  یہاں کے رہاشی ہو تو کوئی حرج نہیں   لیکن خیال  رہے بہت ہی خفیہ  مشن ہے ‘‘

میجر حارث  نے   پوری ٹیم کے سا تھ  کوہ کیمپر روسکوہ     اور  چاغی کی پہاڑیوں  کا  معاہنہ کیا اور ساری گفتگو کو انگریزی میں رکھا اور پوری ایک لمبی  چوڑی  رپوٹ بنا کر  اعلیٰ حکام کو بھیج  دی ۔ غلام رسول کو کچھ معلوم نہ تھا کہ اس کے علاقے کے ساتھ کیا  ہونے والا ہے ۔ وہ معصوم  اپنی  نوکری کو پکی کرنے کو  بڑی جان فشانی سے اپنے چھوٹے سے پری وار اور موروں کے جوڑوں کی خوراک پوری کرنے میں دن رات ایک  کرنے میں لگا رہا۔

کچھ دنوں کے بعد چاغی کے پہاڑوں میں ایک ہولناک دھماکہ  ہوا۔ جیسے کراکاٹوا  جاوا  کے  مشرق میں آتش فشاں پھوٹ پڑا ہو ایک زوردار زلزلے  نے زمین  کو  ہلا کے رکھ دیا  ۔ دھرتی ماں  اتنے زور سے چیخی  جیسے اسے  کوئی بری طرح پیٹ رہا ہو ۔ کوہ کمپیر رس چاغی کے پہاڑ  ایک   تیز روشنی  سے چکا  چوند  ہو گئے یکدم ان پہاڑوں کا رنگ  سفید ہو گیا  ارد گرد کے درخت جل کر  راکھ  ہوگئے  بہت سارے جانور پرندے ایسے زمین پر  آگرے جیسے  آسمان سے پتھروں کی بارش  ہوئی ہو۔ زمین کے اوپر گھاس  جل کر ایسے  راکھ  ہو گئی  جیسے  کوئی  آگ پھینکنے والے   اژدھا  اپنے منہ کی ساری آ گ اگل کر   دھرتی ماں کو  آگ کے چولہے  میں چھونس دیا ہو۔ جھلسی ہوئی دھرتی ماں  پر حکو مت نے جشن منایا   اور ماں کے زخموں پر  یوم  تکبیر کا  جھنڈا  لپیٹ دیا۔  حکومت  کے لیے تو یہ کامیابی کا جشن تھا  لیکن چاغی کے باسیوں  کے لیے  یہ   یوم  سوگوار تھا۔ جھلسی ہو ئی دھرتی ماں  کے جسم پر   اسلامی بم کا جھنڈا  لہرا دیا گیا ۔  ملک دینا کے ایٹمی   طاقت رکھنے والوں ملکوں میں  ساتوں نمبر  پر آگیا لیکن  چاغی  کے رہا ئش کی اکثریت  خط غربت  سے نیچے ایسے پہنچی  جیسے وہ پتھر کے دور میں رہ رہے ہوں انہیں   بنیادی ضروریات  بھی  کم سے کم تر ہوتی گئیں  تعلیم کا فقدان   پینے کا پانی  نایاب ہو گیا  آپ ذرا  سوچیں  زمین کے سینے میں  سینتیس  ٹن نیوکلیائی  مٹریل ٹھونس دیا گیا ہو  جس دھرتی کے پہاڑ کالے رنگ  جو سب رنگوں کو اپنے  اندر سموے ہوے تھے  اس دھماکے  نے سب رنگوں کو  کو فضا        میں تحلیل  کر دیا وہی پہاڑ   اپنی خوبصورتی  کھو بیٹھے  بے رنگ  جو صرف سفید  رنگ رہ گیا  جیسے پہاڑ اپنے دکھ کی داستان اپنے  سفید آنسوں سے  سنا رہے ہوں ۔

زمین کی گہرائی   میں گڑھے سے لیک ہوے   نیو کلیائی  مادے کے اخراج  کا کچھ اثر حکومتی  کارکنوں  پر بھی  ہوا۔  جیسے ہی پہاڑ  سفید ہو ا  اس کی سفیدی  کا  اثر  میجر  حارث پر  الٹ   ہوا  ان کا رنگ  سفید ہونے کی بجاے سیاہ ہو گیا شاید  ان کے اندر کی کالک فطرت نے  چہرے پر مل دی  اور  کچھ نہیں تو  فطرت نے عبرت کا نشان  اسے بنا کر بھیج دیا ہو ۔ وہ بھی  دھرتی  کے غصے  کی لپیٹ  میں آیا  لیکن کیونکہ حکومت کے ماہر ڈاکٹروں  نے اس کی خاصی  دیکھ بھال کرتے رہے  اور اسے بچا لیا ۔ ’’ صاب ہمارا مور پربھی شعاوں کا ااثر ہو گیا‘‘میجر حارث کو غلام رسول پر بہت غصہ آیا جب وہ   ریڈیشن   کی حد میں   آنے والے   مور کو ا س سے زیادہ  فوقیت  دینے لگا۔ اسے دکھڑا سنایا کہ  صاب مردانہ مور  کے خوبصورت پر جھڑھنے شروع  ہوگئے ہیں  اور وہ کمزور ہونا شروع  ہوگیا ہے۔ مور    نی ماں     پروں میں چھپاے اپنے دو   بچوں     کی حفاظت کرتی رہی  اور دانہ دنکا  اور کیچوے  اپنی چونچ  میں لا لا کر اپنے  بچوں اور مور کو کھلا تی اور سب کی دیکھ بھال کرتی  رہی ۔

غلام  رسول بھی سب کے لیے کھانا لاتا اور   ان سے باتیں کرتا  رہتا اور  انہیں سمجھانے  کی کوشش کرتا یہ سب کچھ  اس دھماکے کی وجہ سے ہوا ہے اور ہم پر مصیبت کے پہاڑ  ٹوٹ پڑے ہیں ہم تو اپنا گھر بھی چھوڑ نہیں جاسکتے ہیں۔

مور کے سب پر جھڑ گئے اس کی جلد پر بڑے بڑے دھبے  پڑنے شروع ہوگئے اور وہ بیچارہ اپنی بینائی بھی  آہستہ آہستہ کھونے لگا  ۔ ایک دن مور نے بڑے دکھ سے  مورنی کو بتایا کہ مجھے اب کچھ دکھائی  نہیں دیتا نہ میں تمہیں دیکھ  سکتا ہوں  اور نہ ہی بچوں کو ۔ مور بالکل ایسے لگنے لگا  جیسے کڑاہی گوشت کی  دوکانوں  کے باہر   کڑاہی بنانے والوںچولہوں پر  باہر    مرغے  بغیر پروں کے لٹکے ہوتے ہیں ۔

مور نے مورنی سے وصیت کی  میرے مرنے کے بعد مجھے دفن ضرور کرنا  اس دھرتی پر  اسی جگہ پر جہاں ہم  پلے بڑھے  ہیں ہمارا ملاپ ہوا  ہمارے بچے  ہوے اسی جگہ پر  یہیں مجھے  دفن کرنا۔

ایک دن  آخر مور  نے اپنی آنکھیں موند لیں  جس سے اسے نظر آنا بند ہوگیا تھا ۔ مورنی نے اپنی مور کی وصیت  کے مطابق  چونچ سے زمین کھودنی شروع کر دی ۔ جب غلام رسول نے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ مورنی کیا کرنا چاہ رہی ہے ۔ فوراًغلام رسول گھر سے کھودنے والی کھرپی  سے زمین کھود کر مور کو  ایسے دفن کیا جیسے  کسی مسلمان مرد   کو دفن کرتے ہیں  اور  اس نے گیلی مٹی سے لیپ  کر ایک  ابھری ہوئی قبر بنا دی۔

مورنی ہر وقت قبر پر بیٹھی رہتی ۔ اس کے بچے بھی قبر کے ارد گرد  گھومتے اور کھیلتے رہتے ۔ غلام رسول بھی اپنی فیملی کی طرح ان کے لیے کھانا لاتا اور ان کا خیال رکھتا ۔

میجر حارث اپنے علاج کے لیے لاہور جاتا رہتا ۔  ریڈیشن کے  برے اثرات   سے تو تو ڈاکٹروں نے بچالیا لیکن اس کی کالی رنگت  وہ درست نہ  کر سکے  یا ڈاکٹروں نے  اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی  ۔ مشکل کام تو اس کی زندگی تھی جو انہوں نے بچا لی تھی ۔

ایک دن  جنرل ہیڈ کواٹرز  میں جنرل صاحب ملاقات پر  ا  نہوں  نے خواہش ظاہر کی آپ  تو موروں کے دیس میں   تعنیات ہیں  ہمارے لان   کی رونق بھی  کسی مور سے  دوبالا کر دیں ۔

میجر حارث  کو غلام  رسول سے  موروں کو دیوتا  بنانے والی گفتگو   دماغ  کی چکی میں گھومنے لگی  اور اس کے دانتوں میں   گیہوں کی مانند پیسنے لگی۔  ویسے  بھی اسے مورجوڑے  سے   نفرت    تھی جو وہ یہ سمجھتا تھا  اس جوڑے کی بدعا سے ہی اس ریڈیشن نے اس کے رنگ کو جلا دیا ہے ۔  نہ وہ   یہاں ہوں گے  اور نہ  ہی ان کی نحوست اس پر منڈلاتی  رہے گی ۔

ایک شام  خاموشی سے    میجر  حارث  نے  مورنی کو پکڑ کر  ا یک ڈبے میں بند کر کے  اپنی بیرک میں چھپا  دیا   اگلے ہی دن خود کرنل  صاحب کو   تحفہ اس امید پر  دینے چلا گیا  کہ اس کے سینے    فروٹ سیلڈ  کے رنگوں کے  فیتے  جو  مور کے پروں سے زیادہ خوبصورت نہیں تھے   ان میں اضافہ ہو جاے گا ۔

غلام رسول جب  مورنی کو کھانا دینے گیا  تو مورنی وہاں  موجود نہ تھی لیکن  مورنی کے بچے اس کے پاس بھاگے چلے آے  جیسے  التجا کر رہے ہوں ہماری ماں کو  ڈھونڈھ  کر لا دیں۔

غلام رسول کھیتوں میں پہاڑوں میں ہر جگہ  مور کی آواز نکالتا  جو وہ ہمیشہ اس جوڑے کو کھانے کے لیے بلانے کے لیے نکالا کرتا تھا  لیکن ناکامی اسے پتھروں  کے اوڑ  دانت نکالے دکھائی دیتی   اس کی  نظر جب بھی بچے موروں پر پڑتی  تو دل خون کے آنسو  روتا   اور وہ    یہی  ان سے کہتا کہ میں  وعدہ کرتا ہو ں میں تمہا ری ماں  کو   ضرور ڈھونڈ  لاوں گا ۔ اس نے  چاغی کا کونہ کونہ چھان مارا  لیکن مورنی کہیں نظر نہیں آئی ۔

ایک دن وہ میجر صاحب کے کپڑے دھوبی   کو دینے کے لیے اکٹھے کر رہا تھا ان کی وردی  کے کالر  میں  چھپا ہو ا ایک پر دیکھا غلام رسول نے پر جیب میں ڈالا اور بچے  موروں کے پاس لے گیا ۔ کیا دیکھتا ہے  دونوں بچے پر کو اپنی آنکھوں سے سے لگا رہے تھے۔ غلام رسول کو یقین  ہو گیا  کہ پر  تو مورنی کا ہی ہے اور اسے یہ بھی سمجھ  آگیا  کہ مورنی کو میجر حارث نے ہی کہیں غا ئب کیا ہے اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ وہ اس سے پوچھ بھی نہیں سکتا لہذا اس نے اپنے طور پر تفتیش شروع  کردی ۔

غلام رسول کے پاس میجر حارث کے سب بیجھ میٹس کا پتہ تھا   اور ا ن کے دوستوں کی لسٹ اکٹھی کی اور لاہور میں ان کے  گھروں میں چکر لگانے شروع کر دیے  کئی بیٹ مین بھی اس کے دوست تھے ۔ بس سراغ لگاتا  لگاتا ان گھروں کے پاس  پہہنچ  کر  اپنے گلے سے مور کی آواز نکالتا ۔

ایک دن  جنرل ہیڈ کواٹر    کے قریب کرنل صاحب کے گھر کے قریب ویسے ہی مور کی آواز میں گانا  گانا شروع  کر دیا ’’ آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت ‘‘ جیسے کوئی مور  اپنے  میت کو پکار رہا ہو مورنی نے اس کی آواز کو پہچان لیا   اس کے جواب میں مورنی نے بھی ویسی ہی آواز میں جواب ’’ترسیں گی کب تک  پیاسی نجریا‘‘    غلام رسول کی خوشی کی انتہا  نہ رہی  اور مورنی بھی اپنے پر پھڑ پھڑ اتی  ہوئی زمین  کے ساتھ  ساتھ اڑتی بھاگتی  غلام رسول کے  پاس آن پہنچی  دونوں ایسے گلے ملے جیسے برسوں کے بچھڑے دوست ملتے  ہیں۔  غلام رسول نے مورنی کو بغل میں دبایا اور چاغی کی راہ لی۔سیدھا  مور کی قبر پر پہنچا تو دونوں چھوٹے مور اپنے باپ کی قبر پر بیٹھے تھے ۔

جیسے ہی  مور کے گم ہونے کی خبر  کرنل   کو  ملی تو  اس  نے فوراً   میجر حارث کو ایک اور مور  بھیجنے  کو کہا  تو میجر حارث کو سمجھ آگئی کہ  مورنی کہاں ہو گی۔

غلام رسول کو پتہ تھا کہ میجر حارث ضرور یہاں آے گا لیکن وہ مورنی اور بچوں  کو مور کی قبر سے دور بھی  نہیں رکھنا چاہتا تھا  وہ دن رات  مورنی اور بچوں  کا پہرہ دیتا۔

 اگلے ہی دن میجر حارث مور کی قبر پر پہنچا   تو مورنی کو دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگیا ’’ میں تمہیں اب ایسی جگہ پہچاوں گا تم کبھی بھی وہاں سے واپس نہیں آسکو گی‘‘ میجر کے دماغ میں  گھومتے ان  مکالموں کا جواب غلام رسول   نے اونچی آواز میں دیا جسے  درختوں  پرندوں  اور چاغی کی پہاڑیوں نے  بھی  سنا     اور بار بار گونج پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس  آتی رہی’’ میجر صاحب میں آپ کو   وہاں پہنچادوں گا جہاں سے آپ کی واپسی ناممکن  ہوگی فطرت کو تباہ کرنے والے آتے جاتے رہیں  گے لیکن فطرت ہمیشہ وہیں رہےگی‘‘ غلام رسول کے ہاتھ میں  میجر حارث کی چرائی  ہوئی بندوق تھی  اس نے بغیر سوچے  میجر  حارث پر گولیوں کی  بوچھا ڑ کر دی  اس کے خون سے مور   کی قبر کو سرخ مٹی کا لیپ کر دیا۔

غلام رسول نے میجر حارث کی لاش کو  عین  نیو کلر  دھماکے سے پڑے ہوےگڑھے میں پھینک دیا   اور لاش کے اوپر  ایک بھاری پتھر  دھکیلتے ہوے کہا ’’ تم نے ہمارا سب کچھ چھین لیا ہئ لیکن ہمارے پرکھوں  کی روحوں کو  میلی نظروں سے کبھی نہ دیکھنا ‘‘۔

واپس آکر اس نےقبر پر  پانی سے خون کو صاف کیا  اور مٹی سے لیپ دی    ۔بندوق کی نالی کو فلترو سے صاف  کر کے اس پر سے سب نشانات  مٹانے کے بعد بڑی احتیاط سے اسی جگہ پر واپس  رکھ دیا۔

حسب معمول روز قبر پر آتا  مورنی اور بچوں کےلیے کھانا چھوڑ جاتا انہیں پیار کر کے یہ کہا ’’ اب تمہیں  کسی ظالم سے کوئی  خطرہ  نہیں ہے‘‘

مورنی بس مور کی قبر کے پاس بیٹھی رہتی بچے جوان ہو کر زہریلے سانپوں کو اپنی چونچوں سے  شکار کر کے کھا لیتے اور کئی کئی مہینوں  کے بعد لوٹتے  پھر انہوں نے بھی اپنی ساتھی مورنیاں ڈھونڈھ لیں۔ پھر وہ بھی آنا بند ہوگئے ۔

آہستہ آہستہ مور کی قبر سے ایک پودا نمو دار ہوا۔ پودا بڑا ہونا شروع ہوگیا  اور بڑھتے بڑھتے   ٹہنیاں اپنے پتے نکالنے کے قابل ہو نے لگیں۔

ایک دن غلام رسول اس پودے کو دیکھ کر حیران  رہ گیا کہ پتوں کی جگہ  مور کے نیلے رنگ کے سنہری  چمکیلے  پر   اگے  ہوے تھے۔ ہوا  سے وہ پر  بچھ  بچھ  جارہے تھے جیسے  مور مکھ ناچت ہو ۔     

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.