سرگوشیاں ۔۔۔ ناجیہ احمد

سرگوشیاں

ناجیہ احمد

اس روز خاموشی کچھ زیادہ ہی بول رہی تھی۔ خلیل کے اردگرد سرگوشیاں باتیں کر رہی تھیں۔ خلیل کو ایسا لگا کہ اب ہوا بھی ان سرگوشیوں کے ساتھ شامل ہو گئ ہے۔ ہر جھونکا ایک سرگوشی ایک سوال لیے خلیل کے آس پاس پھر رہا تھا۔خلیل کے اطراف صرف سرگوشیاں تھیں، جنھیں تنہائی میں سناجاسکتا تھا۔

پچپن کی دہائی میں داخل ہونے کے بعد نہ جانے کیوں زندگی درست اور غلط کی پہیلیوں میں الجھ جاتی ہے۔ جو زندگی گزار چکے ہیں وہ صحیح تھی یا جواب آرہی ہے وہ درست ہے؟ جو پا لیا وہ ٹھیک تھا یا جواب آنے والا ہے وہ ٹھیک ہوگا۔

ایک خاندان کا سربراہ ہونے کے ناطے خلیل کو روزگار کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ چھوٹا سا گھرانا تھا۔،حمیرا ایک گھریلو عورت تھی اور دو بیٹے تھے جن کو پڑھا لکھا کر اپنے گھر کا کر دیا تھا۔ بیٹے اور بہوؤیں آ کر مل جاتے تھے اور وہ خود بھی ان کو فون کر کے پوچھتا رہتا تھا۔ بیوی کی اپنی مصروفیات تھیں مگر اس کے باوجود بھی وہ اس کا خیال رکھتی تھی۔

ایسی کون سی بات ہے، ایسا کیا ہے جو کہ اندر ایک کھٹک کی مانند چبھ گیا ہے۔ ہر وقت دستک کی آواز گونجتی ہے۔ مگر دروازے پر کوئی نہیں ہوتا۔ ذہن کن خیالوں میں جامد ہے۔ بیوی پاس ہے مگر کہنے کو کوئی لفظ نہیں ،ایسا لگتا کہ جسم اور ذہن ایک دوسرے سے میلوں دور ہیں۔ حمیرا نے بارہا کوشش کی کہ خلیل کے دل کی گرہ کھول سکے، مگر ہر بار بات وہیں آ کر رک جاتی کبھی کسی اجنبی سرگوشی پر کبھی کسی ان دیکھی آہٹ پر۔ بات، جو آخرکار جھگڑے میں ڈھل جاتی۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے خلیل کے لفظوں میں بھی کوئی چھپا ہوا کانٹا ہو، جو سننے والے کے دل کو بے وجہ زخمی کر دے۔

حميرا الجھن میں تھی کہ وہ اس خاموشی کو توڑے یا خود بھی اس کا حصہ بن جاۓ۔ جیسے دونوں کے درمیان اب الفاظ نہیں، صرف سرگوشیاں باقی رہ گئی ہوں۔ حمیرا کی آنکھوں میں سوال تھے، مگر خلیل کی نظروں میں ویرانی۔ اور یوں ہر بات ادھوری، ہر سوال بے صدا، صرف دیواروں میں گم ایک سرگوشی کی طرح رہ جاتا۔

خلیل نے کئ بار اپنی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کی، کئی بار سوچا کہ شاید یہ بڑی عمر کا ڈیپریشن ہے پیرا نویا ہوسکتا ہے۔ دن گزرنے کے ساتھ اب سرگوشیںاں مسلسل ہونا شروع ہو گئیں تھیں مگر دہلیز پر کسی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ذین میں سوالات مسلسل چکر لگاتے رہتے جن کے جواب میسر نہیں تھے۔ سوال در سوال سے گھبرا کر خلیل نے دوستوں کی صحبت کا سہارا لیا مگر وہاں بھی بحث مباحثہ ، گھر والوں کا رویہ، بیویوں کے ساتھ تلخ کلامی ، سیاست اور بازار کے بھاؤ کے سوا کچھ نہیں تھا۔

ایسا کیا ہے جو کہ سامنے نہیں آرہا ۔ ایسی کون سی سرگوشی ہے جسے کرنے والا نظر نہیں آتا. ہر طرف خاموشی ہوتی ہے بس ایک سرگوشی گونج رہی ہوتی ہے۔ خلیل کے لیے یہ سرگوشیاں وبال بن گئ تھیں ۔ یہ بھی سمجھ نہیں تھا کہ ان سرگوشیوں میں کون سا پیغام چھیا ہے ؟۔ یا شاید ایسا کوئی پیغام ہے خلیل سمجها نا نہیں چاہتا ۔ پہلے تو ان کا ہونا وبال تھا اور اب ان کو سمجھنا ایک اور مشکل مرحلہ بن گیا تھا۔

خلیل کی بدلتی ہوئی کیفیت نے حمیرا کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔

وہ کئی بار کوشش کر چکی تھی کہ خلیل کے دل کا دروازہ کھول سکے ، مگر اس کے ہر جواب میں ایک ایسی الجھن چھپی ہوتی،

آخر تم کیا چاہتے ہو، خلیل؟”۔

وہ ایک روز دھیمی آواز میں بولی تھی۔

لیکن خلیل کی آنکھوں میں بس ایک خاموش طوفان تها ایسا جیسے کوئی جواب سرگوشی میں آیا ہو،

مگر سننے والی قوت دنیا میں نہ رہی ہو۔

اس کی خاموشیاں اب گہری ہوتی جا رہی تھیں،

اور گفتگو کے جملے… ایسے جیسے کسی دوسرے وقت کی بازگشت ہوں۔ وہ پرانی باتیں دہراتا،

کبھی اچانک کسی اجنبی کی آمد کی بات کرتا، کبھی کسی نادیدہ وجود سے گفتگو کر رہا ہوتا، اور کبھی ایک چادر کی تلاش میں سارے گھر کو تہہ و بالا کر دیتا، اور کبھی گھنٹوں برآمدے میں یوں بیٹھا رہتا. جیسے کسی اور دنیا میں ہو اور لوٹنے کا ارادہ نہ ہو۔ بےبس ہو کر حمیرا نے آخرکار اپنے دونوں بیٹوں سے بات کی۔ مگر ان کے لہجے میں لاپرواہ تسلی تھی۔امّی، ابا جان بالکل ٹھیک ہیں، کم بولتے ہیں بس۔وہ پہلے بھی تو کم بولتے تھے۔

مگر حمیرا جانتی تھی،

یہ خاموشی عام خاموشی نہیں۔ یہ وہ چپ تھی جو

نہ دکھائی دیتی، نہ سنائ دیتی،

مگر وجود کو اندر ہی اندر گھلا رہی تھی۔

کئی دروازے کھٹکھٹائے گئے۔ كبهى دوا، کبھی دعا،

مگر ہر بار سوال وہیں کا وہیں رہا۔

پھر ایک نیورولوجسٹ نے سر جھکا کر کہا

یہ خاموشی بیماری ہے، دماغ کے وہ کونے جہاں احساس اور باتیں جنم لیتی ہیں، وہ آہستہ آہستہ بند ہو رہے ہیں، یہ الفاظ کی گمشدگی اور اظہار کا زوال ہے۔ یہ خاموشی دراصل سلو نیوروڈیجینیریٹو ڈس آرڈر ہے

ڈاکٹر بولا

دماغ کے وہ حصے جو جذبات اور اظہار سے جڑے ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ ماند پڑ رہے ہیں۔ اس کا اثر بظاہر نظرنہیں آتا لیکن انسان بجھنے لگتا ہے، الفاظ کے دروازے بند ہوتے جاتے ہیں، اور شخصیت کی روشنی دھند میں گم ہو جاتی ہے۔

اس رات،

جب خلیل برآمدے کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا،

تو حمیرا کو یقین ہوگیا

خليل اب خود میں نہیں،

… اور وہ خلیل

شاید واپس کبھی نہ آئے۔

ادهروقت گزرنے کے ساتھ خلیل اپنی کیفیات میں دلدل کی طرح دھنستا جا رہتا تھا۔ اس کو ہر وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے کاندھوں پر بے پناہ بوجھ ہے جس کے تلے وہ پیستا جا رہا ہے۔ آس نے بے شمار کتابیں پڑھ ڈالیں کہ شاید نقطوں کے جنگل میں پناہ مل سکے مگر سیسیفس کی مانند ہر نئے دن وہ دوبارہ سے اپنی جگہ کھڑا ہوتا۔ سرگوشیوں کا بوجھ اس کو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔

اس اثنا میں دوستوں کی محفل میں اس کی ملاقات ہاشم سے ہوئ۔ ہاشم کا مطالعہ بہت وسیع تھا اوروہ گھنٹوں گہرے موضوعات پر بات کر سکتا تھا۔ جلد ہی دونوں میں قربت پیدا ہو گئی۔

ایک دن خلیل نے ہاشم کو اپنی الجھن بتائی۔ ہاشم نے خاموشی سے خلیل کو دیکھا اور آہستہ سے کہا،

“سرگوشیاں؟ کیا تمهیں سمجھ میں آتا ہے وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟”

“نہیں، صرف آوازیں ہیں… الفاظ سمجھ نہیں آتے۔”

ہاشم نے گہری سانس لی

“شاید یہ وہ آوازیں ہیں جو تمھیں تمہاری سمت دکھانے کے لیے آئی ہیں، مگر تم سننا نہیں چاہتے۔ کیا تم نے کسی ماہر نفسیات سے بات کی؟”

“کی تھی، مگر حل نہیں سامنے آیا۔”

ہاشم نے لمحہ بھر سوچا اور بولا،

“میرے گھر کچھ دن چلو ہم مل کر ان سرگوشیوں کی پرتیں کھولیں گے۔ شاید جواب وہیں چھپا ہو ۔ خلیل نے حمیرا کو ہاشم کے ساتھ جانے کا بتایا اور ہاشم کو اپنی رضا مندی دے دی۔”

چند دن بعد باشم خلیل کو لینے آ گیا۔ گاڑی میں سامان رکھا گیا، اور وہ روانہ ہو گئے۔ راستے میں خلیل نے کہا،

“میں چاہتا ہوں رات کے کھانے میں مچھلی ہو۔” ہاشم ہنسا اور بولا تم گاڑی میں رکو، میں ابھی آتا ہوں۔”

خلیل اکیلا گاڑی میں بیٹھا آس پاس دیکھتا رہا۔ تب ہی دور سے ایک عورت آتی دکھائی دی۔

وہ غیر معمولی حد تک خوبصورت تھی، جیسے اس دنیا کی نہ ہو۔

نہ جانے کیوں، خلیل کو لگا جیسے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہی سرگوشیوں کا شور کم ہو گیا ہے۔

وہ عورت گاڑی کے پاس آ کر رکی اور بغیر بولے، خلیل کو یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، میں تمہارا انتظار کر رہی تھی، اور تم آج خود ہی آ گئے ہو۔

خلیل بے اختیار گاڑی سے اترا۔ عورت نے کہا،

“تم کب تک نیند اور بیداری کی سرحد پر بھٹکتے رہو گے ؟”

خلیل۔۔”مگر یہ خواب سرگوشیاں وسوسے… سونے نہیں دیتے۔”

عورت ، “یہ سب تمھیں میری طرف لانے کے بہانے تھے۔”

“خليل: تم کون ہو؟

عورت ۔۔ “میں انجام ہوں۔ میں وہ لمحہ ہوں جب انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ ہے، حالانکہ وہ دراصل تھا۔”

خلیل کی آنکھوں میں ایک نمی ابھرتی ہے، “کیا تم میری تلاش میں تھیں؟”

“نہیں۔ تم میری تلاش میں تھے۔ اور اب آخر کار اپنی منزل تک پہنچ گئے ہو۔”

… خليل: “مگر میں تو ابھی تک سوچ سکتا ہوں، سن سکتا تو کیا یہ سب خواب ہے؟

عورت ۔۔۔”خواب لمحوں پر ہوتے ہیں، سالوں پر نہیں۔ اب تم جس راستے پر ہو، وہی تمھارا ابدی راستہ ہے۔”

خلیل ۔۔۔ “کیا اس راستے پر بھی سرگوشیاں ہوں گی؟

عورت۔۔۔” نہیں۔ صرف سناٹا ، ایسا سناٹا۔۔۔”

خلیل ۔۔”اور سکون ہے جس میں چپ کی گونج ہے۔”

عورت۔۔۔” سکون صرف میری آغوش میں ہے۔ ایسا سکون جو ان تمام آوازوں سے پاک ہے جن میں تم نے اپنی پوری زندگی گزار دی۔ یہی سکون تمھیں، تم سے ملائے گا۔”

خليل: “مگر مجھے سرگوشیوں کا مطلب کیوں نہیں سمجھ آتا ،”

عورت نے چپ چاپ اپنے ہاتھ میں پکڑی سفید چادر خلیل پر ڈال دی اور کہا “ہر سرگوشی کے اندر ایک سناٹا چھپا ہوتا ہے،اور ہر سناٹے میں ایک نامکمل سرگوشی”

جب ہاشم کھانے کا تھیلا لے کر واپس آتا ہے۔ اورگاڑی کے پاس آ کر دیکھتا ہے خلیل کے بے جان جسم پر سفید چادر ہے جو ہوا سے ہلکی ہلکی جنبش میں تھی۔

اب نہ سرگوشیاں تھیں، نہ سوال۔ فقط ایک گہرا، مکمل سناتا۔

ہاشم کے کانوں میں جیسے خود بخود ایک سرگوشی ابهری

لفظ ختم ہو جائیں،

جب سوال ماند پڑ جائیں،

تب سناٹا ہی

آخری جواب ہوتا ہے۔

اس لمحے ہاشم نے محسوس کیا

خلیل کی تلاش ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ سرگوشیوں سے آگے نکل چکا ہے،

جہاں بس سکون ہے

اور ایک بے آواز انجام۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.