
اکتوبر کی ایک صبح ۔۔۔ مریم مجید
اکتوبر کی ایک صبح
مریم مجید
ہر جگہ باتیں ہیں۔۔باتیں اور بے معنی شور! نمک اور نمک حرامی کی باتیں، جنگ، جیت اور نیست و نابود کرنے کی باتیں!
برتری اور کمتری کی باتیں۔۔۔نفرت اور کڑواہٹ کی باتیں! آنسو گیس کی کڑواہٹ اور سنائپرز کی گولیوں کی تپش کی باتیں۔۔شناخت اور اس کے تحفظ کی باتیں!
میں ان باتوں سے پناہ ڈھونڈنے آوازوں کی جانب لپکتی ہوں! آوازیں!! بھیگے ہوئے پھولوں پر پھڑپھڑاتی تتلیوں کے پنکھوں کی آوازیں! زردانوں سے شہد چوستی شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آوازیں!
لمبی دم والے میگ پائی، نیلے مکھی خور ، ہمالیائی بسنتے، سرخ دم والی بلبل اور زرد تاج والے کٹھ بڑھئی کی آوازیں!
کوئی کہتا ہے تم ہمیشہ سروائیول موڈ پر رہتی ہو اور میں دھیان بھٹکا کر میری گولڈ کی جانب کر لیتی ہوں۔ زینیا جا رہا ہے اور میری گولڈ پر جوبن آنے کے دن ہیں۔ ہرے پتوں کے ڈھیر میں سلگتے ہوئے پھولوں پر دیوانہ وار رقصاں بھنورے ہیں اور ان کی محبت بھری آوازیں! یہ کافی بی موتھ ہے، یہ ہمنگ برڈ موتھ، اور وہ رہا لیپٹ! ان کی آوازیں کتنی حسین ہیں کیونکہ یہ میری طرح سروائیول موڈ پر نہیں ہیں!
میرا جی چاہتا ہے کہ اس مرتبہ جب آگ ، بارود اور لوہے کی بارش ہو تو میں بے بس جانور کی مانند چھپنے کے بجائے دھوپ میں سستاتے ننھے نارنجی نیولے کے ساتھ بیٹھ جاوں اور انجام سے بے پرواہ ہو کر آوازوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاوں۔
( مریم مجید کی وال سے )