خواہش ۔۔۔ مطربہ شیخ
خواہش
مطربہ شیخ
اس کی نازک انگلیاں تیزی سے لیپٹاپ پر حرکت کر رہی تھیں۔ آخری فائل مکمل کر کے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی جو ساڑھے چھ بج رہی تھی۔
” اوہ اتنی دیر ہو گئی ۔ “
اس نے جلدی جلدی سب سمیٹا۔ یپ ٹاپ کو دراز میں بند کیا اور کھڑی ہوئی۔ اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر باس نے کمرے میں جھانکا۔
“کون رکا ہوا ہے ابھی تک “
” سر میں ہوں، سیما” باس کمرے میں داخل ہو گئے اور پوچھا
” ابھی تک کیوں رکی ہوئی تھیں ؟ “
” سر دو دن کی چھٹی کی وجہ سے بہت کام جمع ہو چکا تھا وہ مکمل کر رہی تھی۔ “
” اچھا۔ چلو آو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ “
سیما خوش ہو گئی۔ باس ایک مہربان آمی تھا۔ آفس ورکرز کا خیال رکھتا تھا۔ لیڈیز کے لیے پک اینڈ ڈرپ کی سہولت موجود تھی جو آج سیما نے کام کی زیادتی کی وجہ سے چھوڑ دی تھی۔ناسازی طبع کے باعث وہ آفس نہیں آ سکی تھی۔نتیجتا کام بڑھ گیا۔ اس نے سوچا، مکمل کر کے ہی آفس سے نکلے لیکن کام مکمل نہ ہوا الٹا تھکاوٹ ہو گئی تھی۔ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر وہ باس کے پیچھے لپکی، پاکنگ ایریا میں آتے ہی ڈرایئور گاڑی قریب لے آیا۔ بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد باس مخاطب ہوئے
” تم لوگ ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے ہو۔ میں نے عالیہ اور وسیم کو کہا تھا کہ تمہاری فائلز ساتھ ساتھ مکمل کرتے رہیں لیکن دونوں نے ان سنی کردی۔ “
سیما چپ رہی لیکن باس کا لیکچر اسکے گھر آنے تک جاری رہا۔ گھر کے قریب پہنچ کر اس نے خدا حافظ کہا اور گاڑی سے اتر آئی۔
گھر کا دروازہ باہر سے لاک تھا، اسکو حیرت ہوئی۔ لیکن اسکے پاس متبادل چابی موجود تھی، گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سامنے نظر آ گئی۔
” دروازہ لاک کیوں تھا ؟ “
” ارے تمہارے بھائی بھاوج ابھی باہر نکلے تو لاک کر گئے، نہ جانے کہاں چلے گئے، بتانے کی زحمت بھی نہیں کی نہ جھوٹے منہ پوچھا کہ ماں تم بھی ساتھ چلو، اکیلی کیا کرو گی ۔ تم نے بھی دیر کردی اتنا کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ابھی تو تمہاری طبیعت ٹھیک ہوئی ہے۔
سیما ان سنی کرتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی۔ چینج کر کے چائے بنائی اور ٹی وٰ دیکھنے لگی، ماں کی باتیں جاری تھیں لیکن اس نے توجہ نہ دی اب اسکو ماں پر غصہ آتا تھا کہ اس نے اسکو کیریئر بنانے سے روکا کیوں نہیں۔ وقت پر شادی کیوں نہ کی۔ حالانکہ سرا سرا قصور اس کا تھا۔خالہ نے رشتہ مانگا تھا لیکن اس وقت سیما پر ایم بی اے کر کے نوکری کرنے کا بھوت سوار تھا، پیسے کی ضرورت بھی تھی۔ والد کا بچپن میں ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا، بھائی دو سال بڑا تھا۔ مشکل وقت کے ساتھ دونوں بہن بھائی نے ٹیوشن پڑھا کر محنت سے پڑھا تھا اور اب دونوں ہی اچھی نوکریاں کر رہے تھے۔سیما کو بھی پانچ سال ہو گئے تھے نوکری کرتے، بھائی نے پچھلے سال اپنی ایک کولیگ سے شادی کر لی تھی، لیکن شادی کے بعد بھابھی نے نوکری چھوڑ دی تھی، سیما اور بھائی دونوں نے مخالفت کی لیکن اس نے فیصلہ نہ بدلا چارو نا چار چپ رہے۔
سیما اور ماں نے رات کا کھانا کھا لیا لیکن بھائی بھابھی نہیں آئے ۔ سیما اپنے کمرے میں آ گئی۔ سونے کے لیے بستر پر کرسی گئی لیکن نیند نہ آئی، اپنی تنہا زندگی کا خیال کچوکے لگانے لگا، اس نے اٹھ کر باہر جانا چاہا لیکن تھکاوٹ کے خیال سے سست روی سے لیٹی رہی نہ جانے کب نیند آ گئی۔
صبح اسکی آنکھ بھابھی کی آواز سے کھلی، وہ اسکو ناشتے لے لیے آواز دے رہی تھی، سیما نے کوفت سے سوچا، پھر آفس اور بادل ناخواستہ بستر سے اٹھی، آٹھ بجنے والے تھے، تیار ہو کر وہ ناشتہ کرنے لگی، بھابھی نے اس کو دیکھ کر کہا
” طبیعت ٹھیک ہے ناں، شاباش فریش لگ رہی ہو، اچھا ہے آفس کی مصروفیت ہے ورنہ گھر بیٹھ کر تو بور ہی ہونا ہے، میں بھی دوبارہ جوائن کرنے کا سوچ رہی ہوں، دیکھتی ہوں اخبار میں نوکری۔ ” سیما نے ہوں کہنے پر اکتفا کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ پچھلے دو تین ماہ سے وہ صرف باتیں بنانے کے لیے ایسا کہہ رہی ہے۔ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، آفس کی وین کا ہارن سنتے ہی سیما نے خدا حافظ کہا اور گھر سے نکل کر وین میں بیٹھ گئی۔
آفس پہنچ کر روٹین کی چہل پہل اور افراتفری نظر آئی۔ سیٹ پر پہنچ کر اس نے دراز کھولی۔ لیپ ٹاپ نکالا اور کام شروع کر دیا۔ چند لمحوں بعد ہی اس کو ہیلو آل کی زور دار بھاری آواز آئی جو اس نے ان سنی کردی۔ باقی کولیگ ہیلو ہائے کرنے لگے۔آواز اور تیز پرفیوم کی خوشبو اس کے قریب آ گئے۔
” جی۔ مس سیما، کیسے مزاج ہیں اپ کے” سیما نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔ یہ فیلڈ انجینیر اکرم تھا جو پچھلے مہینے ہی اپائنٹ ہوا تھا۔ فیلڈ پر رہنے کے باوجود ایک مہینے میں ہی اس نے پورے آفس میں ہلچل مچا دی تھی، جب بھی آفس میں موجود ہوتا، بلا تکلف سب سے ہنسی مذاق، جملے بازی لیکن سیما ریزرو رہتی، بچپن سے اکیلے رہنے کی عادت کی وجہ سے اسے لوگوں سے کم بات کرنے کی عادت تھی، لہذا اس نے یہی وطیرہ رکھا۔ ویسے بھی اس کی صورت اسے خاص پسند نہیں تھی اوپر سے تیز خوشبویات کا استعمال اور بے باک انداز لیکن اکرم کسی نہ کسی طرح اسے مخاطب کر ہی لیتا۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔ اسکی میز پر خود سے آ گیا تھا،
سیما نے کہا،
” میں ٹھیک ہوں”
” بس تو پھر آج لنچ کہیں باہر کرتے ہیں۔ ” اکرم نے زور سے میز پر ہاتھ مارا
” ہاں ٹھیک ہے۔” عالیہ بھی قریب آ گئی۔
” لیکن کیون ؟ ” سیما نے پوچھا
” بھئی اکرم صاحب کو آفس میں ایک ماہ ہو گیا ہے اور تنخواہ بھی کافی بھاری وصول کر لی ہے تو اسی خوشی میں ہم سب کی دعوت ضروری ہے۔”
اکرم نے قہقہ لگایا، ” اس لڑکی کی نظر پہلے دن سے میری تنخواہ پر ہے۔ “
“کیوں نہ ہو آخر کمپنی کی اکاونٹس انچارج ہوں۔ ” عالیہ اترائی
سیما دل ہی دل میں ہنسی، اسے معلوم تھا عالیہ شوہر حاصل کرنے کے لیے برسرپیکار ہے اور اسی لیے اکرم کو لفٹ کرواتی ہے، ورنہ اور کسی کو وہ گھاس تک نہ ڈالے، باقی سب بھی سیما کی میز کے گرد آگئے۔
” آپ لوگ جایئے، مجھے بہت کام ہے۔”
” یار کام ہو جائے گا، آج میں تمہاری ہیلپ کرا دوں گی۔ ” عالیہ نے کہا۔
” چلو فورا اٹھ جاو۔”
” ہاں با لکل جلدی کرو سب۔” اکرم نے بھی کہا۔ عالیہ نے سیما کا لیپ ٹاپ بند کر دیا۔
” اٹھ جاو بس۔” سب آفس کی گاڑی میں بیٹھ کر ایک مشہور ریسٹورنٹ چلے آئے۔
سکون سے بیٹھ کر سب نے اپنی پسند کا آرڈر دا، سیما کی طرف سے عالیہ نے دیا کیونکہ سیما چپ رہی تھی، کھانا کھانے کے بعد سب لوگ خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔ کچھ سگریٹ پینے ریسٹورنٹ کے سموکنگ ایریا میں چلے گئے۔
سیما ٹیبل سے اٹھ کر ریسٹورنت کی شیشے کی دیوار سے نیچے سڑک پر دیکھنے لگی، بالائی منزل سے نیچے کا منظر بہت اچھا لگ رہا تھا۔
سیما نے اپنے پیچھے آہٹ محسوس کی۔ وہ مڑی تو ایک دم اکرم سے ٹکرا گئی۔ وہ اس کے با لکل پیچھے کھڑا تھا۔
” یہ کیا حرکت ہے ؟” سیما نے ناگواری سے کہا
” بہت بنتی ہو تم۔ “
” اس بات کا مطلب “
” مطلب تمہاری یہ انجان بننے کی کوشش فضول ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہو، پہلے دن سے یہ نوٹ کر رہا ہوں اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ “
” مسٹر اکرم یہ محض آپ کی غلط فہمی ہے۔ “
” گلظ فہمی مجھے نہیں ہوتی، خوش فہمی ہوتی ہے جو کہ با لکل درست ہوتی ہے۔ “
” مجھے فرق نہیں پڑتا۔ “
” کب تک اس طرح رہو گی۔ “
” کس طرح ؟ “
” بتیس کی ہونے والی ہو، ابھی تک کنواری ہو، گھر سے آفس اور آفس سے گھر کب تک یہ کروگی، زندگی انجوائے کرو یار۔ “
” تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں با لکل ٹھیک ہوں۔ ‘
” خاک ٹھیک ہو، تمہاری آنکھون سے جھلکتی خواہشات میں سمجھ سکتا ہوں، تمہیں ایک دوست کی ضرورت ہے جو تمہاری جذباتی و جسمانی خواہشات پوری کر سکے۔ چلو چند دن کے لیے ہم ملک سے باہر چلتے ہیں سیر و تفریح کت لیے۔ “
” اچھا واقعی”۔
” ہاں واقع۔ ایک دوست کی ٹریول ایجنسی ہے اسکو کہتا ہوں کہ اچھے مقامات کی فہرست بھیج دے پھر ہم فیصلہ کر لیں گے کہ کہاں جانا ہے۔ ویسے یورپ کی فہرست کے لیے کہوں یا یہیں ایشیا کی ؟ “
” جہاں تمہاری مرضی ہو۔ “
” بجٹ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے یار، کتنے پیسے جمع ہیں تمہارے پاس ؟ “
” پتہ نہیں۔ “
” کیا مطلب پتہ نہیں۔ فون کرو ابھی بنک اور معلوم کرو کہ کتنا اماونٹ ہے۔ “
” مسٹر اکرم۔ مجھے کہیں نہیں جانا جو میں اپنے اکاوٹ کی تفصیل معلوم کروں۔ ‘
” کتنی بے وقوف لڑکی ہو، میں تم سے اتنی اچھی طرح پیش آ رہا ہوں اور تم ہو کہ نخرے کرتی رہتی ہو۔ “
” مسٹر اکرم۔ مجھے اپنی خواہشات کا اچھی طرح علم ہے اور مجھے اپنی خواہشات کو کیسے پورا کرنا ہے یا کیا حاصل کرنا ہے یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ آپ مجھے یہ بتانے کی زحمت نہ کیجیئے کہ مجھے اپنی خواہش کیسے پوری کرنی ہے۔ جب خواہش پوری کرنی ہوگی تو چوائس میری اپنی ہوگی۔ آئندہ مجھ سے اس سم کی گفتگو نہ کرنا۔ “
یہ کہہ کر وہ میز کی طرف بڑھ گئی۔ اکرم اس کی پشت کو دیکھتا رہ گیا۔