ندی کے پار ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی
Salma Jilani originally from Karachi, Pakistan, now living in New Zealand is a fiction writer. After earning double Masters Degrees in Business and Commerce, she is working as a lecturer of Business and pursues her passion for art, literature and poetry. Several of her short stories have been published in renowned Urdu literary magazines
ندی کے پار
(سلمیٰ جیلانی)
” بھائی صاحب آپ نے پچھلے ہفتے کے اخبارات تو میرے لئے بچا کر رکھ دیے ہونگے” – عبد الحسیب نے بک اسٹال کے مالک زاہد سے استفسار کیا
“ہاں– وہ دیکھو– سامنے کھوکھے میں رکھ دئیے ہیں ” زاہد جو اسٹال پر کھڑے ہوئے گاہکوں سے الجھ رہا تھا ہاتھ کے اشارے سے بتایا
اس نے گاہک کے ہاتھ سے رسالہ تقریبآ چھین کر واپس شیلف میں رکھا اور دوبارہ گویا ہوا
” ارے صاحب ! آپ لوگوں کو مفت کی چاٹ کیوں لگی ہوئی ہے ، یہ رسالہ — خرید کر گھر لے جائیے اور آرام سے بیٹھ کر اس کا لطف اٹھائیے ”
زاہد کو ان مفت کا اخبار اور رسالے پڑھنے والوں سے سخت چڑ ہوتی تھی ،
وہ بڑ بڑا رہا تھا ” یہاں میں نے کوئی لائبریری تھوڑی کھول رکھی ہے ، پانچ سو روپے کا برگر کھا لیں گے لیکن پچیس روپے کا رسالہ خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی ”
شروع کے الفاظ اس نے زور سے جبکہ آخری مدھم آواز میں کہے ، پاس کھڑے ہوئے عبد الحسیب نے سب سن لیا تھا لیکن ان سنی کرنے میں ہی عافیت جانی —–
خود اس نے بھی کئی ماہ پہلے بک اسٹال سے اخبار خرید کر پڑھا تھا جب اس کا ایم اے ریاضی کا نیتجہ اخبار میں چھپا تھاجس میں اس نے فرسٹ کلاس حاصل کی تھی ——-اس دن کے بعد سے تقریبآ ہر روز ہی پرانے اخباروں سے ملازمت کے اشتہاروں کی کٹنگز نکالنے اسٹال پر آ رہا تھا –
زاہد نے ادھر ادھر بکھری ہوئی کتابوں کو قرینے سے شیلف میں سجاتے ہوئے اسے مشورہ دیا
” تم دبئی کیوں نہیں چلے جاتے ، میرا بھتیجا سمیع کہہ رہا تھا کہ آج کل وہاں بڑی نوکریاں ہیں ، تم بھی ایک چکر وہاں کا لگا آؤ — سچ کہتا ہوں سب دلدر دور ہو جائیں گے “
” ہمم —سوچوں گا “—- عبد الحسیب نے مختصر سا جواب دے کر پھر اخباروں کے ڈھیر میں منہ چھپا لیا
ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں کمپیوٹر کے سامنے ساکت بیٹھنا اس کا خواب نہ تھا بلکہ اپنے گاؤں کے بچوں کو حساب پڑھانا اچھا لگتا تھاوہ ریاضی کا استاد بننا چاہتا تھا
اس کا گاؤں اپنے علاقے میں کافی مشھور تھا جہاں بڑی تعداد میں لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد سنگا پور ، ملائشیا اور دوسرے امیر ملکوں میں نوکریاں حاصل کررہے تھے پر عبد الحسیب کے سوچنے کا انداز کچھ الگ ہی تھا، یہ بات نہ تھی کہ وہ پیسا کمانا نہیں چاہتا تھا یا جدید دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جب بچوں کے ساتھ مل کر ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرتا جو اکثر سائنس کی گتھیاں اورحساب کے پیچیدہ فارمولے ہی ہوتے تو ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی کامیابی کی خوشی دیکھ کر اس کا دل اطمینان سے بھر جاتا، وہ کافی عرصے سے پڑوسیوں کے بچوں کو نہایت قلیل معاوضے پر ٹیوشن پڑھا رہا تھا اس آمدنی میں گھر چلانا تو دور کی بات بمشکل اپنا جیب خرچ ہی نکال پاتا تھا
عبد الحسیب کے والد کے ریٹائر ہونے کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے ناطے چار چھوٹی بہنوں اور والدین کی ساری زمہ داری اس کے کاندھوں پر آن پڑی تھی ،ابا کی پینشن واحد ذریعہ آمدنی بن کر رہ گئی تھی غرض یہ کہ گھر کی حالت دگرگوں ہو چلی تھی ، وہ دل ہی دل میں ابا کے زیادہ بچے پیدا کرنے والے فیصلے پر کڑھتا لیکن حد درجہ تمیز دار فطرت کوئی بھی سوال کرنے سے روک دیتی — اسی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں ہر قیمت پر نوکری حاصل کرنا اس کا واحد مشغلہ بن کر رہ گیا تھا –
ایک اشتہار کی کٹنگ نکالتے ہوئے دفعتاً —
اخبار کے آخری صفحہ پر چھوٹی سی خبر نے اس کی توجہ کھینچ لی ———
وہ پوری طرح خبر کے مطالعہ میں گم تھا کہ اس کے سر پر کسی نے ٹہوکا دیا —
اس نے چونک کر سر اٹھایا
سامنے اس کے بچپن کا دوست لطیف کھڑا تھا
عبد الحسیب نے اس خبر کا ذکر کرتے ہوئے لطیف کی طرف دیکھا ” کیوں نہ میں اس جاب کے لئے درخواست دے دوں ”
” کیا ؟ تم پاگل ہو گئے ہو —-
لطیف نے گویا اچھلتے ہوئے کہا ” اسکول ٹیچر کی نوکری اور وہ بھی پالی کر گاؤں میں —–
میں تو تمہیں اس کام کا مشوره ہرگز نہ دوں گا ”
عبد الحسیب نے اس کے سخت رد عمل پر کندھے اچکاتے ہوئے پوچھا ” آخر اس میں برائی کیا ہے؟ ”
” پہلی بات تو یہ کہ اس تنخواہ میں اتنے بڑے کنبے کو کیسے پالو گے ؟— اور دوسرے —- گاؤں جانے کا راستہ کتنا دشوار گزار ہے — اس کا اندازہ بھی ہے تمہیں
صرف ایک — بس جاتی ہے وہاں اور وہ بھی گاؤں سے کئی کلو میٹر پہلے اتار دیتی ہے، سڑک تو نہ ہونے کے برابر ہے — تمہیں وہاں پہنچنے کے لئے کم سے کم دو گھنٹے درکار ہوں گے اور کافی پیدل بھی چلنا پڑے گا ”
عبد الحسیب کو گہری سوچ میں کھویا پا کر دوبارہ گویا ہوا —-
” ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے—- تم —–
کلدا ندی کو تیر کر پار کر کے یہ وقت بچا سکتے ہو اور اس طرح یہ فاصلہ صرف چند کلو میٹر رہ جائے گا
لیکن —– تم ایسا کرو گے ہی کیوں —-جبکہ پچاس ہزار کی نوکری تمہیں گھر بیٹھے ملنے والی ہے ”
” تم کس نوکری کی بات کر رہے ہو — مجھے تو ابھی تک کہیں سے انٹرویو کی کال نہیں آئی — لگتا ہے در خواستیں بھیجنا ہی میرا کل وقتی کام ہے ”
” میں یہی بات تو تمہیں بتانے آیا تھا لیکن تمہاری تو وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہے
بس استاد بننا ہے ” —- لطیف چڑ کر بولا
‘ ہاں تو میں تمہیں بتا رہا تھا—- بڑے بھیا نے اپنے آفس میں تمھارے لئے بات کی ہے… نوکری کی نوعیت تمہاری اسی کمپیوٹر ٹریننگ سے متعلق ہے جو تم نے پچھلے سال میرے ساتھ کی تھی — مگر —- ان کے منیجر کا کہنا ہے وہ پہلے تین ماہ تمہیں آزمائشی طور پر ملازم رکھیں گے اور اس دوران اگر تم نے اپنی اہلیت ثابت کر دی تو نوکری مستقل ہو جائے گی —-
بس —اب سماج سیوا کے متعلق سوچنا بند کرو —–لاؤ — اپنے کاغذات مجھے دے دو — تاکہ میں ابھی بھیا کو دے آؤں
عبد الحسیب بدستور خاموش تھا اس کے ذہن میں خبر کے الفاظ گھوم رہے تھے
” پالی کر اسکول کے ڈیڑھ سو بچوں کا مستقبل خطرے میں”
————-
ہیڈ ماسٹر نبی بخش ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو باہر برامدے میں بٹھا کر حساب کے سوال حل کرانے میں لگے تھے
اسکول میں اساتذہ کی کمی نے انہیں سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا وہ سوچ رہے تھے
—- آخر میں کب تک مختلف جماعتوں کے بچوں ایک ساتھ بٹھا کر کام چلاتا رہوں گا
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ نواز اسکول کا کلرک کمرے کے دروازے پر نمودار ہوا اس کے ہاتھ میں دبی فائل دیکھ کر انہوں نے پوچھا
—–” اب کونسے نئے خرچوں کا کھاتا اٹھا لائے ہو ؟
—-” نہیں سر — یہ حساب کے نئے استاد کی تقرری کا پروانہ ہے —جس پر آپ کے دستخط چاہئیں —
اب تو— آپ خوش ہو جائیں ”
” ارے کیا خوش ہو جاؤں — نبی بخش ہیڈ ماسٹر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا — کوئی یہاں کیوں ٹکے گا ؟ سوال تو یہ ہے —-
تم تو جانتے ہی ہو — ندی نے تین طرف سے گاؤں کو گھیرا ہوا ہے اور حالیہ بارشوں نے اس پرانے پل کو بھی ختم کردیا جو ہمیں سدھائی گاؤں سے ملاتا تھا اور بس کے راستے کوئی استاد آنے کو تیار نہیں ہوتا— اگر ابھی تک کے رکارڈ کو دیکھو تو تو تین ماہ سے زیادہ کوئی ٹکتا نہیں —- میں تو سوچ رہا ہوں —-اگر یہی حال رہا تو کہیں اسکول بند ہی نہ ہو جائے–
————-
کئی دن گزر گئے —- نئے استاد کے آنے کی امید مایوسی میں بدلتی جا رہی تھی
نبی بخش اداسی سے اپنے آفس کی کھڑکی سے سامنے والی جماعت کے بچوں کو دیکھ رہے تھے جو خالی پریڈ میں اپنے ڈیسکوں پر سر رکھے اونگھ رہے تھے
کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھے اور ان بچوں کے جماعت میں پہنچ گئے
” ہاں تو لڑکو !
تم لوگ آج حساب کی بجائے اس خالی پیریڈ میں باہر میدان میں جا کر فٹ بال کھیل لو–
میری طرف سے اجازت ہے ”
لڑکوں کے مضمحل چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہیڈ ماسٹر کے الفاظ گویا کرنٹ بن کر ان کے جسموں میں دوڑنے لگے وہ اچھلتے کودتے ایک دوسرے کو دھکیلتے میدان کی طرف بھاگ گئے
موسم گرد آلود تھا —- اسکول کے میدان میں بچوں کی بھاگ دوڑ سے دھول اڑ رہی تھی
ہیڈ ماسٹر نبی بخش کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کی امیدوں پر بھی ایسی ہی کبھی نہ ختم ہونے والی گرد جم چکی ہو
وہ کلرک نواز کے ساتھ باتیں کرتے ہویے برامدے میں آن کھڑے ہوئے
یہاں سے سامنے بہنے والی ندی صاف نظر آتی تھی ، آج ندی میں پانی کی سطح معمول سے کافی اونچی تھی ورنہ اکثر تو یہ ایک پتلے نالے کی طرح معلوم ہوتی تھی
اچانک انہیں ندی میں کوئی تیرتا ہوا دکھائی دیا —-
نواز اسے دیکھ کر حیرت آمیز لہجے میں بولا —- سر آپ دیکھ رہے ہیں —اتنے خراب موسم میں یہ کون دیوانہ ہے جو ندی تیر کر پار کر رہا ہے
آدمی قریب آ رہا تھا — اس نے سر پر پلاسٹک میں لپٹی ہوئی کچھ بیگ نماچیز کو باندھا ہوا تھا اور ربر کے ٹائر کو گلے میں ڈالے تیرتا چلا آرہا تھا
نواز اور نبی بخش کو جیسے ایک سنسنی خیز مشغلہ ہاتھ آگیا تھا — دونوں خاموشی سے اس کی حرکات پر نگاہ جمائے کھڑے تھے کنارے پر پہنچ کر اس نے پیلو کے درخت کی آڑ لے لی — کچھ ہی منٹ گزرے ہونگے وہ دوبارہ نظر آیا — اپنے گیلے کپڑوں کو ایک تھیلے میں لپیٹ کر اسی بیگ میں رکھ رہا تھاجسے تیرتے ہوئے اپنے سر پر رکھے ہوئے تھا اسی دوران وہ گھوما — اب اس کا چہرہ بلکل واضح تھا —-
” ارے “—
دونوں کے منہ سے سیٹی نما آواز نکلی —
ہیڈ ماسٹر نبی بخش ایکدم زور سے چلائے —
‘ لڑکو — جلدی کرو—- اپنے جماعت میں جاؤ —
تمہارے نئے استاد چند ہی منٹ میں پہنچنے والے ہیں —