آدھی گواہی۔۔۔سعیدہ گزدر
آدھی گواھی
(سعیدہ گزدر)
پہلےکبھی تم اتنے چڑ چڑے نہیں تھے۔ تھکے ہوئے نڈھال بھی آتے تو کافی کا ایک کپ پی کر تازہ دم ہوجاتے‘ کہیں ملنے ملانے چلے جاتے تھے۔ باغ کو پانی دیتے تھے موسیقی سے دل بہلاتے۔۔۔۔۔۔۔:۔اچھا بند کرو اپنا لیکچر
کتنے بددماغ ہوگئے ہو۔ پہلے مجھے سنیمالے جاتے تھے میرے لئے ریکارڈ خرید کرلاتے۔کوئی اچھی سی چیز پڑھ کر سناتے تھے۔ اب لگتا ہے کہ تمہاری آواز کو دیمک لگ گئی ہے۔:۔ افسردگی سے’’دیمک تو لگ چکی ہے۔ کہاں گھمانے لے جاؤں؟ کون سی جگہ رہ گئی ہے۔ سیروتفریح کی! تمہیں بتاؤ کیا کرنے کو ہے اس شہر میں شام کے وقت! اور تم کو یہ بھی معلوم ہے میرے خلاف تحقیقات ہورہی ہے۔
:۔ ہونے دو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ کیا بگاڑ سکتے ہیں تمہارا ایسا اچھا پروفیسر یونیورسٹی کو ملے گا؟ کتنی محنت کرتے ہو طالب علم کس قدر چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
۔ مجھ سے میری خوبیاں کیوں بیان کررہی ہو۔ میں اپنا جج ہوں کیا؟ انہیں کم بخت طالب علموں کی خاطر سب کچھ جھیل رہا ہوں(اُٹھ کر فائل میز پر پٹخ دیتا ہے)۔
:۔ غصہ کیوں کرتے ہو۔ تمہارا بلڈپریشر بڑھ جائے گا۔
۔ کسی نے جاکر شکایت لگادی کہ میں کلاس میں مذہب اور ملک کے خلاف باتیں کرتا ہوں۔
شش۔۔۔۔ تم نے پھر شروع کردیا۔
۔ کیا کیا تھا میں نے؟ یہی ناکہ ڈارون کی تھیوری‘ جس طرح میں نے سمجھی اور پڑھی اس طرح پڑھاؤں گا تو شاید یونیورسٹی کے لئے قابل قبول نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ممتحن تم کو فیل کردے۔ لہٰذا نصاب کمیٹی کو یہ فیصلہ کرلینے دو کہ ڈارون کا نظریہ اسلامی تھا یا غیر اسلامی۔ اور اسے اسلامی بنا کر پڑھانا ہے یا سائنسی۔ اب بتاؤ اس میں ایسی کیا بات تھی کہ میرے اوپر اسلام دشمنی اور لامذہنیت کا الزام لگادیا۔ میرے خلاف رجسٹر کھل گئے۔ میں دہریہ نئی نسل کے اخلاق کو بگاڑنے والا اور معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کا سبب بن گیا۔
۔ اس قدر اپنا جی کیوں جلاتے ہو‘۔ تم بھی دوسروں کی طرح رہو۔
:۔ تنگ آگیا ہوں۔ جھوٹے اور منافقت پڑھا پڑھا کر۔ کلاس میں کہہ دیا کہ پڑھاتے ہوں نصاب کے مطابق۔ لیکن اپنے آپ کو مجرم سمجھتے ہوئے اور یہ کہ تم لوگوں کو بھی اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیا اتنا بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس قدر ذلت برداشت کرنے کے بعد۔
وہ بیچارے بھی مجبور ہیں۔ نوکری کرنی ہے۔ انہیں اس کے لئے ڈگری بھی چاہئے۔
شوق سے لیں ڈگریاں سالے۔ اُلو کے پٹھے ’’سخت برہمی سے‘‘ نوکری ہی نہیں کریں گے بلکہ غلامی کرتے رہیں گے‘‘۔
:۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں کون بتاتا ہے سب کچھ۔‘‘
تمہاری سٹوڈنٹ ہے نا نائلہ۔ وہ بتارہی تھی، پہلے مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے تھے ایک ایک بات بتاتے تھے۔ اور اب۔۔۔۔(روہانسی ہوجاتی ہے)۔
پہلے اس قدر بھی قابل برداشت نہیں تھا۔ اب یہ گورکھ دھندے بھگتا کرآتا ہوں تو جی نہیں چاہتا دہرانے کو دماغ پھٹنے لگتا ہے۔
:۔کیا ہوا تھا۔
سن چکی ہونائلہ سے پھر پوچھ رہی ہو۔ تم کو بھی اذیت دینے میں مزا آتا ہے۔
لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ خواہ مخواہ سرکے پیچھے پڑگئے ہیں انہوں نے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ بس تعزیتی جلسہ میں تقریر کی تھی کہ آپ لوگوں کے دو طالب علم ساتھی محض ڈرائیوروں کی غیر ذمہ دارانہ ذہنیت کا شکار ہوگئے ورنہ یوں سڑک پر کچل کرنہ مرتے۔ کیا محض کفاراادا کر دینا کافی ہے؟ یہ سوچنے کا موقع ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا۔ آخرہم کب تک ایسے بے درد اورغیر انسانی رویوں کو برداشت کرتے رہیں گے ہماری خاموشی حب الوطنی ہے۔ یہ فاشزم کے ہاتھ مضبوط کررہی ہے۔ ہمارے انسانی جذبوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔
یہ سب کہا تھا میں نے میں تو بھول گیا۔ بُرا نہیں تھا۔ نائلہ ذہین لڑکی ہے۔
:۔ میں نے بھی یہی سمجھا ہے کہ عمدہ تقریر تھی۔ آخر اس میں کیا ہے؟
بس ہونے والی تحقیق میں انہیں ایک اور نکتہ مل گیا کہ میں نوجوانوں کو دہشت گردی کی تلقین کر رہا ہوں انہیں تخریبی سرگرمیوں پر اکسارہا ہوں۔
:۔ جب اتنی سختی ہے ہر بات پکڑتے ہیں تو نہ الجھا کرو ہر جھگڑے میں۔ لیکن تم عدالت میں بھی بیان دینے پہنچ گئے۔ کوئی دوسرا پروفیسر کیوں نہیں گیا۔
:۔ الجھا نہ کرو۔ کوئی دوسرا پروفیسر کیوں نہیں گیا، نقل لیتے ہوئے تم بھی کہو گے۔ غنڈے، بدمعاش بندوقیں اور مشین گنیں لے کر گھس آئے اور نہتے طالب علموں کو باقاعدہ نشانہ بنا کر میری نظروں کے سامنے ہلاک کر دیں۔ اور میں خاموش رہوں۔ پھر اُلٹا مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کے الزام میں مقدمہ چلے اور میں خاموش رہوں۔ یہ بھی نہ کہوں کہ یہ معصوم تھے۔ وہ مسلح غنڈے جیپوں میں بھرکر آئے تھے۔ ایک کو میں نے پہچان بھی لیا۔بہت فخر ہے۔
:۔ تمہارے خلاف کیس اور مضبوط ہوگیا۔ مرنے والوں کے لئے جا کر گواہی دینا۔ کون سی عقل مندی ہے۔ کیا وہ قبروں سے اُٹھ کر تمہارا ساتھ دینے آئیں گے۔۔۔۔؟:۔ بہت سادگی سے سب تھوڑی مرگئے۔ جوزخمی ہوئے اور جنہوں نے غنڈوں کا مقابلہ کیا۔ ان میں سے کسی کو دس سال کی قیداور بیس کوڑے، کسی کو سات سال کی قید اور پندرہ کوڑے۔۔۔۔۔ دوسرے برداشت کرسکتے ہوں گے میں نہیں کر سکا۔
تمہارے برداشت نہ کرسکنے سے کسی کو فائدہ پہنچا۔ کسی کو پتہ بھی چلا کہ کسِ نے تمہارا ساتھ دیا۔
:۔ میرا ضمیر مجھے لعنت ملامت کرتا۔ کیا یہ کافی نہیں۔:۔ وہ کہتے کیا ہیں۔
:۔ابتداء ہی کی ہے اس رائے کے ساتھ کہ میں ملک اور اسلام کا دشمن ہوں۔
ذلیل، اب کریں گے کیا،
دیکھو۔۔۔ کچھ بھی! نوکری سے نکلوادیں گے۔ وہ تو طے ہے۔ یہ گھر چھین لیں گے۔ میرے واجبات ضبط کرسکتے ہیں۔ ملک دشمن کے الزام میں قید کر سکتے ہیں۔ کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر بھی چاہیں کرسکتے ہیں۔
:۔ پھر کیا ہوگا۔ میں۔۔۔ میرا کیا ہوگا؟پریشانی اور وحشت سے
مسکراتے ہوئے۔ ڈاکے ڈالنا شروع کردینا۔ نام بھی تمہارا سلطانہ ہے۔
:۔ چلو مسکرائے تو تم اب کہیں باہر چلتے ہیں جو ہوگا سو ہوگا۔ میں اس وقت گھر میں بیٹھی تو گھٹن سے مرجاؤں گی۔
:۔ کہاں چلیں۔
:۔کہیں بھی۔(کچھ سوچ کر) چلو نجیب صاحب کے ہاں چلیں زیادہ دور بھی نہیں۔
یقین کرو۔ جب میں بلیک لسٹ ہوا ہوں وہ مجھ سے کترانے لگے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے سے گھبراتے ہیں۔ آنکھ بھی نہیں ملاتے۔
:۔ ہاں مجھے یاد آیا، کل دکان میں مسز نجیب ملی تھیں۔ کس قدر گر مجوشی سے ملتی تھیں مگر کل بالکل دیکھی ان دیکھی کردی۔ میں لپکی تو مڑکر دوسری طرف چلی گئیں مجھے خیال ہوا کہ شاید جلدی میں ہیں۔ اب سمجھ میں آیا۔
یقین نہیں آتا۔اس قدر شائستہ اور مہذب لوگ۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہےاتنا خوف وہراس ہے جیسے ہم لوگ کسی غیر ملکی فوجی تسلّط میں رہ رہے ہیں۔
جلدی سے مسکرا کر)۔ تسلی دیتے ہوئے۔ میں تو نہیں کتراتی پھر بھی تمہیں سچا مانوں گی(شوہر کے سینے پر سر رکھ دیتی ہے)۔
۔ (شوہر پیار سے اس کا سر تھپھتپاتے ہوئے گلے لگا لیتا ہے) کہیں چالا کی سے یہ باتیں کہلوا کر میرے خلاف گواہی تو دینے کا منصوبہ نہیں ہے۔
(کسمساتے ہوئے شوہر کی گود میں لیٹ جاتی ہے) فکر نہ کرو میری تو گواہی بھی آدھی ہے۔