بریدہ خوابوں کے لاشے ۔۔۔ ثروت نجیب

بریدہ خوابوں کے نا معلوم لاشے

( ثروت نجیب )

لنگر والے نے دیگ سے چمچہ بھر کے سالن برتن میں ڈالا۔ قطار سے ایک آدمی ہٹا تو میری باری آئی۔ میں کاسہ ہاتھ میں تھامے گداگر کی طرح خیر کا منتظر تھا۔ باورچی نے ہاتھ اوپر کیا، شوربے کی آبشار میرے کاسے میں گرنے لگی۔ میں نے کٹورے میں جھانکا وہ سرخ، گرما گرم تازہ لہو میں بدل چکا تھا۔ میرے ہاتھ لرزنے لگے اور برتن گر گیا۔ زمین پہ گری مرغی کی ٹانگ مجھے اپنی ٹانگ لگی۔ میں نے لپک کر اسے اٹھایا سینے سے لگاتے ہی دل بھر آیا نجانے کیسے ضبط ٹوٹا آنکھوں کے کائی زدہ حوض ابل پڑے۔

آنسو مانوس رستے پہ بہنے لگے۔ مٹی میں لتھڑا زمین گیر شوروا چھلااورن واسکٹ پہ اس خون کی مانند لگا جسے بہتے بہتے چالیس سال گزر گئے۔ میں نے کندھے پہ رکھے رومال سے زمین کو رگڑنا شروع کیا مگر وہ سرخی نہ سمیٹ سکا۔ نا ہی لوگوں کے پیروں، قمیضوں کے دامن اور شلواروں کے پائنچوں سے اس کے داغ مٹا سکا۔ ہر ایک داغ میرے دماغ میں محفوظ میری کہانی کی مصوری میں ڈھلنے لگا۔ زمین پہ میری زندگی بکھری پڑی تھی۔ میری ٹانگ بھی جو بارودی سرنگ کے پھٹنے سے میری آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑتی ٹوٹے کھلونے کی طرح دور جا گری۔

میرا خون ایسے ہی مٹی نے جلدی جلدی جذب کیا جیسے قرنوں کی پیاسی ہو۔ تب خود سے جدائی کا منظر میری آنکھیں مزید قید نہ کر سکیں اور غشی کے مارے بند ہو گئیں تھیں۔ جب کھلیں تو حجرے میں تھا میری مرہم پٹی ایسے کی گئی جیسے جنگوں میں عارضی پشتے بنا کر اسے پل کا نام دیا جاتا ہے۔ کوئی طبیب میسر تھا دوا نہ دارو۔ ۔ ۔ ۔ راکھ سے زخموں کو مندمل کرنے والوں کو کیا خبر گھاؤ پچھتاوا بن جائیں تو ناسور کی طرح رستے رہتے ہیں۔

زمین پہ گرے آش میں ٹماٹر کا چھلکا ایسے بے سدھ پڑا تھا جیسے میں۔ مٹی پہ اِس بدنصیبی کے نگار مجھے دوبارہ اُس حجرے میں لے گئے۔ جہاں میں کبھی نہیں جانا چاہتا۔ کم از کم اس طرح عین جوانی میں بغیر کسی تربیت کے مسجد میں حفظ کی نیت باندھنے والا سیدھا میدانِ جنگ میں نمازِ جہاد پڑھے جہاں روسی میزائل گھروں کی چھتیں اور مالکوں کے سر کھا جاتے۔ میری داڑھی تب نہیں آئی تھی ہلکی سنہری مونچھیں گھنی ہونے کے عین قریب تھیں۔

قد کاٹھ چوڑا چکلا، دل امنگوں سے اٹا اور کئی خواب جوانی کے دروازے پہ دسکتیں دے رہے تھے۔ میں شش و پنج میں ہونقوں کی طرح ان دیکھی محبت کا منتظر تھا۔ گودر پہ جانیوالی لڑکیوں کے پیچ و خم گننے کسی اونچے ٹیلے پہ بیٹھنے کی تاک میں رہتا۔ جہاں پلوشہ گھڑے میں اپنے شباب جیسے مچلتے دریا کا پانی بھرنے جاتی تھی۔ اُس دن کنچے نکال کر مسواک اور بانسری میں نے جیب میں رکھی تھی مگر عین عصر کے وقت مولوی صاحب کے لڑکے بلانے آ گئے۔ کچی مسجد کی بھوسے والی بنا دروازے کی دیواروں سے مولوی صاحب کی زندگی جُڑی تھی۔ درمیانی عمر، چہرے پہ پژمردگی اور تنگدستی جو سال بہ سال بچوں کی قطار سے بتدریج بڑھتی جاتی۔

”السلام علیکم حاجی صاحب۔“

پنڈلیوں تک بوٹ پہنے کسّے ہوئے تسموں والے کلین شیو سلونے سے آدمی نے بہت احترام سے سلام کیا۔

سپارہ پڑھنے والے سبھی بچے اس کی جانب دیکھنے لگے۔ مولوی صاحب کے ساتھ وہ مسجد کے کونے میں جا کر کھسر پھسر کرتا رہا۔ میں نے موقع تاک کے جیب سے بانسری نکال کر بہروز کو دکھائی۔ بس وہ آخری لمحہ تھا فرط ِ مسرت کا۔ اس کے بعد ہمارے گاؤں میں روزِ حشر کا اعلان ہوتے ہی حجروں و مسجدوں میں حکم کے غلاموں نے جہاد کا ایسا صور پھونکا کہ سب نوجوان سماعت سے محروم ہو گئے۔ ان کے کان جہاد کی سیٹیوں کے علاوہ کوئی آواز قبول کرنے سے انکاری ہو چکے تھے۔

روس نے راتوں رات براستہ ہرات افغانستان پہ حملہ کیا، کیا سارا خطہ ہی چوپٹ ہو گیا۔ شہر ہرات میں چار انچ کی جگہ بھی نہ بچی جسے جنگ نے جلایا نہ ہو۔ شوروی، شورش کے باوجود ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے خول میں چھپے خوابوں سے بھری آنکھیں مسمار کرتے بڑھتے رہے۔ ستر حوریں، سیاہ ریشمی بال، بڑی بڑی کالی آنکھیں ہر حکم بجا لانے والی، لمبی لمبی پلکوں کے بچھونے پہ بٹھانے کو تیار۔ ایک بار دل سے ہوک ضرور اٹھی تھی۔

پلوشے کی سبز چمکتی آنکھوں نے فریاد کی مگر وہ ٹائپ 54 کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ بہتر سوکنوں نے اس کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ کئی میل پہاڑی راستے کو پیادہ سر کرتے جب اس تاریک حجرے میں پہنچا تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ لکڑی کے موٹے شہتیروں کی چھت سے لٹکتا ساٹھ واٹ کا بلب ایسے جل رہا تھا کہ بس اندر سنہریں آنتیں ہی چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔ کمرے کے تینوں اطراف میلے کچیلے کھٹملوں سے بھرے خاکستری توشک اور پچکے ہوئے گاؤ تکیے رکھے تھے جن میں کُھبی ہوئی کہنیوں کی گہرائیاں نمایاں تھیں۔

گھنی سیاہ داڑھی والے امیر کے اردگر سبھی خاموش سر جھکائے بیٹھے تھے۔ امیر کے سر پہ پگڑی کے سیاہی مائل بل مجلگی تاریکی میں گم تھے۔ مگر آنکھوں کی چمک میں عزم جھلک رہا تھا۔ جیسے ابھی نیست و نابود کے قول کو زبانی قید و بند سے آزاد کر دیں گی۔ امیر نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ملحق اتاق میں چمچوں کی کھٹ پھٹ سے خاموشی ٹوٹی۔ ایک کمسن لڑکا چلمچی کے ساتھ کوزے میں پانی لایا اور عمر و رتبے کے لحاظ سے مشران کے ہاتھ دھلائے۔

میری باری سب سے آخر میں آئی۔ مطلب چودہ سال سے کم عمر اس دسترخوان پہ کوئی مہمان نہیں تھا۔ مٹی کے کاسوں میں تیرتے پیاز کی کرنیں تیر رہی تھیں۔ پتلا شوربہ اتنا پتلا کہ جیسے پانی کی سطح پہ تھوڑا سا مرچیلا گھی تیر رہا ہو۔ سب نے تندور پہ کسی اناڑی کی بنی موٹی ادھ کچی روٹیوں کے موٹے موٹے ٹکڑے کر کے کاسے میں ڈالنے شروع کیے۔ جسے تین تین نفر کی ٹولیوں نے مل کر کھانا شروع کیا۔

اففف کتنا لذیذ تھا۔ بعد از سہ روز فاقے کے منہ میں شُکر کے نوالوں نے طبعیت بحال کر دی۔ بشقاب میں تھوڑا سا سوکھا گوشت اور چربی کے سکڑے ٹُکڑے۔ پہلا اور آخری من و سلویٰ تھا۔

اس کے بعد تو مانو عرصہ دراز پیٹ خود پہ سمجھوتے کا پتھر باندھ کر صبر اور پھل کی آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صبر جیت جاتا۔ پھل کے نام پہ شاذ و نادر سوکھے میوے تو ملتے مگر معدے میں نانِ گندم کا الگ سے جو خانہ بنا تھا نا وہ روٹی کے لیے مچل جاتا۔ تب آدیے (ماں ) بہت یاد آتی۔ گرم گرم تازہ روٹی کھلانے والی کی آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتیں تو دل کرتا کہ جہاد چھوڑ کے بھاگ جاؤں۔ پر اس یک طرفہ راستے کا انتخاب میں نے خود کیا تھا۔ ”خود کردہ را تدبیر نیست،۔

ایک بار آدے کی گود میں سر رکھے میں نے کہا جہاد کے لیے لڑکے جا رہے ہیں۔ آدے کی دھرکنیں تیز ہو گئیں اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے۔ جب میں نے کہا ”لیکن میرا جانے کا ارادہ نہیں تو ان کی زعفرانی رنگت دوبارہ سپید ہو گئی۔ میں نے پھر بھی چپکے سے پوٹلی میں دو جوڑے رکھے اور مجاہدوں کے قافلے میں عین اس وقت شامل ہوا جب وہ رات کے وقت سفر پہ روانہ تھا۔ صبح میری گمشدگی کا میری ماں پہ کیا اثر ہوا ہوگا مجھے تب اس کی پروا ہی نہیں تھی۔

میں ایک ایسے دیس میں تھا جہاں سورج دماغ میں اگتا تھا۔ چاندنی کوچ کر کے پڑوس میں ستاروں سمیت ہجرت پہ مجبور تھی۔ محبتوں کے پیامبر ڈاکیے خطوط کے بجائے بارود بانٹتے تھے۔ میں ماں کو انتظار کی تاریکی کے سوا کچھ نہ بھیج سکا، نہ چِھٹی نہ پتر۔ البتہ ہونقوں کی طرح آنے والے ہر نئے ڈلے میں گاؤں کے لڑکے تلاش کرتا۔

شاید کسی لڑکے کے جسم سے میرے بابا کی خوشبو ٹکرائی ہو۔ کوئی میرے چھوٹے بھائیوں کا ہنڈی وال نکل آئے؟ کیا پتہ میرا بھائی ہی۔ نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کے کان بہرے۔ ۔ ۔ تھو تھو تھو۔ میرا ملوک سا بھائی اس بھٹی میں؟ یہ سوچ کر ہی میں کانوں کو ہاتھ لگا لیتا۔ بچوں کے ہاتھ میں بستے کی جگہ بندوق تھمانے والے تو چھٹیاں بھی مناتے۔ عید، برات بھی۔ مگر ہم پہ زندگی اس قدر تنگ کر دی کہ شہادت کے سوا زندگی کا کوئی مقصد ہی نہ رہا۔ ہم محض زبانی کلامی سپوتِ فخرِ قوم تھے۔ جن کے نصیب میں تعصب سے داغے ہوئے اعزازات روز اول سے لکھ دیے گئے تھے۔ مگر ہم عقیدت سے بند آنکھوں کی وجہ سے ان نوشتوں کو پڑھ نہ سکے۔ جنگ کا عفریت جنگی دیوتاؤں کے سر سے اتارنا اتنا آسان نہیں، یہ مورثی مرض کی طرح نسل دد نسل چلتا رہتا ہے۔

اب تک لاکھوں انسانوں کی بھینٹ چڑھانے کے بعد بھی مفادات کے پیٹ خالی ہیں۔ اچانک پانی سے بھرے بادل پھٹ پڑے۔ میں اپنی ایک ٹانگ گھیسٹتا خیمے کی اوٹ میں جا بیٹھا۔ لنگر ختم ہو چکا تھا۔ آدمیوں سے بھرا میدان، عرفات کی طرح تتر بتر ہونے لگا۔ ”کیا میں ان سب کا مجرم تھا؟“ یہ خیال آتے ہیں میں ہاتھ جوڑے مہاجرین کے سامنے معافی کا متمنی تھا۔

کوئی میرے بندھے ہاتھ دائیں بائیں سر ہلاتے ہوئے کھول دیتا۔ کوئی نظر انداز کر دیتا اور کوئی تاسف بھری حقارت سے دھتکار دیتا۔ ضمیر کے ہتھوڑے تو عرصہ دراز سے میرے اعصاب پہ برس برس کے مجھے ادھ موا کر چکے تھے۔ اب غازی بستر پہ موت کا منتظر تھا۔ گلے ہوئے گردے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا خمیازہ بھگت رہے تھے۔ اور ناکارہ جگر مذید خون پینے سے صاف انکاری ہو گیا۔ علاج کس کے لیے کرواتا؟ میرے پاس بچا ہی کیا تھا سوائے پشیمانی کے؟ روسی انخلاء کے بعد خانہ جنگی نے کابل کے علاوہ مجھے بھی بہت بڑا دھکچا لگایا۔ ہماری جگہ تازہ چہروں نے لے لی۔ جب طالبان آندھی کی طرح آئے اور دھول کی طرح چھا گئے تو میں الٹے قدموں بہتر حوروں اور شہادت کا غم لیے واپس پلٹا۔ تب تک گاؤں کی دنیا بہت بدل چکی تھی۔

مجھے اچانک اپنے ہی گھر میں داخل ہوتے دیکھ کے عورتیں ستر کرتی کونے کھدروں میں چھپنے لگیں اور بھائی دیوار سے بندوق اٹھائے میری جانب بڑھا۔ سوائے آدیے کے۔ جس نے کہا! ”دھڑام سے دروازہ کھولنے کی عادت تو وحید وزیر کی تھی۔“ ماؤں کی یاداشت بوڑھے درختوں کے تنوں پہ کھدے ان حروف و علامات جیسی ہوتی ہے جو زمانے بعد بھی ایسے تازہ ہوتی ہیں جیسے ابھی ابھی کوئی گود کے گیا ہو۔ آدے کی بصیرت میری جدائی کے غم میں روتے روتے اتنی گھٹ چکی تھی کہ جب ملا تو بس لمس سے مجھے محسوس کر کے سوکھی آنکھوں سے گزرے وقت پہ ماتم کیا۔

ہاتھ چومے اور میرے غم میں تکیے کے غلافوں پہ جدائی کے جتنے ٹپے کاڑھے وہ سب میرے لیے لے آئی۔ غلافوں پہ اشعار لکھ لکھ کر دینے والے لیسہ خوشحال خان سے فارغ التحصیل، روشن خیال بابا نہیں رہے تھے۔ جو کہتے تھے ہم وہ پھل ہیں جو غذا پڑوس سے لیتے ہیں مگر گرتے اپنے آنگن میں ہیں۔ شاید ان کی حرکتِ قلب بھی اسی آگاہی نے روک دی کہ وہ جس درخت سے پیوستہ تھے اسی کی جڑوں کو تبر نے انھی کے دستوں میں سما کر ان کی نسل پہ شب خون مارا۔

ایک بھائی اسلحہ فروشی کے کاروبار سے منسلک تو دوسرا دنیا تیاگ کر کالی چادر کے چھپر تلے سوٹے لگانے والے ٹولے کا سربراہ تھا۔ ہم کو جہاد کے لیے اکسانے والا مفلس مولوی اب پولیس برانڈ کے چشمے چڑھائے پراڈو میں گھومتا بڑا سیاست دان بن چکا تھا۔ خوانین اور ملکوں کا اثرو رسوخ اپنے حجروں تک سکڑا ہوا تھا۔ پہلے مطلق العنان خدا کی طرح ہماری زندگی و موت کے فیصلے کرتا۔ عنایتوں کے بدلے بھینٹ میں دنبے، قالین، نقدی حتیٰ کہ ہاتھ پہ باندھی گھڑیاں تک اتروا لیتا۔

پھر خاک سے خداؤں نے جنم لیا۔ خود کو معتبر سمجھا، باقی سب ہیچ۔ بھلا خدا کی آڈیٹ کون کرتا ہے۔ کون اس سے پوچھتا یہ جو محشر سا بپا ہے کیوں ہے؟ ہم وہ فرشتے تھے جب تک تابع رہے سب ٹھیک تھا۔ جب خاک کو ناخدا کہنے سے منکر ہوئے تو ابلیس سے شیطان کا ٹھپہ لگ دیا۔ شیطان کون؟ ”جس نے کہا خاکی دھرتی فساد پربا کریں گے۔ ،

اب اس خرابے کو سمیٹنے کے بجائے خدا نے چپ سادھ لی۔ اس کا فیصلہ روز قیامت پہ ملتوی کر دیا۔ ہم پہ جو روز قیامت گزرتی ہے وہ۔ میں اپنی نسل کشی کا چشم دید گواہ ہوں طریقے طریقے سے ہم کو جنگ کے آلاؤ میں دھکیل کر اس آگ کو ٹھنڈا نہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ نوجوان کھیپ مدرسوں میں بندوق کی نالیوں کو تیل لگا لگا کر چمکاتی اور بارود کے فارمولے اپنی کاپیوں پہ درج کرتی۔ والی بال کی جگہ کلاشنکوف سے نشانے بازی کے شغل نے لے لی۔

غلیل کی جگہ جیب میں چھرے، وہ نکلتے تو پوڈر کی پڑیا سما جاتی۔ گودر محبتوں کے بسیط جذبوں کو سسکتی بانجھ ہو چکی تھی۔ میرے بچپن کے سبھی نشان ساحل پہ لکھے ناموں کی طرح مٹ چکے تھے۔ دوست یار بھی، پیار بھی۔ ۔ ۔ ۔ آدیے روایتی ماں کی طرح میری شادی کے لیے بضد ہو گئیں۔ کچھ عرصے بعد کم عمر لڑکی کا قرعہ میرے نام نکل آیا۔ ادھورے انسان کی مکمل خواہشات کا احترام اس کی ماں کے علاوہ دنیا کہاں کرتی ہے۔ پر بیوی بھی گزارہ کر ہی لیتی ہے۔

تڑ تڑ تڑ تڑ۔ Ak 47 کی کان پھاڑتی آوازیں شدت سے سنائی دی۔ حملہ۔ حملہ۔ روسی سپاہی سر پہ آن پہنچے ہیں۔ نیم شب ہڑبونگ نیند میں ہم نے ہتھیار سنبھالے۔ رات بھر گھمسان کا رن۔ صبح انسانی لاشوں کی چھانٹی۔ ہماری فتح۔ خون آلود مٹی پہ سفید جھنڈے۔ زمرد خان۔ زمرد خان۔ زمرد خان منہ کھولے، نیم وا انکھوں سے ان دیکھی حور کا استقبال کر رہا تھا۔ زمرد خانا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا۔ زمرد خانا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا

میں رندھی ہوئی آواز سے چلایا اور اپنی ہی چیخ سے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ وہ مسہری کے کونے میں سکڑی ڈری ہوئی ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو؟ ”بس اتنا ہی! یا کچھ اور اسرار باقی ہیں؟“ میں نے بھی دل ہی دل میں جواب دیا۔ ”اسے منہ دکھائی کا تحفہ سمجھ لو“

پر حلق سے صرف اتنا نکلا! ”سو جاؤ! بدرے“ ۔ پر وہ کبھی چین کی نیند سو نہ سکی۔ جنگی سوغات جو میں ساتھ لایا تھا وہ ہر رات کسی نہ کسی صورت میں اسے سونپتا رہتا۔

میں خزاؤں کو اپنی دانست میں الوداع کر چکا تھا۔ گھر کی بغل میں خوراکہ فروشی کی دکان کھولی۔ اور سات بچوں کا باپ بن کر ایک اور ہی دنیا میں مگن ہو گیا۔ وہ وقت بھی آیا جب رات کو روسی میزائل کے خوفناک دھماکوں اور ترسیدہ خوابوں کے بجائے بچوں کی چوں چوں سے جاگ جاتا۔ وہ ایک الگ دلکش احساس تھا مگر یہ احساس کبھی دلگیر چیخ میں بدل کر پھر سے ڈرائے گا۔ یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ مہاجر کارڈ ملتے ہی میں دامان کے کچے گھروندے میں بھائی کے ساتھ منتقل ہو گیا۔

پینتالیس سینٹی گریڈ کی گرمی سے پشت تو دانوں سے بھر جاتی ہے مگر اشکوں کا سمندر خشک نہیں ہوتا۔ میں علاج کے لیے پشاور کیا گیا۔ واپسی کے سب رستے ہی مسدود ہو گئے۔ جب راستے کھلے تو گھروں کی جگہ دشت تھے اور دکانوں کی جگہ ڈگر، بازار بھاں بھاں کرتی دھول اڑاتی مٹی۔ حتیٰ کہ ادیرے بھی چٹیل، بیابان۔ جن پہ بلڈوزر چلا کے مُردوں سے آخری نشان بھی چھین لیے۔ میوہ جات و محرمات کا علاقہ وزیرستان زمین بوس قبرستان بن چکا تھا۔

رات کو بنیان پہنے مضری والے بان پہ لیٹے آسمان کے شمال میں دبِ اکبر کے ستاروں میں مجھے میرے بچوں کے چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ جو مل کر ایک ریچھ کی صورت اختیار کر کے اشارہ کرتے ہیں جو ان کو میری غیری موجودگی میں نگل گیا۔ ادھورا چاند بستر پہ لیٹی سکڑی ہوئی بدرے کا روپ دھار کر مجھے بیتے دنوں کی یاد دلا کر رلاتا ہے۔

میں ہر وقت منہ آسمان کی جانب کیے ہوا میں شہادت کی انگلی لہرا کر حساب کرتا رہتا ہوں۔ میں نے کیا کھویا، کیا پایا۔ ۔ ۔ ۔ بچے تو بچے۔ بھائی بھاوج بھی سب کو کہتے ہیں۔ میں پے در پے صدموں کی وجہ سے ذہنی توازن کھو چکا ہوں۔ پر میں سوچتا ہوں عقل تو اب آئی ہے مجھے۔
پاگل تو میں پہلے تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031