نئے لیمپ ۔۔۔ فرانز کافکا
نئے لیمپ
فرانز کافکا
، جرمن سے اردو ترجمہ: مقبول ملک
کل میں پہلی بار ڈائریکٹوریٹ کے دفاتر میں گیا۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کارکنوں نے مجھے اپنا معتمد نمائندہ منتخب کر کے یہ فریضہ سونپا تھا کہ چونکہ ہمارے لیمپ مرمت اور بدلے جانے کے متقاضی ہیں، اس لیے میں انتظامیہ کے دفاتر میں جا کر زور دے کر ان برے حالات کے تدارک کی کوشش کروں۔ مجھے متعلقہ دفتر دکھا دیا گیا تھا اور میں دستک دے کر اندر داخل ہو گیا۔ بہت پیلی سی رنگت والا ایک نازک سا نوجوان اپنی بڑی سی میز کے پار سے مجھے دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ اپنے سر کو بار بار آگے کی طرف جھکا کر بہت زیادہ ہلاتا جا رہا تھا۔
میں نہیں جانتا تھا کہ آیا مجھے بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ وہاں ایک آرام دہ کرسی تو تھی لیکن میں نے سوچا کہ مجھے اس دفتر میں اپنی پہلی بار موجودگی کے دوران فوراً ہی بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ اس لیے میں نے ساری کہانی کھڑے کھڑے ہی بیان کر دی۔ لیکن اپنی اس انکساری کے ساتھ میں نے اس نوجوان آدمی کے لیے بظاہر مشکلات بھی پیدا کر دی تھیں۔ اس کو اپنا چہرہ گھما کر اور تھوڑا سا اوپر کر کے میری بات سننا پڑ رہی تھی کیونکہ اس نے اپنی کرسی کا رخ نہیں بدلا تھا اور وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہ رہا تھا۔ دوسری طرف اس نے اپنی تمام تر رضامندی کے باوجود اپنی گردن پوری نہیں گھمائی تھی اور جب میں اسے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا، تو وہ ترچھی نظروں سے کمرے کے وسط میں چھت کو دیکھ رہا تھا اور میری نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظروں کا پیچھا کر رہی تھیں۔
جب میں نے بات پوری کی، تو وہ آہستہ آہستہ کھڑا ہو گیا اور میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے بولا: اچھا، اچھا۔ اچھا اچھا! یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے آرام سے ساتھ والے کمرے میں دھکیل دیا، جہاں جنگلی گھاس کی طرح اگی ہوئی بڑی داڑھی والا ایک بڑا صاحب بظاہر ہماری آمد کا منتظر تھا۔ اس کی میز پر کسی بھی طرح کے کسی کام کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ لیکن اس کے برعکس اس کے کمرے میں شیشے کا ایک کھلا ہوا دروازہ تھا، جو ایک ایسے چھوٹے سے باغیچے کو جاتا تھا، جو پھولوں اور پودوں سے بھرا ہوا تھا۔
نوجوان آدمی نے بڑے صاحب کو سرگوشی کے سے انداز میں چند ہی لفظوں میں سب کچھ کہہ دیا اور یہ اطلاع اسے ہماری کئی طرح کی جملہ شکایات سے آگاہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا اور بولا: اچھا! میرے پیارے ۔۔ وہ کچھ جھجھکا۔ میں سمجھا کہ وہ شاید میرا نام جاننا چاہتا تھا۔ اس پر میں نے خود کو دوبارہ متعارف کرانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اس نے درمیان میں ہی بولنا شروع کر دیا: اچھا، ٹھیک ہے۔ صحیح ہے۔ میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ مطلب تمہاری یا تم سب کی درخواست بالکل بجا ہے۔ میں اور ڈائریکٹوریٹ کے دیگر صاحبان تو وہ آخری لوگ ہوں گے جو یہ بات سمجھنا ہی نہ چاہیں۔ میری بات کا یقین کرو کہ تم لوگوں کی بھلائی ہمارے دلوں تک میں کارخانے کی بہتری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اور ایسا ہو بھی کیوں نہ؟ کارخانہ تو دوبارہ بھی بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس پر صرف رقم لگے گی، رقم پر بھی لعنت بھیجو۔ لیکن اگر کوئی انسان مارا گیا، کیونکہ اس طرح انسان مر بھی تو جاتا ہے، تو باقی تو صرف بیوہ اور بچے ہی بچتے ہیں۔توبہ توبہ! اس لیے ہم تو سلامتی، حفاظت، آسانیوں، آسائشوں اور پرتعیش سہولیات سے متعلق ہر طرح کی تجویز کا دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ایسی کوئی تجویز لاتا ہے، وہ ہمارا اپنا آدمی ہے۔ تم نے جو تجاویز دی ہیں، ہم وہ جان گئے ہیں۔ ہم ان کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ اگر ان میں مزید بھی کسی چیز کا اضافہ ضروری سمجھا گیا، تو ہم وہ بھی کریں گے۔ ہم ہچکچائیں گے نہیں اور جب سب کچھ کر لیا گیا تو تمہیں نئے لیمپ بھی مل جائیں گے۔ تم بس نیچے جا کر اپنے ساتھیوں کو بتا دو: جب تک ہم تمہارے کام کی جگہوں کو کسی شاندار سیلُون میں نہ بدل دیں، ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ اور جب تک آخرکار تم بہت مہنگے جوتے پہن کر نہیں مرتے، تب تک تو بالکل بھی نہیں۔ تمہارے لیے بہت اچھی سفارشات کر دی گئی ہیں۔