مانو ۔۔۔ سارا احمد
مانو
سارا احمد
اس سے کبھی دُکھ سنبھالے نہیں جاتے تھے- بارشیں ہوتیں تو وہ اس کے اندر سے نکل کر کھلے آسمان تلے بکھر جاتے- وہ ٹیرس پر لوہے کے شیڈ کے نیچے بید کی کرسی پر بیٹھی انہیں دیکھتی رہتی- امّی کے جہیز کی اس کرسی کی ٹوٹی ہوئی تاریں نیچے فرش پر جھولتی رہتیں- گھر میں کتنے دنوں سے ایک بلی کا بچہ گیٹ کے نیچے سے زبردستی اندر گھس آیا تھا- وہ لٹکتی ہوئی ان پلاسٹک کی پیلی تاروں سے کھیلتا رہتا- اس کا من بھی مچلتا تو وہ اپنے سامنے رکھی چائے پرچ میں انڈیل کر اس کے سامنے رکھ دیتی- وہ روئی سا نرم وسفید بچہ خود کو سکیڑ کر ایک جھرجھری لیتا اور باریک سی میاؤں کی آواز نکالتا- وہ مسکرانے لگتی- چائے کی عیاشی میں آجکل وہ دونوں ساتھی تھے- دکھ حاسد تھے- اپنے علاوہ کسی کو دل میں ٹھہرنے ہی نہیں دیتے تھے- اس ایک پَل کی خوشی میں بھی ایک دکھ رینگتا ہوا اس کے پاؤں کے انگوٹھے سے لگ کر سسکنے لگا-
” چل ہٹ مردود۔۔۔۔۔-“
وہ بڑبڑائی- کسی یاد کی سرسراہٹ سے کتراتے ہوئے اس نے اپنے دونوں پاؤں کرسی پر رکھ لیے- چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے ایک ہاتھ سے وہ اپنا پاؤں سہلانے لگی-
” ہاں اچھا لگتا تھا جب تم اپنی انگلیوں کی پوروں سے ان پاؤں کے تلوؤں کو گدگداتے تھے لیکن اب وہ لمس کیچوے کے رینگنے جیسا محسوس ہوتا ہے-“
وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے بارش کی بوندیں اپنے چائے کے خالی کپ میں جمع کرنے لگی-
” بارش کا پانی کتنا قیمتی لگتا ہے نا مانو۔۔۔۔؟”
بلی کے بچے کو وہ اٹھائے ہوئے نیچے اتر آئی- میاؤں کی آواز کے ساتھ اس کی بات کی تائید ہو گئی- اس نے بارش کا پانی مَنی پلانٹ کی شیشے کی بوتل میں انڈیل کر کپ خالی کردیا-
” مانو آج رات میرے ساتھ سوئے گی-“
اس نے بلی کے بچے کی مندی مندی آنکھوں پر پھونک مار کر اس کے کان میں سرگوشی کی-
رات کی گود میں اونگھتی نیند خواب کے ٹوٹنے پر جھنجھلا اٹھی- کیسی بیقراری تھی جو پاؤں کے تلوئے چاٹتی تھی اور قدم رکتے نہیں تھے- سفر تھمتا نہیں تھا اور راستے تھکتے نہیں تھے- خواب کا تسلسل ابھی ٹوٹا نہیں تھا- بارش کے بعد کچی مٹی سے نکل کر رینگتے ہوئے سینکڑوں کیچوے اس کے اردگرد پھیل گئے- اس نے گھپ اندھیرے میں آسمان پر چمکتے ستارے دیکھے- کتنا تضاد تھا اس وقت زمین وآسمان کے مناظر میں- اسے اپنے کپڑوں میں وہ سینکڑوں کیچوے گھستے ہوئے محسوس ہوئے- کراہت سے ایک جھرجھری لے کر اپنے گیلے دوپٹے کی طرح اس نے آسمان کو چَھنک لیا- جَھر۔۔۔۔۔جَھر۔۔۔۔۔ستارے اس پر گرتے چلے گئے- اس نے قبر سے باہر نکل کر دیکھا- اس کی مانگ مٹی سے بھری تھی- اس کا دامن اور ہاتھ دونوں خالی تھے- ستارے کہاں گئے؟ یہاں تو سب مٹی مٹی تھا- وہ کیوں خاک میں پڑی تھی؟
“ام۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔امّی”-
ایک دلدوز چیخ کے ساتھ فلک کے کنارے سے سپیدی کی لکیر نمودار ہوئی- دن چڑھ گیا تھا- رات اوٹ میں سینکڑوں رینگتے کیچوے لے کر سرک گئی تھی-
اس نے روشنی کی کرنوں میں مانو کو اپنے پاؤں کے پاس کسمساتے دیکھا- ایک حسرت سے اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دن کے اس ابتدائی حصے کو ہمیشہ کے لیے روک لینے کا بھی سوچا لیکن اس کی سوچیں ناممکنات کی حدود سے جا ملتی تھیں- مانو میاؤں کی آواز کے ساتھ بستر سے کود کر کمرے سے باہر چلی گئی- وہ کتنی دیر بیٹھی کچھ سوچتی رہی پھر غسل خانے کی طرف بڑھ گئی- ایک رات میں نہ جانے کتنی بار وہ زندہ قبر میں گاڑ دی جاتی تھی اور ہر صبح منوں من مٹی کے ساتھ ڈھیروں ڈھیر تھکن لے کر بیدار ہوتی تھی-
وہ ستارہ تھی اور نہ کوئی سیپ، زمرد تھی اور نہ کہکشاں- وہ صرف ایک لڑکی تھی جو پیار کے نام مانو سے پکاری جاتی تھی- آنکھیں ایسی تھیں کہ اندھیرے میں دو چراغ جلتے محسوس ہوتے- اداس اتنی جیسے برسوں کسی مزار پر جلتی رہی ہوں اور ویران اتنی جیسے اس کی منتظر ہوں جسے کبھی نہ آنا ہو-
زندگی کی اِک شام ایسی آئی تھی جس میں وہ آیا تھا- ابو نے کہا تھا،
” مانو میری لاڈلی میں نے تیرے لیے اچھا سوچا ہے- بن ماں کی ہے لیکن تجھے رخصت ماں بن کر کروں گا- تیرا ہر ارمان پورا کروں گا لیکن ایک نصیحت تجھے باپ بن کر بھی کروں گا کہ اب اسی کے ساتھ تجھے جینا اور مرنا ہے-“
ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے جو نظر نہیں آئے لیکن ان کے وہ سارے لفظ بھیگے ہوئے تھے-
سسرال گھر نہیں بن سکا کیونکہ اس کی گود سونی تھی-
” آئے ہائے کاہے کی مانو۔۔۔۔۔سوکھی کھیتی۔۔۔۔۔بانجھ۔۔۔۔۔۔-“
ابو مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو وہ ان کے پاس چلی آئی- افراہیم کی دوسری شادی کی باتیں اب گھر میں شروع ہو گئی تھیں- تین سال سمجھوتوں اور خدمتوں کی نذر ہو گئے- افراہیم کے ہاتھوں کے لمس میں اب اپنا پن نہیں رہا تھا- یوں لگتا تھا زندگی کے کچھ تقاضے نہ چاہتے ہوئے بھی نبھانے پڑ رہے ہوں- اسے اس کے بازو پر نیند نہیں آتی تھی- نیند تکیوں پر سر رکھنے سے بھی نہیں آتی تھی- نیندیں روٹھ گئی تھیں- اسے احساس ہی نہیں تھا مرد اتنی ساری امیدوں کے ٹکڑے جوڑنے پر مکمل ہوتا ہے اور عورت ساری عمر خواہشوں کے ٹکڑوں میں بٹی نامکمل رہتی ہے-
ابو نے اپنی زندگی میں ہی اپنا چھوٹا سا مکان اپنی مانو کے نام کر دیا تھا- مانو نے بھی اپنا آپ کسی کے سپرد کر کے ہمیشہ کے لیے اس کا ہو جانا چاہا تھا لیکن افراہیم کی جہاں شادی ہورہی تھی ان کی شرط یہی تھی کہ انہیں اپنی بیٹی پر سوتن برداشت نہیں- ابو زندہ ہوتے تو وہ انہیں بتاتی کہ ان کے اس مکان دینے کے لالچ نے بھی ان کی بیٹی کی قسمت نہیں بدلی- بیٹیوں کی قسمتیں جاگیریں دینے سے بھی نہیں بدلتیں- دعائیں شاید بدل دیتی ہوں لیکن اسے دعائیں بھی نہیں لگی تھیں-
وہ ابھی عمر کی بہاروں کے اولین راستوں پر تھی- اس کے راستوں کے دونوں اطراف پھولوں کی روشیں نہیں تھیں اور نہ سامنے ایسی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں- وہ ابھی دنیا کے خارزاروں میں الجھی تھی-
رشتے کے ایک چچا جو دوسرے شہر اپنی دو بیویاں اور سستی شہرت رکھتے تھے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے آ گئے- ان کی آنکھیں کہیں اور ٹکی تھیں- محلے کے ایک انکل اور آنٹی جن کے بچے بیرون ملک مقیم تھے وہ اس کے لیے سایہءابر بن گئے- انہوں نے چچا کو بڑی مشکل سے یہاں سے رخصت کیا- زندگی میں اور کون سا رشتہ بچا تھا- ابو جس رشتے کو دنیا کا مضبوط اور اپنی بیٹی کے لیے آخری رشتہ سمجھتے تھے وہ کب کا ٹوٹ چکا تھا اور وہی سب سے نازک اور ناپائیدار رشتہ ثابت ہوا تھا-
انکل اور آنٹی اچھے تھے- انہیں اپنے لیے ایک قابلِ بھروسہ خدمتگار کی ضرورت تھی- ان کے لیے کھانا بنانا، خیال رکھنا اور میڈیکل اسٹور سے ان کے لیے ادویات وغیرہ لانا اس کے فرائض میں شامل تھا- ان میں سے ایک کام ڈھیر سارے رجسٹر نما البم بھی ہفتے میں ایک بار اٹھا کر ان کے کمرے میں لانا اور واپس اسٹور میں رکھنا تھا- تصویروں سے بہلتے ہوئے وہ دونوں میاں بیوی اسے بچے لگتے- ایسے بچےجو یتیم تھے- بڑھاپے میں بچے ساتھ نہ ہوں تو والدین کی حیثیت یتیم بچوں کی سی ہو جاتی ہے- اس کے لیے وہ اب ماں باپ سے بڑھ کر تھے لیکن ماں باپ سے دعائیں لی جاتی ہیں اجرت نہیں-
” بیٹی مانو تم اسے دعا سمجھ کر ہی ہماری طرف سے رکھ لیا کرو”-
آنٹی اس کی مٹھی میں مہینے کے آخر میں رقم دیتے ہوئے کہتیں- اس کی گریجویشن نامکمل رہ گئی تھی- انگریزی کا مضمون وہ پاس نہیں کر سکی تھی- اب اسے تعلیم کے نامکمل رہنے کا قلق ہو رہا تھا- انکل کے جاننے والوں میں ایک خاتون ہیڈمسڑیس تھیں- ان کا گھر زیادہ دور نہیں تھا اور انکل کی وجہ سے فیس بھی معمولی تھی- اسے اپنی تعلیم کے بارے میں دوبارہ سے ایک فیصلہ لینے کا اچھا موقع مل رہا تھا- اس کے بعد کہیں نوکری کے لیے وہ کوشش کر سکتی تھی- وہ خوش شکل تھی- ایک چھوٹا موٹا مکان بھی اس کی ملکیت میں تھا لیکن وہ بانجھ تھی- سماج نے ایک انسان اور ایک عورت ہونے کا لیبل اتار کر اس پر اب صرف ایک بانجھ ہونے کا ٹھپہ لگا دیا تھا- کسی کرم فرما کی مہربانی سے اس کے لیے اگر کوئی رشتہ آیا بھی تو بچوں والے کسی لالچی طلاق یافتہ پکی عمر کے مرد کا یا بال بچے بیاہ کر تنہائی چاٹتے ہوئے کسی رنڈوے بڈھے کا تھا- اسے سماج میں رَد کیے جانے کے احساس نے تنہائی ہی نہیں آگہی بھی دی تھی- اسے اپنے لیے خود ہی سوچنا تھا- اسے جینا تھا- اسے بھی دوسروں کی طرح زندگی جینے کے لیے ملی تھی- زندگی کے کچھ ٹانکے کچے ضرور تھے لیکن وہ انہیں ادھیڑنے کے لیے دوسروں کے سپرد نہیں کر سکتی تھی-
اس نے انکل سے ہیڈمسڑیس صاحبہ کے گھر کا پتہ اچھی طرح سمجھ لیا-
وہ ابو کی انگلی پکڑ کر ان راستوں پر بارہا آئی تھی- گھر سے نکلتے ہی چیزیں خریدتے اور بیچتے انسانوں سے بھرے ہوئے بازار اس کے دونوں اطراف تھے- ان کے ساتھ بتائے ہوئے وقت کی سب یادیں شور میں دب گئیں- بچپن کی سنگت میں گزری ہوئی شوخیوں بھرے شام وسحر بازار کے بھاؤ تاؤ میں کسی سکے کی مانند ہاتھ سے پھسل کر گم ہو گئے- چند قدم چل کر اسے لگا جیسے اس کے سَر سے کسی نے چادر اتار کر پھینک دی ہو- بازار کے دونوں اطراف لونڈیوں کی قطاریں لگی تھیں- ان کے چہروں اور جسموں کو چھیدتی نظروں کی برچھیاں اور پھر ان کی کلائیوں پر پڑتی مضبوط گرفت سے کھنچتی ہوئی ان کی کھالیں- “یہ بازار نہیں لگنے چاہیں – یہ بازار نہیں لگنے چاہیں-” اس کے اندر سے آوازیں اٹھنی لگیں- اس کے قدم بازار میں برابر اٹھ رہے تھے لیکن اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر کوئی اسے اندر سے گھسیٹ بھی رہا تھا- ” ام۔۔۔۔ ی۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔امّی-“
ایک چیخ کے ساتھ ایک ننھے ہاتھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا- وہ وہیں تھم گئی- ایک بھورے بالوں اور سیاہ آنکھوں والی بچی اس کی طرف ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی- آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر بہے تو اس کے سامنے کا منظر صاف ہوا- اسی پَل اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا- اس کے پیچھے ہی اس کی ماں دوڑتی ہوئی آئی اور اس کا بازو پکڑ کر لے گئی- کسی نے اسے غلطی سے امّی کہہ دیا تھا-
واپسی پر شام کے ڈھلنے سے پہلے وہ انکل آنٹی کی طرف گئی انہیں اپنی پڑھائی کے متعلق بتایا- وہ ہیڈمسڑیس صاحبہ سے مطمئن تھی- ان کے گھر کوئی نہیں تھا سوائے ان کی بہو، ایک پوتے اور پوتی کے- ان کا بیٹا نوکری کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتا تھا- اسے نئے سرے سے پڑھنا مشکل لگ رہا تھا- ارتکاز اور یکسوئی فی الحال عنقا تھے لیکن اس نے ہمت باندھ لی تھی- جینے کے لیے ہمت کے ساتھ صرف تھوڑی سی تازہ ہوا چاہیے- اس نے اپنے پھیپھٹروں پر پوار زور ڈال کر ایک بھرپور سانس لیا- ٹیرس اب اسے اتنا سونا نہیں لگتا تھا- وہ پرچ میں چائے ڈال کر کرسی کے نیچے رکھ دیتی- بلی کا بچہ نہ جانے کہاں چھپا ہوتا فوراً باہر نکل آتا اور یوں پرچ پر جھک جاتا جیسے اس کا شکرگزار ہو-
” مانو ٹھیک ہے نا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے، جو انسانوں کو شکریہ نہیں کہتے وہ اپنے رب کے بھی ناشکرے بندے رہتے ہیں”-
بلی کا بچہ ایک بار سَر اٹھا کر اسے دیکھتا تو یوں لگتا جیسے اسے انسانوں اور اپنے رب کی خوب پہچان ہے- وہ بھی انکل اور آنٹی کی بہت شکرگزار تھی- ان کی وجہ سے محلے میں اب تک اس کے لیے وہی احترام باقی تھا جو ابّو کی زندگی میں تھا-
اسے رات سونے سے ڈر لگتا تھا- جاگتے رہنے سے اس کے پپوٹے بھاری ہو جاتے اور آنکھوں میں چھبن سی ہوتی- اپنی آنکھیں ہی جیسے اس کی زندگی پر پہرا دار تھیں- پانی سے بھر جاتیں اور مزاحمت کرتی نیند ان میں ڈوب جاتی- خواب وہی ہوتے- خاک اڑاتے، قفس میں سر پٹختے اور بیلوں کی طرح دیواروں سے لپٹ کر روتے- وہ دھول مٹی لیے اور تھکن اٹھائے ہر صبح جاگتی- کبھی بلی کا بچہ اس کے سرہانے سو جاتا اور کبھی اس کے پاؤں میں- رات کے کسی پہر اس کا نرم وملائم وجود اس سے مَس ہوتا تو اسے افراہیم کے ہونے کا احساس ہوتا- وہ جاگتے میں اس احساس کو محسوس کرنے کی کوشش کرتی تو سرسراتی آہٹیں اس لمس کے کیچوے نوچ نوچ کر اتار پھینکتیں-
” مانو۔۔۔۔میری مانو ۔۔۔۔۔میرے پاس آ۔۔۔۔۔۔-“
مانو اس کی کیسے بن سکتی تھی- اس کی ماں دن میں دوبار دیوار پھلانگ کر آتی اور اسے دودھ پلا جاتی- وہ ان دونوں کو دیکھتی رہتی- اس کی ممتا بین ڈالنے لگتی-
” میرا نام مانو کیوں رکھا تھا؟” وہ سوال بھی ان سے کرتی جنہیں اب پلٹ کر کبھی جواب نہیں دینا تھا-
” مانو۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
دروازے پر دستک کے ساتھ انکل کی آواز بھی اسے سنائی دی- وہ ابھی نہائی نہیں تھی- بال بھی بکھرے ہوئے تھے- وہ تو بس غیراختیاری طور پر بلی کے بچے کے پیچھے صحن میں چلی آئی تھی-
” مانو۔۔۔۔۔۔؟”
دروازہ کھولتے ہی انکل نے ایک دم اندر آ کر اس کا بازو تھام لیا-
” بچے گھر بیچنے پاکستان آرہے ہیں-“
وہ انکل کا اضطراب دیکھ کر گھبرا گئی-
” آپ گھر چلیے میں آتی ہوں-“
اس نے اپنے بازو کو ان کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے آہستگی سے کہا-
انکل چلے گئے لیکن اتنی صبح انہیں اس کے گھر سے نکلتے دیکھ کر دوپہر تک محلے کے عمر رسیدہ معززین اس کے دروازے پر مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے- ان میں ایک بھی اس گلی کا نوجوان نہیں تھا- یہاں کے نام نہاد لوفر لڑکے بھی کچھ حیا والے نکلے جنہیں لڑکی کی چال دیکھ کر اس کے کریکٹر کو جانچنے کا دعویٰ تھا-
فیصلہ اس نے کرنا تھا- انکل بہت روئے اور آنٹی بھی- ان کے بیٹے پاکستان آئے اور گھر بیچ کر چلے گئے- انکل اور آنٹی پاکستان چھوڑ کر باہر نہیں جانا چاہتے تھے- وہاں کے اولڈ ہومز کی تنہائی سے بہتر تھا اپنے وطن میں ہی ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے-
” مانو آج بھی میرے ساتھ سوئے گی نا؟”
اس نے کمرے کی بتی نہیں جلائی- کھڑکی سے چاند اسے تکتا تھا- باہر اندھیرا کچھ کم ہو گیا تھا- رات ٹکڑوں میں منقسم ہو گئی تھی- ایک ٹکڑا اس نے اپنے تکیے کے نیچے چھپا لیا- اس نے اپنے جسم کو چُھو کر دیکھا- اس پر لپٹیں وحشتیں اور نحوستیں نوچ کر بھی نہ اتار سکی- اس نے اپنے سنہرے پنکھ زور زور سے پٹخ کر رات ادھ موئی کر دی لیکن اُڑان نہ بھر سکی- ایک ٹکڑا جو تکیے کے نیچے رکھا تھا سَر سے پاؤں تک وار کر گزرتے ہوئے زمانوں کے سپرد کر دیا- روح تک پھیلے دُکھ کے مہیب سائے کسے دکھائی دیتے ہیں-
انکل اور آنٹی ساتھ والے کمرے میں سو رہے تھے- وہ اب اس کے انکل نہیں رہے تھے- شام کے بعد سے وہ ان کے نکاح میں آ گئی تھی- وہ آج شام ٹیرس پر نہیں گئی- چائے بھی نہیں پی تھی- بلی کا بچہ وہاں اس کا انتظار کرتے کرتے خود ہی اس کے کمرے میں آ گیا تھا-
وہ ایک لڑکی تھی مگر دنیا کے بازار میں بلی کی طرح ششکار کر ڈرائی گئی تھی- وہ صرف اپنے امّی ابّو کی مانو تھی-