شِکم گزیدہ ۔۔۔ آدم شیر

شکم گزیدہ

آدم شیر

ظفر دن بھر کا تھکا ہارا گھر آیا تو اماں نے کھانا دیتے وقت ایسی ایک بات کی کہ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ ایک عرصہ تک یہ سنے کے لیے اس کے کان ترستے رہے تھے۔ اب خوشی سے ناچنے کے بجائے وہ پریشان ہو گیا تھا۔ اس نے چپ چاپ کھانا لیا اور ماں کو حیران چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

غریب کا بچہ جلد جوان ہو جاتا ہے اور بوڑھا بھی وقت سے پہلے ہوتا ہے۔ وہ بوڑھا تو نہیں ہوا تھا لیکن چھوٹی عمر سے گھر کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اندر سے تھک ضرور گیا تھا۔ اسے عشق بھی جوان نہ رکھ سکا، شاید اس لیے کہ ہر بار یکطرفہ تانا بنتا تھا گواسے ہر شے سے عشق ہو جاتا تھا ۔۔۔ خوب صورت اور بدصورت ۔۔۔ جان دار اور بے جان ۔۔۔ جوبھی قریب ہوتی ۔ ظفر کو پہلے عشق کا گمان تب ہوا جب اس کی عمر بارہ برس تھی اور وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔

موسم گرما کی چھٹیوں میں نانی اماں کے گھر گیا تھا۔ ایک رات چھت پر سویا ہوا تھا۔ سورج کی جھلساتی کرنوں نے جب اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تو اس نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ پڑوس کی چھت پر اک گوری چٹی ، دبلی پتلی محنت سے تراشے ہوئے بدن والی لڑکی ٹہل رہی تھی۔ سورج کی تمازت سے گلابی رخساروں والی لڑکی عمر میں ظفر سے بڑی تھی لیکن عشق کی راہ میں عمر کبھی حائل نہیں ہوتی، کوئی اور ضرور ہوتا ہے۔

ظفر روز اجالا ہونے سے پہلے جاگ جاتالیکن سورج سر پر آنے تک آنکھیں بند کئے رکھتا۔ پھرمہ جبیں آجاتی ، چھت کے ایک کونے سے دوسرے تک جاتی اور ظفر کی نگاہیں اس کے ساتھ حرکت کرتی رہتی تھیں ۔ اس کی ایک نظر سارا دن ظفر کو مخمور کیے رکھتی اور وہ شام کا انتظار کرتا کہ وہ چھت پر آئے گی اور ایک پڑیا اور دےگی۔

ظفرکی اماں روز گھر واپسی کے لیےکہتی اور وہ کل کل کی رٹ لگاتا لیکن کب تک ٹال مٹول چلتی ۔ وہ بس میں بیٹھا تو اس کے دل کی حالت ایسی تھی جیسے یتیم ہو گیا ہو۔ لاہور آ کر اس کا دل سکول میں لگتا نہ  گھر پر چین پڑتا۔ اگلے سال کی چھٹیوں تک وہ اس کے حواس پر چھائی رہی۔

اب کی بار وہ نانی اماں کے گھر پہنچا تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ بڑی مشکل سے رات کاٹی لیکن اس دفعہ سورج کے ساتھ وہ مہ جبیں نہ آئی۔ شام ہونے کو آئی تو ظفر چھت کو لپکا اور ایک نظر کی آس میں ٹہلتا رہا لیکن وہ وہاں ہوتی تو پیاس بجھاتی، وہ تو کب کی پیا دیس سدھار چکی تھی۔ یوں ظفر کا پہلا خاموش عشق مکمل خاموشی سے ناکام ہو گیا۔

ظفر کی خوش قسمتی تھی کہ اس معاشقے کا بخار چار ماہ میں اتر گیا اور بد قسمتی یہ تھی  کہ نظریں استانی پر جا ٹکیں جس کا تھل تھل  کرتا بدن اس کے انگ انگ میں برقی رو دوڑا دیتا جسے وہ سمجھ نہ پاتا۔ استانی جی کے خط وخال اس کے دماغ میں کئی نامکمل خاکے بناتے اور جب وہ مکمل کرنے کے قابل ہوا تو استاد کی جماعت میں پہنچ چکا تھا۔

استانی کا در چھوٹا تو وہ اک راہ گیر کے دامن سے اٹھ گیا۔ سکول کے راستے میں دونوں کی نظریں ملتیں  تو ظفر کووبی برقی رو دوڑتی محسوس ہوتی جسےسنبھالنا اس کے بس سے باہر ہوتا جارہا تھا لیکن کچھ ہو نہ سکا اور بات مسکرانے تک محدود رہی۔ وہ سونے سے پہلے استانی اور را بگیر محبوبہ کا تقابل کرتا اور اسے آسانی کے مخصوص اُبھار، جورابگیر محبوبہ سے نمایاں تھے نیند میں بھی ستاتے رہے لیکن وہ بیداری میں نئی محبوبہ پرفوکس کرتا اور کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتا۔ معلوم نہیں کہ کب تک رات دن کا پھیر جاری رہتامگر ایک واقعہ نے سب تلپٹ کردیا۔

ابھی ظفر نے دسویں کے امتحان دینے تھے۔ گھر میں واحد مرد ہونے کی وجہ سے ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر آسمانی بجلی کی طرح آگری اور وہ راستہ چھوٹ گیا جو سکول کو جاتا تھا۔ اس نے دسویں کے امتحان دیے تو سہی لیکن ابا کی وفات کے ایک سال بعد۔۔۔

وہ سائیکل پرکاٹھ کباڑ اکٹھا کرنے لگا لیکن راہ گیر جو دل میں موجوتھی اور استانی کی جگہ سپنوں میں آنے لگی تھی۔ یہ سلسلہ چھ ماہ جاری رہا اور ظفر نے کئی بار اس سے بیاہ بھی رچایا البتہ بیداری کے ساتھ طلاق دینا پڑتی اور ایک دن پکی پکی نکال باہر کی کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کرنٹ بڑھتا جارہا تھا۔ اس کے چھریرے بدن میں موجود کوئی شے لاوے کی طرح باہرنکلنا چاہتی تھی اونکلتی بھی لیکن خواب میں ۔۔۔ جبکہ وہ کسی کو نوچنا، پوجنا اور کسی میں سما کر بہہ جانا چاہتا تھا۔

ظفر نے سائیکل پر ٹین ڈبے اکٹھے کرنے کا کام بند کر کے ایک کارخانے میں مزدوری شروع کی تو ایک اور صنم تراش لیا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ اس جٹی کے ساتھ گھومے پھرے لیکن خالی جیب ہمت چھین لیتی اور پہلے کی طرح صرف دیکھ کر گزارا کرتا رہا۔ وہ ایک گلی میں بنے کارخانے کے سامنے سے گزر رہی ہوتی تو دروازے میں کھڑے ظفر پر ایک نظر ضرور ڈالتی جس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے کھلتے مگر آواز باہر نہ آتی اور آنکھوں سے دیے پیغام شاید ہوا میں موجود گرد لے اڑتی۔ اسے دیکھ دیکھ کر ظفر کے تن بدن میں برقی رو بلب جلائے بغیر لا حاصل دوڑتی رہی اور پھر۔۔۔ پھر وہ تھک گیا۔

وہ اظہار چاہتا تھا اور کر نہیں پارہاتھا تو یوں  اس کی سوچ کا دائرہ سمٹے گا اور کبھی کبھی ٹمکنا سا رہ جاتا جس سے ڈر کر وہ خود کا جائزہ لینے لگتا اور ایک دن اسے معلوم ہوا کہ کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھوڑا بے شرم ہونے کی ضرورت ہے اور مقدر بھی تھوڑے ڈھیلے ہیں جنہیں طنا بیں ڈالنے کے لیے ظفر نے پڑھائی پر دھیان دینا شروع کردیا۔ اس دوران میں وہ برابر تانک جھانک کرتا رہا لیکن زیادہ زور پڑھنے پر رکھا اور ایک دن گریجوایٹ ہو گیا۔ تب اس کے ماموں کے تعلقات کام آئے اور وہ ایک دفتر میں چھوٹا بابو بن گیا لیکن اکیلا کمانے والا اور چار جی کھانے والے تھے البتہ اس کی منگنی ہوگئی۔

سدرہ خوب صورت تھی نہ بد صورت ۔۔۔ پھر بھی برقی رو دوڑادیتی لیکن ظفر ٹانکا لگا کر بلب جلانانہیں چاہتا تھا بلکہ وہ کچھ کہنا اور سننا چاہتا تھا مگر سدرہ بی بی نے شادی سے پہلے میل جول بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور ظفر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس نے ساتھی کارکنوں پر نظر ڈالی لیکن بڑے بابو چھائے ہوئے تھے اور ایک دن وہ اس بازار میں گیا ۔۔۔ خوفزدہ ۔۔۔ خدا سے یا خدائی سے۔۔۔ یہ اسے بھی معلوم نہ تھا۔ صدائیں آئیں، بابو! کچھ چاہئے؟ ستا بھی ہے۔ وہ خاموشی سے گزر گیا اور ساز بنانے والوں کی د کا نیں دیکھ کر لوٹ آیا۔

ظفر وقت کے ساتھ کروٹیں بدل بدل کر راتیں گزارتارہا۔ پہلے دوستوں کے ساتھ دیر تک باتیں کرتا تھا۔ پھر باتوں میں بھی بھی نکلتا لیکن وہ پڑھتا رہا اور تھوڑی تھوڑی ترقی کرتا رہا۔ اس کے پاس اتنی ڈگریاں اور ٹیفکیٹ اکٹھے ہو چکے تھے کہ میں گول کر کے ڈنڈا بنا کر کسی کا بھی سر پھوڑ ا جاسکتا تھا۔ ایسے میں بھی چاہتا کہ اب شادی ہو جائے اور بچے ہوں جن کے ساتھ وہ کھیلے۔ لڑکی ہو یا لڑکا ۔۔۔ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ اس پر مان کرنے والی دو چھوٹی بہنیں گھر بیٹی تھیں ۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا۔

“بچے کو ماں اور جوان کو باپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔”

وہ دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے کسی کندھے کا متلاشی تھا۔ پتا نہیں کیوں اسے اپنی ماں کا کندھا اس قابل نہ لگتا جس سے وہ صرف کام کی بات کرتا تھا۔ ہر ما ہ تنخواہ لا کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا اور بس۔۔۔ وہ گھر کا ہر ضروری کام ایسے ہی بڑی زمہ داری سے کرتا جیسے دفتر میں حاضری لگاتا تھا لیکن گھر میں سب سے الگ تھلگ اپنے کمرے میں پڑا رہتا جو اسی کی طرح تھا جس میں غبار تھا اور خلا بھی جسے پر کرنے کے لیے وہ سہارے ڈھونڈتا لیکن جس طرف ہاتھ بڑھاتا، خالی لوٹ آتا۔ ظفر سمجھتا کہ وہ امیر نہیں، اس لیے کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں، اوپر سے شکل بھی خاص نہیں تھی۔ جب کوئی نہ ملا تو وہ چڑ چڑا ہو گیا اور تنہائی پسند تووہ پہلے ہی تھا۔ اس کی نا سمجھ ماں سب سمجھتی تھی لیکن دو بیٹیاں بھی جوان ہورہی تھیں۔

جب اسے سب دروازے بند نظر آئے تو اس نے اپنے آپ میں راستہ تلاش کیا لیکن روح بھی کچھ تقاضا کرتی تھی اور اسے لگتا کہ وہ کچھ برا کر رہا ہے۔ وہ خود کو ناشکرا سمجھتا اور کبھی کبھا اسے

محسوس ہوتا کہ وہ ٹھیک کر رہا ہے۔ اکثر خود کلامی کرتا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ بیشتر کہتا کہ زیادہ انتظار سے پھول گل سڑ جاتا ہے یا پیلا ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ کا دھارا کبھی ایک سمت میں نہ بہتا اور خیالات گڈ مڈ ہوتے رہتے جس سے کھوپڑی چٹخنے لگتی اور وہ ہر اس چیز سے چڑ جاتا جو اس کے پاس نہیں تھی۔

بعض اوقات چڑ چڑاپن اس قدر بڑھ جاتا کہ وہ گھر میں بھی گالیاں بکنے لگتا تھا۔ اسے شبہ ہوتا کہ وہ ماں سے۔۔۔ بہنوں سے ۔۔۔ سدرہ سے۔۔۔ اور اس سے بھی ناراض ہے جسے ہربرے وقت میں مدد کے لیے پکارتا ہے۔ وہ اس کے در پر نہیں جاتا تھا لیکن جب کوئی انجانا خوف ستاتا تو وہی یاد آتا تھا۔ جب وہ خود پر مان کرتا تو اس کا مشکور بھی ہوتا لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر نہ رہتی ۔ وہ نالائق لوگوں کو اچھی چیزوں کے ساتھ دیکھ کر ابلنے لگتا اور سوچتا کہ اسے زیادہ محنت کے باوجودکم ملا۔۔۔ اور نفرت کی آگ میں جلتا رہتا لیکن زیادہ متنفر وہ خود سے تھا مگر کوئی انسان جیتے جی کب تک نفرت کرسکتا ہے؟ آخر طغیانی پر سکوت فتح یاب ہواجو، پتانہیں کتابی کیڑا بن کربنی دنیا کی دین تھایا عمر بڑھنے کے ساتھ خون کی رفتار گھٹنے لگی تھی یا شاید وہ تھک گیا تھا۔

چوتھی دہائی پوری ہونے کوئی اور سدرہ کا خیال گول گیند جیسی زمین سے سمٹ کر ایک چھوٹا سا نقطہ بن گیا تھا۔ کمائی بڑھ چکی تھی جس سے بہنوں کو جہیز کے ساتھ رخصت کر کے وہ مطمئن ہو گیا تھا۔ اب گھر میں وہ تھا یا ماں تھیں جنہوں نے شادی کے لیے دن طے کرنے کی خبر سنا کر اس کی ایک کمرے میں ٹی وی اور کتابوں کے ساتھ بسی جامد دنیا میں ہلچل مچادی تھی اور وہ کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اب کیا ضرورت ہے؟

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031