اور وہ مٹی جس سے ہم بنے ہوئے ہیں : الاندے/کشور ناہید
اور وہ مٹی جس سے ہم بنے ہوئے ہیں
تحریر : ازابیلے الاندے (چلی))
مترجم : کشور ناہید
انہوں نے دیکھا کہ لڑکی کا سر مٹی کے گڑھے سے باہر تھا اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ بہت ہی آہستہ آواز میں آزونا لِلّی کہہ رہی تھی۔ قبرستان میں جہاں گدھ ویسے ہی منڈلاتے رہتے ہیں اور جہاں یتیموں کی سسکیوں اور زخمیوں کی کراہوں سے فضا گونج رہی ہوتی ہے، وہاں اس لڑکی کا زندہ رہنے کی کوشش کرنا اور بھی ہولناک لگ رہا تھا۔ ٹیلی وژن کیمروں نے اس قدر تیز روشنیوں میں اس کے مٹی سے پسے چہرے کو سکرین پر دکھایاکہ کوئی بھی نہ اس کا نام جان سکا اور نہ اس کو پہچان سکا۔ ہر دفعہ جب سکرین پر اس کا چہرہ آتا اس کے ساتھ چہرے رالف کار لے کھڑا نظر آتا۔ وہ وہاں کسی خبر کو کور (Cover) کرنے کے لیے گیا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا تیس سال پہلے گزرا ہوا بچپن اسے وہاں مل جائےگا۔
پہلے تو ایک ہچکی سے کپاس کا کھیت دھل گیا پھر لگا جیسے جھاگ کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ ارضیات کے ماہرین نے اپنے آلے کئی ہفتے پہلے لگائے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ پہاڑ پھر جاگ اٹھا ہے۔ پہلے انہوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کے باعث یہاں موجود رہنے والا ہمیشہ کا برف پگھل جائیگا۔ مگر لگتا تھا جیسے کسی پر کوئی اثر ہوہی نہیں رہا۔ لوگ ان باتوں کو ڈری ہوئی بڑھیا کی بڑ سمجھ رہے تھے۔ لوگ اپنے کاموں میں بدستور مصروف رہے حتیٰ کہ نومبر میں بدھ کی رات وہ آئی کہ برف کی دیواریں چٹخ گئیں اور طویل گونج نے یہ اعلان کردیا کہ اب اسی اگلتے لاوے میں گاؤں گلیاں اور لوگ دب کے رہ جائینگے۔ اسی خوفناک واردات کے بعد جو بچے، انہوں نے دیکھا کہ بلڈنگوں، گھروں اور ہوٹلوں سے لے کر ہر چیز نابود تھی۔ کافی دیر بعد فوجی اور رضا کار مدد کو آئے اور اندازہ لگانے لگے کہ کس قدر لوگ زیرِ زمین ہوں گے۔ کوئی بیس ہزار سے زائد لوگ دب گئے تھے۔ جنگل اور دریا سب ختم ہوچکے تھے، صرف تباہی کا منظر چاروں طرف تھا۔
جب سٹیشن نے صبح سے پہلے کال کیا تو میں اور رالف اکٹھے تھے۔ میں نیند کے خمار میں آگے کھسک کر کافی بنانے لگی اور رالف کپڑے بدلنے چلا گیا۔ اس نے اپنا سامان گرین بیگ میں رکھا اور چل دیا۔ یہ بالکل ایسے ہوا جیسا کہ ہمیشہ وہ کام یہ جاتے ہوئے خدا حافظ کہتا تھا۔ میں خود آرام سے کافی پینے لگی ۔ یہ سوچ کر کہ اب تو رالف کل تک ہی واپس آئے گا۔
وہ جائے حادثہ پہ پہنچنے والا پہلا شخص تھا جبکہ دوسرے رپورٹر جیپوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے ذریعہ راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ رالف کو فائدہ یہ تھا اس کے پاس ٹیلی وژن ہیلی کاپٹر تھا۔ اس لیے وہ فوراً پہنچ گیا تھا۔ ہم نے ٹیلی وژن پر وہ سب لمحہ بہ لمحہ دیکھا جو رالف کا اسسٹنٹ کیمرہ مین نوٹ کرکے دکھا رہا تھا۔ وہ بے چارہ کیمرہ مین گھنٹوں گھنٹوں ملبے میں کھڑا تھا مائیکرو فون اس کے ہاتھ میں تھا، گم ہوئے بڑے بچوں کا جمِ غفیر جو زخمی مٹی میں پتے ہوئے لاشوں اور زخموں کے درمیان کھڑے رو رہے تھے۔
رالف کولوگ سالوں سے ٹیلی کاسٹ کی دنیا میں جانتے تھے۔ جنگوں، سیلابوں، طوفانوں ، ہر طرح کے ہولناک موقع پر انہوں نے رالف کو دیکھا تھا۔ وہ ایسے آفاقی زمانوں کو کور کرنے کا ماہر ہوچکا تھا۔ رالف کو کبھی نہ خوف آتا تھا، نہ کبھی اکٹاہت کہ اب پھر کوئی تازہ واردات سامنے ہے۔ یوں لگتا تھا کہ کیمرے کے لینس کے ساتھ ہی واقعاتی صورتِ حال، رالف کے وجود کا حصہ بن جاتی تھی۔ جب میں اس کے بہت قریب ہوئی تو محسوس کیا کہ یوں دوسروں کے واقعات اور ابتلا کو اپنے اوپر طاری رکھ کر وہ اپنے جذبات چھپائے رکھتا تھا۔
رالف ، ازینو کی کہانی میں شروع سے موجود تھا۔ اس نے ان رضا کاروں کو بھی انٹرویو کیا تھا جنہوں نے زنکونا کو باہر نکالا تھا۔ رالف کے کیمرے نے اس کے گہرے رنگ کے چہرے بڑی بری آنکھوں، بالوں پہ تھپے مٹی کے تودے، بالکل ایسے لگتا تھا کہ خود ڈوبتے ہوئے کوئی اسے نکال بھی مشکل سے ہی سکتا ہے۔ رضاکاروں نے ایک رسہ پھینکا مگر وہ اس پر زور نہ لگاسکی۔ جب رضا کاروں نے بہت چلا کہ رسہ پکڑنے کو کہا تو اس نے ایک ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی اور لاوے کی دلدل میں وہ اور دھنس گئی۔ رالف نے اپنا تھیلا پھینک کر اپنے اسسٹنٹ کے مائیکوفون پر بتایا کہ اس وقت لاشوں اور لاوے کی بُو اور ٹھنڈ، چاروں سمت پھیلی ہوئی ہے۔
“تمہارا نام کیا ہے؟” رالف نے پوچھا، اس نے اپنا پھولوں جیسا نام بتایا ۔ “بالکل مت ہلو اپنی جگہ سے ” رالف چیخا اور لڑکی سے بے خیالی میں باتیں کرتا رہا۔ رالف آگے بڑھتا رہا تاکہ لڑکی کی توجہ کسی اور طرف مبذول نہ ہوجائے۔ آخر کو کمر کمر دلدل میں دھنسا ہوا رالف آگے بڑھتا رہا مگر آگے پھر راستہ بند تھا۔ اب اس نے ایک رسہ لیا۔ اور لڑکی کے قریب پہنچ کر رسہ لڑکی کے بازو میں باندھ دیا۔ اسے تسلی دی کہ بس اب چند لمحے کی بات رہ گئی ہے۔ اس نے دوسرے لوگوں کو کھینچنے کا اشارہ کیا۔ لڑکی درد سے چیخ اٹھی۔ کسی طرح بھی اس کا باہر نکلنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ کسی نے کہا کہ شاید مہندم گھر کی دیواروں میں اس کی ٹانگیں پھنسی ہوں۔ لڑکی نے کہا کہ دیوار نہیں اس کے دوسرے بہن بھائیوں نے اس کی ٹانگوں کو جکڑ ہوا تھا۔
“پریشان مت ہو تمہیں ہم باہر نکال لیں گے۔ ” رالف نے کہا اب اس نے پول سے بھی رسیوں کے علاوہ کوشش کی کہ اذیت میں پھنسی لڑکی مشکل سے سانس لے رہی تھی مگر وہ مایوس نہیں تھی، جیسے کہ اسے یقین تھا کہ جو کچھ مقدر میں ہے وہ تو ہوگا جب کہ رپورٹر سے موت کے منہ سے نکالنے کے لیے تک و دو میں مصروف تھا۔ کسی نے اسے ایک ٹائر لاکر دیا۔ رپورٹر نے وہ ٹائر اس کے بازو کے نیچے رکھا کہ اب شاید اس پر بوجھ ڈال کر وہ باہر نکلنے کی ترکیب کرسکے مگر پھسلن ، لاوا اور دلدل اتنی تھی کہ کچھ بھی کار گر نہیں ہورہا تھا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ ریڈیو پہ یہ اعلان کیا جائے کہ اگر کوئی پمپ کرنے والی گاڑی فوراً آسکے مگر جواب ملا کہ کل صبح سے پہلے ناممکن ہے۔
“ہم اتنا انتظار نہیں کرسکتے ہیں ۔” رالف چیخا مگر قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ اب کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اتنے میں ایک فوجی ڈاکٹر آیا اس نے چیک کیا، لڑکی کا دل بالکل ٹھیک کام کررہا تھا۔ اگر اسے بہت ٹھنڈ نہ لگے تو لڑکی اس طرح رات گزار سکتی تھی۔
“ازینو ، ہمت کرو ، ہم تمہیں کل صبح نکال سکیں گے۔” مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں اس نے التجا کی۔ “نہیں نہیں میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔”
کوئی اتنی دیر میں کافی لایا رالف نے مدد کی کہ ازینو پی سکے اور واقعی اس نے کافی پی لی کافی کی گرمی نے اس کے اندر جان پیدا کردی تھی اور اب وہ اپنے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتیں بتارہی تھی اور آتش فشاں پٹھنے کے سارے واقعات دو ہرا رہی تھی۔ وہ تیرہ سال کی تھی اور کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہیں گئی تھی۔ رپورٹر کو خوش فہمی تھی کہ لڑکی بچالی جائے گی۔ ہیلی کاپٹر پہنچ جائیں گے اور لڑکی کو ہسپتال لے جایا جائے گا۔ جہاں اس کے بہت سے تحفے لائے جائیں گے۔ مگر کون سے تحفے کہ یہ لڑکی اب گڑیوں سے کھیلنے کے قابل تو نہیں تھی۔ ارے میں تو خود بہت زیادہ عورتوں کے بارے میں نہیں جانتا ہر چند میری ملاقات بہت سی عورتوں سے رہی ہے۔
آسمان رو رہا ہے۔ ازینو نے بڑبڑاہٹ کے انداز میں کہا۔ “مت ڈرو۔” رالف بولا۔ تمہیں اپنی طاقت مجتمع رکھتی ہے۔ میں تمہیں ہر حال میں باہر نکال لوں گا۔
رپورٹر ازینو کی تصویریں اتارنے آئے اور اس سے وہی سوال کیے جن کے جواب دینے کے لیے اس کا جی نہیں کررہا تھا۔ اب ہر طرح کے میڈیا کے لوگ کیمرے ہر طرف تھے ازینو کا چہرہ روشنیوں سے چندھیا رہا تھا۔ ساری دنیا اپنی سکرین پر یہ عجوبہ دیکھ رہی تھی اور رالف مسلسل پمپ منگوانے کے لیے التجا کررہا تھا ۔ ان بہت سی باتوں کا اثر رہا۔ ایک تو مجھے نجانے کیوں احساس تھا کہ سکرین کے ادھر میں رالف اور ازینو کے ساتھ ہوں۔ میں دعا بھی کررہی تھی اور یہ بھی دیکھا کہ اس نے رالف کو بھی دعا کے لیے کہا۔
جب دوسرے دن اندھیرا ہوا تو رالف نے قدیم آسٹرین لوک کہانی سنانی شروع کی مگر وہ تو سو ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ دونوں ساری رات طرح یہ طرح کی باتیں کرتے رہے دونوں بھوک اور باتوں کے باعث بے حال تھے۔ رات بھی بہت سرد ہو رہی تھی۔ اس سارے ماحول نے رالف کے اندر چھپے گوشے بے نقاب کرنے شروع کردیے۔ اور اس نے ازینو کو وہ سب کچھ بتا دیا جو اس کے اندر مدت سے بند تھا۔ ازینو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یورپ کا جنگ کے دنوں میں کیا حال تھا اس لیے رالف نے اسی شام کا احوال ہی بتایا کہ جب ان لوگوں کو روسیوں نےجنگی قیدیوں کے کیمپوں میں دھکیلا تھا اور وہ قیدی جو بھوک سے مرگئے تھے۔ انہیں ان کے سامنے دفن کیا تھا۔ وہ بچی کو کیسے بتاتا کہ کس طرح ان کے سامنے مردوں اور ہڈیوں کے ڈھانچے ، چینی کی کرچیوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔ وہ اس مرتی ہوئی بچی کو پھانسیوں اور کوڑوں کا کیسے بتاتا وہ یہ بھی نہ بتا سکا۔ جب اسے اپنی ماں کو ننگا دیکھا تھا۔ اس نے لال جوتے پہنے تھے۔ زخم اور بے عزتی اس کی آنکھوں میں خوف کے آنسو بنی ہوئی تھی۔ رالف نے مزید کچھ نہیں بتایا مگر جو کچھ بتایا وہ اس کے اندر اُبلتے الاؤ کو کم کرنے کے لیے دفن ہوئے رالف کے لیے بھی مشکل ہورہا تھا۔ اس کے سامنے اپنے باپ کے بوٹ اور ٹانگیں آئیں۔ اس نے اپنی بیلٹ اتار کر چاروں طرف کوڑوں کی طرح زور زور سے گھمانا شروع کردیا تھا۔ اس کے باپ نے سزا دینے کو اس کو کمرے میں بند کردیا تھا۔ باپ نے خود اپنے ذہن میں اسے سزا وار تصور کرکے مارنا شروع کردیا تھا۔ اپنی یادوں میں گھومتے گھومتے اسے اپنی کتارینا مل گئی۔ کتارینا ایک معذور لڑکی تھی جس نے اپنی ساری زندگی باپ سے چھپ کر اس لیے گزار دی کہ باپ اس کی طرح کی پیدائش پہ بہت برہم تھا۔ کتارینا، کھانے کی میز کے نیچے گھسٹتی ہوئی آئی تو دونوں بہن بھائی سب سے چھپ کر گلے ملے تھے اور خوفزدہ تھے کہ ان کے باپ کو کہیں اس بات کا علم نہ ہو جائے۔ کتارینا کی یاد کے ساتھ اسے سارے مصالحوں کے ذائقے بھی یاد آگئے۔ بالکل کھانے کی میز پر پڑے سفید کپڑے کی طرح کے ایک کپڑے میں لپیٹ کر کتارینا کو قبرستان لے جایا گیا تھا۔ شاید اپنے جرم کے احساس پر وہ پہلی دفعہ رویا تھا۔ پھر اسے یہ بھی احساس ہوا کہ اتنے نازک دوسروں کے محسوسات کو وہ کس طرح ایک رپورٹر کی حیثیت سے استعمال کرتا رہا ہے۔ اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کرتا رہا ہے۔ وہ اپنے اندر چھپے سارے رازوں اور زخموں پر پردہ ڈالے دنیا بھر کی کہانیاں کو ر کرتا رہا ہے۔ اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کرتا رہا ہے۔ وہ اپنے اندر چھپے سارے رازوں اور زخموں پر پردہ ڈالے دنیا بھر کی کہانیاں کور کرتا رہا ہے مگر کبھی اس نے اپنے ماضی کو اپنے سامنے کھڑا نہیں دیکھا تھا۔ وہ شاید بالکل ازینو تھا وہ بھی یادوں کی اس طرح کی منوں مٹی تلے دبا کھڑا تھا۔ اپنے بچپن کو فراموش کیے۔ اب ازینو نے اس کے گلے میں پھنسے کانٹے کو نکال دیا تھا۔
آنسوؤں کی دھاروں میں اسے اپنی ماں دکھائی دی جو گرےکپڑوں میں ملبوس، مگرمچھ کی طرح کی بنی کتاب ہاتھ میں لیے حسبِ سابق سینے سےلگائے کھڑی تھی جب وہ جنوبی امریکہ جارہا تھا۔
تیسرے دن اس علاقے میں اچانک بادل چھا گئے۔ علاقے کے صدر نے یہاں کا دورہ کیا یہ معلوم کرنے کہ بحالیات کا کام قاعدہ ہورہا ہے کہ یہ اس صدی کا سب سے ہولناک حادثہ تھا۔ فوج کے ذمہ یہ کام تھا کہ جو کوئی کسی کے گھر کی چیزیں چرارہا ہو اس کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے صدر نے فروعی وعدے کیے اور سارے علاقے کا دورہ کیا۔ پھر اس نے کہا مجھے از ینو کو دیکھنا ہے صدر نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور پھر ہلایا اور پھر پدرانہ شفقت کے ساتھ اس نے اپنا پیغام ریکارڈ کروایا کہ ازینو نے سارے ملک کو ہمت دی ہے۔ میں نے دیکھا کر ہاتھ ہلایا اور پھر پدرانہ شفقت کے ساتھ اس نے اپنا پیغام ریکارڈ کروایا کہ ازینو نے سارے ملک کو ہمت دی ہے۔ میں نے دیکھا کہ رالف مٹی کے ڈھیرے کے قریب ظلم بناتے ہوئے وہیں موجود تھا ۔ میں نے سوچا کہ شاید مین بھی رالف کے بدلے ہوئے احساسات کو سمجھ سکوں گی مگر وہاں تو ازینو اس کو تسلی دے رہی تھی۔
مجھے ان لمحوں کا احساس ہوگیا تھا جب رالف نے اذیت کو سامنے دیکھنے اور لڑکی کے مرجانے کے خیال کو جھٹک دیا تھا۔ تین دن اور دو راتین میں ان کے ساتھ تھی۔ میں اس وقت بھی ان کے ساتھ تھی، جب ازینو نے کہا کہ ان تیرہ سالوں میں کسی بھی ایک لڑکے نے اس سے یہ نہیں کہا کہ وہ اس سے پیار کرتا ہے اور پیار کو جانے بغیر دنیا بہت عجیب لگ رہاہے۔ رالف نے کہا کہ کسی اورسے زیادہ وہ وہ ازینو سے محبت کرتا ہے اور اپنی ماں، اپنی بہن یا اپنی زندگی کی ساتھی سے بھی زیادہ اور جب وہ اس کے لتھڑے ہوئے ماتھے پہ بوسہ دینے کو جھکا، پسینے اور آلودگی کے اس ذائقے کو وہ بھی کوئی نام نہیں دے سکے گا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس طرح رالف اور رازینو، دونوں ہی ناامیدی کے دائرے سے باہر نکل آئے تھے۔ وہ مٹی کی گرفت، گدھوں اور ہیلی کاپٹر اور سارے علاقے میں پھیلی بدعنوانیوں سے آزاد ہوکر موت کو قبول کرنے کو تیار تھا ، رالف نے اپنے ذہن میں دعا کی وہ جلد مر جائے کہ اتنا دکھ سہا نہیں جاسکتا ہے۔
اس وقت تک مجھے ایک پمپ مل گیا تھا۔ میں ایک جرنیل سے رابطے میں تھی جس نے اگلے دن صبح کارگو جہاز سے یہ پمپ بھیجنے کا وعدہ کیا تھا اس تیسری رات جب ہزاروں فلیش لائٹس روشن تھیں۔ ازینو نے امید چھوڑ دی۔ ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ رالف نے وہ ٹائر ہٹا دیا جس پر اس کا بازو رکھا تھا ان کی آنکھیں بند کیں۔ اس کا سر اپنے سینے سے لگایا اور اسے کیچڑ کے ڈھیر میں ڈوبنے دیا۔
تم میرے پاس آگئے ہو مگر تم وہی شخص نہیں ہو۔ میں تمہارے ساتھ سٹیشن جاتی ہوں اور ہم اکٹھے ازینو کی فلم بار بار دیکھتے ہیں۔ تم بے قراری سے سوچتے ہو کاش تم اس کو بچانے کے لیے کچھ اور کرسکتے تھے۔ یا پھر اپنی زندگی کی کہانی یاد کرنے کے لیے تم یہ ظلم دیکھتے ہو۔ اب تمہارے کیمرے کب سے الماریوں میں بند پڑے ہیں۔ اب نہ تم گاتے ہو اور نہ لکھتے ہو، تم گھنٹوں بیٹھے سامنے والے پہاڑوں کو دیکھتے رہتے ہو۔ میں تمہیں تمہارے اندر کا سفر مکمل کرتے دیکھ رہی ہوں تاکہ تمہارےزخم بھر جائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جب تم اپنے خول سے باہر نکلو گے تو ہم پھر باتیں کریں گے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈلے واک کریں گے۔ اس لمحے اپنی کہانی میں شہرزاد نے صبح کی سپیدی دیکھی اور خاموش ہوگئی۔