پرایئویٹ لائف ۔۔۔ گیتانجلی شری

پرایئویٹ لائف

گیتا نجلی شری

 ہندی سے ترجمہ : زیبا علوی))

 باہر دنیا کا بے کار شور اٹھ رہا تھا اور بند کھڑکی کی دراروں سے کمرے میں میں داخل ہورہا تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ کھڑکی کھول دے پھر بند چھوڑ دینا ہی بہتر جانا۔

 انھوں نے وہ چپلیں اس کے منھ پر دے ماریں اور پاگلوں کی طرح چیخے، “بتاؤ یہ کہاں سے آئیں؟”

 چاچی سسک سسک کررو رہی تھیں۔ اس کے دل پر چھائے گھنے کالے بادل کو جیسے کوئی چیز چھیڑ نہیں پارہی تھی۔

“یہ کیوں بتائے گی؟ ہاں ابھی رستوگی کو بلاتا ہوں، وہ بتائیں گے۔ یہیں، اس کے سامنے۔ تب دیکھتے ہیں یہ کیسے گھورتی ہے۔”

رستوگی مکان مالک تھے۔ پانچ مہینے سے اندر اندر ہی بھرتے چلے گئے تھے، اب جب موقع ملا تو ٹوٹے بند کی طرح پھٹ پڑے۔

 پانچ مہینے سے وہ بھی چھپا گئی تھی کہ اس نے برساتی کرائے پر لے لی ہے اور ہاسٹل چھوڑ دیا ہے۔ تنخواہ کا ایک چوتھائی کرائے میں اٹھ جاتا ہے، پر اسے وہ منظور تھا۔ اپنے گھر کی تمنا اب زیادہ ہی گہری ہوگئی تھی، جسے وہ اپنے پسند سے سجا سکے، جہاں وہ اپنے دوستوں کو بلا سکے۔ ۔۔ ایک بھری پُری زندگی جیے۔ برساتی کے کونے میں اس نے اپنی شخصیت کی چھاپ لگائی تھی۔ خود ڈزائن کیے ہوے کین کے فرنیچر سے آراستہ کیا تھا۔ چھت پر بون سائی جمع کیے تھے۔ باورچی خانے میں لکڑی کے برتن بھر دیے تھے۔ گیس، فرج، میوزک سسٹم، سب کے لیے جگہ بنائی تھی۔

 دوستوں کا آنا جانا شروع ہوچکا تھا۔ اسے معلوم تھا انھیں بھی، چاچی کو بھی، یہ کبھی گوارا نہیں ہوگا کہ وہ اکیلی گھر بنا کر رہے۔ ایسے ہی ان کے دل کو کافی ملال تھا۔ وہ اسے نوکری کرنے سے نہیں روک پائے تھے۔ شادی کے لیے اسے کسی طور راضی نہیں کر پائے تھے۔ پہاڑ جیسی عمر ہورہی تھی مگر وہ اسے ‘عزت’ سے بسر کرنے پر آمادہ نہیں کر پارہے تھے۔ وہ ان کے لیے کھنکتا کانٹا بن گئی تھی۔

ایک حد کے اندر وہ بدلتے زمانے کے ساتھ چلنے پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ اس کی سہیلیوں میں ایک مسلمان لڑکی بھی تھی۔۔۔ انھوں نے کبھی نہیں ٹوکا تھا۔ مگر ہر بات کی حد ہوتی ہے۔ وہ تو جیسے کہیں بھی رکنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ کتنی بھی اس کی رسی ڈھیلی چھوڑو، وہ کھونٹے سے اور دور ہونا چاہتی تھی۔

اور آج تو جیسے رسی ہی توڑ دی تھی۔ ان کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچی تھی کہ بس۔ ایک برساتی میں ۔۔۔۔ اکیلی۔۔۔۔ بغیر بتائے پانچ مہینے سے رہ رہی تھی، اور ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ وہ آدمی ۔۔۔۔ وہ چپلیں۔۔۔۔۔

 دکھ سے وہ تلملا اٹھے۔ “اڈّا چلائے اور ہم چپ چاپ تماشا دیکھیں؟”

 وہ چپ رہی۔ کیا اس نے ناسمجھی کی تھی، جو خود ہی اس نے برساتی کے بارے میں چاچی کو اطلاع دے دی تھی؟ پر اپنا پتا چھا کر بھی جیا جاتا ہے کیا؟ وہ بھی اپنے ہی گھر والوں سے؟ پھر چھائے کیا؟ اس کا بھی تو حق ہے جینے کا، زندگی کو سمجھنے کا، زندگی کو سمجھنے کا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جینے کو گناہ مان کر، خود کو گناہ گار سمجھ کر، سب سے کتراتی پھرے؟

 پر یہ سب انھیں بکواس لگی تھی۔ “آگ میں ہاتھ ڈال کر آگ کو نہیں پہچانا جاتا۔”

اس نے بھی جوش میں جواب دیا تھا۔ “گاڑی کے نیچے نہ آجائیں، اس خوف سے سڑک پر چلنا ہی چھوڑ دیا جائے۔۔۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟”

 وہ بلبلا پڑے تھے، “کس قدر ڈھیٹ ہوتی جارہی ہے۔۔۔ کوئی اس سے کچھ نہ کہے، بس آزاد چھوڑ دے، اور یہ جو چاہے کرتی رہے!۔۔۔۔”

 وہ چپ ہی نہیں ہوپائے تھے، “الگ، اکیلے رہنے کی کیا ضرورت پڑگئی؟ ہاسٹل میں کیا کمی ہے؟ ہر سہولت ہے، عزت ہے، حفاظت ہے، کوئی دیکھنے والا ہے۔۔۔۔”

یہی تو وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔ کسی دیکھنے والے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی روزمرہ کی زندگی طے کرنے والا کوئی اور نہیں ہوگا۔

 وہ جوالا مکھی کی طرح چھوٹ پڑے تھے۔ “۔۔۔ اور یہ ضروری ہوتا ہے ہمارے سماج ہیں۔ لڑکی کسی نگرانی میں رہتی ہے۔۔ پہلے ماں باپ، پھر شوہر اور پھر بیٹا اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔”

“پر میں اپنی دیکھ ریکھ خود کروں گی۔” اسے لگا کیسی ذلت ہے جو ایسی بات کو لفظ دینے پڑھ رہے ہیں، جیسے کہنا پڑے مجھے راتوں کو سونے کا اختیار ہے۔

“تم کتنی اچھی طرح کروگی وہ تو میں ہی دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔” وہ طوفان کی مانند امڈتے ہی چلے گئے۔” خاندان کی آبرو سے کھلواڑ کررہی ہو۔۔۔۔ ہمارے سماج میں لڑکی کی بہت بڑی سستی ہوتی ہے۔۔۔ دیوی ہوتی ہے۔۔۔۔ بہت سنبھل کر چلنا ہوتا ہے۔۔۔۔ لڑکی کے پلک جھپکنے تک کا مطلب لگالیا جاتا ہے۔۔۔ عزت سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔”

ہاں، اسے معلوم تھا، وہ کم بولنا اور کم نظر آنا جو لڑکی کی عزت بناتا ہے۔ اس کی بچپن میں وہ اسے ماں کو بھی لگاتار سناتے تھے۔ “ایسے رہو کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے کہ گھر پر کوئی ہے۔”

 اس نے کہنا شروع کیا، “جیسے آپ عزت مانتے ہیں، اسے میں اپنی سب بڑی بے عزتی مانتی ہوں۔”

“بکواس مت کرو!” وہ چیخ اٹھے۔ “بیوقوف ہو۔۔۔ سمجھتی نہیں۔۔۔”

 اس نے ان کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا، ان کے چوڑے تمتماتے چہرے کو دیکھا، ان کی آنکھوں میں کڑپن کی لو دیکھی۔

 اس کی ساری باتیں انھیں بناوٹی لگ رہی ہوں گی۔۔۔۔ بڑی بڑی کتابوں سے رٹی ہوئی۔

 اس نے دھیمے لہجے میں کہا، “میں اپنے ڈھنگ سے جینا ٹھیک سمجھتی ہوں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں تو یہاں رہیے۔ زبردستی تو میں سمجھا نہیں سکتی۔ میں نے تو یہی چاہا تھا کہ آپ بھی میری زندگی میں شریک ہوں۔۔۔ پر میری بے عزتی کرنے کے لیے نہیں۔۔۔۔ میری شخصٰت کی میری پرائیوٹ لائف کی ۔۔۔ آپ کو قدر کرنی ہی پڑے گی۔ آپ کو اچھا نہیں لگتا تو چلے جائیے۔۔۔۔”

 ان کے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ “یہ مجال۔۔۔؟” انھوں نے لپک کراس کی بانہہ پکڑلی۔

اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ ڈپلی کیٹ چابی اٹھا کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ جاتے جاتے بولی، “دیکھیے، ہے تو یہ میرا ہی گھر۔ آپ اچھے سے رہ سکتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ توڑ پھوڑ مچانا ہے تو چلے جائیے۔” وہ خود پر قابو نہ ریکھ سکی۔ “یوکین گیٹ آؤٹ۔”

کہہ کر وہ چلی گئی۔

 وہ پاگل ہاتھی کی طرح چکر کاٹنے لگے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اپنا خون ہے، اسے ہر حال میں بچانا ہوگا۔ آخری دم تک اس کے پیچھے جانا ہوگا۔ اس کا دماغ پھر گیا ہے۔ اپنے کو، سب کو، برباد کرکے رکھ دے گی۔ ایسے ہی لمحے کی رستوگی کو تلاش تھی۔

“صاحب، ہمارے ساتھ چائے پیجئے۔”

 رستوگی بینک میں کام کرتے تھے۔ ان کی بیوی اور چار لڑکیاں تھیں۔ جیسے تیسے انھوں نے یہ گھر بنالیا تھا اور اوپر کے دو کمرے کرائے پر اٹھا دیے تھے۔ سگریٹ شراب کا بندوبست اس طرح ہوگیا تھا۔ بیوی بیٹیوں کی خاطر انھوں نے وہ کیا جو شاید کرتے نہیں۔۔۔۔اکیلی عورت کو انھوں نے برساتی دے دی۔ انھیں لگا وہ دن بھر بینک میں رہتے ہیں، گھر پر سب اکیلے ہوتے ہیں، کرائے دار کوئی سیدھی سادی عورت ہو تو اچھا رہے گا۔ یہ لڑکی پاس کی ایمبیسی میں ٹرانسلیٹر تھی۔ پڑھی لکھی تھی اور بھلے خاندان کی دکھائی دیتی تھی۔ ٹھیک ہی رہے گی۔

پر۔۔۔۔۔ اب انھیں اپنی بھول کا احساس ہورہا تھا۔ ان کی بھی محلے میں عزت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس عمر پر، بھلے یا برے گھر کی لڑکی اکیلی ہو تو ہر کسی کے دماغ میں سوال کا ابھرنا قدرتی امر ہے۔ رستوگی دل ہی دل میں کڑھنے لگے۔ کس طرح کچھ کریں، سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔ یہ لڑکی ہے یا کچھ اور؟ چھت پر بیٹھ کر مردوں کے ساتھ سگریٹ پیتی ہے۔ کھلے عام نئے سال پر رستوگی کو شراب کی دکان پر مل گئی تھی۔ اور وہ کالے چشمے والا فرنگی آئے دن اس کے گھر گھسا رہتا ہے۔ دو راتیں وہاں ٹھہرا بھی تھا۔ شاید ہوائی اڈے سے سیدھا آگیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے سوٹ کیس پر ایتا لیا ایروز کی سلپ لگی تھی۔

“دیکھیے صاحب، آپ ہمارے بزرگ ہیں، آپ کی عزت کرتا ہوں۔۔۔ پر برا نہ مانیے ۔۔۔ لڑکیوں کا اتنا آزاد ہونا ٹھیک نہیں۔۔۔۔ دس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔”

“ہاں ہاں، بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔ آپ کی بھی لڑکیاں ہیں۔۔۔۔”

“ہاں صاحب، اسی لیے بول رہا ہوں ۔۔۔۔ برا نہ مانیے گا، آپ بڑے آدمی ہیں۔۔۔۔۔ یہاں اس گھر میں بیٹھ کر۔۔۔ سگریٹ پیے۔۔۔”

 سگریٹ ۔۔۔ بیئر۔۔۔ فرنگی۔۔۔

 آپ بے فکر رہیے۔۔۔ کچھ مہینوں کی تھی تب سے میرے ساتھ ہے۔۔۔ میرا خون ہے۔۔۔ میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔ انھی ہاتھوں سے چار ٹکڑے کردوں گا۔۔۔”

“ہمارے یہاں لڑکیاں کسی کے سامنے نہیں آتیں۔۔۔۔” انھوں نے اس سے چنگھاڑ کر کہا تھا۔ “کسی کو اپنے کو چھونے تک نہیں دیتیں، باپ تک کو نہیں۔”

 سچ کہہ رہے تھے۔ جب اس نے سڑک پار کرتے وقت بچپن میں ان کا ہاتھ تھام لیا تھا تو انھوں نے کہا تھا ؛ “لڑکیوں کو اپنی ماں کا ہاتھ پکڑنا چاہیے۔”

 اس کے دل میں یادوں کا انبار لگ گیا۔ وہ چھوٹی لڑکی جس کو دیکھ کر انھوں گمبیھر آواز میں کہا تھا ؛ “تم بڑی ہورہی ہو!”

وہ بے عزت ہوگئی تھی۔ وہ اس پر الزام لگارہے تھے۔ اسے اپنے بدن پر شرم آگئی۔

 تب وہ فراک پہنتی تھی۔ انھوں نے ایک دن چاچی کو ڈانٹ دیا اور اسے فراک کے نیچے نیکر پہنوادی، پوری ٹانگوں کو ڈھانکتی ہوئی۔

 شاید اس کی شخصیت نے بڑھنا بند کردیا، جس دن اس کا بدن بڑھنے لگا۔

“ہمارے یہاں عورت کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اسے اپنے آپ کو سب سے دور رکھنا چاہیے۔ بدن کو چادر میں لپیٹ کررکھنا ہے۔”

وہ شرم سے سمٹتی چلی گئی تھی۔ جتنا اس کا بدن بڑھا تھا، وہ اتنا ہی سکڑ گئی تھی۔ اس کی ساری سوچ، اس کی ساری کوششیں اپنے جسم کی تبدیلی کو ڈھانپنے میں لگی تھیں، جیسے ساری دنیا کی نظریں وہیں لگی ہوں، اور اس کی ساری جان اس میں سمائی ہو۔

 جب ایک شام ڈھلے گاڑی ایک گاؤں کے پاس پنکچر ہوگئی تھی تو وہ خوفزدہ ہو اٹھے۔ انھوں نے ڈرائیور کو بھیج کر گاؤں والوں کو پہیہ مرمت کرنے کے لیے بلایا۔ دبی آواز میں اس سے کہا، “چپ چاپ پیچھے کی سیٹ پر لیٹ جاؤ” وہ گھبرا کر چاچی کی گود میں دبک گئی تھی اور چاچی نے اسے دوہر(دُلائی) سے ڈھانپ دیا تھا۔ مردوں کی بھاری بھاری آوازیں اس کے کانوں میں ایک زمانے تک گونجتی رہیں۔ پھر گاڑی چل پڑی تھی۔

 وہ بھی سوچتے ہوں گے، نہ جانے کیا کمی رہ گئی ان کے سکھانے میں۔ کیوں یہ خبط سوار ہوا اس پر جو اپنے وجود کو اپنی شخصیت سے الگ کرنے لگی ؟ اتنی آزاد خیال ہوگئی؟ وہ اپنے آپ کو کوستے رہے اور اس نئی تعلیم کو اس ذمے وار قرار دیا۔ تبھی بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ لڑکی کو زیادہ تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ اس پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔

انھوں نے اسے بہت اکیلا چھوڑا۔ انھیں پتا ہی نہ چلا کہ اس کا دماغ چند چیزیں آئیڈیلائز کررہا ہے۔ ایک دن انھوں نے اسے اسکول کی کتاب میں چھپا کر رومینٹک کہانی پڑھتے ہوئے پکڑا تھا۔ اس پر بگڑے بھی تھے، “ہمارے یہاں لڑکیاں سب کچھ دیر سے جانتی ہیں، وہ معصوم ہوتی ہیں۔”

 پھر انھوں نے سیمون دی بووار کی کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی کہیں ہمیشہ کے لیے چھپا دی تھی۔ چاچی کو کہا بھی تھا کہ اکیلے مت چھوڑا کرو، کوئی غلط چیز نہ سیکھ جائے۔

اسے وہ دن بھی یاد آیا جب وہ چھانٹ کر میٹھے امرود لائی تھی اور بچپنے میں ایک چھلانگ لگا کر ان کے دفتر میں کود آئی تھی۔ تب انھوں نے بہت زور سے اسے ڈانٹ دیا تھا، کیونکہ اس وقت وہ تیرہ سال کی تھی اور پتلی سی نائٹی پہنے اندر آدھمکی تھی، ٹائپ بابو کے سامنے۔ تب بھی انھوں نے کہا تھا، “ہم کسی کو اپنا بدن نہیں دیکھنے دیتے، دور سے نمسکار کرکے اندر چلے جاتے ہیں۔”

 اس کے سمٹتے ہوئے بچپن نے اسے جھک کر چلنا سکھا دیا۔ اپنے ہی جسم پر شرما کر کترانا سکھا دیا۔ سب کی نظر کے ڈرنے اسے سناٹے میں رہنا سکھا دیا۔

 پر وہ تو بچپن کی بات تھی، بونے بچپن کی۔ سناٹے میں بھی نہ جانے کہاں سے سوچ کی چنگاری دبی پڑی تھی۔ انجانے میں جھونکے آتے رہے اور آگ بھڑک اٹھی۔

 جب انھیں پتا چلا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس نے ان کے ہر اصول کو، ہر آدرش کو یکسر ٹھکرادیا۔ وہ کہتے، وہ بہت بے شرم ہوگئی ہے۔ وہ کہتی کہ وہ خود اعتماد ہوگئی ہے۔ وہ کہتی تھی، وہ جسم سے انسان بن گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ انسان سے گندہ جسم بن گئی ہے۔

“کوئی اور لفظ نہیں بچا تمھارے لیے۔ گرگئی ہو۔ نچ عورت بن چکی ہو۔۔۔ پاگل ۔۔۔ آوارہ۔۔۔ اپنے ان بوڑھے چاچا چاچی کی موت بن گئی ہو۔۔۔”

 “جہاں سب کپڑے پہن کر گھومتے ہیں، وہاں بے لباس گھوموگی؟” وہ چلّا پڑے۔

 “آپ چلے جائیے۔۔۔” اس کے منھ سے سخت الفاظ نکل گئے۔ “میری اپنی راہ ہے۔ اس عمر میں مجھے اپنے حساب سے جینے کا حق ہے۔ آپ کو میرے ڈھنگ نہیں بھاتے تو آپ جاسکتے ہیں۔۔۔” اس کے منھ سے نکل گیا۔

 اُس وقت تو وہ چلے گئے، پرجا کر روتے رہے۔

 وہ بھی روئی تھی۔۔۔ اپنی تیس سال کی ناکامی پر، اکیلی ہوکر سماج میں عزت نہ پانے کی لاچاری پر، مرد نہ ہونے کی، اس طرح جینے کی لعنت پر ۔۔۔

 زندگی کا منچلا پن وہ قبول کرے، یہ حق اسے نہیں تھا۔ نئی سمتوں، نئی سمتوں، نئی منزلوں کی تلاش اس کے لیے نہیں۔ اور اگر کھلی ہوا کے تھپڑے لگ ہی گئے تو ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ کون مانے گا کہ اس کی بھی زندگی پوچھ تاچھ کر نہیں آتی؟

یاد ہے وہ ہر اتوار کو برساتیوں کے اشتہار دیکھنا۔ کسی نے فون پر انکار کیا تو کسی نے اس کے پیچھے نظر پھینکی، “آپ اکیلی۔۔۔ معاف کیجیے گا۔۔۔” کسی نے قانون بگھارنے شروع کردیے، “رات کو کوئی آدمی مہمان نہ ہو۔۔۔ شور نہ ہو۔۔۔ ملنے والوں کی لسٹ بنا دیجیے۔۔۔”

 پھر رستوگی نے بغیر کچھ کہے سنے اسے برساتی دے دی۔ ویسے ان کی بیوی پوری کوشش کرتیں کہ کچھ جان جائے۔۔۔ کبھی سگریٹ کا پیکٹ دیکھ کر آنکھیں پھیل جاتیں، کبھی کسی مرد کی جھلک پا کے۔ اور تو اور، جیسے ہی وہ اپنی ڈاک دیکھنے سیڑھی پر اترتی، وہ بھی اپنی ڈاک جانچنے دھم دھم سیڑھیاں اترنے لگتیں، جیسے دروازے کی اوٹ میں بس اسی کی تاک میں بیٹھی ہوں۔

 چٹھیاں اٹھاتے ہوے پوچھتیں، “آپ کے ماں باپ نے آپ کی شادی نہیں کی؟”

 “میں نے نہیں کی!” اسے تھوڑا غصہ آتا۔

 سو تو ٹھیک ہے، رستوگی سوچتی ہوگی۔ ایک آدھ ایسے ہی رہ جاتی ہیں۔ پر یہ رنگ رلیاں کیسی؟ یہ سجتے دھجنے کی دھن کیسی؟ یہ ملنے ملانے کا موقع کیسا؟

ہاں، بات صاف ہے۔ یا لکیرپرچلو، اور ٹھسّے سے چلو، مانگ میں سیندور، ماتھے پر بندیا، ہاتھ میں چوڑیاں۔۔۔ اتراؤ اب!

 یاسنیاس لے لو۔۔۔

 بس عزت دار عورتوں کے لیے یہی دوراستے ہیں۔۔۔ تیسرا راستہ ہے۔۔۔۔ کُلٹاؤں کا۔

 اسے بھی ضد ہوگئی کہ دبنگ بنوں گی۔ کسی کو بہلانے کی کوشش نہیں کروں گی۔ جب اجّو بھیا رہنے آئے اور لیٹر باکس کے پاس مکان مالکن پوچھ بیٹھیں، “کون آئے ہیں؟ بڑی تیاری ہے؟” تو اس نے “مہمان” کہہ کر منھ پھیر لیا۔

 ان عزت کے بھوکوں کی کڑھن بڑھتی گئی۔

 پر اب کھیل کا وارا نیارا کرنا ان کی طاقت اور اختیار میں تھا۔

 رات نو بجے فرنگی اسے میوزک کانفرنس میں لے جانے آیا تو رستوگی، جو اپنے مہمان کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، سرپٹ دوڑ پڑے کہ کہیں کہمان اوپر تشریف لے جانے کا ارادہ نہ بدل دے، زینے کا دروازہ کھول آئے۔

اوپر وہ بیٹھ گئے تھے ۔۔۔ ساکت!

 وہ اٹھی، “میں دیر سے لوٹوں گی،” اور چلی گئی۔

 انھیں جیسے لقوہ مار گیا ہو۔۔۔سُن۔ اس سے پہلے کا کوئی تجربہ ہوتو کچھ دماغ میں بھی آئےکہ معاملے کو کیسے نمٹایا جائے۔ پر اس طرح لڑکی آنکھ ملا کر چل دے۔۔۔ اس لفنگے کے ساتھ ۔۔۔

 نہیں، چپ نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔ کسی حالت میں نہیں۔ وہ دانت پیس کر غرائے تھے، “بوڑھا ہوں پر یہ نہ سمجھو بےکار ہوں۔۔۔۔ ایسا سبق سکھاؤں گا کہ اس دیس میں آنا بھول جائے گا۔۔۔۔ ایک ہڈی ثابت نہیں بچے گی۔۔۔”

 وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔

 تب بیوی کے پیروں پر گرے اور انھیں ساتھ لے کر آئے، اچانک، آدھی رات کو ۔

 “یہ میں کیا سن رہی ہوں؟” چاچی رونے لگیں۔

 اس نے سمجھانے کی کوشش کی، “چاچی سب کا حق ہے ۔۔۔ سب کی پرائیویٹ لائف ہے۔۔۔”

“پرائیوٹ لائف۔۔۔؟” ان کی چیخ گلے میں اٹکنے لگی تھی۔ “سنتی ہو ؟ اب یہ پرائیوٹ لائف چلے گی! ۔۔۔ دیکھ رہی ہو۔۔۔ دھندا۔۔۔”

 اور سن سے وہ چپلیں اس کے کان کو رگڑتی ہوئی دیوار سے ٹکرا کر نیچے گرگئیں۔

 “کس کی ہیں یہ چپلیں؟ پوچھو۔۔۔بتاؤ۔۔۔؟ رستوگی جی، ایک منٹ ادھر آئیے۔ دیکھیے ہماری بیوی بوڑھی ہے، لنگڑی ہے، چل نہیں پاتی۔ پریشان ہوکر آتی ہے۔ آپ بتائیے کیا ہوتا ہے یہاں۔۔۔”

 وہ سن بیٹھی رہی۔

 رستوگی نے اس کے نام آئے خط سامنے رکھ دیے۔

 “پوچھو اس سے ۔۔۔ پوچھو اس۔۔۔”

 شاید بیزار راتوں کا ذکر کردیا ہو۔۔۔ یا اس کی کمر کے تل کو یاد کیا ہو۔۔۔

 اس نے دیکھا۔ وہیں، اس کے سامنے بے دردی سے اس کی آنتیں باہر کھینچی جارہی تھیں۔

 “مرد جانور ہوتا ہے، بھوکا بھیڑیا۔ وہ عورت کی عزت نہیں کرتا ہے ۔۔۔ اسے کھاتا ہے۔۔۔”

 اسے دکھائی دے رہا تھا، وہی ۔۔۔ اتنا ہی ۔۔۔ جو انھیں دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

پتا نہیں اب بھی وہ ننگی تصویریں دیکھتے ہیں کہ نہیں۔ تب ان کی تکیہ کے نیچے اکثر فرنگی میگزینز پڑی رہتی تھیں، جن میں جسموں کی نمائش تھی، مردوں کے کھانے کے لیے۔۔۔

 میگزین کا اگلا صفحہ کھل گیا۔۔۔۔ جو ہمیشہ کھلا رہے گا، جو لگاتار انھیں دکھائی دیتا رہے گا۔

 اس پر وہ ہوگی۔۔۔

 ان کی بھدی نگاہ پر اس نظریں جھک گئیں۔

 رستوگی اٹھ کر چلے گئے تھے۔ گنجے سر اور کھچڑی مونچھوں والے معزز صاحب نے اپنی ڈگمگاتی عزت محلے میں سنبھال لی تھی۔

 چاچی۔۔۔۔ چاچی تو پیدا ہی ہوئی تھی روتے ہوے!

 وہ غصے اور شرم سے کانپ رہے تھے۔

 “ہماری لڑکیاں پاکباز ہوتی ہیں۔۔۔۔ وہ سب کچھ دیر سے جانتی ہیں۔۔۔ ہم سے کہتی ہے، نکل جاؤ ۔۔۔ ہم تمھیں نکالیں گے۔۔۔ رستوگی تمھیں دھکے مارے گا۔۔۔”

اسے لگا وہ تیس سال کی بالغ نہیں ہے، وہ ایک ادھ مری چڑیا ہے۔

 “پرائیوٹ لائف۔ کیا مطلب؟ انسان کی اپنی نجی زندگی؟ جس میں بہت سے ملے جلے اجزا ہیں۔۔۔۔ سکون، کام، اکیلاپن، دُکیلاپن، دوست، رومانس۔

 نہیں! پرائیویٹ لائف کا مطلب ہے۔۔۔ بدکرداری۔۔۔

 “اس لیے اکیلے رہنا تھا۔۔۔ اس لیے۔۔۔ اس لیے؟”

 کیا کیا کرتی ہے وہ؟ دنیا بھر کا حق ہے کہ جانے۔ کس سے کتنی دوری سے بات کرتی ہے؟ کسے چومتی ہے، ہونٹوں پر یا انگلیوں پر؟

 اسے لگا، اس نے عزت سے جینا چاہا تھا، اپنی دنیا بنانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

 اسے لگا، ابھی، اسی وقت ایک ریپ ہوا ہے۔۔۔۔ اس کی انسانیت کا، اس کی بالغ عمر کا۔

 بچپن میں اس کا وجود اس کے جسم کے ایک حصے میں ساری جان، سارا جنون لے کر بس گیا تھا۔ وہیں اس کی عزت سماگئی تھی۔

 اسے لگا اس کا وجود اس کے جسم سے پھسل کر زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے۔

اصل عنوان:

प्राइवेट लाइफ ॥ गीतांजलि श्री

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930