بیٹی ۔۔۔ گوہر ملک
بیٹی
گوہر ملک/شاہ محمد مری
زر بی بی تیز تیز گئی اور نواسی کو اٹھا لیا۔ اُسے زور سے زمین پہ پٹخ دیا اور اسے ڈانٹنے لگی:
”کتنی جھوٹی ہو تم۔ تم نے نہیں کہا تھا کہ بیٹا ہے؟۔ تم مر گئی ہوتیں ایسا جھوٹ بولتے ہوئے۔ بوڑھی عورت تمہیں شرم نہ آئی ایسا جھوٹ بولتے ہوئے؟ ۔میں ہی مسخرہ رہ گئی ہوں تمہارے لیے؟۔ میرے سر پہ کلاہ رکھتی ہو؟“۔
”یہ بیٹی ہے “۔”پھر ایک بیٹی“۔”یہ چھٹی بیٹی ہے“۔
”بغیر بیٹے کی عورت ، بغیر ریوڑ والے چرواہے کی طرح ہوتی ہے“۔
” بے چاری نازو پہ خدا ترس کھائے ۔ خدا اسے اپنی کوکھ سے بھائی دےدے۔ بغیر بھائی کی بہن ہے“۔
جتنے منہ اتنی باتیں ۔ ہر کوئی اپنی جانب سے ترس کھا رہا تھا ۔ لیکن اگر ساس (زر بی بی ) کا بس چلتا تو نازو اور ننھی دونوں کو زندہ نگل لیتی۔ وہ پھر پھٹ پڑی ”شر خاتون کو ملاحظہ فرمائیں۔ جھوٹ بول کر اور مجھ جیسی بڑھیا کو جُل دینے کی قصوروار ہوئی“۔
” بی بی ، مجھے معاف کر دو۔ میں ناف کاٹ رہی تھی کہ آپ نے پوچھا ، میں جلدی میں تھی ۔ اگر خدا نخواستہ ناف ٹھیک نہ کٹتی تو کیا حشر ہو تا ۔ ڈاکٹر اور ہسپتال تو یہاں ہیں نہیں۔ نازو کو کچھ ہوا تو ہم کیا کر سکتی ہیں؟“۔
” نازو کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ بیٹی پیدا کرنے کی عادی ہے ۔ میرا منہ کالا کرتی رہتی ہے۔ میرے بیٹے کو لا وارث کرتی ہے“۔
بڑی جیٹھانی طنزیہ ہنسی کہ ”اچھا ہے ہمار ے بیٹوں کو غربت کی حالت میں گھر ہی میں بیویاں دستیاب ہوتی جا رہی ہیں “۔
کسی نے اس کی بات کو اہمیت نہ دی ۔ بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک بولی ۔ ”زیادہ باتیں نہ کرو ۔ لاﺅمجھے دےدو ۔ انشاءاللہ اگلی بار بیٹا پیدا کرے گی “۔
” اے بی بی ۔ میں نے ہر طرح سے اپنا منہ کالا کر کے دیکھا ہے ۔ میں نے اسے کیا کیا نہیں کھلایا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے ، سبزک (دوائی کا نام ) میں نے دیا۔ پکا ہوا انڈہ میں نے کھلایا، کچا انڈہ میں نے کھلایا ، گھی میں نے دیا ، نر ہرن کا پِتّا میں نے کھلایا۔ اور کس کس چیز کا نام لے کر تمہارا سر چکرا دوں ۔ مجھے جو بھی مشورہ کسی نے دیا میں نے اُسے دے دیا۔ مگر وہ تو خود بے بخت ہے ، بد بخت کو کون کہہ سکتا ہے نیک بخت؟۔ اُس کی ایسی قسمت کہاں کہ بیٹا پیدا کر کے اُسے لوریاں دے؟ ۔مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا کہ بی بی نازو پھر بیٹی لائے گی ۔ بیٹے والی ماں کا چہرہ تو چودھویں کے چاند کی مانند ہوتاہے ۔ مگر نازو کا چہرہ تو یوں لگتا تھا جیسے کسی نے راکھ چھڑک دی ہو“۔
اُس نے نوزائیدہ کو زمین پر پٹخ دیا، کھڑی ہو گئی اور ایک کونے میں دونوں ہاتھ سر پہ مار کر بیٹھ گئی ۔ بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک نے بچی کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا اور کہا: ”نازو ، بے چاری ، اس کے لیے کپڑے لتے بنائے ہیں کہ نہیں ؟ “۔
نازو نے ریل کی بوگیوں کی طرح قطار میں رکھے ہوئے صندوقوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا کہ اس میں ہیں۔
”عورت بچاری تو مفت میں تہمت کا شکار ہوتی ہے ۔ جو بیج بویا جائے گا وہی فصل تیار ہو گی ۔ جَو کاشت کرو گے تو جَو اٹھاﺅ گے ، گندم کاشت کرو گے تو گندم ملے گی“۔
”نہیں نہیں ، بہن ۔ میرے بیٹے کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ نازو سے پوچھو وہ خود کتنے بھائیوں کی بہن ہے ، بولو نازو“۔
”توبہ کرو ، زر بی بی ، توبہ کرو ۔ شیدو کی ماں نے یہی کہا تھا۔ پھر کیا ہوا شیدو ؟۔ کہاں گئیں وہ بہت ساری بیٹیاں ؟ ۔ میری تیری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔ بیٹیاں بڑی ہو گئیں ، شادی شدہ اور گھر والی ہو گئیں۔ پھر ایک ایک کر کے ایسے مرتی گئیں کہ ایک اندھی لڑکی بھی اس کے نام کی نہ رہی۔ ناز بی بی زندہ تھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ کف افسوس ملتی رہی ۔ خدا تک کس کے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں ؟ ۔توبہ ہے خدا کے قہر سے “۔
” نہیں زر بی بی ۔ یہاں تم غلط ہو ۔ نازو کی ماں نے اپنی پوری کوشش کی مگر بیٹا یا بیٹی اس کی قسمت میں نہ تھی ۔ سب مر گئیں ۔ کتنے پیروں ، ملاﺅں کے دم درود اور تعویزوں کے بعد کہیں خدا کو ترس آیا جو یہ اکیلی نازو بچ گئی ۔ شکر ہے اس کے دم سے اس کے ماں باپ کا نام لیا جاتا ہے “۔
نازو کے دل میں آگ لگ گئی۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگی:
”شاید خدا نے مجھے انہی دنوں کے لیے زندہ رکھا۔ اے کاش میں بھی انہی کی طرح مر جاتی“۔
”بس بس خود کو پریشان نہ کر ، سوچ سوچ کر مر جاﺅ گی۔ جیسے خدا کی مرضی ۔ تم نے کون سے پیسے دئیے کہ پریشان ہو جاﺅ کہ بیٹا نہ ہوا ۔ کل یہ بیٹیاں تمہارے لیے خود کو وار دیں گی، تمہاری مدد گار بنیں گی ۔دُرین نے یہی کیا تھا ۔ چوتھی بیٹی پیدا ہونے پہ خود کو دوہتٹر مارتی رہی ، مارتی رہی ، سردی والے بخار میں مبتلا ہوئی اور ساتویں دن قبر میں چلی گئی ۔ پھر بنا کیا ؟ اس کے بچوں کو بھائی کی بیوی نے پالا پوسا ، تمہاروں کو کون پالے گا ، بے چاری ؟“۔
دائی اور بیٹھی ہوئی دوسری عورتوں نے زچہ و بچہ کو بستر پہ لٹایا ، تیمار داری کی۔ ساس نے پھر بھی اپنے ہاتھ تک نہ ہلائے ۔ سراپا غصہ سے اٹھی ، دروازے کو زور سے مارا اور باہر نکل گئی:
” بی بی حوصلہ ۔ درواز ے کو اس طرح توپ سے مارنے میں بچے کا سر ٹوٹے گا“ دائی نے کہا۔
”جہنم میں جائے ۔“ ساس نے کہا ۔
جان محمد نے دروازے کی آواز سنی تو تیزی سے دوسرے کمرے سے نکلا ۔
” ہاں ، ماں ، کیا ہوا؟“۔
”بیٹی اور کیا ؟“ ۔ ”لالو ………. او لالو ۔ آ جاﺅ ۔ دکان چلے جاﺅ اور وہاں سے گڑ خرید لاﺅ “۔
”گڑ کیوں، اماں؟“
ماں نے غصہ بھری نگاہوں سے بیٹے کی طرف دیکھا : ” کیا مصری اور مٹھائی خریدے جائیں کہ واجہ جان محمد کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے ؟ “۔
جان محمد سمجھ گیا کہ آ ج ماں ، بات سننے کی نہیں ہے۔ وہ تیزی سے واپس کمرے میں داخل ہو گیا۔
ماں نے لالو کو روانہ کر دیا اور خود آ گئی ، خاموش اور ملول ، جان محمد کے قریب بیٹھ گئی ۔ کافی وقت گزرا مگر نہ تو بیٹے نے بات کی اور نہ ماں نے ۔ ماں کی اداسی تو ظاہر تھی ، جان محمد بھی دل میں ملول تھا۔
اسی لمحے کمسن نور بخت دوڑتی ہوئی آئی اور باپ کے گلے لگ گئی : ”بابا ۔ چو چو کا نام کیا رکھو گے؟“۔
دادی وہاں سے بول اٹھی : ” اس کا نام ہے بی بس۔ اب بیٹی سے بس “ َ۔ ”بی بس ،مزید بیٹی سے بس “
”اس کا نام ہے زربخت ۔ اس طرح دادی کے نام کا حصہ بھی اس میں شامل رہے گا “۔
جان محمد کی بات سے گویا ماں کی قمیص میں بلی گھس گئی ہو ۔ وہ پاگلوں کی طرح کھڑی ہو گئی اور بیٹے کا کندھا پکڑا۔
” جانو خدا کا واسطہ ہے، اب بس کرو۔ بخت تمہارے پاس نہیں ہے ، نام رکھنے سے بختاور نہ ہو گے۔ یہ جان بخت ، ناز بخت ، در بخت ، نور بخت ، شاد بخت ، ان جیسے بدبخت نام اور کتنے ہوں گے ؟“
”بہت ہیں اماں ، فکر نہ کرو“۔
ماں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا ۔ جان محمد ہنسنے لگا:
” اماں ، اماں خیر ہے ۔ میرے تمہارے ہاتھ میں ہوتا تو ان چھ کی چھ بیٹیوں کو بیٹا بنا لیتے ۔ تمہیں تو ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔ تم تو خود عورت ہو“۔
” میں نازو کی طرح کی عورت نہیں ہوں ۔ مجھے خدانے سر سبز کیا ۔ میں بیٹوں کی ماں ہوں ۔ مجھے تو تم پہ ترس آ رہا ہے “۔
”بیٹی خدا کی رحمت ہے “۔
” میں خدا پر خیرات ہو جاﺅں ۔ رحمت برسانے اُس نے صرف تمہارا گھر دیکھا ہے ؟ “
”توبہ کرو اماں ، توبہ کرو ۔ میرا ایک دوست ہے۔ خدا نے اُسے مال ، دولت ، صحت ، عزت ، ہر چیز دے رکھی ہے مگر اولاد نہیں دی۔ وہ کہتا ہے کہ خدا میری ساری دولت لے جاتااور مجھے اولاد دے دیتا ، بیٹی ہی دے دیتا مگر دے دیتا ۔ اب تو کہتا ہے کہ اپنے لیے یتیم خانہ سے ایک بچہ لا کر پالے گا “۔
” تم اُسے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کیوں نہیں دیتے ؟ ۔تمہاری بیوی نے بیٹیوں کا ایک انبار دیکھ لیا ہے ۔ سال بعد تمہارے لیے ایک اور لا دے گی “۔
جان محمد کو سخت برا لگا ۔ ماں کی اس بات نے اُسے جلا بھنا ڈالا ۔ وہ محض سر ہلانے لگا۔
”سر کیوں ہلا رہے ہو ، میں غلط کہہ رہی ہوں ؟۔ پتہ نہیں نازو نے تم پہ کیا جادو کر دیا کہ یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں لانے کے بعد بھی تمہارے دل میں ہے اور آنکھوں پہ ہے۔ اپنی جوان اور قد نکالتی ہوئی بیٹیوں کے لیے شوہر کہاں سے لاﺅ گے ؟ ۔“
جان محمد کو ایک بار جیسے جوش آ گیا ہو۔ وہ پھٹ پڑا۔ ” تم کہو ، انہیں کیا کروں ؟۔ ان سب کو قتل کر دوں ، گولی مار دوں ؟۔ تم کہتی ہو ، بیٹا ۔ بیٹا ۔ کیا کر دے گا بیٹا ؟ ۔ بادشاہی تاج میرے سر پر رکھے گا ؟ ۔بڑھاپے میں ضعیف و ناتواں ہو جاﺅں گا تو بیٹا اور بہو میرا ہاتھ پکڑیں گے اور گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تمہیں اپنا بھائی نور محمد یاد نہیں ؟۔ اس نے جان تمہارے گھر میں دے دی ، حالانکہ اُس کے تو چار بیٹے تھے ، پھر ؟ “۔
” میں بد قسمت ماں ہوں۔ تمہاری لاوارثی میرے لیے ایک درد ہے“ ۔
”میری فکر نہ کرو ۔ میری بیٹیاں میری وارث ہیں ۔ وہی میرے بیٹے ہیں ۔ کچھ دنوں بعد نازو کو بڑے ہسپتال لے جاﺅں گا اور بچے بند کرنے کا آپریشن کراﺅں گا ۔ بیٹیوں کے لیے شوہروں کا غم نہ کرو ، تمہارے پوتوں کے ساتھ نہیں بیاہوں گا انہیں ۔ کون سا میرا مال و متاع ، محل ماڑی ہیں یا کروڑوں کا کاروبار ہے کہ جب مروں گاتو لوگ لے جائیں گے۔ یا میری نہریں بہہ رہی ہیں ۔ باپ سے ورثے میں ملی میراث تمہارے ان دو بیٹوں کے ہاتھ میں ہے ، وہ ان کا پیٹ نہیں بھرتی ۔ میں تو اپنی سفید پوشی والی نوکری کروں گا ۔ چار پیسے بچا لوں گا۔اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلاﺅں گا۔ وہ میرا بیٹا بنیں گی۔ تم جاﺅ ، ذرا اپنے ان دونوں بیٹوں میں سے ایک کے گھر میں سال چھ ماہ تو گزارو۔ دیکھتا ہوں بہوئیں تمہیں نازو کی طرح رکھ تو لیں ۔ کیوں ان کے ہاں نہیں رہ سکتی ہو؟۔ تم یہاں اس لیے نہیں رہ رہی ہو کہ میں تمہارا بیٹا ہوں ، بلکہ اس لیے رہ رہی ہو کہ نازو تمہاری بھتیجی ہے ، تمہاری بیٹی ہے ، تمہیں اپنی ماں گردانتی ہے “۔
جان محمد کے غصے اور چیخوں سے ماں نرم پڑ گئی ۔ جان محمد نے چادر کندھے پہ ڈالی ، غصے سے بھرا اٹھ کھڑا ہوا ۔ جوتے غلط پاﺅں میں ٹھونسے اور گھر سے باہر نکلا ۔ ماں نے آواز دی ۔
” ابا، میری جان ، تم نے جوتے غلط پیروں میں پہنے ہیں“۔