خوف ۔۔۔ نوڈ یلٹیوسن/نصر ملک
: خوف
ٹوو ڈیٹلیوسن (ڈینمارک)
ڈینش سے ترجمہ: نـصر ملک ( کوپن ہیگن)
آج صبح گھر سے نکلتے وقت بڑابابوجارج بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے اپنا بیگ بغل میں دبایا اور بڑے خوشگوار موڈ میں گلی سے ہوتا ہوا ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسے جان پہچان والے چند ایک ہی ملے جنہیں اس نے نہایت ادب سے ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔ حسب عادت وہ آج بھی بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا چل رہا تھا۔ وہ بڑی اچھی طرح جانتا تھا کہ گھروں میں صبح سویرے دیر تک سونے والے لوگ گلیوں میں اخبار یا دودھ فروخت کرنے والوں کی ہی نہیں بلکہ عام چلنے والے لوگوں کے جوتوں کی آواز تک پسند نہیں کرتے تھے اور پھر خواہ مخواہ ایک دوسرے کو بتاتے رہتے تھے کہ ….. ”وہ ہے صبح سویرے امن کی نیند خراب کرنے والا۔” بڑا بابو جارج یقیناً کسی کی بھی نیند خراب کرنے والا ”بد امن شہری” نہیں تھا۔ وہ تو کسی کو بھی تکلیف نہیں دیتا تھا۔ وہ تو محض اپنے کام سے کام رکھتا تھا’ کام کرنا’ تنخواہ پانا اور اس میں سے باقاعدہ ٹیکس ادا کرنا اور کسی بھی وجہ سے اڑوس پڑوس میں گھروں’ بنگلوں اور کوٹھیوں کے دروازوں’ کھڑکیوں کے قریب تک نہ جانا اس کا ایک طرح سے اصول تھا۔ وہ لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کرنے کے قطعاً حق میں نہیں تھا۔ بڑی بڑی کاروں اور عالیشان بنگلوں اور موٹی توندوں والے ڈائریکٹروں کو صبح سویرے اُن کی نیند سے وہ انہیں بدمزہ کیوں کرے’ یہ وقت تو اُن کا آرام کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عین اسی وقت ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح بڑے بابو جارج کوبھی اُن کے آرام کی خاطر کام پر جانا ہوتا تھا۔ اپنے انہیں خیالات میں مگن لیکن ساتھ ہی غیر ارادی طور پر محتاط’ جارج بابو اب تنگ گلی میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ اُس نے آنکھ اٹھا کرصبح کی سرمئی نیم روشنی میں جو دیکھا تو حیران رہ گیا کچھ لوگ فٹ پاتھ پر سو رہے تھے ۔ ”او اچھا’ یہ بھی تو انسان ہی ہیں’ اپنی صبح سو کرگزارنا چاہتے ہیں توبڑے شوق سے گزاریں’ آخر انہیں بھی تو اس کا حق حاصل ہے۔” وہ زیر لب بڑبڑایا۔
بڑے بابو نے سامنے گرجا گھر کی دیوارپر لگے کلاک پر وقت دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے معمول سے قدرے لیٹ ہو رہا تھا۔ اس نے اب اپنی رفتار تیز کردی تھی۔ گلی کے کونے پر اس کی مڈبھیڑ نیلسن موچی سے ہوئی جو اپنے کام پر جا رہا تھا۔ جارج بابو نے ہر روز کی طرح حسب معمول اپنا ہیٹ چھو کر اسے بھی سلام کیا لیکن نیلسن موچی اس کا جواب دیئے بغیر اس کے قریب سے ہو کر آگے گزر گیا گویا اس نے بڑے بابو کو دیکھا ہی نہ ہو۔ بڑا بابو پہلے تو قدرے حیران ہوا پھر اس نے سر جھٹک کر خود سے سرگوشی کی ”شاید نیلسن آج جلدی میں ہو’ ….. نہیں ممکن ہے وہ بھی میری طرح اپنی سوچ میں گم ہو گا….. بعض لوگ اپنی سوچوں میں یوں کھوجاتے ہیں کہ وہ راہ چلتے ہوئے دوسرے افراد کی موجودگی محسوس ہی نہیں کرتے۔” جارج بابو کا موڈ قدرے خراب ہو گیا تھا….. ”آخرنیلسن نے میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا’ اس نے مجھے دیکھا تو ضرور ہو گا’ ہر صبح ہماری ملاقات اسی وقت اسی جگہ ہی تو ہوتی ہے اور پھر میں اپنے جوتوں کی مرمت و پالش بھی تو ہمیشہ اسی کی ہی دکان سے کراتا ہوں’ وہ مجھے اچھی طرح سے پہچانتا ہے….. اس نے جان بوجھ کر میرے سلام کو کیوں نظر اندازکر دیا؟”
جارج ابھی تک نیلسن موچی کے بارے میں سوچ رہا تھا….. ”نہیں ‘ وہ شاید کسی اور طرف متوجہ تھا جبھی تو مجھے دیکھ نہیں سکا ہو گا۔” جارج بابو چلتے چلتے سوچتا جا رہا تھا۔ ”نیلسن شاید اب اپنی دکان پر پہنچ چکا ہو گا وہ اپنے کسی گاہک کو جو اس کے ہاں جوتا پالش کرانے آیا ہو گا اسے یہ بتا رہا ہو گا ….. بڑے بابو جارج نے آج صبح جب مجھے اپنا ہیٹ چھو کر سلام کیا تو میں اسے خاطر میں لائے بغیر سیدھا دیکھتا اُس کے قریب سے گزر گیا’ نہیں بلکہ میں تو بڑے بابو کے پہلو کے قریب تر تھا لیکن میں نے اسے اہمیت ہی نہیں دی۔” ….. جارج بابو نے لمبا سانس لیا اور سوچا ” کہتا ہے تو کہتا پھرے’آخر نیلسن اور کر ہی کیا سکتا ہے وہ میرا کوئی ایسا پہلو یا معاملہ تو جانتا ہی نہیں جس پر وہ میرے بارے میں بات آگے بڑھا سکتا ہو یا پھر میرے بارے میں کسی افواہ کی بنیاد رکھ سکے!”
جارج بابواپنے مکان کی قسطیں ادا کر چکا تھا۔ اس کی بیوی برگیتے اس سے پیار کرتی تھی۔ بچے مناسب تعلیم و تربیت کے ساتھ جوان ہو رہے تھے۔ اس کے بارے میں اگر کوئی انگلی اٹھا تا بھی تو کیوں؟ لیکن پھر بھی نجانے کیوں یہ وقت ہی ایسا تھا کہ کسی ایک کے بارے میں کسی دوسرے کا ایک لفظ ہی اسے تباہ کرنے کے لئے کافی ہو سکتا تھا۔جارج بابو کے بارے میں ایک بات واضح تھی کہ اس کا اپنا نقطہ نظر اور سیاسی یقین کیا ہے اور اس کی سیاسی وفاداریاں اور ہمدردی کس کے ساتھ ہے۔ جارج بابو نے اس کے بارے میں خود ہی واضح کر دیا ہوا تھا۔ اور یہاں تک کہ نیلسن موچی کی دکان پر بیٹھنے اور کسی قسم کا سیاسی اثر و رسوخ نہ رکھنے والے افراد بھی جارج کی زبانی اس کے اپنے نقطہ نظر کے بارے میں متعدد بار سن چکے تھے کہ وہ محض اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور بس! جارج بابو کی رفتار میں اب مزید تیزی آگئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن میںپھر خیال ابھرا” ہو نہ ہو نیلسن موچی دوسری پارٹی سے تعلق رکھتا ہوگا۔” اب تو جارج بابو اپنی سوچ میں یوں گم ہو گیا کہ اسے اپنی بھی خبر نہ رہی ….. ”مجھے اپنے بارے میں کم از کم اُس موچی کی دکان پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی کہ میرا سیاسی نظریہ کیا ہے اور میں اپنے کن کاموں سے کام رکھتا ہوں۔” جارج اب خیالات کے تند و تیز دھارے میں بہے جا رہا تھا۔ ”شاید اب وہ میرے گھر کا دروازہ پیٹ رہے ہونگے؟ میری بیوی ‘ برگیتے نے اپنا گاؤن پہنے ہی دروازہ کھول دیا ہو گا….. وہ برگیتے کو وضاحت کاموقع دیئے بغیر اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے گھر میں داخل بھی ہو چکے ہونگے’ ممکن ہے اُن میں سے کسی ایک نے بر گیتے پر اپنا ریوالور بھی تان رکھا ہو’ شاید انہوں نے اس کے منہ اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہو۔” جارج بابو مسلسل سوچے جا رہا تھا….. ”ہم تمھارے خاوند کو تلاش کر رہے ہیں’ دیکھو!’ تمھیں بذات خود گھبرانے کی ضرورت نہیں’ بتاؤ وہ کمینہ جارج کدھر ہے؟ یہ معاملہ تمھارے خاوند ہی سے متعلق ہے۔” وہ بکواس کر رہے ہونگے۔
جارج بابو اب ریل گاڑی میں بیٹھا پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ اس کے ہاتھ اتنے کانپ رہے تھے کہ وہ اپنا اخبار تک نہیں کھول سکا تھا ….. یقیناً یہ ایک اہم معاملہ تھا اور جارج کے لئے ایک بد ترین واقعہ بھی’ لیکن یہ کوئی غیر سیاسی معاملہ بھی تو ہو سکتا تھا جس میں اتنا خطرہ بھی نہ ہو ….. شاید یہ محض اس کی اسی طرح کی سوچ ہو جس طرح وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہو کر کبھی کبھی سوچنے لگ جاتا تھا لیکن یہاں اس شہر میں تو اب تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ ایک دوسرے سے سیاسی گفتگو کے باوجود’سب خیریت ہوتی اور رہتی تھی۔ وہ جب اس علاقے میں منتقل ہوا تھا تو سبھی محلے والوں نے اسے خوش آمدید کہا تھا….. اس کی بیوی جلد ہی تمام دکانداروں کو پہچاننے لگی تھی اور وہ بھی اسے ایک خوش مزاج خاتون سمجھتے تھے۔ اس کے بچوں نے کئی دوسرے بچوں کو جلد ہی دوست بنا لیا تھا۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے جن کے والدین بڑی بڑی کاروں’ کوٹھیوں اور بنگلوں کے ساتھ جائیدادوں کے مالک تھے۔” ….. جارج بابو نے اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے سوچا۔ ”شاید حالات معمول پر آہی جائیںگے’ حکومت ہی تو بدلی ہے نا’ آخر ہمیںاپنا اپنا سیاسی نقطہ نظر رکھنے کا حق تو ہے ہی!” وہ سوچ رہا تھا: اس کے بچوں کے اپنے اپنے گھر ہوں گے’ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے کے پر وقارباعزت شہری ہونگے۔ وہ اپنا آمدنی ٹیکس ادا کرتے ہوئے سرکار کے ہاں بھی باعزت سمجھے جائیں گے!”
ریل گاڑی سے باہر نکل کر جارج بابو نے اسٹیشن کی گھڑی پر وقت دیکھا۔ اپنے دفتر وقت پر پہنچنے کے لئے اسے اب قدرے دوڑنا ہو گا۔ ”میں اگر وقت پر دفتر نہ پہنچ سکا تو لوگ خواہ مخواہ کی باتیں بنائیں گے۔” اس نے سوچا۔ ”ممکن ہے وہ کوئی سکینڈل ہی کھڑا کر دیں۔” اسے اپنے دفتر میں ہیڈ کلرک کا عہدہ سنبھالے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور اس سے پہلے مس ہنسن یہ عہدہ حاصل کرنے کے لئے بہت تگ و دو کرچکی تھی۔ وہ تو ایک سفارش بھی لے آئی تھی۔ لیکن ملازمت کے تجربے میں وہ جارج بابو سے ایک سال پیچھے تھی اس لئے وہ ہیڈ کلرک نہ بن سکی تھی۔ دفتر میں مس ہنسن کے مقابلے میں اگر اسے یہ عہدہ نہ ملتا تو تمام ملازمین یہ سوچنے میں حق بجانب ہوتے کہ شاید وہ ہیڈکلرک کی ذمہ داریاں نبھا سکے۔ جارج بابو کو اب بھی یقین تھا کہ اس کی طرف سے دفتری ذمہ داریوں میں یا وقت کی پابندی میں ذرہ بھر بھی کوتاہی یا تاخیر’ لوگوں کو باتیں بنانے اور اس کے بارے میں افواہیں پھیلانے کا موقع ضرور مہیا کر دے گی اور یقیناً ایسا کر کے وہ خوش بھی ہونگے۔ خاص کر مس ہنسن کو اگر کوئی موقع ہاتھ لگ گیا تو اس کے بارے میں افواہیں پھیلانے اور صورت حال سے بھر پور فائدہ اٹھانے میں ہرگز پیچھے نہیں رہے گی۔ عین ممکن ہے وہ اُس کی دفتری بے قاعدگیوں کا ذکر نیلسن موچی سے بھی کر دے اور وہ دوسرے دکانداروں اور اپنے گاہکوں کے کانوں میں اس کے بارے میں سرگوشیاں کرتا پھرے’ آخر لوگ بات سے بات نکالتے’ بال کی کھال اتارتے اور افواہوں کو ہوا دیتے پھیلاتے ہی تو ہیں!”
جارج بابو ابھی تک تیز تیز قدم اٹھاتا’ اپنے دفتر کی جانب ایک طرح سے بھاگتا ہوا جا رہا تھا۔ ” اف میرے خدا میں کن حالات میں گھرا ہوا ہوں ….. یہ خوف مجھے کیوں دبوچے جا رہا ہے۔” اس نے لمحہ بھر کے لئے رک کر سوچا اور بھول گیا کہ اس کے دائیں ہاتھ والی سڑک کون سی ہے۔ اس نے سر کو جھٹکا دے کر اپنی رفتار کچھ اور تیز کردی تھی۔ ” کیا یہ ضروری ہے کہ مجھے اس سڑک کا نام یاد ہی رہنا چاہیے تھا۔”
وہ چلتا چلتا زیر لب بڑبڑایا۔ لیکن اب وہ اپنے آپ میں خود ہی قدرے مشتعل بھی ہوتا جا رہا تھا۔ سر پر پہنے ہوئے اپنے ہیٹ کو ہاتھ کا سہارا دے کرہوا کے رخ سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور دفتر وقت پر پہنچنے کا بھوت اس پر اب پوری قوت کے ساتھ سوار تھا۔ لیکن اپنے تحت الشعور میں جارج بابو ابھی تک پیچھے والی اسی سڑک کا نام یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو وہ بھول گیا تھا۔ اس کے ذہن میں کئی نام آرہے تھے۔ ” شاہراہ آزادی’….. نہیں’ وہ شہر کے بیچ ٹاؤن ہال کے دائیں طرف پڑتی ہے….. آہا’ وہ تو خیابانِ جمہوریت تھی ….. ارے میں بھی کیا پاگل ہو گیا ہوں’ یہ سڑک تو شہر داخل ہونے کے لئے ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ ابھی بنائی جارہی ہے’ ہاں اب یاد آیا….. اس سڑک کا نام ”شاہراہ ساحل” تھا’ یہ ہوئی نا بات!” اسے اپنے آپ پر اعتماد آنے لگا تھا۔ وہ نیلسن موچی اگر مجھے سر راہ نہ ملتا تو اس کا کیا بگڑتا اور اگر اسے ملنا ہی تھا تو پھر اس نے میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ جارج بابو پھر خیالات میں بہنے لگا تھا۔ لیکن سڑک کا نام یاد کرکے وہ ایک طرح سے خود پر اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے اندر ہی اندر اپنے لئے ایک طرح سے تحفظ بھی محسوس کرنے لگا تھا۔ اس سے پہلے جارج بابو خود کو ایسا غبارہ سمجھ رہا تھا جو کسی شریربچے کے ہاتھ میں آ جائے اور وہ بچہ کبھی تو اس میں ہوا بھرنے لگے اور پھر ہوا نکال دے اور یہ عمل تب تک جاری رہے تا آنکہ وہ غبارہ پھٹ جائے۔
جارج بابو ہانپتا ہوا جب دفتر پہنچا تو اس نے استقبالیہ کمرے میں مس ہنسن کو وہاں پہلے ہی سے آئینے کے قریب سامنے کھڑے اپنے بال سنوارتے ہوئے موجود پایا۔
”صبح بخیر” جارج نے قدرے دھیمی آواز میں کہا اور سوچا کہ ”یہ بوڑھی جو ابھی تک ”مس” ہی ہے اس کے لئے یہ کتنا تکلیف دہ ہو گا کہ وہ اپنی تمام زندگی ایک ہی دفتر میں ملازمت کرتی رہے’ لیکن یہ عورت اب یہاں سے جا بھی کہاں سکتی ہے؟ یہ بھی اچھا ہی ہے کہ اب وہ اس عمر میں ہے’ کم ازکم کوئی یہ تو نہیں کہہ سکے گا کہ میں ایک دن اسے اپنی ” رکھیل” بنا لوں گا’ یا پھر اس سے شادی کر لوں گا۔ چلو خدا نے مجھے اس بدنامی سے تو محفوظ رکھاہے۔” جارج بابو اپنی اس عجیب و غریب سوچ پرخود ہی حیران رہ گیا کہ مس ہنسن کے بارے میں آج یہ خیال اس کے ذہن میں اچانک آ کیسے گیا۔ مس ہنسن اگرچہ ملازمت کے تجربے میں اس سے ایک سال پیچھے تھی لیکن عمر کے لحاظ سے کچھ نہیں تو وہ اس سے بیس برس آگے تھی۔ وہ یہ فریڈرکسن’ موسم بھی کتنے عجیب و غریب ہوتے ہیں ….. اب دیکھئے نا’ موسم بہتر ہے تو ہم کتنے اچھے دن بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں کچھ زیادہ تو درکار نہیں ‘بس گزر بسر چاہیے ….. لیکن مسٹر فریڈرکسن’ یہ حقیقت ہے کہ خزاں کے سمے ہمارے علاقے میں ہمارے ساتھ ہمارے مویشیوں کا بھی بہت برا حال ہوتا ہے ….. مسٹر فریڈرکسن’ آپ جانتے ہی ہیں خزاں آخر خزاںہے اس میں بہار کہاں سے آئے گی! جارج بابو نے اپنے شریک کار کی کہانی بڑے اطمینان سے سنی اور جب اس کے شریک کار کو اپنی فتح کا احساس ہونے لگا تو اس نے منہ بھر کر قہقہہ لگایا۔ اتنی تھوڑی سی دیر میں جارج بابو’ جو اب سنبھل چکا تھا ….. اپنے شریک کار کو مخاطب کرتے ہوئے بولا….. ”سنو’ جانسن’ کیا یہ سبھی دودھ فروش’ دکاندار اور اسی قبیل کے لوگ ایسے ایک جیسے نہیں ہوتے؟ ….. مثلاً ” ….. جارج بابو نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”میری گلی میں ایک موچی ہے’ موچی!’ روزانہ کام پر آتے جاتے ہم ایک دوسرے کو گلی کی نکڑ پر ملا کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ اپنا ہیٹ اتارکر اسے سلام کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے ”صبح بخیر” کی دعا دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ کبھی کبھی ہم ایک آدھ منٹ موسم پر تبصرہ بھی کر لیتے ہیں ….. لیکن آج صبح’ تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟” جارج بابو نے اپنا پہلو بدلا۔ کافی کی چسکی لی اور پھر بولا۔ ” میں نے حسب معمول اپنا ہیٹ اتار کر سلام کیا لیکن وہ موچی مجھے دیکھتا ہوا گردن اکڑائے سیدھا چلتا گیا’ اب بتاؤ تم اس کے اس رویے پر کیا کہوگے؟” جارج بابو کھانے کی میزپر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے سبھی رفقاء کار کی طرف سے اپنی کہانی پر داد کا خواہاں تھا۔ لیکن اسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اُن میں سے ایک دو محض ہلکا سا مسکرا کر رہ گئے اور کچھ نے صرف اپنے شانے اچکا دیئے اور باقی تو گویا ایسے تھے جیسے انہوں نے جارج بابو کی بات سنی ہی نہیں تھی۔انہیں اس بات پر ہر گز تعجب نہیں تھا کہ اس موچی نے جارج بابو کے سلام کا جواب ہی نہیں دیا تھا۔ وہ بذات خود جارج بابو اور اس کی عادتوں سے پوری طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جارج بابو کے بارے میں آج کل جو کچھ کہا اور سنا جا رہا تھا وہ اس موچی کو بھی معلوم ہو گا۔ جارج بابو کے بارے میں اب ایسی باتوں کو پوشیدہ رکھنا مشکل تھا۔ وہ تو زبان زدِ عام تھیں۔ ہاں ان سے اگر اب تک کوئی آگاہ نہیں تھا تو وہ جارج بابو بذات خود تھا۔ وہ ان باتوں میں حقیقت سے تو خود بھی واقف نہیں تھے اور جارج بابو کے بارے میں اتنی سنگین افواہوں کے بارے میں خود سوچ بھی نہیں سکتے تھے ….. جارج بابو تو ایک مکھی تک نہیں مار سکتا تھا۔ اس نے کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کی تھی’ ہاں وہ کسی اور کے ایسے مفاد میں’ جس میں کسی حد تک اس کا اپنا فائدہ ہو اس کے لئے اپنے ذاتی نقطہ نظر کو بدلنے میں عار نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی وہ اپنے سے زیادہ دوسرے کی دلجوئی اور مدد کا خیال رکھتا تھا۔ جارج بابو ان کے نزدیک اس اصول پر کاربند تھا کہ بغیر وجہ بتائے کسی کو اپنے دشمنوں میں ہر گر اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔’ کیونکہ ایسے لوگوں کی ویسے بھی کمی نہیں ہوتی جو وجہ بتائے بغیر کسی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
آج کل پورے ملک میں عوام میں ایک طرح سے اپنی اپنی رائے کے اظہارکا جنون پھیلا ہوا تھا۔ ہر کوئی اپنا اپنا نظریاتی اوورکوٹ اوڑھے’ اپنے ہی رنگ میں رنگا ہوا تھا اور اپنے اپنے نظریات کا جھنڈا بلند کرنے میں مگن تھا۔ جارج بابو کے بھی اپنے نظریات تھے۔ وہ ہر قسم کی قدامت پسندی’ رجعت پسندی’ تشددو بربریت اور نفرت و حقارت اور تعصب سے بہت دور تھا۔اسے ”مادر پدر آزادی کے پرستاروں اور”بن بیاہی ماؤں” کے جلوس بھی اچھے لگتے تھے۔ مگر وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ اس کا اپنا مقام کیا ہے! جارج بابو اس بات سے آگاہ تھا کہ اپنی رائے کا بیباکانہ اظہار صرف دشمنوں میں اضافہ ہی تو کرتا ہے….. بالکل اُس موچی کی طرح’ جس نے صبح خاموش رہ کر اس کے سلام کا اگرچہ جواب نہیں دیا تھا لیکن وہ اپنی خاموش زبان سے بہت کچھ بلکہ سبھی کچھ کہہ گیا تھا۔ جارج بابو ابھی تک اسے فراموش نہیں کر سکا تھا۔
دفتر سے گھر واپس جانے کے لئے’ جارج بابو ریلوے اسٹیشن پہنچا اورگاڑی میں سوار ہو کر کھڑے کھڑے ہی سفر کیا ….. گاڑی سے باہر نکل کر جب وہ گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے ہر چیز چمکتی دکھائی دے رہی تھی۔ ہر چند کہ منحوس دن کا بوجھ اسے ابھی تک محسوس ہو رہا تھا لیکن گھر پہنچنے کے خیال سے وہ اسے کسی حد تک بھول چکا تھا …. گھر جاتے ہی وہ سب سے پہلے نہائے گا ….. اتنی دیر میںاس کی بیوی میز پر شام کا گرماگرم کھانا سجا دے گی۔ جارج بابو اپنی ناک میں کھانے کی خوشبو محسوس کر رہا تھا ….. برگیتے نے اپنے گھر کے باغیچے سے پھول توڑ کر گلدان میں سجا رکھے ہوں گے ….. بچے اس کے گرد اکٹھے ہو کر آداب بجا لائیں گے’ جارج بابو کچھ اسی طرح کے خیالات میں مگن تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا ….. ”خدا کاشکر ہے میرے پاس اب اچھی اور مستقل ملازمت ہے۔ لیکن اس میں خدا کے شکر کی کونسی بات ہے آخرمیں نے خود بھی تو ہمیشہ ہمت و ایمانداری سے محنت کی ہے ….. میں نے کبھی کسی کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا تھا۔ میں نے کبھی کسی کو کوئی زحمت یا تکلیف نہیں دی’ میں تو ہمیشہ دوسروں کے حقوق کی عزت کرتا ہوں تبھی تو اپنے حقوق کی ان سے عزت چاہتا ہوں۔” جارج بابو سوچے جا رہا تھا اور ہر نئے خیال کے ساتھ ہی وہ ایک انجانے خوف میں مبتلا بھی ہو جاتا تھا ….. غیر ارادی طور پر اسے یاد آیا کہ وہ صبح اپنے ہی علاقے کی ایک معروف سڑک کا نام ہی بھول گیا تھا۔ یہ خیال آتے ہی جارج بابو نے اس سڑک کا نام پھر سے یاد کرنا چاہا ….. ”شاہراہ آزادی” ….. نہیں یہ تو نہیں ….. ”شاہراہ جمہوریت” ….. ارے یہ تو شہرکے اس طرف ہے ….. اور پھر وہ بے ساختہ پکار اُٹھا ….. ”شاہراہ ساحل” یہ ہوئی نا بات!” ….. وہ اپنی یادداشت پر خوش ہوتاتھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے وہی نیلسن موچی’ گلی کی دوسری طرف سے اسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا….. جارج بابو اسے دیکھتے ہی بیزار ہو کر اندر ہی اندر سیخ پا اور مشتعل سا ہو گیا تھا اور اس نے نیلسن کے سلام کا جواب تک نہ دیا ….. ”شام بخیر ….. مسٹر جارج ….. آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔” نیلسن موچی اس کے بالکل پہلو سے گزر کر آگے جا چکا تھا۔
جارج کی جیسے جان میں جان آگئی ہو اور اسے پھر سے زندگی بسر کرنے کی مہلت مل گئی ہو ….. اُس نے ایک گہرا سانس لیا ….. وہ پل بھر کے لئے رکا اور اُس نے پیچھے مڑکر دور جاتے ہوئے نیلسن کو دیکھا ….. پھر ایک لمبا سانس لے کر تیز تیز قدم اٹھاتا گھر کی طرف چل دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کے گالوں کو بھگو رہے تھے۔ گھر کے دروازے کہ دہلیز پر کھڑے ہو کر اُس نے دستک دینے سے لحظہ بھرپہلے’ شام کی بھوری روشنی میں کھلے آسمان کی طرف دیکھا تو اسے فضا میں بہار کی خوشبو محسوس ہوئی ….. ”نیلسن موچی حق بجانب ہے’ بوڑھا موچی ….. کیا شخصیت ہے اس کی ….. کتنا پر لطف اور باذوق انسان ہے’ نیلسن موچی!” آج واقعی موسم کتنا بدل چکا تھا۔ موسم کی یہ خوشگواری بہار کی آمد کا سندیسہ تھی ….. جارج بابو اپنے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
Written by:
Tove Irma Margit Ditlevsen (14 December 1917 – 7 March 1976) was a Danish poet and author.