ادھ کھلی کا روپ بان ۔۔۔ سمیع آہوجا
ادھ کِھلی کا رُوپ بان
سمیع آہوجا
اس نے بھٹی کا دروازہ خود بند کیا۔ کھٹکا چڑھایااور چاروں ملازموں کو دیوی کی بھینٹ چڑھانے والی تیز کِرچ آنکھوں سے گردنیں اتارتے اور چھوٹی بڑی مختلف حجم کی ریوڑیوں سے بھری تِل کڑہایئاں ، میز پر رکھے بتاشے پٹی اور مدور خستہ گجک کے بھرے کنستر مختلف سائز کے اوپر تلے رکھے تھال پراتیں، ایک کونے میں پتھری کوئلے کا ڈھیر اور اوپر پڑے دو کنستر، اور پھر چالیس سالہ برہمچاری سلاخوں پیچھے جکڑی لوں لوں تِرہائی ، ترستی، پھڑکتی آنکھیں بڑے صبر کی ہم رکاب وہیں اتریں کہ جہاں ہنگامِ دو جنس ۔۔۔۔۔!
گنا پیٹنے کی گے لی فرش سے دس فت باہر سیدھی اور اونچی گڑھی کھڑی، اور گنے کی لوچ سنوارتا کھنچائی سے نمودار کراتا، سنہری اجگر کو گھماتا بل کھلاتا لپکاتا دھمکاتا محور، اسی کیل کے عین ڈیڑھ فٹ نیچے بندھی ہوئی بِلیائی، بکھرے بے گُندھے بال، منہ، کپڑے سے بند، غصے سے تمتماتا بھبکا، پسینے سے تر بتر رنگا چہرہ، موٹے کھدر کی جامنی رنگ شلوار اور بدن کے نشیب و فراز کو اجاگر کرتی پھنسی ہوئی بھیگی کرتی، تیز سانس سے زیر و زبر ہوتی کچی سخت نارنجیاں اور قہر آنکھوں میں شکار، اس کے بدن کے ایک ایک عضو کو پرکھتا آنکھ انگلیاں پھیرتا اس کی آنکھوں میں ایسا اترا، کہ اس کا دہکتا بھڑکتا آگ الاو بدن بھی سنگ ہی اترا، اتراتی کا کیسا ٹھنڈا جل کُنڈ کہ اترن پر ریشمی لپیٹ کی کوئی اتھاہ ہی نہ ملی۔۔۔۔۔۔
اور چھن چھنن چھنن ۔۔۔۔
بجھتا بدن وہیں چھوڑ کر وہ واپس سمٹتے سکڑتے پلٹا ہی تھا کہ ۔۔۔۔
وہ اس کے تعاقب میں اس کے اندر جا اتری
تیز شد ہواوں میں بکھرتی بکھرتی چھاجوں پانی اچھالتی برکھا
ایک ہی پڑ میں وہ چِت ہوا یا کیا ؟ اس کی خبر پنڈت سوم ناتھ گجکی کو ہوئی نہ ہی کسی دوسرے کو، مگر۔۔۔
پہلوان ڈغے کی چوٹ پر جیتا، لڈیاں ڈالتا، ہاروں سے لدا، ملازموں کی طرف پلٹا۔۔۔
ہنکارا بھرتے موڑھے پر بیٹھا اور آوازے پر کانی آنکھ لگادی ۔۔۔۔
ہاں بھئی جوانو ۔۔۔۔۔
شروع ہو جاو ۔۔۔۔
اک جُھوٹی ۔۔۔۔۔
اوپر سے تِل چور۔۔۔۔
بازار میں جس جس نے بھی سنا بلا سوچے سمجھے تھو تُھو کے ہی سروں میں سُر ملائے، لیکن پہلوان نے اکھاڑے کے باہر نہا کر ابھی تہبند کے لڑ لگاتے لنگوٹ کو نچوڑ کر اپنے شاگرد کے ہاتھ الگنی پر ڈالنے کے لیے دیا ہی تھا کہ اس نے بازار کی بات اسکے کانوں میں انڈیل دی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ اتر آئی لیکن آواز سنوارتے، کھنگورا بھرتے غار پر چپ کی سل جم گئی، وقوعہ کے ہر پہلو پر غور کرتے وہ دکان کی طرف بڑھ گیا۔
پوریوں پر ہاتھ صاف کرتے چاروں کے سکے کُھنے تکتے اس نے ان کے بیانات سنے۔۔۔۔۔۔
چار میں سے تین نوکروں کا پہلا بیان ؟
نہیں ۔۔۔۔
بولا تو ایک ہی، باقی کے ہونٹوں پر چپ کی مہریں ثبت رہیں، اور بولتے بھی تو کیا بولتے۔۔ اپنے پیٹ سے خود ہی کپڑا اٹھا کر بازار کی تُو تکار میں بولوں کی سیخوں پر پروئے جاتے، سو ایک چپ ہی بھلی، اور وہ بولا بھی تو کیا بولا ۔۔۔۔۔ ؟
کہ تیر کی طرح آئی اور کڑاھی میں گھوپا مارتی، پلک جھپکتے میں نکلتی، سیدھا بابے چھنے کی دکان میں جا گھسی ۔۔۔۔
پہلوان نے اچار آم کی گتحلی چوستے، زبان اور تالو کے باہم ملاپ سے چٹخارے لیتے ہُنکارا بھرا ۔۔۔۔
ہوں تو اگر ۔۔۔
بات تِل چوری یا گنا گٹکو کی تھی تو اتنا دھوم دھڑکا کس لیے ۔۔۔۔۔؟
تین میں سے وہی ایک ڈکارتا سانڈ ۔۔۔۔۔
تازہ دم مگر بے چارگی کے سِل بٹے پر پستے، کولھے مٹکاتے کلبلاتے منہ اٹھا کر اپنے بے قصور ہونے پر ڈکارا ۔۔۔۔
بات یہ نہیں تھی جی، یہ کمان سے چُھٹے اک تیر سنگ، نہیں نہیں، اَنگت تیروں میں تیرتی آئی، ایک گھوپا مارا، کڑاہی خالی اور یہ پلک جھپکتے میں نکلتی غپ سے بابے چھنے کے گودام میں، یہ طھلاوا ہے جی طھلاوہ اور بڑی مشکل سے یکُو کے ہاتھ لگی۔
اگلی بات وہ کیسے کہہ دیتا، پہلوان سمیت سب کی عزت کا سوال تھا، مگر مجبوری ۔۔۔۔
شروع شروع میں ہکلایا اور پھر دھیرے دھیرے گنا پھینٹنے میں روانی آ گئی۔
اور یکو کہ جس نے بوریوں کی پالوں کے پیچھے چھپی بلیائی، بڑی بڑی غراتی آنکھوں والی خونخوار شیرنی سے چار پلسیٹیاں کھاتے اپنی بنیان پھڑواتے اور کھلتی بکھرتی دھوتی کو سمیٹتے، لمبے ناخنوں سے اپنے سارے صبیح پوست میں مڑھے جامے کو چھلواتے تلاشی دے ڈالی، ایک ہاتھ سے گردن سے پکڑی، اور دوجے سے دھوتی فرش سے سمیٹتے کھڑا ہوا، تو سرسے پانوتک گھورتی غراتی آنکھیں اس کے وجود سے لپٹتی محسوس ہویئں تو فوری اس کے دونوں ہاتھ اپنا آگا پیچھا چھپاتے، دہانے سے ابلی روہانسی آواز میں لتھڑی، منہ، پھیرنے کی درخواست، لیکن اس کی شِست بندھی آنکھوں دیکھ کر اس نے بلبلاتے چلاتے اس کے رخ چُوتڑ پھیرے، اور دھوتی باندھی کہ قدموں کی چاپ سنگ آنے والے بابے چھنے کے دو نوکروں نے اسے دھوتی کے لڑ پھنساتے دیکھ لیا، اب وہ بلیائی سے خوفزدہ کہ اس کے واویلے اور دو گواہیوں سے ساری کمائی عزت نہ لٹ جائے، وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھنسائے اسے دھکیلتا، جب اپنی بھٹی میں گھسا تو وہ نیم جان تھا۔ اس نے اسے تینوں کی طرف دھکیلا اور ایک طرف ہو کر بیٹھتے دھونکنے لگا۔
گھوپا تو اس کے پاس سے نکلا نہیں ۔۔۔۔
اور چائے کی ہلکی ہلکی سُکیاں لیتے دوجا بیان ۔۔۔۔
یکو نے تو بلیائی کو تینوں کی طرف دھکیلا تھا اور خود عزت لٹنے کے اندہ ناک مجرمانہ اندیشوں سے نچڑتی خجالت میں غلطاں، اک جانب سمٹا۔۔۔۔
زور سے دھکیلی گئی بلیائی سیدھی کاکو کالیے کِشن کے سینے پر آ پڑی، دایئں بایئں کے دونوں نوکر بوکھلائے تتر بتر ہوتے بھٹی کے علاقے سے گودام میں سٹک لیے۔ کالیے بھجنگ کے سینے سے وہ آ ٹکرائی تو اس نے بے اختیار کھلی بانہوں میں اسے سمیٹا، سر سے پاوں تک اک گہری مستی کا عالم اس کے رگ و پے میں اترتا دہکتی بھٹی میں دھکیل گیا۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں ہی ٹوتتا نچڑتا نشہ، بلیائی کی اس کے سینے پر پڑتی ٹکر سے ہڑ بڑاتے پیچھے ہٹا مگر دوجے ثانیے میں اس کی بانہیں پھیل گیئں۔ دہانہ دلخراش چیخیں ابلنے لگا۔ رانوں میں دبکا سارا مال غیر منقولہ بلیائی کی مٹھی میں بھنچا پیچواں گھومتا نچڑتا، اور بے ساختگی میں کالیے بھجنگ کی دھوتی اسکے دوسرے ہاتھ میں آئی اور کھنچتی چلی گئی لیکن یکو سے با لکل مختلف حالت، کالے پلتو ملیشیا کے کچھے کے دو منگاروں سے نکلی کالے سیاہ گھنے بالوں کی بیلوں سے ڈھکی دو لمبی ٹانگیں، رانوں کا ڈھکا خزانہ، مڑا تڑا اس کی کلا جنگ شکنجہ مٹھی میں بند، کھینچ تان میں ذبح ہوتا تڑپتا ڈکراتا سیاہ بھینسا ڈھیل دیتے ہی دونوں رانوں میں ہاتھ دیے سسکتے کاکو کالیے کشن کی پرچھایئں گودام میں اتر گئی۔
پیڑوں کی لسی کا پہلا گھونٹ اور چڑھتے خمار کی بھول بھلیوں بیچ گھپ اندھیارے میں جواب طلبی کا بھڑکتا شعلہ اور تیجا بیان بلبلاتی، گڑگڑاتی آواز کی منمناہٹ بے پانی، حلقوم خشک شوریدہ، زار و قطار بہتے آنسووں میں مردہ بدن ڈھل گیا۔
کاکو کالیے کی گودام میں اترتی چیخم دھاڑ نے ان دونوں کو بلیائی کو پکڑنے اور اک دوسرے کو ہلا شیری کے نعروں سمیت باہر دھکیل دیا۔ اس نے آگے آگے نتُھو کی پھیلی گھیراو کرتی بانہوں کو پکڑا اور دھوبی پٹڑے کے ایک ہی جھٹکے میں فرش پر دے پٹخا اور ناف کے مرکز کے گرد زیر و زبر ہوتے پیٹ پر اچھلتے گری اور دونوں پیڑو یک جان کرتے گھماتے رقصاں، کہ جم کر بیٹھتے ہی ناف نل کھینچ ڈالے، دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں مٹھیوں میں جکڑتے ، بازووں کو کھنیچتے، کہنیوں سے دونوں پاوں کے تلووں میں ضربیں لگاتے، پیچھے لپکتی کمک سے پہلے ہی دو ثانیوں میں ادھ موا کر دیا، نتھو کی آخری کُرلاہٹ سے پہلے وہ کہنیوں پر زور دیتے اچھلی اور دریودھن کے سینے سے جا چمٹی، اس کے رسیلے چکتے پھولے گالوں پر پہلے دایئں پھر بایئں دانت جمائے اور بوٹی نکالے بنا ہی ہر دو جانب اک اک نشان ایسا چھوڑا کہ وہ پہلے آہ و بکا میں تڑپتا بے پانی کا مچھ اور بالآخر بیکری کے دونوں پانووں سے گندھے لوچ دار آٹے کی ڈھیری، وہ اس کے چوتڑوں پر دو کک لگاتے غراہٹ میں برس پڑی ۔۔۔
جان بچانی ہے تو مجھے گنا ستون سے کس کر باندھ ڈال، ورنہ قیمہ کر دوں گی ۔۔۔
بھڑکتی آگ کی سی تندی سے وہ بندھ تو گئی مگر پھر ہاتھ لگانے جرات ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ناشتے میں سیر ہونے کی منزل آنے تک وہ صفائی میں کہی گئی باتیں سن سن کر بے کیف ہوتا رہا مگر آخری ذائقے کی سرحد لگتے ہی اس کی کڑکتی آواز ان چاروں پر برس گئی۔
کیا بکریوں کا باڑا کھول رکھا ہے ۔۔۔۔
میں میں میں
سسروں کی ساری باتیں بے پٹ، بے وزنی
بات مٹھی بھر تِل کی ریوڑی کی چوری کی ہو رہی تھی، کہ کوپا بھر چوری کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا، ابھی اس سنگ میل پر پہلا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ یہ بیچ میں سالم کڑاہی کی چوری کی ذکر آ گیا اور بدلے میں تم نے سموچی لڑکی باندھ لی اور مال ۔۔۔۔۔؟
اس کی برآمدگی کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ ہاں اگر کوئی آڑی ترچھی بات ہے تو سیدھے سبھاو کھولتے گڑ قوام کی میل کاٹو اور تار باندھو ۔۔۔
تازہ گڑ گڑی کے دو کشوں میں منمناتے دری نے گڑ گڑی پہلوان کے ہاتھوں میں تھما دی ۔۔۔
دو لمبے کش لیتے وہ چاروں نوکروں پر برس پڑا ۔۔۔
چار ٹھڈوں کی برسات میں ہی دری کی چیں بول گئی اور زار و قطار رونا تو چھوٹا ہی مگر ہونٹوں کے پیچھے دبی بات ابل پڑی، اصلی اور نقلی کا نتارا تو بلیائی کے منہ میں ٹھسے کپڑے کے نکلنے پر ہو گا ۔۔۔
جی ۔۔۔ وہ ری شم آئی کوئلے کا کنستر کونے میں ڈالتے جھکی اور پھر سیدھی ہوئی ۔۔۔
اسکے رکتے شاید ری شم کے نام پر اسے پہلے دھچکا لگا، مگر دوسرے ثانیے میں وہ تلملاتے بے تابی سے گرج اٹھا ۔۔۔۔
سور کے جنے، بول، جلدی بول، پھر کیا ہوا ؟
بس جی ہونا کیا تھ ۔۔
اب آپ غصے مت ہویو ۔۔۔۔
بس جی بس، اسی سمے میں ہی میری آنکھیں لچکتی بل کھاتی کمر میں ہی اٹک کر رہ گیئں، دونی اپنی اور دونی بلیائی کے کنستر کی لی اور سامنے حلوائی کنے پوری لینے چل دی، وہ دیکھو، ابھی اس کا کنستر ڈھیری کنے ہی پڑا ہے۔ بیلیائی ابھی آئی نہیں تھی، ریوڑی گٹا دیکھا تو با لکل ٹھنڈا پڑا ، توتلوں بھری کڑاہی، آگ پر چڑھا دی صرف دو آنچ کے لیے، تا کہ تلوں میں اندر تک تپش اتر جائے کہ وہ سرخ بھی نہ ہوں اور گٹا کٹائی سپید گرم تلوں سے چپک جائے۔ میں نے کڑاہی میں کڑچھا چلاتے تلوں کو الٹ پلٹ کرتے تینوں کو آواز دی، اسی لمحہ کڑاھی کو بھٹی سے اتارتے، لوہے کے گھیرے پر جماتے کاکو اور نتھو میرے ساتھ ہی جُتے تھے۔ گٹا کٹائی کا تھال یکو نے کڑاہی میں ڈال دیا۔ اس سارے وقت میں بڑی تندہی سے کڑچھا بھی چلتا رہا، ایک لمحے کے لیے بھی تلوں والی کڑاہی یا بھٹی ہم چاروں سے خالی نہ رہی نہ ہی تِل چوری کا شور ہوا ۔۔۔۔۔
تو یہ سارے بازار میں شور غوغا کیسا ؟
بس جی وہ گٹ کٹائ ڈلتے سمے یہ بیلیائی آئی، کوئلہ ڈال مزدوری مانگنے کھڑی ہو گئی۔ بہتیرا کہا کہ ری شم لے گئی ہے سامنے حلوائی کنے ہے، یہ تھوڑی بہت تکرار کے بعد چلی گئی ، مگر ان ہی قدموں پر لوٹ آئی کہ وہ وہاں نہیں، بس انکاری پر اس نے زوراوری یکو کے لڑ سے ایک ادھنا نکال لیا کہ پوریاں کھانی ہیں۔
مگر گال تو تیرے چبے ہیں اور ادھنے والی بات یکو کی ۔۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔
وہ جب کھا پی کر پلٹی تو یکو نے ادھنی والی دیدہ دلیری پر آنکھیں دکھایئن۔ یہ فورا ہی اس کے گلے پڑ گئی۔ میں نے پیچھے سے کلاوا بھرا تو اس نے گرد گھمائی، منہ خاصا اونچا کیا اور پھر پہلے دایئں پھر بایئں یا شاید پہلے بایئں اور پھر دایئں اور پھر ہم چاروں نے کھینچ تان کر اسے گٹے والی گے لی سے باندھ ڈالا۔ بس بات اتنی سی ہے ۔۔۔
ھونھ ۔ بات اتنی سی ہے۔۔۔
میں تم سب حرامیوں کی الٹ پھیر سمجھوں ہوں ۔۔۔۔
جاو گودام میں سٹک لو اور وہاں جا کے منی، سر لپیٹے کسی کونے کھدرے میں دبکے رہنا، رات دس بجے باہر نکالوں گا، بس اب اس کے ہاتھ پاوں کھول کے دفع ہو جاو۔
پھر وہ گڑ شیرا پکانے والی، پتھرے کوئلوں کی بھٹی کے دوسرے کونے میں گٹا پیٹنے والے کھڑے شہتیر کے ساتھ بندھی کھڑی، کھل گئی۔ نوکروں کی موجودگی میں تو شہتیر سے لگی چپ چاپ کھڑی رہی، مگر ان کے گودام میں گھستے ہی خجل بجھی آنکھیں نیروں میں نہاتی دھل دھلا گیئں اور وہ مسکان میں لجاتی ڈولتی، نینوں کے کڑے تیزبانوں سے سارے بدن کو چھلنی کرتی پہلوان کے کھلے بازووں مین آ دھمکی۔
اب بھٹی کے بند دروازے کے باہر تھڑے کے نیچے سرخ اینٹون والے چھ فٹے چوڑے فٹ پاتھ پر بازار والوں کا ٹھٹھ اور دروازہ تھپ تھپاتی زور زور سے پہلوان کو پکارتی ری شم ۔۔۔۔
ان سب کو وہ کیا جواب دے گا ۔۔۔۔؟
رب دی رب ہی جانے۔