ایک مکمل کہانی ۔۔۔ محمد عثمان عالم
ایک مکمل کہانی
محمد عثمان عالم
جگر ،دِل گردے،دماغ،معدہ،پھیپھڑے اور نجانے کون کون سے حصے اُس کے مردہ جسم سے کاٹ کر ایک سٹیل کے مخصوص برتن میں رکھے جا رہے تھے۔اُس وقت میں بھی وہی موجود تھا۔
اُن لمحات میں ،میں اندھا تھا میری آنکھیں اِس کمرے نما ہال سے باہر کھڑے افسردہ اور غم ناک آنکھوں والے دوست کے پاس تھیں۔
مجھے یقین ہے اُس وقت میں ،میں بہرہ بھی تھاکیونکہ اِس مردے نے مجھے کئی مرتبہ اپنی تیزابی آواز میں مخاطب کیا ہوگا لیکن میری سننے کی حس دیواروں کے اکھڑے پلستر میں کہیں چھپی بیٹھی تھی۔
شاید اُس وقت میں اپاہج بھی تھا ورنہ میری ٹانگوں میں حرکت ہوتی ۔میں تو کئی لمحوں سے ساکت اور بے حس تھا۔
میں کہانیوں کا وہ کردار ہوں جو کبھی ہیرو تو کبھی ولن کے رُوپ میں آتا ہو۔کبھی معاون کردار میں تو کبھی بزرگ اور اساطیری کردار میں۔۔۔۔۔کبھی ظالم سماج تو کبھی استحصالی معاشرے کی شکل میں جلوہ گر ہوتا ہو۔
میں جہاں کھڑا ہوں یہاں مردوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔سفید سنگِ مر مر سے بنے اِس تھلہ نما سٹریچر ،جس پر جوان مردہ لڑکی کے جسم کے اندرونی اعضاءکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پولی تھین کے لفافوں میں پیک کر کے ایک طرف رکھے جا رہے تھے ۔میں اِسی بدنصیب کا منھ بولا بھائی ہوں۔
کچھ گھنٹے قبل جب اِس مردے میں جان تھی اور اِس کو بطور انسان کے دیکھا جا رہا تھا تو اُس وقت میں بھی اِس کے ساتھ انتہائی نگہداشت والے کمرے میں موجود تھا ۔میری ہاتھ کی ہتھیلی جتنی اِس لڑکی کے جسم کے ساتھ ڈرپ کونولا،پیشاب کی تھیلی ،خون کی مقدار مانپنے اور دِل کی دھڑکن دیکھنے والی مشینیں کسی جونک کی ماند چمٹی ہوئی تھیں۔
جب اُس نے اپنے خشک اور پیلے پڑتے ہونٹوں سے مجھے اپنے قریب ہونے کو کہاتو میں صاف نظروں سے اُس کے پائنتی پر کھڑا اُس کو دیکھ رہا تھا جس نے کچھ دیر تک اُس کی جان قبض کرنی تھی۔
”بھائی انہیں چھوڑنا مت “
گھُٹے گھُٹے اور نیم مردہ لفظ اُس نے اپنے مریل ہونٹوں سے میرے کان کے پیالے میں اُنڈیلے ۔
اُس وقت میرے اندھے پن کو بینائی ملی جب درمیانی عمر کی ایک لیڈی ڈاکڑ کے آگے کھڑا وہ شخص کسی ہوشیار موچی کی ماند گردن کی چمڑی میں بڑے بڑے ٹانکے پرُوتے ہوئے سینے کی جانب بڑھا، پیٹ اور سینے سے ہوتا ہواوہ گردن کی چمڑی تک آیا شاید میری یادشت میرا ساتھ نہں دے رہی ۔
میں منھ بولا اور وہ حقیقی بھائی جواِس وقت اِس وحشی کمرے سے باہر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔وہ میرا بچپن کا دوست اور غم خوار تھا ۔
میں اِن باتوں کی تفصیلات میں قطعاَ نہیں جاؤں گا کہ جب اِس مردہ جسم کو ایمبولینس کی مدد سے گھر پہنچایا گیا تو وہاں کیا کہرام مچا ہوا تھا ۔ماں اور بہنیں کیا واویلا مچا رہی تھیں۔بھائیوں کی آنکھیں نم ناک اور محلے والے کیسے متجسس اور سُن گن لینے میں لگے ہوئے تھے ۔
میں ایک کردار ہوں منھ بولے بھائی کا ۔اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اُس رات میرے کمرے کی اندھی دیوار سے اُس کا آخری جملہ سیم بن کر اُکھڑتا رہا۔
”بھائی اُنہیں چھوڑنا مت“
مجھے وہ دِن اچھی طرح یاد ہے جب ٹھیک ایک سال پہلے وہ اِسی گھر سے بیاہی گئی تھی ۔روائتی سسرال والے وہی مادی ذہنیت ۔کبھی جہیز کی کمی کا طعنہ تو کبھی میکے کی طرف سے خواہش پوری نہ ہونے پر جسمانی تشدد۔
میں اُس پکی رُپورٹ کی طرف آتا ہو ں جو مطلوبہ تھانے میں مدعی کی طرف سے درج کروائی گئی تھی ۔
رُپورٹ میں درج تھا کہ مدعی کو اُس کی ساس اور شوہر نے زبردستی تیزاب پلایا ۔بعد میں تیزاب ہی اُس کی موت کا سبب بنا۔
میری آنکھوں کے سامنے وہ بارہ دِن موت اور زندگی کے درمیان ڈسٹرکٹ اسپتال میں پڑ ی رہی ۔میں نے اِن دِنوں میں ہمیشہ موت کو اُس کے جسم کے اندر اور باہر آتے جاتے دیکھا۔
موت تو اُس تیزاب کے اندر کہی چھپی بیٹھی تھی جو اُس کی خوراک کی نالی سے معدہ ،جگر،پھیپھڑوںاور آنتوں کو چیرتی ہو ئی نکل گئی تھی ۔
جب موت اُس پر مکمل طور پر حاوی نہ ہوئی تھی تو اُس کی سڑی آنتوں کو پیٹ سے باہر رکھ دیا گیا تھا۔
اُس کی گھلی ہو ئی آنتیں کچھ ہی دِنوں میں سرانڈ پیدا کرنے لگیں۔اِس سے قبل کہ اُس کو پلاسٹک کی آنتیں لگائی جاتیں۔موت اُس کے جسم کے ایک ایک خلیے کے مرکزہ تک جا پہنچی تھی۔
اِس کہا نی میں میرا کردار ایک منھ بولے بھا ئی کا ہے اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔
”بھائی اُنہیں چھوڑنا مت“
ایک ایک کر کے یہ الفاظ میرے جسم کے پسینے سے اُس وقت بہہ رہے تھے ۔جب تفتیشی افسر کے ہمراہ میں،میرا دوست اور اُس کی ماں حوالات کی سلاخوں کے پیچھے بند اُس شخص کے با لکل سامنے تھے جسے میں نے چھوڑنا نہیں تھا۔
اُس کی موت اخبارات کی چار کالم کی خبر بنی ۔نجی ٹی وی چینل نے پیکجز اور کرائم رپورٹ بنا کر چلائی ۔خواتین کی علمبردار تنظیموں کو اُن کے حق میں ایک اور سٹوری مل گئی ۔
مجھے یاد ہے اُس کی ماں ،میرا دوست اور میں اگلے چھ ماہ تک منشی ،وکیلوں اور عدالتوں کے چکر میں پڑے رہے۔کہیں بھی ہمیں انصاف کا سستاپرندہ نظر آتا ہم اُس کے گھونسلے تک لازمی جاتے۔
چھ ماہ منھ سے کہنا آسان ہے جب جیب اور گھر کی تجوری خالی ہو اور قرضوں کی گٹھ پشت پر وزن بڑھا رہی ہو تو آگے کا سفر مشکل ہو جاتا ہے۔
دوست کے گھر کی دیوار سے مجھے ہمیشہ مقتول کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی رہیں۔
کارنس پر پڑی اُس کی معصوم تصویر مجھ سے اور میرے دوست سے صرف ایک ہی سوال کرتی۔
”بھائی اُنہیں چھوڑنامت“
کیس کی پیروی کے دُوران ہی مجھے کچھ وقت کے لئے دوسرے شہر عارضی طور پر منتقل ہونا پڑا۔
رات پڑتے ہی وہاں بھی اُسی کے الوداعی تیزاب میں ڈوبے الفاظ بدنما کیڑوں کی شکل میں فرش سے اُگلنا شروع ہوجا تے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیڑے میرے بستر میں داخل ہوکر میر ے کا نوں کے رستے آنکھوں سے بہنا شروع ہوجاتے۔
انہی دنوں ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرا دوست کسی ویران جگہ میں اپنی ماں کے ساتھ نوٹ کی گھٹیاں گننے میں مصروف ہے اور اُس کی ماں اپنے بیٹے سے میرے متعلق سرگوشی میں کہتی ہے کہ اُس کواِن پیسوں کے بارے میں خبر نہ ہونے پائے ۔
کچھ عرصے بعد شہر لوٹا تو خبر ملی کہ 302 کے کیس میں بند ملزم ۔مجرم ثابت ہونے سے قبل ہی باعزت بری ہوگیا۔
دوست کے گھر گیا تو وہاں ٹوٹے ہوئے کچے گھر کی جگہ سہ منزلہ مکان تیار کھڑا تھا جس پر خوبصورت ٹائیلیں لگائی جا رہی تھیں ۔
میں باہر سے ہی پلٹ آیا اور سیدھا اُس کی قبر پر جا پہنچا۔جہاں گارے کی لپائی کے بجائے قیمتی سنگِ مر مر سے مزین قبر تھی۔
وہ اپنی ہی قبر کے سرہانے سر جھکائے بیٹھی تیزاب کے آنسو بہا رہی تھی۔
مجھے دیکھا اور بے یقینی کے عالم میں بولی:
”بھائی اُنہیں چھوڑنا مت“
میں بھی بے یقینی کی چادر میں منھ چھپائے قبرستان سے باہر نکل آیا۔
میں تو ایک کردار ہوں منھ بولے بھائی کا اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔