بند مٹھی ۔۔۔ سید انور ظہیر رہبر
بند مٹھی
سید انور ظہیر رہبر
، برلن جرمنی
میں سوچتا رہتا ہوں کہ شاید قدرت نے مجھے یہ صلاحیت کچھ زیادہ ہی دی ہے۔ میں مستقل ہی سوچتا رہتا ہوں ۔۔۔سوچنا زندگی کی تلاش ہے۔ سوچنا اپنے آپ کو پہچاننا بھی ہے ۔۔۔اس کے لیے ذہن کے اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں ہم سب زندہ ہیں۔ زندہ رہنا ہے تو سوچنا بھی ضروری ہے ورنہ ایک مورت کی طرح بنا جسم و جان کے پڑے رہنا نہ زندگی ہے نا کچھ اور۔ ہم کیا ہیں؟ ۔۔۔زندگی اگر موقع کو پہچاننے کا نام ہے تو پھر موقع کہاں ہے؟ اس کی تلاش سوچ سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔۔۔۔
میں کُھلی فضامیں نکل آتا۔ دیکھتا ہوں کہ خوشگوار ہوائیں درختوں کے پتوں سے کھیل رہی ہیں۔ پتے خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ پتوں کی خوشی دیکھ کر پرندے چہچہا رہے ہیں ۔ خرگوش سرشاری سے چھلانگیں مارتے ہوئے ادھر ادھر ناچ رہے ہیں ۔ میں ان سب کو اپنی طرف مائل کرنے کی سعی کرنے لگا۔ لیکن نہ ہوا نے مجھے گد گدایا اور نہ پتوں نے اپنی سر سراہٹ میں مجھے شامل کیا۔ پھر میری سوچ نے مجھے جگا دیا اور میں سمجھ گیا کہ ان کو اپنی طرف متوجہ کیسے کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔ یوں میں بھی ہوا کے ساتھ ساتھ جھومنے لگا ۔ میں نے ہوا کی ردم میں خود کو اتار دیا ۔ بس پھر کیا تھا پتے میرے ساتھ کھیلنے لگے۔ پرندے میرے قریب آکر گیت گانے لگے اور خرگوش جو پہلے مجھ سے ڈر رہے تھے اب میرے دوست بنے میری باہوں میں گھسے چلے آئے۔۔۔۔۔ سوچ کو جیت نصیب ہوئی ۔۔۔۔میں بھی سرشار ہوگیا ۔۔۔۔
وہ بھی میری سوچ ہے۔ میں ہمہ وقت اس کو سوچتا رہتا ہوں ۔ وہ یہ جانتی بھی ہے لیکن مجھ سے لاتعلق ہی رہتی ہے۔ بیباکی اس کے اندر جذب ہے شاید یہی بات ہے کہ میں نے لاکھ کوششیں کرڈالیں لیکن وہ مجھ سے دور ہی رہی۔۔میں جب سخت جتن کرکے تھک گیا تو پھر میں نے اس کو بھلانے کے بجائے اسکا مکمل احاطہ کرنے کا ارادہ کرلیا ۔ وہ میری بنت ام ہے، خالہ کی بیٹی۔ اس کے گھر آنا جانا ہے۔ اس لیے مجھے اسے پڑھنا کچھ دشوار نہ ہوا ۔ میں نے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی ساری باتیں جو اسے پسند تھی میں نے بھی انہیں اپنی پسند بنالی۔ ہر اس بات کا خیال رکھنے لگا جو وہ چاہتی تھی۔۔۔۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے آپ کو ختم کرنا کسی کی خواہش کی تکمیل کے لیے۔ کسی کی سوچ کی جیتی جاگتی تصویر بننے کے لیے۔ یہ ایک طویل سفر ہے اور کبھی کبھی سفر میں پل صراط بھی عبور کرنا ہوتا ہے۔ کبھی ہوائوں کے ساتھ جھومنا ہوتا ہے، تو کبھی پھولوں کے ساتھ کانٹوں کی چبھن بھی محسوس کرنی ہوتی ہے۔ کبھی رات کے اندھیرے میں کواڑ پر پڑنے والے بارش کے قطروں کی دستک بھی سننی ہوتی ہے، تو کبھی تیز سورج کی کرنوں کو آنگن میں اتارنا بھی ہوتا ہے۔ کبھی دیوار پر چڑھتی بوگن ویلا کو جگہ دینی ہوتی ہے، تو کبھی شام میں پھیلی سرخی کی وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ لیکن یہ سارا عمل صرف اس کو جیتنے کے لیے اس کی خواہش کو پروان چڑھانے کے لیے ہی ہے۔
میں اپنے اندر اور باہر کے انسان کو بدل رہا ہوں۔ اپنے بدن پر پھیلی جلد کی چادر کو بدل رہا ہوں تاکہ وہ اس میں سے اپنی سانسیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر گزر سکے۔ میں اپنے صبح و شام کے مشاغل بدل رہا ہوں تاکہ اس کی زندگی کی ناؤ کے بہاو میں کوئ رکاوٹ نہ آئے۔ میں اپنی نظر کو بدل رہا ہوں کہ اس کی بینا آنکھوں کو وہی نظر آئے جو وہ دیکھنا چاہتی ہے۔ میں اپنے آواز کے اتار چڑھائو کو بدل رہا تھا کہ اس کی نازک سماعت میں کوئ ناپسندیدہ ارتعاش نہ آئے۔ میں دل کی دھڑکن کی آواز کو قابو کررہا تاکہ اس کے سینے کے زیر وبم میں کوئ خلل نہ ہو۔ میں خواہش کو اپنی سوچ سے شکست دے رہا تھا کہ اس کی خواہش میں کوئ کمی نہ آئے۔۔۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں اپنے آپ کو اسکے انداز زندگی اور اس کی سوچ میں ڈھالنے میں کوئ نیا جنم لے رہا ہوں۔ یہ جنم ماں کے رحم سے نہیں بلکہ اس کی خواہش سے ہورہا ہے۔ میں ایک نیا انسان بن رہا ہوں خود اپنی اصل شخصیت کو ختم کرکے۔ صرف اس کے لیے۔ کیا میں درست کررہا ہوں ۔ یہی خیال لیے آج پھر اس کے گھر چلا آیا۔
“۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں آپ کافی بدل گئے ہیں۔۔۔بہت تیزی سے تبدیلی آرہی ہے آپ میں۔۔۔”
اس کے اس طرح سے مخاطب ہونے پر مجھے حیرت بالکل نہیں ہوئ۔ یہ تو میں جانتا ہی ہوں کہ اسے میں پہلے بھی بالکل پسند نہیں تھا یا وہ مجھے مکمل نظرانداز کرتی رہتی ہے۔۔ تو میں نے سوچا ٹھیک ہے وہ اگر میری طرح بننا پسند نہیں کرتی تو میں اس کی طرح بن جاتا ہوں۔۔۔۔۔
” بہت شکریہ کہ تم نے یہ تبدیلی نوٹ کی۔”
میں نے مختصر سا جواب دیا۔
” ہاں لیکن کسی کی طرح بننے سے کچھ نہیں ہوتا اصل روپ تو کسی بھی وقت واپس ابھر ہی آتا ہے۔”
اس نے بیباکی سے اپنے دل کی بات کا اظہار کرتے ہوئے مجھے لاجواب کردیا۔۔
“ہاں شاید تم درست کہہ رہی ہو لیکن میرے اندرایک ایسی سوچ کا قبضہ ہے وہ مجھے سکھاتی ہے کہ اگر تمھیں کچھ اچھا لگ رہا ہے یا تمھیں کوئ متاثر کررہا ہے تو اس کو اپنے اندر اتارنے کے لیے اسی کی طرح بن جاو۔”
” بہت خوب !”
اس نے بولنا شروع کیا
“لیکن یہ عمل تو وقتی ہوتا ہے ۔۔ کبھی تم نے دیکھا ہے کسی عورت کو آئینے سے باتیں کرتے۔۔ آئینہ جس میں عورت اپنا سراپا بہت شوق سے دیکھاتی ہے۔۔۔جانتے ہو کیوں ؟۔”
” نہیں”
میں تو اس کی باتوں پر حیران بت بنا کھڑا رہا اور صرف اتنا ہی بول پایا۔
“عورت جب آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو وہ چاہتی ہے کہ اس کے حسن کی تعریف صرف ظاہری نہ ہو بلکہ اس کے جسم کے ایک ایک عضو کی تعریف کی جائے اور یہ کام صرف وہی کرسکتا ہے جو جسم کے اندر چھپی روح کی گہرائی بھی ناپ سکے ۔ اسی لیے عورت ہمیشہ آئینے کے سامنے کھڑے مسکراتی رہتی ہے ، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ ظاہری حسن دکھارہا ہے جو صرف جز وقتی ہوتا ہے اسے تو میرے من کی خبر ہی نہیں ہے پھر بھی مجھے یہ اچھا ہی بتا رہا ہے۔”
جانے وہ کیا کیا بولتی چلی گئ میری سوچ سے کہیں زیادہ اس کے لفظوں کی پرواز ہے۔۔۔ میں کچھ جواب دئیے بنا اس کی قربت سے دور ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جملہ مجھے بار بار پریشان کررہا تھا ” ہاں لیکن کسی کی طرح بننے سے کچھ نہیں ہوتا اپنا اصل روپ تو کسی بھی وقت واپس ابھر ہی آتا ہے۔”
کیا وہ سچ کہہ رہی ہے؟ کیا واقعی جو کچھ میں کررہا تھا صرف وقتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ آدمی کسی کی خواہش پر خود ہی کو بدل ڈالے ؟۔ سوال در سوالوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔۔سوچ کی رفتار بھی روشنی کی رفتار تک جاپہنچی مگر روشنی مدھم ہونے لگی۔ وہ راستہ جس پر میں اپنے آپ کو چلارہا ہوں وہاں سے زمین کی کشش ثقل اچانک ختم ہونے لگی تھی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں فضا میں تیر رہا تھا اپنی مرضی سے نہیں، حالات کی مرضی سے۔۔۔ ہوا کے شانے پر ڈول رہا تھا۔۔۔۔ زمین پر پاوں ٹکانے کے لیے زمینی قوت کو پھر سے اپنا اثر دکھانا ہوگا لیکن اس وقت مایوسی کی قوت دوسری تمام قوت پر قابض ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔مجھے لگ رہا ہےتھا وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے کسی کی طرح بننا آسان نہیں اور کسی بھی وقت اپنا اصل روپ واپس بھی تو آسکتا ہے۔۔۔ سچ ہے بند مٹھی کب تک بند رہے گی ۔۔۔ کبھی نہ کبھی تو کھولنا ہی پڑے گا اس بند مٹھی کو۔۔۔۔۔۔۔
میں جہاں پہلےتھا وہیں لوٹ آیا۔۔ ٹھیک ہے وہ نہیں چاہتی تو کوئ بات نہیں میں نے خود سے وعدہ لیا کہ اب خالہ کے گھر آنا جانا بند کردوں گا۔ مزید کسی مشکل میں نہ میں اس کو ڈالنا چاہتا تھا اور نہ ہی خود کو۔۔۔۔۔ٹھیک ہے میں نے اس سے محبت کی۔۔اب وہ نہیں میری محبت کو پہچانتی تو میرا اس پر کیا زور و دعوی۔۔۔
پھر میں نے سب کچھ بھلا دیا اور اس طرف اس گلی میں جانا بھی چھوڑ دیا۔ چھ مہینے گزر گئے لوگوں کا خیال تھا کہ وقت تو پر لگے اڑا جارہا ہے لیکن کوئ مجھ سے پوچھے یہ چھ مہینے کیسے گزرے۔ پر حیرت ہے کہ گزر ہی گئے۔ آج میں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا کہ میرے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ۔ میں سمجھا ہو نہ ہو یہ ریشو ہوگی، چھوٹی بہن وہی دستک دے کر میرے کمرے میں آتی ہے۔ میں نے آواز دی
” آجاو ریشو کیا بات ہے۔”
دروازہ کھلا اور اندر آنے والے کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میری بنت ام ۔۔۔ جو کبھی میری چاہت رہی تھی، وہ میرے سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔
“آپ آپ ۔۔۔۔آپ کب آئیں ۔”
“جی ہمیں تو آئے ہوئے کافی وقت ہوگیا ۔ خالہ امی نے بتایا کہ آپ اپنے کمرے میں ہیں تو آپ سے ملنے چلی آئ۔”
” جی بہت شکریہ۔ تشریف رکھیں ۔”
میں نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“نہیں میں بیٹھنے نہیں آئ ۔ میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ نے ہمارے یہاں آنا جانا کیوں چھوڑ دیا ہے۔”
” جی کیا کروں گا اس گلی میں جاکر جہاں کے مکین ہمیں پسند ہی نہیں کرتے ۔”
میں بھی آج بے دھڑک کہہ گیا۔
“دیکھئیے آپ مجھے غلط سمجھیں یا درست میں نے اپنی امی کو بھی بتادیا ہے کہ میرا رحجان مخالف جنس پر نہیں ہم جنس پر ہے ۔۔ میری ایک سہیلی بھی ہے۔”
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی بات بیباکی سے کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئ۔
میں اپنے سیدھے ہاتھ کی بند مٹھی کو غور سے دیکھ رہا تھا جو اس کی بات سن کر مزید سختی سے بند ہوگئ تھی