میں جدا گریہ کناں ۔۔۔ ماہ جبین آصف
میں جدا گریہ کناں
ماہ جبیں آصف
کتنے قرن گزرے صدیاں، موسم، بہار برسات، طوفان، آندھی، بارش موسموں کے تموج سے لڑتا، تغیرات سے نبردآزما، کئی زمانوں کا نقیب، آکسیجن فراہم کرتی مصفا فضا میں سانس لیتا ہوا میں دیکھتا جاتا ہوں۔ امتداد زمانہ پیرانہ کہنہ سالی میرا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ جانے کب کن ہاتھوں کی مشاقی ہنر مندی نے مجھے اس مقام پر فائز کیا۔ تب سے آج تک خطرات، دکھ میرا مقدر رہے۔ ہزار ا بربادو باراں مجھ پر گزریں، جھکڑ چلے آندھیاں آئیں پر میرا کچھ نہ بگاڑ سکے۔سردیوں کی کہر زدہ یخ راتوں میں میں ٹھٹھرتے برف کے سفید مرمریں بلند قامت وجود کا روپ دھار لیتا ہوں۔
اس کہر زدہ فضا میں بھی میری مانوس حسیات ان چاپوں کو بھی سن لیتی ہیں جود بے پاؤں میرے قدموں کے پاس آتی ہیں۔ ڈری سہمی متوحش نگاہیں آس پاس کسی کی موجودگی کا احساس نہ پاتے ہوئے بھی ہراساں کیفیات لیے لیکن نہ جنبد گل محمد کے مصداق میں اپنی آنکھیں واکیے اس بیچارگی، سراسیمگی، بے بسی، مایوسی دکھ سے پلٹ پلٹ کر پیچھے دیکھتی عورت کی بُکاسن لیتا ہوں دیکھ لیتا ہوں۔وہ الم جو میرے قدموں میں (خفیف مقدار نیند کی دوادیئے ہوئے) کمبل میں لپٹے ننھے نوزائیدہ وجود کو چھوڑ کر جاتی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ کاش میں ان لمحوں کو کبھی نہ دیکھ سکتا، کاش میرے فنکار نے مجھے یہ دل دیا ہی نہ ہوتا پتھروں کی تہہ میں دھڑکتا جیتا جاگتا دل۔۔۔
میں منتظر رہتا ہوں ان ہاتھوں کا جو اس معصوم فرشتے کو اپنی بانہوں میں چھپا لے بچالے لے جائے زمانے کے سردو گرم سے دور۔۔۔ لیکن ہائے افتاد گیِ زمانہ!
ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کوئی مہربان بازو اس لاوارث کو تھام لیں میں اس مجرم کو بڑھ کر روک نہیں پاتا جو اس معصوم کو اٹھا کر لے جارہا ہے۔اسے فروخت کر کے غلیظ مجرمانہ راہوں کا راہی بنانے۔۔ ساری رات سرد کہرے میں برف ہوئے ننھے سے وجود کو دودھ کے ایک قطرہ سے حرارت پہنچانا میرے اختیار میں نہیں۔ بے بسی سے چاروں اور دیکھتا ہوں۔مگر رات بھی تو سیاہ پوش ہے گناہوں کے رنگ میں رنگی ماحول سے ہم آمیز اس کی واژوں بختی سے سیاہ تر صبح کی پہلی کرن تک کسی کلکاری کو چیخ کبھی آہ کبھی سسکی کبھی ہچکی اور کبھی خموشی میں بدلتے دیکھنامیرے علاوہ اور کس کے لیے ممکن ہے بھلا!
اس روز تو میں لرز کے ہی رہ گیا۔ میں چیخنا چاہتا تھا۔ میں لوگوں کو اکٹھا کر کے ان سے باآواز بلند کہنا چاہتا تھا۔
لوگو! اس مجرم کو، بد کردار سیاہ روکو پکڑو!۔ اسے جانے مت دینا اس کی سزا آگ ہے، دہکتی آگ، وہ ماں جو بیٹے کی محبت میں سرشار پردیس سے کھنچی چلی آئی۔ وہ بیٹا نازوں پلا جس کے لیے ایک عورت نے مرادیں مانگی تھیں، مزاروں پر دھاگے باندھے شب بیداریاں کر کے اسے پالا تھا۔ اس کی پرورش کی تھی وہی بیٹا ماں کو اس چوک پر صبح کا سہ پکڑا کر چھوڑ جاتا ہے شام کو پیسے گنتے ہوئے اس کے چہرے کی خوشی۔
آہ!! میری بینائی محبتوں کو اپنے سامنے تِل تل مرتے دیکھا میرے فن تراش کیھ فن کا اعجاز ہے کئی سالوں سے میں سویا نہیں۔ میں حیرت زدہ سا بے بس دھڑکتی مگر بے جان آنکھوں سے اس ماں کا شام چڑھے بے جان سالا شہ پتھرائی بے نور آنکھیں اگلے دن کے نئے ستم کے انتظار میں دیکھتا رہتا ہوں۔
مگر اے لوگو! مجھ سے پتھرول دل سنگدم بھی کوئی کیا ہوگا جو بڑھ کر ان بے رحم سفاک ہاتھوں کو روک نہیں سکتا جو رات کے اندھیرے میں گھر کا دروازہ اپنی ماں کے لیے کھول دیتا ہے۔ مجھے سامنے گھر کے دروازے سے پتھرائی دو خوف زدہ آنکھیں نظر آتی ہیں جو کہیں بھاگ کر جانے کے خوف سے سہمی ہوئی ہیں۔ وہ اگلی صبح بیٹے کو کیا جواب دیں گی کہ آج رات بھی وہ بزدل ماں اپنا بیکا ر وجود اس قید سے نہ نکال سکے نہ گھر کی نہ درودیوار کی میرے بازو اس ماں کو آغوش میں لینے کے لیے داکئے گئے ہیں لیکن کبھی بھی پھیلے ہاتھ بھی کشادہ نہیں کہلاتے بڑھ کر محبتیں نہیں سمیٹ سکتے بس دیکھا کئے جاتے ہیں خود میں ہی سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔
ان آنکھوں نے کیا کیا نہ نظارے دیکھے ہیں۔ احتجاج کے دوران اس چوک پر کچلے، مسلے، خون آلود جسم فائرنگ کی تڑ تڑ آوازوں کا شور لوگوں کا ازدہام ان پر کھلے کینن سے ہرا سمنٹ۔ کبھی فائر سے تڑپتے مجروح جسم، سینے پر بہادری کے زخم کھائے، بزدلوں کی طرح منہ چھپائے جسم آہیں، ایمبولینسوں کے شور سردخانے منتقل ہوتی لاشوں کے انبار بم دھماکے اس کے بعد چیتھڑے ارٹے گوشت کے پارچے، جلے ہوئے مسخ شدہ جسموں سے نکلتے دھوئیں اور راکھ کے سرمگیں ہوئے بدن اور ان لاشوں کے انبار میں دھونڈتی، کھوجتی، بلبلاتی اپنے پیاروں کو کفن دینے کی آرزو میں ہاتھ ملتے، چھوٹی سی نشانی، شناخت پر دیوانہ وار لپکتے پیارے کف افسوس کے طور پر ان جسموں کی راکھ پیاروں کو کفن دینے کی آرزو میں ہاتھ ملتے، چھوٹی سی نشانی، شناخت پر دیوانہ وار لپکتے پیارے کف افسوس کے طور پر ان جسموں کی راکھ لے جاتی آنکھوں کی حسرت میرے دل میں انی بن کر گڑ جاتی ہے۔ میں کراہ کر رہ جاتا ہوں مگر میری کراہ۔۔۔ بے قیمت، بے مول۔۔
اس کا ر گاہ شیشہ گری میں ننگے پیر کئی مرتبہ شیشوں سے زخمی ہوگئے۔ زخم زخم ہوئے مگر اپنے ہی پیر مور کی طرح دیکھ کر دل خون کے آنسو رو گیا۔
مگر انہیں دیکھنے والا کون ہے یہاں جو اند مال بنے جو مرہم رکھے جو درماں کہلائے بھوک، خوف، ذلت، بے بسی، الم، ملال، وحشت، جنوں، درد سب میری ذات کے وجود کے کینوس پر ہر روز بکھرتے رنگ چھوڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی شادیا نے بھی میرے ہی سامنے سے گزرتے ہیں تو کبھی تابوت پھولوں سے لدے۔۔۔ اس زمانے کے ہر شہر آوب کا گواہ ہر راز کا امین، ہر دور کا شنا ور لوگوں کے خیال کے مطابق، لیکن میری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں، جامد ہیں احساسات کی جگہ تانبے کی چادر چڑھا دی گئی ہے۔ میرے فنکار کا یہی ہنر ہے جسے اس کی مشاقی نے تاریخ کے یادگار صفحات کی زینت بنادیا ہے۔۔۔۔ مگر میں! کیا کبھی میرا شور سنا ہے تم نے؟۔۔۔ مظلوموں کے خون ناحق کے چھینٹے میرے چہرے پر جم سے گئے ہیں۔
میں اک پل ہوں تیشہ سے نکلا بس اک پل، کبھی دھند کی سرمئی چادر ااوڑھے مثلث جو سکوت کا زہر نگل چکا ہے۔ اس کا تکون روشنی سے جھلسنے لگتا ہے۔ میرے مجسمہ سازنے اس خیابان میں مجھے پل پل مرنے کی سزا دیتے ہوئے اس شہر، اس چوک، اس گھنٹہ گھر کے سامنے نصب کردیا ہے۔
میں وہ بے بس مجسمہ جسے اس دارا لفناء میں نصب کر کے وہ اپنے حصے کی داد وصول کرتا جارہا ہے!!