نوکیلے جسموں کا سفر ۔۔۔ ظہیر سلیمی

نوکیلے جسموں کا سفر

ظہیر سلیمی

مین آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوتی اور لٹکتی ہوئی آنکھ ہوں اور شہر کی سڑکوں پر بپھرے اور نعرے  لگاتے ہوئے ہجوم کو دیکھ رہی ہوں۔ ہر آدمی کے ہاتھوں میں نوکیلے پتھر پکڑے ہوئے ہیں۔ سورج کی چادر  ان کے آسمان پر پھیلی ہوئی ہے اور جسموں سے نکلنے والا پسینہ اور لہو۔ دونوں تار کول کی سڑکوں میں اتر رہا ہے۔  

دیہ کیا چاہتے ہیں ؟”

میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتا۔“

برف جیسے جسموں میں نظر نہ آنے والے والکانو کو راستہ  مل گیا ہے۔  کچھ دیر پہلے کتنی خاموشی تھ۔۔ اتنی گہری چپ کہ اتنے سانسوں کی آوازوں سے بھی ڈرلگ رہا تھا۔ اور آج ۔۔۔ اتنا شور کہ  کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔

میں جانتا ہوں گہری چپ اور تاریکی کے سینے میں ہمیشں ایک لاوا پکتا رہتا ہے اورجب چپ کی زمین کا پرت کمزور پڑ جائے تو اور باہر نکل کراپنا راستہ خود ہی بنا لیتا ہے اور اس کول تارکی سڑک پر چپ کے دنوں میں چمکیلے انسان اپنی اپنی ذات کے اندر سفر کرتے ہیں اور  جب لا وا چپ کی زمین کے پرت سے نکل کر سڑک پر بہتا  تو یہ چمکیلے انسان کہیں گم ہو جاتے ہیں۔

میری آنکھیں۔ اس منہ زور ہجوم میں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ وہ لوگ جو ہمیں نیکی اور سچائی  کا درس دیا کرتے تھے اور وہ لوگ جو اس زمین پر اپنا حق سب سے افضل سمجھتے تھے۔

 اور وہ لوگ جو ہمہیں ہمارے ضمیر کے بدلے بھوک سے نجات دلانا چاہتے تھے۔

اگر وہ تمام لوگ ۔۔۔۔ جو ہمارے ہمدرد ہیں، اس ہجوم میں نہیں ہیں تو یہ ہجوم کن لوگوں کا ہے

 یہ کیا چاہتے ہیں۔

لہو کی ایک ایک بوند کیوں زمین میں اتر رہی ہے ؟

 ان کے نوکیلے اور کھردرے ہاتھوں میں یہ نوکیلے پتھر کیوں ہیں ؟

ان کی زبانوں میں شعلوں کا ذائقہ کیوں ہے ؟

 آج ان کے برف جیسے جسموں میں یہ آگ کیسی آگ ہے۔ اس آگ کی تپش میں پسینہ اور لہودونوں اپنا اپنا سفر کر رہے ہیں۔

میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ، ہاتھوں کے پتھ‎روں نے اپنا سفر شروع کر دیا ہے شیشے مناکوں سے ٹوٹ رہے ہیں ، گر رہے ہیں اوران بند شیشوں میں چمکیلی چیزوں پر ہجوم ٹوٹ پڑا ہے ۔ لوٹ کر لوگ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پھر اپنی رکی ہوئی منزل پردم لینے کے بعد پھر اپنے سفر جانب دیکھ رہے ہیں ہیں۔ شیشوں کے جھناکوں کی آوازیں پھر ابھر رہی ہیں پھر دھما کے ہو رہے ہیں۔ کول تارکی سڑک لمبی ہے اور شیشوں کی قطاریں بھی ۔۔۔۔۔  اور منہ زور ہجوم کے اندازے بھی بہت لمبے ہیں۔

ہوٹلوں کے بند کمروں میں تپتی ہوئی دوپہر اور لو سے بچنے کے لئے لوگ سرد ہواؤں میں بیٹھے ہیں اور شیشوں اور تارکول کی سڑک پر آگے بڑھتے ہوئے ہجوم کو دیکھ رہے ہیں۔ شیشے کی کرچیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔  بند کمروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہرے پر خون، دہشت اور نفرت کی پرچھائیاں ہیں ۔ جیسے یہ لوگ بے بسی اور بے چارگی کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔

شاید اس لئے کہ اب ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ؟

پہلے بھی تو ان کے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ “

سہمے سہمے اور نفرت سے دیکھنے والے لوگ ہمیشہ اپنے جسموں کو سورج کی کرنوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ جب کوئی تار یک سایہ ان کے جسموں پر اندھیرے کی تاریک چادر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو لوگ اپنیذات کی تہہ میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر کسی نئے سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

میری آنکھ کے زاویے میں ، گذرے ہوئے لمحوں کا جسم قید ہورہا ہے۔ چلچلاتی دھوپ اور تیز لوکے اوپر سورج کھڑا ہے۔ میرے جسم کے ایک ایک مسام سے پسینہ نکل کر زمین میں اتر رہا ہے۔ میرے

کھردرے مگر مضبوط ہا تھوں میں درانتی ہے اور میں مسلسل حرکت میں ہوں ۔

میرے اندر چھپا ہوا میرا آپ مجھ سے کہہ رہا ہے۔

اپنے قدموں کو محنت کے سفر سے نہ روکو۔ ۔۔۔۔۔  اپنے کھردرے ہاتھوں سے زمین کا سینہ چیرتے رہو۔ اس زمین کا مالک۔ میرے سامنے درخت کی گھنی چھاوں میں، ٹھنڈے پانیوں کے قریب بیٹھا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ اگر میرے کھردرے ہاتھ رک گئے تو زمین کا یہ آقا ۔۔۔ جو ٹھنڈے پانیوں اور گھنی چھاوں میں بیٹھا ہے ، مجھ سے میرا رزق چھین لے گا۔ لوگ کہتے ہیں ہر انسان کو رزق وہ دیتا ہے جو زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے۔

یقیننا ۔۔۔ وہی رزق دیتا ہوگا

لیکن میری زبان کی چیخ اب رک بھی نہیں سکتی ہے۔

مجھے تو اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آدمی۔ جو گھنی چھاوں میں بیٹھا ہے، میرا رازق ہے۔ ۔

یہی تو ہے جو میری ساری محنت کے بدلے مجھے پیٹ بھرنے کو کچھ دیتا ہے۔

میری بوڑھی ماں کے چہرے اور ہاتھوں پر گہری جھریاں پڑی ہوئی ہیں مگر وہ بھی کام کرتی ہیں۔

میری ماں کہتی ہے کہ میرا باپ بھی اسی طرح کام کرتا تھا اور میں سوچتا ہوں کہ میرے باپ کا باپ

اور پھر اس کا باپ ، سب اس طرح نسل در نسل کام کرتے تھے اور یہ آدمی جو ٹھنڈے پانیوں اور گھنی چھاؤں کا مالک ہے اس کا باپ اور اس کے باپ کا باپ ، نسل در نسل اسی طرح ٹھنڈے پانیوں اور گھنی چھاوں کے مالک ہوں گے۔

 کبھی کبھی زمین کے سینے پر ہل چلاتے ہوتے میں سوچتا ہوں کہ اس بل کے نوکیلے پھل کو اس زمین کے آقا کے جسم پر چلا کر دیکھوں اور اس جسم سے جو لہو نکلے گا اس کا رنگ کیسا ہوگا لیکن میری سوچ کی بغاوت کبھی سرکشی کا روپ نہ لے سکی ۔

میں سوچتا ہوں۔ بغاوت اور سرکشی کی یہ سوچ آج میرے جسم کے کباب کیے دیتی ہے۔ یہ اگر میرے باپ یا اس کے باپ کے جسموں میں ہوتی اور اپنا راستہ تلاش کرتی تو آج جو پسینہ اور لہو بوند بوند زمین میں اتر رہا ہے ، وہ نہ اترتا اور ہماری منزل کی مسافت اتنی طویل نہ ہوتی۔

میرے گاؤں کا ہر آدمی آج سوچتا ہے ۔

اس کے گھر میں تاریکیاں کیوں ہیں ؟

آج یہ بھرا ہوا منہ زور ہجوم بو گول تار کی سڑک پر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ وہ والکانو جو بغاوت اور سرکشی کے روپ مین برف جیسے جسموں میں قید تھا۔

ہجوم کچھ اور آگے بڑھ گیا ہے۔

شہر کی چلمنیوں سے نکلنے والا دھواں آسمان کے ہاتھوں میں ساکت ہے اور ساکت دھویئں سے جلنے والے جسموں کی خوشبو ابھی تک آ رہی ہے۔

یہ ساکت دھواں۔

ابھی اس ہجوم کو دیکھ رہا ہے جو اس کا خالق ہے ۔ دن رات چلنے والی مشین آج

خاموش ہے اور وہ ہاتھ جو ان مشینوں کو چلاتے تھے ۔ ان ہاتھوں میں آج نوکیلے پتھر ہیں۔ بلند چمنیوں اور چمکیلی روشنیوں کے لوگ اپنی اپنی مضبوط فصیلوں میں پریشان بیٹھے ہیں ۔

 میری آنکھیں ان سے پوچھ رہی ہیں ۔

دیکھو۔ ان کا لے ہاتھوں کو جو گندے اور بدبو دار ہیں جو تیل سے لتھڑے ہوتے ہیں اور اس ضرورت کو محسوس کرو ۔ پسینے کو جو ان کے جسموں بہہ رہا ہے اور دیکھو اس بھوک کو جو ان کے چہروں پر ناچ رہی ہے ۔ان کی ضرورت کو محسوس کرو۔

  یہ ہاتھ تمہاری مشینوں کو چلاتے ہیں تا کہ تمہاری چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ساکت نہ ہوا اور

تمہارے چمکیلے رنگ اپنی چمک سے محروم نہ ہو جائیں۔

تم ان کی ضرورت کو ان کے جسموں میں منتقل کردو ۔ انہیں جسم اور روح کے رشتے کو قائم کرنا ہے اور تمہیں ان کی مدد کرنی ہے۔

اگر روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ گیا، تو تمہاری مشینوں کو کون چلائے گا ۔

میری آنکھیں دیکھتی ہیں ۔

تمہارے چہروں پر ایک ہی بات ہے ۔

مشینیں ان سے زیادہ قیمتی ہیں۔

، اگر ان میں سے ایک بھوک سے مرجائے گا تو دوسرا کوئی یہ جگہ پر کرے گا۔ تم کہتے ہوا نہیں ایسا ہی کرنا ہوگا۔

مگر ایک مشین –

” ان سب سے زیادہ قیمتی ہے “

“تمہارے چہروں پر یہی بات ہے۔”

اوریہی  ایک بات!

تم نے انہیں کچھ نہ دیا اور آج صدیوں کی قید کی زنجیروں کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے۔

تم نے کہا تھا۔

یہ جو کام کرتے ہیں۔ انسان نہیں ہمارے غلام ہیں

” میں نے تم سے کہا تھا “

سلام بھی احساس رکھتے ہیں۔

اور تم نے کہا۔

پتھروں میں احساس نہیں ہوتا۔

یہ سب پتھر ہیں  ۔۔۔۔ اور آج یہ پتھر تمہاری طرف آرہے ہیں۔

 ان پتھروں کا سفر بھی کتنا عجیب ہے ۔؟”

پستی سے بلندی کی طرف کتنا مشکل مرحلہ ان کے سامنے ہے۔ بلندی سے پستی کی طرف گرا ہوا پتھر اپنا سفرلمحوں میں طے کرتا ہے ، لیکن یہ لوگ جنہیں تم نے پتھر کہا تھا تمہارے اندازوں اور

اصولوں کے خلاف اپنا سفر کر رہے ہیں۔

اور یہ پتھر تمہاری طرف آرہے ہیں۔ تم سے ٹکرانے کے لئے اور اس ٹکراؤ سے جو روشنی پھیلے گی  وہ تاریک گھروں میں ان تاریکیوں کوختم کر دے گی جو صدیوں سے نسل در نسل ان کے گھر پر قابض ہیں۔

فصیلوں میں رہنے والو!

میرے قریب آو۔ یوں خوف اور دہشت کے عالم میں اپنی موت کو آواز نہ دو۔

  تم نے صدیوں سے جو بویا تھا۔ وہ فصل پک کر تیار ہے ۔ اس سے پہلے کہ موت کا ذائقہ چکھو اپنی اس فصل کا ایک دانہ چکھ لو۔

اس ہجوم میں شامل لوگوں کے چہرے تو تمہارے جانے پہچانے ہیں۔

 نام تمہارے لئے اجنبی ضرور ہوں گے ۔ مگر ناموں میں کیا رکھا ہے

اس چیختے ہوئے انسان کو دیکھو!

یہ زمین کا بیٹا ہے جو تمہارے لئے اناج پیدا کرتا ہے۔ اسے دیکھو جو تمہاری چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی لپیٹ میں ہے اور اس دھویئں سے جسموں کے جلنے کی خوشبو آ رہی ہے۔

یہ سب ایک ماں کے بیٹھے ہیں۔۔۔ یہ سب ایک خاندان کے فرد ہیں ۔ سب ایک ظلم کے  دائرےکے قیدی ہیں۔ سب کا طبقہ ایک ہے اور اسی لئے آج یہ سب مل کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

اور وہ لوگ ۔

جو تم جیسے ہیں جو آج خوف اور دہشت کی گرفت میں ہیں ۔ جس کی بلند میکیلی فصیلوں پر کانٹے اگ  رہے ہیں۔

اور وہ ۔۔۔ جن کی زمین ہے ، مگر وہ اس کے مالک نہیں ہیں ۔

تم سب ایک طبقے سے تعلق رکھتے ہو۔

صدیوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر آج تمہارے گرد دائرے بنا رہی ہیں۔

میں جانتا ہوں

یہ سفر بہت طویل ہے “

اگر یه جامد و ساکت رہتے تو اپنے اس سفر پر یہ لوگ کبھی نہ نکل سکتے۔

 میں آسمان میں لٹکتی ہوئی آنکھ ہوں ۔

یہ لوگ سمندر کے پانیوں کی لہروں کی طرح ،  تمہاری سخت چٹانوں سے بار بار ٹکرایئں گے اور آخر کوئی نہ کوئی ، صرف ایک لہر تمہاری تراشیدہ چٹانوں میں دڑار ڈال سے گی ۔ ان پتھریلے جسموں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے نوکیلے پتھر تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ۔

اور یہی ان کا سفر ہے یہ ان کی پہلی منزل ہے ۔

( چپ کی روشن فتح :: ظہیر سلیمی)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.