اقوام متحدہ سے ایک مکالمہ ۔۔۔ احمد ہمیش

اقوام متحدہ سے ایک مکالمہ

احمد ہمیش

بہت دن ہوئے میں اپنی سوانح بیان کرنے کے بہانے برصغیر کی تمام بد نصیبیوں کو

جمع کر رہا تھا اور انھیں بطور دستاویز مجھے ایک سیل بند  پیکٹ میں اقوام متحدہ کو ارسال کرنا تھا۔ مگر اس میں دیر اس لیے ہو رہی تھی کہ کچھ انتہا ئی اہم بد نصیبیوں تک میرا پہنچنا آسان نہ تھا۔ جبکہ بر صغیرسے ہی الگ کئے گئے ملک میں، میں نے بھی سکونت اختیار کی۔ ان بدنصیبیوں کے آس پاس اور درمیان رہتے ہوئے جو مجھ سے کئی سال پہلے آباد ہویئں  بلکہ جو ان سے بھی پہلے شروع سے آباد تھیں مگروہ بھی الگ کئے گئے ملک کے الگ کئے گئے عرصے میں نئے سرے آباد کی گئیں یا انھیں ان کا آباد ہونا باور کرایاگیا۔ جو بھی ہو میرے لئے ان تک پہنچ کر انہیں  جمع کرنا دشوار ہوا۔ کیونکہ وہ میرے آس پاس اور درمیان کچھ اس تکنیک سے بے اہمیت بنادی گیئں کہ فوکس سے باہر ہی ہوتیں۔ گو میں نے کئی سال لگا تار اینگل بدل بدل کر انھیں فوکس کے

اندر لانے کی کوشش کی مگر میری انگلیوں اور آنکھوں پر بیک وقت کوئی نا قابل فہم تنویمی دباو پڑتا۔یہاں تک کہ میرے ورثہ میں ملے ہوئے متعدد قیمتی لینس ٹوٹ گئے۔ آخر میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ ٹوٹل پر فارمنس سے پہلے اقوام متحدہ سے مزید مہلت لے لوں ۔ در اصل شروع ہی سے مجھے کسی نے باور کرایا تھا ( شاید خود بد نصیب ہونے کے رد عمل نے) کہ اقوام متحدہ میں کوئی انسانی مسئلہ حل ہو یا نہ ہو ، اس کی نوٹس ضرور لی جاتی ہے ۔ اور اپنی سوانح بیان کرنے کا بہانہ اس لئے تھا کہ میری اپنی کوئی سوانح تھی ہی نہیں ۔ وہ تو بر صغیر کے آدمی کے بھوکے

ننگے ، ٹھکرائے ہوئے ، طرح طرح سے ترسائے گئے محروم اور بیمار جسمانی اعضا تھے اور اس سے بڑھ کر بد نصیبی یہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی عضو اپنی ٹھوس ضرورت آدمی کے لہجے میں بیان کرنے کا اہل نہیں ملا۔ میں نے ایک ایسے اذیت زدہ عضو کو دیکھا ، جو لکڑی اور لوہے کے شکنجہ میں کسا ہوا تھا مگر اسے نکالنے والا کوئی نہ تھا نہ عورت نہ سیاست ! – یہ انتہائی دکھ کی بات تھی کہ میں نے انتہائی گہری سانس لی اور خود بھی ڈرا کہ مبادا میں ایسا نہ ہو جاؤں ۔ یہ وہی عرصہ تھا ، جب لینس ٹوٹ گئے تھے۔ بس اتنا ہی کافی تھا کہ میں ریگستان میں مرتے مرتے بھی نہیں مرا۔ میری آنکھیں بچ گئیں یا میں آنکھوں کے ریفرینس سے زندہ رہ گیا۔ یا یوں سمجھ لیا جائے کہ کسی طور مجھے اقوام متحدہ کے لئے کام پورا کرنا تھا

۔

احمد ہمیش کا افسانہ ‘اقوام متحدہ سے ایک مکالمہ ‘‘ ،دو ماہی “الفاظ’، علی گڑھ۔۔۔ افسانہ نمبر، جولائی، اگست 1981, ( انجلا ہمیش کی وال سے )


Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930