راج ہنس ۔۔۔ مریم عرفان
راج ہنس
( مریم عرفان )
وہ انسانوں میں راج ہنس تھا۔ بوٹے سے قد کا فضل محمود نہایت واجبی سی شکل کا مالک تھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ایسے میچی ہوئی تھیں جیسے املی سے بھرا ہوا منہ، جونہی کٹھاس حلق تک جائے تو آنکھیں ایک لمحے کے لیے پورا زور لگا کر بند ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھار اس کی آنکھوں کی یہ سختی نرمی میں بھی بدل جاتی تھی جب وہ باریک سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجاتا تھا۔ فضل محمود گاؤں بھر میں حکمت کا بادشاہ مانا جاتا تھا، جب وہ نبض پر ہاتھ رکھتا تو لگتا دھڑکن اس کی انگلیوں کی پوروں سے رس رس کراس کے دماغ کی سکرین پر آڑی ترچھی لکیروں میں ابھر رہی ہو۔ پھر وہ ہلکی سی ’’ہوں‘‘ کر کے آنکھیں میچ لیتا، مریض کو اس کی ہوں کے لمبے اور چھوٹے ہونے سے اپنے مرض کی شدت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ بیگاں سے اس کی شادی کو پندرہ سال ہوگئے تھے، نو عمری میں ہوئی یہ شادی بھی کچے پھل کی طرح تھی جس میں رس اور رنگ نام کی کوئی بات نہیں رہی تھی۔ گاؤں والے کہتے ہیں کہ بیگاں شادی کے وقت اس انار جیسی تھی جو شادی بیاہوں یا شب براتوں پر چلتا ہے لیکن پھر روشنیوں سے بھرے ہوئے اس انار کا سارا فاسفورس جلد ہی ختم ہو گیا۔
درمیانے قد کی بیگاں کے چہرے کی رونق سورج کی کرنوں جیسی تھی۔ اس کا سانولا رنگ سنار کی بھٹی میں دہکنے والے شعلوں کی طرح چٹختا تھا، کھڑی ناک، چوڑا ماتھا، باہر کو نکلے ہوئے گال، وہ بھی ہری بھری سبزی ہی تھی جس کے ہرے ہرے پتوں پر چھڑکا جانے والا پانی پسینے کی بوندیں بن کر گرتا تھا۔ سولہ کے سن میں شادی کا پیغام اس کے لیے پیپل پر لگے جھولے جیسا تھا جس پر بیٹھ کر وہ جب سینہ آگے نکالے ہلکورے لیتی تو آنکھیں بند کئے خود کو آسمان پر چلتا ہوا پاتی۔ سہیلیاں سہاگ کے گیت گانے میں مگن تھیں، کسی نے چٹکی لی، کسی نے کان میں کھسر پھسر کی، کسی کا بے شرم قہقہہ بلند ہوا، کسی نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کسی نے اس کے کندھے کو ٹہوکا دیا۔ بیگاں خود کو شہزادی سمجھ رہی تھی جسے شہزادے کے ساتھ خواب نگر جانا تھا جہاں تن آسانی کے سارے تانے بانے ملتے تھے لیکن فضل محمود ادھڑے ہوئے کھیس کی طرح تھا۔ وہ راج ہنس تھا، پرندوں کی دنیا کا مہاراج، سوامی، صوفی، پارسا اور درویش۔ اس کا گھر اس کے دل کی طرح خالی تھا جہاں اب دو لوگوں کو آباد ہونا تھا جیسے سیلاب کے بعد تعفن اور بدبو کے مارے گھروں میں لوگ بس تو جاتے ہیں لیکن گیلے کوٹھے اور دیواریں انھیں گرم نہیں ہونے دیتیں، ویسے ہی بیگاں کو فضل کی سیم نے تھور بنا دیا تھا۔
پنواڑی کے پلنگ پر دلہن بنی بیگاں بلب کی مدھم روشنی میں گھونگھٹ کے اندر سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ راج ہنس کی آہٹ نے اسے چوکنا کردیا اور وہ سر کو مزید اپنی ٹانگوں کے درمیان گھسا کر سکڑ گئی۔ صوفی پرندہ چندھیائی ہوئی آنکھیں لے کر اس کے پاس بیٹھ گیا ماحول پر عجیب سی پاکیزگی چھاگئی جیسے مسجد میں صفیں بچھ گئی ہوں۔ راج ہنس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا سوائے بے چارگی اور دلاسے کے، جو اس نے بیگاں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دیا۔ سر پر ہاتھ کا یہ لمس اتنا سرد تھا کہ بیگاں پاؤں تک برف کی سل بن گئی اور اس کے منہ سے سسکارا نکل گیا۔ راج ہنس مراقبے میں تھا اسے یہ سسکیاں سنائی کہاں دیتیں کیونکہ وہ تو کروٹ بدل کر سو چکا تھا۔ بیگاں تانگے پر سوار تو ہو گئی لیکن کوچوان کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اب سے وہ پچھلی نشست پر تنہابیٹھی تھی۔
بیگاں کو اپنا وجود جہیز کے برتنوں کی طرح لگنے لگا جو کمرے کی شیلف پر چمکتے دمکتے ہر آنے جانے والے کو خالی نظروں سے تکتے تھے۔ وہ جب بھی راج ہنس کے قریب ہونے کی کوشش کرتی، وہ چھپاک سے غائب ہوجاتا جیسے کوئی چھلاوہ ہو۔ وہ دیواروں کے سوراخوں سے نکلنے والے کن کھجوروں کی طرح بھاگتا کہ بیگاں ڈنڈا پکڑتے پکڑتے رہ جاتی۔ اس کن کھجورے کا پیٹ زہر کی پھوار سے خالی تھا پھر وہ کیسے سوتے میں اس کے کان میں گھسنے کی کوشش کرتا۔ بیگاں عجیب سی الجھن میں تھی کہ پھر راج ہنس نے ایک دن اس کی یہ مشکل ہاتھ جوڑ کر آسان کردی۔ ’’نیک بیبیاں شوہروں کے پردے رکھتی ہیں بیگاں، انھیں ننگا نہیں کرتیں۔ سدا سہاگن رہ۔‘‘
راج ہنس بیگاں کی زندگی میں کلر بن کر اگا تھا اگر وہ گھر کے صحن میں لگے سفیدے کی طرح ہوتا تو زمین کا سارا پانی پی کر اسے ہرا کر دیتا۔ اس پیڑ پر بھی چڑیاں بیٹھتیں، گھونسلے بنتے، جھولے ڈالے جاتے، خزاں آتی، بہار میں بلبلیں گیت گاتیں لیکن وہاں تو سیلاب بھی نہیں آتا تھا۔ بڑے سے گھر میں بیگاں اپنا دل لگانے کے لیے چاؤ چونچلے کرنے لگی، پہلے تو اس نے صحن کے دائیں جانب ایک بڑا سا ڈربہ بنوا کر مرغیاں رکھ لیں۔ راج ہنس نے اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک کتا بھی رکھ لیا لیکن بیگاں کے لیے سارے کھیل بیکار تھے وہ بلی کی طرح ڈربے کی جالی سے منہ جوڑے بیٹھی تھی اور راج ہنس اندر ڈرا سہما مرغا بنا دبکا ہوا تھا۔ بیگاں کو کتے سے انسیت سی ہونے لگی تھی، جو چوں چوں کرتے ہوئے اس کے پاؤں چاٹنے لگتا تو وہ آنکھیں بند کر کے ہوکے بھرنے لگتی۔ کبھی کبھی تو اس کاجی چاہتا وہ اس کتے کو بھی بھنبھوڑ کر رکھ دے جو اندر ہی اندر اسے کاٹ کھاتا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اس کے دانتوں کی چبھن محسوس کرنے لگی۔ بیگاں زخمی پرندہ تھی جسے شکاری نے غلیل سے نشانہ بنا کر درخت سے گرا دیا تھا۔ ادھ کھچا تیر آر ہوا نا پار، بس درمیان میں ہی کہیں کھب گیا اور اس کی بچہ دانی زخمی ہوگئی۔ راج ہنس ان سب باتوں سے بے خبرتھا اسے تالاب میں کلانچیں بھرنے کاشوق تھا لیکن سورج کو پکڑنے کے چاؤ میں اس کے پاؤں زمین سے ٹکرا جاتے تھے۔
جوں جوں وقت گزر رہا تھا بیگاں کی جوانی درخت پر چڑھنے والی نئی چھال کی طرح چمک دار ہوتی جا رہی تھی۔ ماں پریشان تھی کہ اس کے بچہ کیوں نہیں ہوتا، وہ جب بھی اسے ڈاکٹر کو دکھانے کا کہتی بیگاں کے کانوں پر راج ہنس کا پرانا ریکارڈ بج اٹھتا: ’’نیک بیبیاں شوہروں کے پردے رکھتی ہیں۔‘‘ وہ ماں کی تسلی کے لیے کہہ دیتی :’’بے بے!حکیم جی خود میرا علاج کر رہے ہیں۔‘‘ گاؤں میں مشہور ہو چکا تھا کہ بیگاں بچہ پیدا نہیں کرسکتی، جب بھی کوئی ملنے والا راج ہنس سے پوچھتا: ’’مسئلہ کی اے؟‘‘ تو اسے لگتا من کا چور پکڑا گیا ہے۔ صوفی پرندے کی آنکھیں مزید چندھیا جاتیں اور وہ پانی کے وسط میں ساکت کھڑا ہوجاتا۔ ملنے والے اسے دلاسے دے کرچلے جاتے۔ کچھ تو ترس کھاتے ہوئے دوسری شادی کا بھی مشورہ دیتے لیکن راج ہنس کھلی آنکھوں سے بھی دریا کے پار نہیں دیکھ سکتا تھا۔
شادی کے سولہویں سال بیگاں کو دیوانگی کے دورے پڑنے لگے۔ وہ اکثر صحن میں بیٹھے بیٹھے گرجاتی تو محلے والیاں دیوار کی دوسری طرف سے شور مچاتی اس کے پاس پہنچ جاتیں۔ راج ہنس ان کے سامنے بیگاں کے گال تھپتپانے لگتا، ابھی وہ اس کے ہاتھ پاؤں مل ہی رہا ہوتا کہ بیگاں کی آنکھیں کھل جاتیں، اس کے سینے سے لمبی سی آہ نکلتی، ہونٹوں سے جھاگ صاف کرتے ہوئے وہ اسے گود میں اٹھا کر کمرے میں لے جاتا۔ کتنی دیر اس کے سرمیں انگلیاں پھیرتا رہتا، اونچی آواز میں تلاوت کرتا تو بیگاں اس کا ہاتھ زورسے دباتی جیسے کہہ رہی ہو کہ کچھ نا پڑھو بس یونہی پھونکیں مارتے جاؤ۔ وہ اس کی سانسوں کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے بڑے بڑے سانس لیتی تو راج ہنس سمجھتا اس کا آخری وقت آگیا ہے۔ پہلے تو اسے یہ دورے دو تین ماہ بعد پڑتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان میں شدت آنے لگی۔ راج ہنس بھی اس ریہرسل کا عادی ہوگیا تھا، بیگاں اب گاہے بگاہے اس کا ہاتھ پکڑنے لگی تھی۔ اکثر جاڑوں کی راتوں میں اس کی سڈول ٹانگیں راج ہنس کی بے جان ٹانگوں سے ٹکرانے لگتیں کبھی وہ اس کی پنڈلیوں کو اپنے پاؤں کے انگوٹھوں سے ملتی تو کبھی اس کی کمرکے گرد بازوؤں کا ہالہ تنگ ہونے لگتا۔ راج ہنس گہرے پانیوں میں سر نیہوڑائے کھڑا رہتا، کچی نیند اس کی آنکھوں میں پکے ہوئے میوؤں کی طرح گلنے سڑنے لگتی۔ بیگاں کو لگتا جیسے وہ کسی کفن میں لپٹی لاش کے ساتھ بغل گیرہے یہ احساس اس کے جسم میں چیونٹیوں کی طرح رینگنے لگا تھا۔ وارفتگی کی منزلیں بڑی سادہ اور نفیس تھیں، وہ اس کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے مس کرتی اور ان میں تیرنے والے آنسوؤں کی آبشار کو محسوس کروانے کی کوشش میں ہر بار اس کا وجود زخمی پرندے کی طرح ریت پرگرجاتا۔ راج ہنس کو لگتاجیسے اس کے جسم کو گدھ نوچنے کے لیے بے تاب کھڑے ہوں۔ وہ خود کو نوچ نوچ کرکھائے جانے کے خوف سے رونے لگتا تو بیگاں ماں کی طرح اس کا سر سہلاتی۔ راج ہنس چیخ اٹھتا: ’’میری حکمت وی کس کم دی، بیگاں۔‘‘ گھر کی چاردیواری میں چوہے بلی کا کھیل جاری تھا، بیگاں بلی کی طرح مریل چوہے کو دم سے پکڑ کر پٹختی، کبھی اپنے پنجوں سے بال بناکر آگے دھکیلتی تو چوہا خود کو موت کے سامنے بے بس خیال کرکے آنکھیں موند لیتا۔ بیگاں راج ہنس کو متوجہ کرنے کے لیے پہلے تو ہار سنگھار کا سہارا لیتی تھی پھراس کی آنکھیں مسکارے سے خالی ہونے لگیں۔ کوری کراری آنکھیں وحشت زدہ سی ہوتی جارہی تھیں، کنگھی کے دندے اس کے سوکھے بالوں کے گچھوں سے بھرجاتے۔ صحن کے کونے میں پانی سے بھری جھجریں اس کا منہ چڑانے لگی تھیں۔ اس کے لیے راج ہنس بھی مٹی کا کچا گھڑا تھا جس کے اوپر وہ پیتل کے گلاس کی طرح دھری ہوئی تھی۔ ان دنوں اسے لگتا تھا جیسے اس کے پنڈے پر جالے سے لگ گئے ہوں، مکڑی کے منہ سے لمبی تاریں نکلتی جا رہی تھیں اور وہ اس جال میں قید ہوچکی تھی۔
بیگاں سوچوں کے سمندر میں نمک کی ڈلی بن کرگھلنے لگی اور پانی گہرائی تک نمکین ہونے لگا۔ اسے اپنا گھر اس کوٹھڑی جیسا لگتا تھا جس میں وہ اپلوں کی دھونکنی میں تڑکے تڑکے دودھ کی پتیلی رکھتی تھی۔ شام کے بعدجب وہ اسے نکالتی تو دودھ پک پک کر پتلا ہو جاتا اور اوپر مکھن کی دبیز تہہ بن جاتی۔ پکنے کے اس عمل میں اس کا بھی مکھن نکل آیا تھا جسے راج ہنس مزے سے روٹی پر لگا کر کھا رہا تھا۔ گھرکے سناٹے اور راج ہنس کی خاموشی سے گھبرا کر وہ اپنے حصے کا جہنم کاٹ کر مرگئی۔ اس رات راج ہنس اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا اور وہ اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی تھی۔ مرتی ہوئی بیگاں نے بڑے گستاخانہ اندازمیں راج ہنس کا ہاتھ اپنے لرزتے ہاتھوں میں لے کر ہونٹوں سے مس کیا۔ اکھڑا ہوا ایک آنسو کان کی طرف بہہ گیا اور زندگی میں کروٹیں بدلتی، اجلے بستر کی شکنیں درست کرتی بیگاں کا سر دوسری طرف ڈھلک گیا۔ خالی گلاس کی طرح اب راج ہنس گھر میں بھی تنہا تھا۔ پورا گاؤں اس کے اکیلے پن پر اداس تھا کسی کو بیگاں کے مرنے کا دکھ نہیں تھا، وہ کون سا بارآور پیڑ تھی جس کی چھاؤں گھرکے لیے ہوتی۔ راج ہنس نے تنہائی سے سمجھوتا کرلیا تھا لیکن لوگ مصر تھے کہ دوبارہ گھر بسایا جائے۔ اسے ان باتوں سے خوف آنے لگتا تھا کہ کہیں نئی آنے والی بیگاں جیسی نا ہوئی تو وہ پورے گاؤں کے سامنے ننگا ہو جائے گا۔ دوسری طرف اسے گھر کی دیکھ بھال اور ہانڈی روٹی کے لیے کوئی مستقل آسرا بھی چاہیے تھا اس لیے اس نے فیصلے کی ڈور دوستوں پر چھوڑ دی۔
نرگس اس کی زندگی میں آنے والی دوسری عورت تھی۔ راج ہنس زندگی کے چالیس سال جس خاموشی سے گزار چکا تھا اب اس دیوار میں کھڑکی کھلنے والی تھی۔ نرگس پلنگ پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے نیم دراز تھی کہ اس کی آہٹ سے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ اس کے پیازی گالوں پر گہری مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اوراس کی نظریں راج ہنس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ ’’وہ۔ ۔ میں۔ ۔ کہنا چاہتا تھا کہ۔ ۔ ۔‘‘ تمہید باندھی جانے لگی۔ ’’حکیم صاب! خیریت تاں ہے ناں۔‘‘ نرگس نے فلمی انداز میں ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ راج ہنس کو لگا جیسے اس نے اپنی زندگی کی کوئی سب سے بڑی بھول کرلی ہو۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے اورسرکانپنے لگا۔ اس سے پہلے کہ نگواس کا ہاتھ پکڑتی راج ہنس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ ڈالا۔ ہر عورت میٹھا پان نہیں ہوتی، اس بار راج ہنس تمباکو والا پان چبا بیٹھا تھا۔ سخت سپاری اس کے کلے کو کاٹ رہی تھی اور وہ تھوک نگلنے پرمجبور تھا۔ کمرہ قبر کی طرح ٹھنڈا اور اندھیرا محسوس ہورہا تھا، نرگس کی آنکھوں میں کہرا آکر ٹھہر گیا اس کا رنگ لٹھے کی طرح سفید ہونے لگا۔ ’’نیک بیبیاں شوہروں کے پردے رکھتی ہیں نرگس، انھیں ننگا نہیں کرتیں۔‘‘ راج ہنس نے ٹھہرے پانی میں آس کا پتھر پھینکا۔ ’’اونہہ۔‘‘ نرگس نے غصے سے سر کو جھٹکا اور زوردار انداز میں خوں ں ں ں ں کرکے پلنگ کے نیچے تھوک کر کپڑے بدلنے چلی گئی۔ راج ہنس کو اس کی بے باکی نے بتا دیا کہ اس کی کشتی سمندر کے بیچوں بیچ گرداب میں پھنسنے والی ہے۔ راج ہنس کروٹ بدل کرسونے کی کوشش کرنے لگا۔ آج اسے محسوس ہوا جیسے وہ بیگاں ہے اور نرگس راج ہنس، وہ دیوار پر بیٹھے ہوئے بیمار کبوتر کی طرح غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگا۔ نرگس کے گداز کولہے بسترکی سل پر غصے سے دھرے ہوئے تھے اور پائینتی پراس کے ہلتے ہوئے پاؤں راج ہنس کو اس کی شدید خفگی کا سگنل دے رہے تھے۔ وہ اپنے لمبے ناخنوں سے سویٹر کے بازو کا دھاگا مروڑتی رہی اور وہ اچانک گرم سویٹر میں تبدیل ہو گیا لیکن نرگس نے اس سویٹرکی ایک تار بے دردی سے کھینچ کر اسے دوبارہ گولا بنادیا۔
راج ہنس ایک ہی وار میں دروازے پر لگے ٹاٹ کی طرح ہوگیا تھا، میلا کچیلا اور پھٹا ہوا ٹاٹ جس کے سوراخوں سے گھر کی برہنگی گزرنے والوں کو صاف نظرآتی ہے۔ دھواں اڑاتے توے کی طرح جلن اور چبھن اسے کاٹ کھائے دیتی تھی، اس کے جسم میں کیڑیاں رینگنے لگیں، ہاتھ پاؤں سن ہونے لگے، کانوں میں شائیں شائیں ہو رہی تھی، وہ نئے دن کا سوچ کر ادھ موا ہوا جاتا تھا۔ اس پر بیگاں کی دیوانگی کے اسرار کھلنے لگے، اب اسے معلوم ہوا کہ وہ راتوں کو ڈرکے مارے اس کے ساتھ کیوں چپکتی تھی اور وہ ٹنڈ منڈ درخت کی طرح ایک ہی جگہ گڑا رہتا تھا۔ آج وہ ٹھنڈی چیونگم کی طرح قالین کے ریشوں سے چپکا ہوا تھا، اسے احساس ہو رہا تھا کہ کرنٹ لگنے پر جھٹکے کیسے لگتے ہیں، گیلے ہاتھوں سے ننگی تاریں پکڑنا کیا ہوتا ہے۔ راج ہنس پانیوں کے بیچوں بیچ کھڑا اونچی چھلانگ لگانے لگا تھا جیسے ابھی وہ سورج کو پکڑ لے گا کہ اچانک آسمان پر بادل چھا گئے، سورج چھپ گیا اور راج ہنس کسی شکاری کی بندوق سے نکلنے والی گولی کی زد میں آکر مارا گیا۔