یہ قتل آخری ہے ۔۔۔ ابصار فاطمہ
یہ قتل آخری ہے
ابصار فاطمہ
اسے پہلی بار اس دن تھوڑا سا قتل کیا گیا تھا جب وہ تین سال کا تھا۔ قتل کا ثبوت اس کے گال پہ موجود تھا۔ سب کی نظروں کے سامنے مگر کوئی اس ثبوت کو ثبوت ماننے پہ تیار نہیں تھا۔ ہر بندہ ہی منصف بنا بیٹھا تھا وہ بھی ایسا منصف جس نے فوراً ہی صحت جرم سے انکار کردیا یہ کہہ کر کہ کیا ہوگیا جو ماں نے تھپڑ مارا، پیار بھی تو سب سے زیادہ وہی کرتی ہے۔ اس دن اس کی لاش اس کے لاشعور میں چھپا دی گئی جہاں سے وہ کسی کی نظر میں نہیں آسکتی تھی مگر چند دن بعد ہی اس لاش میں سے تعفن اٹھنے لگا۔ وہ تعفن ہر وقت اس کے اعصاب پہ سوار رہتا۔ وہ جھنجھلاتا، چیختا چلاتا بتانے کی کوشش کرتا کہ اسے بدبو آرہی ہے جس سے اس کا دماغ پھٹتا ہے لیکن اسے بدتمیز کہہ کر دھتکار دیا جاتا۔ یا لڑکی کی طرح رونے کا طعنہ دے کر چپ کرادیا جاتا۔ وہ دیکھتا تھا جب بہن روتی تھی تو ماں سینے سے لگاتی تھی باپ ٹافی دلا کر لاتا تھا۔ تب ایک اور چھوٹی سی لاش کا اضافہ ہوجاتا مگر اس جرم کا تو کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسے یہ بھی احساس نہیں تھا کہ مختلف سہی لیکن بہن کا بھی اپنا ذاتی قبرستان ہے۔
پھر وہ اسکول جانے لگا۔ شاید اسکول کا دوسرا یا تیسرا ہفتہ ہوگا جب دیر سے پہنچنے پہ اس کا ایک اور قتل ہوا۔ استاد کے جرم کا ثبوت بھی اس کے کان پہ موجود تھا۔ ماں باپ نے کہا تو کیا ہوا استاد بھی باپ کے برابر ہے اس کی یہ لاش بھی پچھلی لاشوں کے ساتھ ہی اس کے لاشعور میں دفنا دی گئی۔
وقت بڑھتا گیا اس کے لاشعور کے قبرستان میں کئی چھوٹی چھوٹی لاشوں کو دفنایا جاتا رہا کبھی مہمانوں کے سامنے قتل کیا جاتا، کبھی اسکول میں پوری کلاس کے سامنے، کبھی گھر والے قتل کرتے تھے کبھی باہر والے۔ آہستہ آہستہ ان جرائم کے ثبوت بھی نظر آنے بند ہوگئے۔ اب اس نے اپنی لاشوں کو خود ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ اب جب کوئی قتل ہوتا وہ خاموشی سے ثبوت مٹا کے لاش ٹھکانے لگاکر یار دوستوں کے ساتھ اپنے تازہ قتل کا جشن مناتا تھا۔اسے نہیں پتا تھا کہ یہ سب بھی اپنے ساتھ چھوٹے بڑے قبرستان لیے گھوم رہے ہیں۔ اسے تو بس اعصاب پہ حاوی ہوتی اگربتیوں کی خوشبوئیں آتی تھیں۔
نت نئی اگربتیوں کے دھوئیں میں اونچے اونچے قہقہے لگتے تھے جیسے دنیا میں کوئی فکر ہی نہ ہو۔ ہر ایک کی الگ اگربتی تھی بے ہودہ لطیفوں کی اگربتی، غیبت کی اگربتی، گھریلو اور آفس کی سازشوں کی اگربتی، چھوٹے چھوٹے غبن کی اگربتی، جھوٹ کی اگربتی، جنسی ہراسانی کی اگربتی، دھوکے کی اگربتی۔ وہ اب تک اس راز سے واقف نہیں تھا کہ یہ اگربتیاں دراصل ان کے قبرستانوں کا تعفن چھپانے کے لیے تھیں۔ اور یہ سمجھتا رہتا کہ بس ایک یہی ہے جو اپنی لاشوں کو ساتھ لیے گھومتا ہے۔ اسی لیے اس نے کبھی کوئی اگربتی جلانے کی کوشش نہیں کی۔ اسے پتا ہی نہیں تھا کہ یہ اعصاب پہ حاوی ہوجانے والی اگربتیاں کیوں ہر وقت جلتی رہتی ہیں۔ بلکہ شاید جلانے والوں کو بھی خبر نہیں تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا تعفن دوسروں تک پہنچنے لگا۔ دوست آہستہ آہستہ دور ہونے لگے۔ کچھ نے جتا دیا کہ اسے یہ تعفن خود تک رکھنا چاہیے۔ یہ جانے بغیر کہ یہ طعنہ بھی ایک لاش بڑھا گیا۔
پھر یوں ہوا کہ اس کے باپ نے ایک بڑا قتل کیا۔ وہ نوکری جو نہیں ڈھونڈ پارہا تھا۔ نہ اسے یہ احساس تھا کہ باپ نے کتنی مشکل سے اسے پڑھایا تھا۔ وہ بھی ایسا مضمون جسے سیکھنے کی صلاحیت پتا نہیں کب سے لاش کی صورت اس قبرستان میں گل سڑ رہی تھی۔ اس دفعہ کی لاش مکمل طور پہ لاشعور میں دفن نہیں ہوسکی اس لاش کی ٹانگیں شعور کی حدود میں پڑی تھیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی اور نیا قتل ہوتا وہ وہاں سے نکل آیا۔ اس نے دوست بھی بدل لیے۔ نئے دوستوں نے اس تعفن کو کم کرنے کا بڑا آسان طریقہ بتایا صرف ایک انجیکشن اور بس کوئی لاش نہیں کوئی تعفن نہیں۔ مگر یہ صرف چند گھنٹوں تک رہتا اور پھر آہستہ آہستہ دوبارہ وہ لاشیں نمودار ہونے لگتی تھیں۔اور ہر دفعہ کے انجیکشن سے لاشیں دوگنی ہوجاتی اور ہردفعہ اسے تعفن ختم کرنے کے لیے زیادہ ڈوز لگانا پڑتا۔
شاید یہ سلسلہ مزید بڑھتا لیکن پھر ایک بہت خوشبودار وجود اس کے قریب آیا۔ اس وجود کی خوشبو سے اسے اپنا تعفن محسوس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں دوسرے وجود کو یہ تعفن محسوس نہ ہو۔ اس نے بھی اپنے گرد مصنوعی خوشبو طاری کرلی تاکہ یہ وجود اس کے قریب رہ سکے۔ قربت بڑھنے لگی۔دونوں کے جسم پہ طاری مصنوعی خوشبو گھٹتی چلی گئی دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنا تعفن سنبھالیں یا دوسرے کا۔ روز دونوں ایک دوسرے کے قبرستان میں نئی لاشوں کا اضافہ کرتے۔ اسی قبرستان میں جو اب شعور تک پھیلا ہوا تھا۔
اپنے تعفن کو دور نہیں کیا جاسکتا تھا اس لیے اس نے ایک اور خوشبودار وجود ڈھونڈ لیا۔ اب اسے پہلے سے ہی احساس تھا کہ اس نئے وجود کی خوشبو بھی مصنوعی ہے۔ گھر والے وجود سے اب وہ فاصلے پہ رہتا تھا۔ گھر والے وجود کو جب دوسرے خوشبودار وجود کا پتا چلا تب—– تب ایک بہت بڑی جنگ چھڑی، دونوں کی زندگیوں کی جنگ عظیم اول تب دونوں نے ایک دوسرے کی لاکھوں لاشیں گرائیں۔ کئی برس یہ جنگ چلی پھر آخر کار گھر والا جو اب تک شریکِ حیات تھا اس جنگ سے دستبردار ہوگیا تاکہ اس کے اپنے قبرستان میں مزید لاشوں کا اضافہ نہ ہو۔ اب وہ گھر میں تنہا تھا۔ اگلے دن نئی جنگ عظیم چھڑی، اس جنگِ عظیم دوم میں اس کا اپنا وجود ہی اپنی پرانی لاشیں بار بار گرا رہا تھا اب تو انجیکشن بھی ان لاشوں کو غائب نہ کرپارہا تھا۔ اور پھر روز یہ جنگ چھڑتی بچپن سے لے کر اب تک کی تمام لاشیں زندہ ہوتیں آپس میں لڑتیں اور ایک دوسرے کو دوبارہ قتل کردیتیں۔ وہ اس جنگ میں اتنا مصروف ہوگیا کہ نہ کمانے کی فکر رہی نہ کھانے کی، کسی سے ملنے بھی جاتا تو لاشیں مسلسل گر رہی ہوتی تھیں۔ جنگ تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے کئی دفعہ کچھ اپنوں کو بتانے کی بھی کوشش کی کہ یہ جنگ بہت عظیم ہے۔ مگر سب کہتے کہ ان کی جنگ اس سے زیادہ عظیم ہے کچھ تو جھٹلا ہی دیتے کہ جنگ عظیم دوم ہو ہی نہیں سکتی۔
اور پھر اس دن، ہاں اس دن تاریخ کا اہم ترین دن تھا۔ اس دن جنگ عظیم دوم اپنے اختتام کو پہنچی اب اس نے تمام لاشوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم واصل کرنے کی ٹھان لی لیکن اس سے پہلے اسے جنگ عظیم سوم لڑنی تھی اس جنگ میں اس کی سب سے بڑی لاش گری۔ سب سے بڑی۔۔۔۔۔۔ اتنی بڑی اتنی بڑی کہ اسے اس کے لاشعور میں دفنایا نہیں جاسکا۔ یہ لاش دوسروں کے شعور پہ حاوی ہونے والی تھی۔ جب اسے پنکھے سے لٹکا پایا جاتا۔