کائنات سے پرے ۔۔۔ مریم تسلیم کیانی

کائنات سے پرے

مریم تسلیم کیانی ۔

دلکش شخصیت کا مالک فہد احمد پہلی نظر میں ہی بھا گیا تھا ۔اسے دیکھتے ہی امامہ کے اندر تلاطم سا مچا اور اسے یوں لگا جیسے اِن لمحات سے اُس کا بارہا گزر ہوچکا ہے ۔

وہ شخص یقیناً زندگی میں ملنے والا واحد شخص تھاجس نے ایک لمحہ ضائع کیے بنا ایک لہر بن کر دل کی دھڑکن تیز کر کے نادیدہ پیغام دماغ تک پہنچا دیا تھا ۔

اب دماغ کو آرڈر مل چکا تھا ۔ وہ مسلسل تجسس میں تھا

اُسے پہلی نظر میں بھاجانے والے شخص سے تعلق جوڑنا تھا. . اسے کھو جنا تھا. . دریافت کرنا تھا کہ آیا لہریں اپنی پیغام رسائی درست طریقے سے کرپائیں یا پہلے جیسے کئ ناکام تجربے سے اسے گزار کر خوار اور بیزار کرنے والے عمل سے دوچار کررہی ہیں ۔ آج سے پہلے ملنے والے سگنلز اس قدر واضح اور شفاف بھی نہ تھے ۔

بظاہر خوبرو دکھائی دینے والا فہد احمد انتہائی دلچسپی کے ساتھ اُس کی طرف بڑھا تھا ۔

لہر نے اُس کے دل کے تاروں کو بے ہنگم انداز میں چھیڑنا شروع کردیا تھا ۔

رسمی سلام دعا اور دنیاوی باتوں کے دوران مسلسل نظروں کا ملے رہنا اس بات کی تصدیق کررہا تھا کہ روح نے دروازہ وا کردیا ہے ۔ اب اند داخل ہونا ہے اس کی روشنی پتلیوں کے ذریعے اندر اترنے کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کرنے لگی ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے ۔ اس نے اپنی روشنی کو آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کا حکم دیا ۔

روشنی نے اندر جاکے وہی بتایا جو وہ محسوس کرچکی تھی ۔

روحوں نے آپس میں ملنا شروع کردیا. .

سورج غروب ہوتے وقت پراسرار روشنیاں اپنے رنگ تیزی سے بدلتی جارہی تھیں ۔

وہ شخص بھی حیران تھا ۔ اُن دونوں کی حیرانی کافی خوشگوار تھی ۔

‘میں تم سے ہی ملنا چاہتی تھی ۔ نہ جانے کب سے میری روح تڑپ رہی تھی ۔ ‘

وہ کہنا چاہتی تھی مگر اُس کے منہ سے عجیب الفاظ نکلے. .

“میرا دل ۔ اُفف میرا دل پتا نہیں کیا چاہ رہا ہے ۔”

“تو کرلیں جو دل چاہ رہا ہے ۔” فہد نے دلچسپی برقرار رکھتے ہوئے کہا ۔

اتنا آسان جواب دے دیا ۔ اتنی آسان بات ہے ۔ اس کے لیے ۔ اور اتنی سی بات ہوتی ہے زندگی گزارنے کے لیے کہ جس وقت جو دل کرے بس وہ ہی کرلیا کریں ۔ واقعی یہ بات تو بہت ہی سادہ اور آسان ہوتی ہے ۔ انسان خواہ مخواہ اسے مشکل بناتا آرہا ہے

وہ اُس کے لبوں کو بغور تک رہی تھی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ اُسی کے لب ہیں ۔ امامہ نے نظروں سے اُن لبوں کا اپنے لبوں سے موازنہ کیا ۔ اسے اندازہ لگانا آسان تھا ۔ وہ بالکل اسی کے لبوں کی طرح باریک اور رس دار تھے ۔ بلکہ فہد کے لب زیادہ سرخی مائل گلابی تھے ۔

“اب کیا سوچ رہی ہیں ؟ “

سورج غروب ہوچکا تھا ۔ شفق نے اپنے رنگ سمیٹنا شروع کردیئے تھے اور کاسنی رنگ اپنی جگہ بناتا آسمان کو تاریکی میں ڈبونے چھانے لگا تھا ۔

“اب مجھے چلنا چاہیے ۔ ” امامہ نے اپنے لبوں پر زبان پھیری ۔

“ساتھ ساتھ !؟”

برجستہ جملے اور باتیں اس کی ہمیشہ سے کمزوری رہی تھیں ۔ وہ ٹھہر گئ۔

اچانک میکانکی انداز سے فہد کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا. .امامہ سے پہلی ملاقات میں ایسی جرات پہلے کسی نے نہیں کی تھی ۔ اُس نے لمس کو جذب کیا ۔ بہت ہی نرم اور گداز لمس تھا ۔ سگنل بے حد طاقت ور تھا ۔

امامہ کو اس کے لبوں کا بوسہ چاہیے تھا ۔ اس نے اپنی روشنی تیز کردی ۔

روحیں راستہ بناتی جارہی تھیں ۔

” کاش ہم جسم سے ماورا رہتے باآسانی ملتے جلتے اور محبتوں سے سرشار رہتے ۔ جسموں نے ہم کو کیسا پابند بنا رکھا ہے ۔ سماج اور بندھنوں میں باندھ رکھا ہے اور اردگرد سطحی لوگوں نے اپنی نظروں کے جال بچھا رکھے ہیں ۔ “

“واقعی بہت جال بچھے ہیں مگر ہم آزاد ہیں ۔ چلو میرے ساتھ ۔ “

وہ واقعی چل پڑی ۔ واپسی پر ایک نظم کہی ۔

” اُس پل جب ایک ہوئے تھے

تب دنیا نہ گول تھی نہ بیضوی

تب کوئی سیارہ دنیا کی تباہی کا ذمے دار نہیں تھا

تب پٹرول مہنگا تھا نہ آٹا چینی کا بھاو یاد تھا

اُس ایک پل میں صرف لمس تھا

اور اُس ایک پل کو جینے کے لیے

صدیوں سے بے چین روحیں تھیں

اُس وقت دو روحیں

آپس میں ایسے ملی تھیں

کہ جیسے کسی ٹرین کو پٹری مل جائے

جیسے کسی پودے کو گملا

جیسے بلب کو بجلی

جیسے پھول کو خوشبو

جیسے بھوکے کو کھانا

جیسے پانی کو راستہ

برستے بادلوں کو زمین

جیسے سائنس دان کو مریخ میں زندگی

اُس وقت جب ایک ہوئے تھے

اُس وقت دنیا محو تھی

میں اور تم غیر مرئی تھے

کائنات کے گرد چکر لگا رہے تھے

تم اور میں” ہم ” بن چکے تھے  “

” مجھے کائنات سے پرے جانا ہے ۔ تم مجھے لے جا سکتے ہو اور تم ہی مجھے جسم سے نجات دلا سکتے ہو ۔”

“کائنات بہت وسیع ہے ۔ کاش اس قدر وسیع ہماری سوچ بھی ہوتی  “

“جب تعلق میں کاش آجائے تو سمجھو تعلق آخری سانس لے رہا ہے  “

“ہا۔مجھے بتادینا چاہیے تھا  “

“مت بولو ۔میں تعلق کے ختم ہونے پر دکھی نہیں ہونا چاہتی ۔ میں اپنی روشنی کو تمھاری روشنی سے بھر چکی ہوں ۔ سرشار رہوں گی ۔ میری فکر نہ کرنا ۔ “

” مجھے اپنی فکر ہے شاید ہر مرد کو اپنی فکر ہوتی ہے ۔ تم عورتیں نہ جانے کن عجیب وغریب کہانیوں کی دنیا میں رہتی ہو ۔ کون سی فینٹسی ہوتی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ! خیر تم سےملنے سے پہلے میں ڈپریشن میں تھا ۔ “

“ڈپریشن  “

“ہاں مرد بھی ڈپریشن میں جاتا ہے ۔ اور اس کا ڈپریشن عام نہیں ہوتا یا یوں سمجھو کسی نے اس ڈپریشن کو عام بننے نہیں دیا “

” میں ماہر نفسیات نہیں ہوں ۔ مگر خوشی ہوئی کہ میری بدولت تمھارا ڈپریشن ختم ہوا ۔ “

” تم عورتوں نے مرد کو ہر طریقے سے نچوڑ رکھا ہے ۔ میری ماں مجھے مرد بناتے بناتے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکے جلدی دنیا سے چل دی ۔ باپ نے چالیسویں تک صبر کیا اور دوسری ماں لے آیا ۔ اسے اپنے دو لڑکوں کی فکر تھی بس

میری شادی کردی گئی ۔ شادی کے دن رات مزے بھی نہ کیے تھے کہ بیوی نے بچے کی جلدی کی رٹ لگا دی ۔ اسے پریگنٹ کیا تو سوتیلی ماں نے شور مچادیا کہ زیادہ کماو ۔ رات بیوی پاس نہ آنے دے. دن بھر الٹیوں میں نڈھال رہے ۔ میں کہاں جاوں ۔

تم عورتیں سمجھتی ہو کہ لڑکا باہر عیاشی کرتا ہے ۔ میں عیاشی میں کتنا خرچ ہوتا ہوں تم کو پتا ہی نہیں چلتا ۔ “

“اب پتا چلے گا ۔ کیونکہ تم نے بولنا شروع کیا ہے ۔ کیوں چپ چاپ مرتے رہے ۔ دنیا میں ریسرچ ہوچکی سب سے زیادہ مرد دل کے امراض میں مبتلا ہیں ۔ سب سے زیادہ مرد خود کشی کرتے ہیں ۔ تم بولتے رہو ۔ “

“مرد صرف اپنی پسندیدہ عورت کے سامنے کُھلتا ہے ۔ “

“اچھا لگا۔ “

“مجھے بھی ۔ “

امامہ نے دل کو دماغ سے سمجھایا کہ بعض جگہ روحیں ملتی ہیں مگر جسموں کے اپنے اپنے ٹھکانے ہوتے ہیں ۔ ان کو دنیا میں رہنا ہے ۔

روشنی ایک بار جگہ بناتی ہے اور منظر تادیر تک نگاہوں میں رچ بس جاتا ہے ۔

وہ پھر کبھی کسی اور کائنات میں یا کائنات سے پرے کہیں ملیں گے ۔ کسی اور جسم کی قید میں کسی اور جذبے کی لہر میں مگر کب کہاں کیسے !؟

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031