کھلے پنجرے کا قیدی ۔۔ آدم شیر
کھلے پنجرے کا قیدی
( آدم شیر )
’’یہ موت کا گولا ہے یا پنجرہ، ایک بہت بڑا پنجرہ، میں نہیں جانتا۔ ایک بار مجھے محسوس ہوا کہ یہ موت کا گول گول بڑا گولا ہے جس میں مَیں موٹرسائیکل چلا رہا ہوں۔ کبھی گھڑی کی سوئی کی طرح دائیں سے بائیں گھوم رہا ہوں اور کبھی موٹرسائیکل کو آڑھا ترچھا بھگا رہا ہوں۔ یوں اوپر نیچے موٹرسائیکل چلاتے چلاتے، دائیں بائیں گھومتے گھومتے میرا دماغ گھوم جاتا ہے۔ میں اس گھن چکر سے نکلنا چاہتا ہوں مگر سرکس کا مالک کہتا ہے، ’’اپنا شو پورا کرو۔‘‘
جب مجھے یہ پنجرہ لگتا ہے تب میں اس کی سلاخیں دیکھتا ہوں۔ اس میں سلاخیں صرف حصار بنانے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوئیں بلکہ پنجرے کے اندر بھی کئی سلاخیں ہیں، جنہوں نے کئی خانے بنا رکھے ہیں۔ یہ صنعتی امیروں کا خانہ ہے۔ وہ بڑے بڑے تاجروں کا خانہ ہے۔ اِس میں سرکار کے کماؤ پوت رہتے ہیں۔ اُس میں سرکار خود رہتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کہاں رہوں؟ میرے لئے جو خانہ بنایا گیا، یہ رہنے کے لائق نہیں۔ اس کی سلاخیں گول گول پائپ والی نہیں، چپٹی ہیں جس کے دونوں طرف تلوار کی سی دھار ہے۔ ان کو پکڑ کر ہلانا چاہوں تو ہاتھ زخمی ہو جائیں۔ ایک خانے سے دوسرے خانے میں جانے کی کوشش کروں تو جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ سلاخوں سے گھائل ہو جائے۔ زخمی ہوا تو ہسپتال جانا پڑے گا۔ ہسپتال میں بھی کئی خانے ہوتے ہیں۔ ایک خانہ اشرافیہ کے لئے ہوتا ہے اور دوسرے خانے کے باہر لمبی قطاریں ہوتی ہیں جیسے علی ہجویری کے مزار پر لنگر تقسیم ہو رہا ہو۔ میں ان قطاروں میں لگ گیا تو موت کے گولے میں موٹرسائیکل کون چلائے گا؟ یہ سوال بڑا بے تکا ہے۔
اکثر سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی تک نہیں بنتا جیسے مجھے ہسپتال سے ڈر لگتا ہے۔ شفا خانہ نہ ہوا قید خانہ ہو گیا بھئی،ڈر لگتا ہے۔ ابھی چند مہینے پہلے میں نے پنجرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو ٹی وی چل رہا تھا۔ پتلے خشک ہونٹوں پر سرخی کا لیپ کئے، گندمی رنگ کو گورا کرنے کے لئے کئی طرح کے پاؤڈر ملے ہوئے کالی لمبی پلکوں والی حسینہ خبر دے رہی تھی۔ خبر مجھے پوری یاد نہیں۔ بات کچھ یوں تھی کہ بہاولنگر کے سرکاری ہسپتال میں چاند کا چکر پورا ہونے سے پہلے پہلے سو سے اوپر بچوں کی زندگی کا چکر پورا ہو گیا اور کوئی ذمہ دار نہ ٹھہرا۔ خیر اس خبر نے مجھے کچھ خاص نہیں چونکایا۔ مجھے کیا، کسی اور کو بھی جھٹکا نہیں لگا۔ میں جس پنجرے میں رہتا ہوں، یہاں لوگ مرتے رہتے ہیں۔ ان کے مرنے کے لئے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اور ایک خبر، جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے، یہ تھی کہ وہاڑی کے سرکاری ہسپتال میں کسی ڈاکٹر نے غلط ٹیکا لگا دیا۔ بندہ مر گیا۔ ڈاکٹر پر مقدمہ ہو گیا۔ یہ کیا ظلم ہوا کہ ڈاکٹر پر مقدمہ ہو گیا۔ اس ظلم کے نام پر ظلم کرتے ہوئے ہسپتال کے سب ڈاکٹر کام چھوڑ کر بیٹھ گئے جیسے کلرک قلم چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بہاولنگر کے ہسپتال میں دوا نے اثر کیا نہ دعا صحیح مقام پر پہنچی لیکن وہاڑی میں تو دہائی پر دہائی بھی کام نہ کر سکی۔ ڈاکٹروں کے یوں منہ میں انگلیاں داب کر ہسپتال کے باہر بیٹھ جانے سے تین بچے ہسپتال کے اندر مر گئے۔ اس خبر پر کسی اور کو کچھ ہوا ہو یا نہ ہو، مجھے تھوڑا افسوس ہوا۔ اپنے دکھ ہی اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے لئے کہاں دکھ بچا تھا۔
یہ تو ہوئیں دوسروں کی باتیں، میں آپ کو اپنی بات بتاتا ہوں۔ میں ایک دن دفتر میں بے دلی سے کام کر رہا تھا۔ بے دلی سے اس لئے کہ چھوٹی عید پر تنخواہ ملی تھی اور چند دن بعد بڑی عید تھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ تین چار مہینے پہلے ہی میری شادی ہوئی تھی۔ اب آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ میں ذہنی طور پر کہاں تھا اور میرا جسم کہاں تھا۔پنجرے میں یا موت کے گولے میں، جو بھی ہو،دونوں ایک جیسے ہیں۔میرا دماغ ان دونوں سے بہت دور تھا۔ خیر میں بے دلی سے کام کر رہا تھا کہ میرے موبائل فون پر پیغام کی اطلاع دینے والی گھنٹی مختصراً بجی۔ میں نے پتلون کی جیب سے موبائل فون سے نکالا۔ اس کے ایک کونے پر ننھی سی پیلی بتی جل بجھ رہی تھی۔ موبائل فون کا خودکار برقی تالا کھول کر دیکھا تو بیگم صاحبہ کا پیغام پایا۔
’’آج ہم ہسپتال گئے تھے۔آپ گھر آئیں گے تو ایک خوشخبری دوں گی۔‘‘
میں خوشخبری کا راز جان گیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور پاؤں زمین سے اٹھنے کو بے تاب ہو گئے لیکن میں نشست سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ میں دل لگا کر کام کرنے لگا کہ جلدی ختم ہو اور گھر جا سکوں۔ چند گھنٹے بعد دفتر سے نکلا۔ اپنی موٹرسائیکل پر دھڑام سے بیٹھا۔ موٹرسائیکل صاف بھی نہیں کی۔ کک ماری اور اتنی تیز بھگائی جتنی میں موت کے گولے میں بھی نہیں بھگاتا۔ گھر کے باہر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھنٹی بجانا بھول ہی گیا۔ بیگم نے دروازہ کھولا۔ اس کی چہرے پر خوشی ناچ رہی تھی جو میرے خیال میں میرے دل میں بجتے راگ کا نتیجہ تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی اسے دبوچ لیا۔
ہمارے گھر میں بھوک نہیں ناچتی تھی لیکن خوشحالی کا رقص بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم بس ٹھیک تھے مگر بیگم کی خبر سے خوشی ناچنے لگی۔ میرے اندر ہی اندر یہ احساس گاجر کے جوس کی طرح خون بڑھانے لگا کہ میں میں نہ رہا۔ میرا ایک اور وجود بن رہا ہے۔ جو مجھ سے بہتر ہو گا۔ وہ میرے ٹوٹے ہوئے خواب پورے کرے گا۔ اس کی آمد کے احساس نے قبل از وقت مجھے جکڑ لیا تھا اور اس قید سے زیادہ مسرت مجھے کبھی نہیں ملی تھی۔
دو مہینے اور دس دن میں اس احساس سے دل کی دھرتی سیراب کرتا رہا۔ پھر مجھے پتا چلا کہ میری بیگم کے پیٹ میں کہیں شور گھس گیا ہے جس سے دھرتی بنجر ہونے لگی ہے۔ میں آدھی رات کو معائنہ کرانے ہسپتال گیا۔ ہسپتال کے شعبہ بیرونی امراض کی پرچی فیس ایک روپیہ تھی مگر ہسپتال کے پارکنگ سٹینڈ پر موٹرسائیکل کی فیس دس روپے تھی۔ استقبالیہ پر پرچی بنانے والے نے مجھے اس خانے کی طرف روانہ کیا جس کے باہر لکھا تھا۔
’’مردوں کا داخلہ منع ہے۔‘‘
میں نے بیگم اور اماں کو اس خانے میں داخل کیا اور خود باہر انتظار کرنے لگا۔ دو منٹ بعد ہی دونوں باہر آ گئیں۔ ڈاکٹر نے مشینی معائنہ کرانے کی چٹ تھما دی تھی۔ ہسپتال کی لیبارٹری میں گئے تو معائنہ کرنے والی مشین خراب تھی۔ مشین چلانے والے ڈاکٹر نے ایک اور خانے کی طرف ہمارا منہ کر کے اس زور سے دھکا دیا کہ ہم سیدھا دروازے پر رکے۔ مجھے پھر باہر روک دیا گیا۔ اب کی بار اماں کو بھی باہر رکنا پڑا۔ بیگم تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں ایک رپورٹ لئے باہر آئی۔ اس نے آتے ہی بتایا کہ اس خانے کی مشین بھی صحیح نہیں تھی، بس اندازے سے کام چلایا گیا ہے۔
ہم اندازے پر مبنی رپورٹ لے کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو پتا چلا وہ کہیں جا چکی ہے۔ ہم گھنٹہ بھر انتظار کے بعد گھر لوٹ آئے۔ دوسرے دن صبح صبح ہسپتال گئے۔ ایک بار پھر معائنہ کرانے کے لئے چٹ ملی۔ معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر نے دوا لکھ دی۔ سات دن کھانے کی ہدایت کی۔ایک گولی تین دفعہ روزانہ کھانی تھی اور دوسری گولی دن میں ایک مرتبہ نگلنا تھی۔
دوا کھاتے ہوئے سات دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ مرض پھیلتا معلوم دیا۔ چوتھے دن ڈاکٹرنی کے پاس گئے تو اس نے کہا، ’’حالت جتنی بھی خراب ہو، دوا کھاتے جاﺅ، سات دن بعد ہی معائنہ کروں گی۔ ‘‘
خدا خدا کر کے سات دن پورے ہوئے۔ ہسپتال گئے۔ مخصوص خانے میں بیٹھی نرس نے ناک میں گھسیڑی انگلی نکال کر کہا، ’’ رات کو آئیں۔‘‘ رات کو گئے تو ڈاکٹر کی دوست ملنے آئی ہوئی تھی جسے آدھی رات کو بھی اپنے گھر چین نہیں تھا۔ ڈاکٹرنی پہلے اس سے گپیں ہانکتی رہیں۔ پھر مزید گپیں ہانکنے کے لئے اس کے ساتھ ہو لی۔ ہم راہ تکتے رہ گئے۔
دوسرے دن رات کو ہسپتال گئے۔ لیڈی ڈاکٹر نے پھر چٹ لکھ دی۔ معائنہ کرانے گئے تو پہلے سے خراب مشین زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ لیبارٹری والے نے صبح آنے کو کہا۔ صبح پہنچے تو مشین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ہسپتال کے باہر ایک لیبارٹری سے معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے باہر کی لیبارٹری سے کرائی گئی رپورٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس زور سے اڑی کہ جیسے رپورٹ نہ ہو، رشتہ کا پیغام ہو۔
ہم نے ایک سفارشی ڈھونڈا۔ اس کی سفارش پر ڈاکٹر نے دوبارہ چٹ لکھ کر دی۔ سفارشی ہمارے ساتھ ہسپتال کی لیبارٹری میں گیا تو مشین خود بخود چل پڑی۔ معائنہ کرایا۔ رپورٹ لا کر ڈاکٹر کو دی۔ اس نے پرانی دوا کھانے کی ہدایت کرتے ہوئے پھر سات دن بعد آنے کو کہا۔
اس بار سات دن پورے ہوئے تو عجب بات ہوئی۔ آٹھویں دن ہسپتال گئے تو یہاں بھی ہڑتال چل رہی تھی۔ میں نے جیب ٹٹولی جس میں بتیس سو پچیس روپے موجود تھے۔ میں بیگم کو پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔ وہاں جا کر میری جیب خالی ہو گئی۔ نویں دن میرے پاس اس ہسپتال جانے کے پیسے نہیں تھے اور سرکاری ہسپتال میں ہڑتال ختم نہیں ہوئی تھی۔ دسویں دن سرکاری ہسپتال گئے تو میری بیگم لیڈی ڈاکٹر سے ملنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کی لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی بات چیت ہوئی جو تین منٹ پر مشتمل تھی۔ اس بات چیت کے بعد پھر معائنہ ہوا تو پتا چلا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ وہ،جس نے میرے خواب پورے کرنے تھے، آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گیا۔ اس کے یوں چلے جانے سے میں اور میری بیوی ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے لگے۔ دو تین مہینے ہم ایک دوسرے سے منہ موڑ کر سوتے رہے۔ اس کے بعد وہ ہر رات میرا کندھا ہلا کر فرمائش کرتی۔
’’منہ میری طرف کریں۔‘‘
ہم دوبارہ میاں بیوی رہے جو یہاں آنے سے پہلے تک جاری تھی۔اب ملا جواب کہ مجھے ہسپتال سے کیوں ڈر لگتا ہے؟ ‘‘ کافی دیر سے لگاتار بولتے ہوئے راشد نے میز کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھے ڈاکٹر ہشام سے یوں کہا جیسے چھٹی جماعت کا بچہ ریاضی کا سوال حل کر کے اپنے باپ سے ذہانت پر داد کا طالب ہو۔
’’ہاں۔ لیکن تم اب پھر ایک ہسپتال میں ہو۔‘‘ ڈاکٹر ہشام نے اپنا چشمہ آنکھوں سے اتار کر میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا جس پر راشد نے آنکھوں پر زور دے کر ڈاکٹر ہشام کو یوں دیکھا کہ اس کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی میچ گئی تھیں۔ وہ کچھ دیر یونہی دیکھتا رہا۔پھر آنکھیں پوری کھول کر بولا۔
’’ہاں۔ لیکن میں یہاں خود تو نہیں آیا، بھیجا گیا ہوں۔ ویسے بھی یہ ہسپتال نہیں۔ پاگل خانہ ہے۔‘‘
’’پاگل خانہ بھی ہسپتال ہی ہوتا ہے۔ ویسے تم اپنی بیگم سے اتنی مار پیٹ نہ کرتے تو تمہیں یہاں نہ آنا پڑتا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ راشد نے میز پر ناخن زور سے رگڑتے ہوئے اپنی پریشانیاں صاف کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک معمولی اخبار نویس ہوا کرتا تھا۔ ایک ماہر منشی کی طرح رات گئے تک خبروں کا حساب کتاب کیا کرتا۔ ان کی کانٹ چھانٹ کرتا۔ ہر چھوٹے آدمی کی خبر بڑی سے بڑی بنانے کی کوشش کرتا لیکن پھر وہ خود خبر بن گیا۔ اس نے اپنی بیوی کی ایک دن اچھی خاصی چھترول کر دی جسے ہسپتال داخل کرانا پڑا جہاں وہ کئی دن رہی۔ جب وہ ہسپتال سے نکلی تب راشد کو ہسپتال جانا پڑ گیا۔ اب اسے یہاں رہتے ہوئے تین مہینے ہونے کو تھے اور ڈاکٹر ہشام اسے چھٹی دینے کے لئے ذہنی حالت جانچ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے جانچ جاری رکھی۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم نے اپنی بیگم کو کیوں مارنا شروع کیا؟‘‘
’’پتا نہیں۔ شاید بچہ ضائع ہونے کی وجہ سے۔‘‘راشد کی کھوئی کھوئی آواز کہیں دور سے آئی۔
’’تمہیں پتا ہونا چاہئے۔ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔‘‘ڈاکٹر ہشام نے فٹ کہا۔
’’میرے دماغ کے کسی خانے میں اس کی صحیح وجہ موجود نہیں۔کسی اور کا غصہ کسی اور پر نکلتا رہا۔‘‘ راشد نے میز پر ٹھوڑی ٹکاتے اور بانہیں پھیلاتے ہوئے جواب دیا تو ڈاکٹر ہشام پل بھر کے لئے چونک گیا۔پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے پوچھا۔
’’اچھا تمہارے دماغ کے خانے سے یاد آیا، تمہیں کیوں لگتا ہے کہ تم کئی خانوں والے بڑے پنجرے میں ہو؟‘‘ ڈاکٹر ہشام نے چشمہ میز سے اٹھا کر شیشے صاف کرنا شروع کر دیئے۔
’’اس سوال کا جواب میں لکھ کر دینا چاہوں گا۔ مجھے کاغذ پنسل دو۔ کل جواب مل جائے گا۔‘‘
’’تمہیں پنسل نہیں مل سکتی۔تم خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکتے ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر ہشام نے زیادہ تر چپ چاپ رہنے والے راشد کو ہنستے ہوئے جواب دیا لیکن جب اسے بولنے کا دورہ پڑتا تو رکنا مشکل ہوتا۔
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ پھر ایسا کرو، ابھی کاغذ پنسل دو۔ تمہارے سامنے سب کچھ لکھ دوں گا۔ ‘‘ راشد کی اس سوچ پر ڈاکٹر کا قہقہہ لگانے کو جی چاہا لیکن کچھ سوچ کر مسکراہٹ تک محدود رہا اور اپنی جیب سے پین اور فائل سے کاغذ نکال کر راشد کے سامنے میز پر رکھ دیئے۔ راشد نے فوراً پین پکڑا۔ اس کی نوک دیکھی جس میں ایک چھوٹی سے گیند تھی جو گھوم گھوم کر پیچھے سے پلاسٹک کے باریک پائپ سے سیاہی خود پر لپیٹ کر کاغذ پر منتقل کرتی ہے۔ راشد نے پین کو جھٹکا دیا اور کاغذ پر جھک کر لکھنے لگا۔ ڈاکٹر ہشام اسے تجسس بھری نگاہوں سے تیزی کے ساتھ لکھتا دیکھتا رہا۔ راشد نے کچھ ہی منٹوں میں صفحہ بھر دیا۔ صفحہ بھرنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ ابھی کچھ لکھنا باقی ہے تو اس نے کاغذ کا رخ تبدیل کر کے حاشیے کے لئے بچی جگہ بھی پر کر دی۔ پھر اس نے کاغذ کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اس عمل کے بعد کاغذ میز پر رکھا، اس کے اوپر پین رکھا اور دونوں چیزیں ڈاکٹر کی طرف کھسکا دیں۔ جب ڈاکٹر نے پین پکڑ کر جیب میں لگایا تو راشد نے چھت پر سفید رنگ کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کاغذ پر لکھا جواب پڑھنے لگا۔
’’میں پنجرے میں ہوں۔ میں پنجرے میں کیوں ہوں؟ یہ سوال زیادہ اہم ہے لیکن یہ آپ کی سوچ سے اوپر کی بات ہے۔ میں بتاتا ہوں کہ مجھے کیوں لگتا ہے میں ایک اتنے بڑے پنجرے میں ہوں جس کی کوئی حد نہیں۔ میں گھر سے نکلتا ہوں۔ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے دو کلومیٹر بعد کوئی پولیس والا مجھے میری حفاظت کے نام پر روک لیتا ہے۔ طرح طرح کے سوال کرتا ہے۔ کاغذ دیکھتا ہے۔ پھر کمیٹی کھانے والی عورتوں کی طرح دو چار باتیں کرتا ہے۔ یہاں سے دو تین کلومیٹر بعد پھر کوئی پولیس والا مجھے روک لیتا ہے۔ اگر کوئی پولیس والا مجھے میری حفاظت کے نام پر نہ روکے تو کہیں نہ کہیں شاہی سواری یا شاہی افسر کی سواری کے نام پر سڑک بند ہوتی ہے۔ یوں سڑک میرے لیے پنجرہ بن جاتی ہے۔ میری بیوی گھر سے باہر نکلتی ہے توحرس کی ماری نگاہیں اسے قید کر لیتی ہیں۔ میں کام پر جاتا ہوں۔ میں سرکاری ملازم نہیں۔ مجھ سے گدھے کی طرح کام لیا جاتا ہے جیسے میں ملازم نہیں، محض غلام ہوں۔ گھر واپس آتے ہوئے راستہ بھٹک کر ڈیفنس میں گھس جاؤں تو لگتا ہے میں کسی اور ملک میں آ گیا ہوں۔ میں یہاں سے نکلنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میں پنجرے کے ایسے خانے میں داخل ہو گیا ہوں جہاں میرا داخلہ ممنوع ہے۔ شارٹ کٹ کے چکر میں جی او آر کی راہ لوں تو ڈرتا ہوں کہ کوئی پوچھ نہ لے، ’’ہاں بھئی تیری ہمت کیسے ہوئی ادھر آنے کی؟‘‘ میرا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے وہ لوگ قانون بناتے ہیں جن کے علاقوں میں گھسنا بھی میرے بس سے باہر ہے۔ تو کیا میں پنجرے میں نہیں؟ گھر میں طرح طرح کی ضروریات دروازہ کھولے میرے اندر آنے کا انتظار کرتی ہیں۔ اس دروازے میں گھس کر سب کو راضی کرتے کرتے میری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ میرا آزاد ہونے کو جی چاہتا ہے۔ گھر سے باہر نکلتا ہوں تو عجب افراتفری کا عالم ہوتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کا راستہ کاٹ رہا ہوتا ہے۔ اپنی سواری کو تیز بھگا کر پنجرے سے نکلنا چاہتا ہے۔ کسی نے خود پر سامان تعیش کا خول چڑھا رکھا ہے اور کوئی خود کو کپڑوں میں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ ہر چوک میں چار پانچ لوگ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا گھیرا میرے گرد ایسے ہوتا ہے کہ میں خود کو پنجرے میں مقید پاتا ہوں۔ میں اچھی نوکری کے لئے درخواست دیتا ہوں۔ تحریری امتحان دیتا ہوں۔ انٹرویو دیتا ہوں اور منزل اسے ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتا۔ مجھے ڈبل ایم اے کرنے کے باوجود سرکارکلرک تک نہیں رکھتی اور ایک میٹرک پاس شخص سوئی گیس کے محکمے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی ناانصافی تو صرف بیگار کیمپ جیسے پنجرے میں ہی ہو سکتی ہے۔ جب میں کوئی سچی بات کہنا چاہتا ہوں تو مجھے روک دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی میری پٹائی کر دی جاتی ہے۔ میں کچھ کہنے سے ڈرتا ہوں تو کیا میں پنجرے میں نہیں؟ میں کچھ پانے کی جستجو سے ڈرتا ہوں۔ مجھے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھونے کا خوف رہتا ہے۔ اور جب میں اس خوف کے علاج کے لئے کسی مسیحا کے پاس جاتا ہوں تو حکم ملتا ہے، ’’آج ملاقات کا وقت نہیں۔‘‘ تو کیا میں قید نہیں؟ میں ایسے پنجرے میں ہوں جس کا دروازہ کھلا ہے لیکن اس پر دو پہرے دار کھڑے ہیں۔ایک نے اکڑی ہوئی شلوار قمیص پہن رکھی اور ہر وقت مونچھوں کو تاؤ دیتا رہتا ہے۔ دوسرے نے بدیسی لباس زیب تن کیا ہوا ہے اور ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی ہے جس کے ایک کونے پر لگا بٹن دبائیں تو دوسرے کونے سے سٹیل کی تیز دھار والی چھری نکل آتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر ہشام نے تحریری جواب پڑھ لیا تو اس کے چہرے پر الجھن اچھل کود کرنے لگی جس سے ڈر کر اس نے عینک اتار کر میز پر رکھ دی اور راشد کو دھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا جو اب تک سفیدی کو تکے جا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اپنی ٹھوڑی پکڑ کر چند لمحے راشد کا اوپر کو اٹھا ہوا چہرہ پڑھا۔ پھر گود میں رکھی فائل کھول کر اس میں کچھ لکھا اور کمرے سے نکل گیا۔ راشد ڈاکٹر کے یوں چپ چاپ چلے جانے سے لاتعلق اکیلا سفیدی تکتا رہ گیا۔