صحرا اور ڈوبتا چاند ۔۔۔ آدم شیر
صحرا اور ڈوبتا چاند
( آدم شیر )
انسان کا معدہ بڑی بری بلا ہے۔ یہی وہ بلا ہے جو دس سال کے شمس کو کھا گئی۔وہ میرے ساتھ اس بلا سے بچنے کے لئے بھاگ رہا تھا۔ اس کا دوست حسن بھی ساتھ تھا جس کا کوئی مائی باپ نہ تھا۔ وہ شمس سے دس مہینے بڑا تھا اور میں ان دونوں سے سات آٹھ سال پہلے دنیا میں آیا تھا۔ میں نے شمس کے لئے فرار کا منصوبہ بنایا تھا جس میں حسن بھی شامل ہو گیا۔ وہ ڈیڑھ دن سے بھوکا تھا اور سمجھا ہم جہنم سے نکل کر جنت کی طرف جا رہے ہیں۔ جب اس کے پاﺅں میں چلتے چلتے چھالے پڑگئے تو اسے پتا چلا کہ یہ راہ نہیں آسان لیکن اب وہ لوٹ بھی نہیں سکتا تھا۔
جب سورج آگ برساتا تو ریت کے ذرے سچے موتیوں کی طرح چمکنے لگتے۔ حسن کے پاؤں میں پڑے چھالے یہ چمکتے موتی برداشت نہ کر پاتے اور وہ بار بار بیٹھ جاتا۔ تپتی زمین پر بیٹھ کر پاؤں ہاتھ میں پکڑ پکڑ کر دیکھتا۔ ابھی تو اسے لمبا راستہ طے کرنا تھا۔ ہاتھوں کے بل یا قدموں کے بل، جیسے بھی ہو۔ ہمیں جمعہ گوٹھ سے چلے تین دن ہونے کو تھے اور شمس کو مرے ابھی پونے دو دن ہوئے تھے۔ شمس دیکھنے میں بڑا سخت جان تھا۔ وہ شرارتیں بھی بڑی کرتا تھا لیکن بھوک نے اسے اسی طرح کھا لیا، جیسے گندے پانی نے جمعہ گوٹھ کے کئی لوگ کھائے تھے۔
پیٹ بھی عجیب ہے۔ بھرا ہو تو نقصان، خالی ہو تو اور بھی نقصان۔ کچھ الٹا سیدھا کھا لو تو ہیضہ ہو جاتا ہے۔ کچھ نہ کھاﺅ تو انتڑیاں خشک ہو کر آپس میں اٹکل پیچو شروع کر دیتی ہیں اور انسان دوہرا ہو جاتا ہے۔ شمس بھی کئی بار دوہرا ہوا۔ وہ جب بھی دوہرا ہوتا، مجھے تہرا چوہرا لگنے لگتا۔ وہ کمر کے بل لیٹتا۔ ٹانگیں پیٹ سے جوڑنے کی کوشش کرتا کہ پیٹ کے اندر نہیں تو چلو باہر ہی ماس لگ جائے۔ اس کی انتڑیاں اٹکل پیچو سے تھک کر نچڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ ہم اسی سے بچنے کے لئے بھاگے تھے۔ شمس کی قسمت خراب تھی، وہ زیادہ دور تک نہ بھاگ سکا۔
شمس کے پیٹ میں جب عجیب و غریب چیزیں اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتیں تو وہ مسکراہٹ کا منہ چڑاتے ہوئے پوچھتا۔ ’’ریت کھانے سے کچھ ہوتا تو نہیں۔‘‘ حسن اس کی بات سن کر ہنس پڑتا اور میں نہ رونے کی کوشش کرتا۔ میں تین افراد پر مشتمل اس مہاجر قافلے کا سربراہ جو ٹھہرا تھا۔ اس لئے میں رو نہیں سکتا تھا۔ جب حالات ہی ہم پر رو رہے تھے تو ہمیں رونے کی کیا ضرورت تھی۔ جب میں اور حسن شہر پہنچے تھے تو وہاں ٹی وی پر کئی لوگ ہمارے لئے رو رہے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ شمس خالی پیٹ روتا تھا اور ٹی وی پر رونے والوں کی جیبیں بھی بھری ہوئی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی رونا نہیں آیا تھا۔
جمعہ گوٹھ میں مرد روتے نہیں تھے۔ یہ مردانگی کا سوال تھا۔ یہاں ایک مردانگی ہی بچی تھی، ورنہ ہر سال گرمیوں میں جب سورج جوبن پر آتا تو پینے کو پانی ہوتا نہ کہیں گندم بچی ہوتی۔ ہمارے جانوروں کے لئے چارہ تک نہ بچتا۔ کتے بلیوں کا پتا نہیں، اگر گائے بھی گوشت خور جانور ہوتا تو وہ ایک دوسرے کو کھا کھا کر گزارہ کر لیتیں۔ بھیڑیں ایک دوسرے کو اپنی رانیں دردِ دل کے واسطے ضرور پیش کرتیں، لیکن وہ گوشت خور نہیں تھیں۔ ہم گوشت خور تھے۔ عید کے عید گوشت کھاتے تھے،جب قریبی شہر سے لوگ خیرات کرنے آتے۔
میں اپنی جھونپڑی کے باہر موٹی دری بچھائے، آسماں پر تاروں کا تعاقب کرتے، اکثر خود سے ایک سوال کیا کرتا تھا۔ ’’یہ شہر کے لوگ گرمیوں میں خیرات کرنے کیوں نہیں آتے؟‘‘ میرے پاس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ خود ہی جواب سوچ لیتا کہ گرمیوں میں شہر کے لوگ بھی بھوک پیاس سے بیمار پڑ جاتے ہوں گے یا پھر انہیں کوئی اور پریشانی ہوتی ہو گی ورنہ ہماری خبریں ہوا کے دوش پر اڑتی اڑتی ان تک پہنچتی ضرور ہوں گی۔ پچھلے سال گرمیوں میں مَیں شہر والوں کی راہ تکتے تکتے تھک گیا تو خود شہر جانے کا سوچا۔ یہی وقت صحیح تھا۔ جمعہ گوٹھ سے کئی لوگ جا رہے تھے تو مجھے بھی جانا ہی چاہیے تھا۔
ہم سندھو دریا کے بیٹے ہیں۔ یہ پانی کے ایک عظیم دیوتا کی خواب گاہ ہے جو کبھی ایک آنکھ کھول کر ارد گرد دیکھتا ہے اور کبھی دونوں آنکھیں کھول لیتا ہے۔ کبھی ہڑبڑا کر اٹھ بھی جاتا ہے۔یہ ہم پر کرم کی نظر کرتا ہے نہ کوئی اسے ہم تک لانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے دادا کہتے تھے کہ اگلے وقتوں میں ایک بہادر ساری رات پانی کے دیوتا سے لڑتا رہا۔ دیوتا نے کئی بار اسے چاروں شانے چت کیا لیکن پھر وہ کھڑا ہو جاتا۔ دیوتا اسے دور دور پھینکتا، وہ پھر جا چمٹتا۔ شب بھر بدمست سانڈ کی طرح ٹکراتا رہا۔ سر ٹکراتے ٹکراتے رات گزرنے والی تھی۔ سورج کی پہلی کرن کے رات کی سیاہی کا سینہ چیر کر اس تک پہنچنے سے پہلے اور زندگی کی بازی ہارنے سے کچھ لمحے قبل اس نے دیوتا کا دل جیت لیا۔ اب تو مشینیں ہیں بڑی بڑی، کوئی ان مشینوں کو ہی دیوتا سے لڑا دے۔
ہم صحرا کے بچے ہیں جو پانی کے لیے جھولیاں پھیلائے رکھتے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، لیکن آسمان چند برس سے ہماری طرف نہیں دیکھ رہا۔ جب آسمان ہی نہیں دیکھ رہا تو کوئی اور کیا دیکھے گا، لیکن میں نے دیکھا۔ میں نے شمس کو مرتے ہوئے دیکھا، اور بھی کئی لوگوں کو دیکھا لیکن شمس کو مرتے ہوئے دیکھنا کچھ عجیب تھا۔
شمس جب مر رہا تھا، اس کے گلے کے قریب ایک ہڈی نظر آنے لگی تھی۔ مجھے بعد میں پتا چلا یہ ہڈی عورتوں کی نظر آئے تو حسن کی نشانی ہوتی ہے۔ جمعہ گوٹھ اور آس پاس کے کئی گوٹھوں میں یہ حسن بکھرا پڑا تھا۔ یوں کہنا چاہئے کہ حسن بکھر بکھر رہا تھا،جیسے شمس بکھر گیا۔ بچھڑ گیا تھا۔ پہلے وہ مائی سکینہ سے بچھڑا تھا جس سے سائیں ذوالفقار یعنی میرا باپ کئی سال پہلے بچھڑ چکا تھا۔ مائی سکینہ کی ہڈی بھی نظر آتی تھی۔ اس کے بازوؤں میں پڑی چوریاں چوڑی ہو گئی تھیں۔ چوریوں کے نیچے سے بھی ہڈی نظر آتی تھی۔ جب وہ مری تھی تو اس کے چہرے پر وہ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں، جن کے اوپر ماس ہو تو ننھے منے گڑھے پڑتے ہیں۔
مائی سکینہ کے پاس ایک ریڈیو تھا جو سائیں ذوالفقار شہر سے لایا تھا۔ وہ ایک بار شہر گیا تھا، دوبارہ جانا چاہتا تھا لیکن کبھی جا نہیں سکا تھا۔ پچھلے سال گرمیوں میں،جن دنوں آسمان ناراض تھا، مائی سکینہ کے ریڈیو پر ایک خبر چلی تھی کہ سندھو دریا کے وطن کے آقا گندم کی بوریاں، صاف پانی کی بڑی بڑی بوتلیں اور دوائیاں صحرا کے بچوں کے لئے بیج رہے ہیں۔ مائی سکینہ بڑی خوش ہوئی تھی۔ میں خوشی سے ناچا تھا۔ جمعہ گوٹھ میں یہ خبر سن کر ہر کوئی خوش ہوا تھا لیکن کئی خوشی سے ہی مر گئے۔ مائی سکینہ بھی ان میں سے ایک تھی۔
مائی کے مرنے کے بعد مجھے اور شمس کو کچھ دن آس پاس سے کھانے کو ملتا رہا۔ وہ بھلے لوگ اپنے حصے میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ گندم کی بوریوں کی خبر بھی دیتے جو بس اب پہنچنے ہی والی تھیں۔ سنا تھا پلاسٹک کے بڑے تھیلوں میں گوشت بھی آ رہا ہے۔ ان دنوں میں کھلے آسمان تلے تاروں کا تعاقب زیادہ کرنے لگا تھا۔ تارے موٹی موٹی بوٹیوں کی طرح نظر آتے، جب دور چلے جاتے تو روٹی کا روپ دھار لیتے۔ چاند کبھی روٹی کے سخت کناروں کی طرح نظر آتا اور کبھی آدھی روٹی لگتا۔ یہ کافی دن پہلے پوری روٹی کی طرح تھا۔ لیکن ایسا وقت آ پہنچا کہ پوری روٹی آتی نہ آدھی ملتی۔
کب تک کوئی تاروں کے پیچھے بھاگ سکتا ہے۔ ایک دن ہر کوئی تھک ہی جاتا ہے۔ میں بھی تھک گیا۔ شمس کو ساتھ لیا۔ ہر وہ شے جو قیمتی لگی، تھیلے میں ڈال کر ساتھ لے لی۔ میں تھیلا کندھے پر ڈالے شمس اور حسن کے درمیان امام کی طرح چلتا رہا۔ تین گوٹھوں میں ٹھہرنے کے بعد ہمارے پاس تھیلا رہا تھا نہ شمس۔ میں اور حسن پھر بھی چلتے رہے۔ راتوں کو آسمان پر تارے شمس کی طرح میرا منہ چڑاتے۔ دن کو آگ کا دیوتا آنکھیں دکھاتا۔ ہم ٹیڑھا منہ اور سرخ آنکھیں دیکھ دیکھ کر چوتھے گوٹھ پہنچے۔ یہاں لمبی ڈاڑھیوں والے کچھ لوگ روٹیاں دے رہے تھے۔ وہ لوگوں کو پانی بھی دیتے۔ ان کے پاس گوشت تھا جو تھوڑا تھوڑا سب کو ملتا۔ ہمیں بھی ملا۔ حسن اتنا کچھ دیکھ کر پاگل ہو گیا۔ اس نے معدے میں زیادہ ٹھونس لیا اور بیمار پڑ گیا۔ ڈاڑھی والے لوگوں کے پاس دوائیاں بھی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔
’’کیا تمہیں سندھو دیس کے آقا نے بھیجا ہے؟‘‘ ان میں سے بڑھاپے کو گلے لگانے والے ایک شخص نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ کون ہے؟ میں حیران ہو گیا کہ یہ بوڑھا ہو گیا ہے اور اسے سندھو دریا وطن کے آقا کا نہیں پتا۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ سندھودریا وطن کا آقا وہی ہے جس نے ہمارے لئے گندم کی ڈھیروں بوریاں، پانی کی بڑی بڑی بوتلیں، گوشت کے تھیلے اور دوائیاں بھیجی ہیں۔ اب حیران ہونے کی اس کی باری تھی۔ میں نے اسے زیادہ دیر حیران نہیں رہنے دیا اور پوچھا۔
’’تم لوگ جمعہ گوٹھ کب جاؤ گے؟‘‘
وہ بکھری بکھری ڈاڑھی والا بوڑھا تھوڑا پریشان ہو گیا اور پھر ایسے بولا جیسے شرمندہ ہو۔ ’’ہمارے پاس سامان تھوڑا ہے۔ جمعہ گوٹھ بہت دور ہے۔ دوبارہ سامان اکٹھا کر کے وہاں جائیں گے۔‘‘ مجھے تھوڑا غصہ آیا کہ تب تک تو ہمارے آقا کی گندم بھی پہنچ جائے گی۔ یہ بات میں نے اس سے نہیں کہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کب واپس شہر جائیں گے۔ وہ جلد واپس جانے والے تھے۔ میں نے منت کی کہ مجھے اور حسن کو بھی ساتھ لے جائیں۔ انہوں نے انکار کر دیا لیکن میں نے پیچھا نہیں چھوڑا جس پر انہوں نے ہمیں کچھ روپے دے دیئے اور ایک پتا بتا دیا۔
ہمارے لیے ڈاڑھی والوں کا دیا ہوا سامان اور روپے چاند سے ز یادہ چمک دار تھے، جن سے ہم کچھ دن بعد سندھو دریا وطن کے مرکز میں پہنچ گئے۔یہاں ہم ڈاڑھی والوں کے پاس رہتے ہیں۔ میں چھوٹے موٹے کام کرتا ہوں۔ حسن قرآن پاک پڑھتا ہے۔ رہنے کے لئے جگہ ہے۔ کھانے کو ملتا ہے اور پانی بھی صاف ہوتا ہے۔ یہاں قریب ہی ایک دکان پر ٹی وی ہے جس پر ہمارا آقا نظر آتا ہے جو کہتا ہے کہ زندگی ایک تحفہ ہے۔
میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں کہ شمس سے یہ تحفہ کس نے چھینا؟ پانی کے دیوتا کا سینہ چیر کر دل نکال لوں، جو ہم سے دور دور رہتا ہے۔ آسمان کو الزام دوں جس نے ہم پر کرم کی نظر نہیں کی یا پھر خود کو مجرم ٹھہراؤں جو چھوٹے بھائی کو سنبھال نہیں سکا۔ آقا کی گردن پکڑوں یا وڈیرے کا گریبان چاک کروں یا پھر ان سب کا پیٹ پھاڑ دوں جن کے گھر تحائف سے بھرے پڑے ہیں؟مجھے صحیح طرح پتا نہیں کہ کون بری الذمہ ہے۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ زندگی واقعی ایک تحفہ ہے،چاہے جیسی بھی ہو۔ یہ خدا نے دی ہے، واپسی بھی اسی کا حق ہے۔ اب میں تاروں کا تعاقب نہیں کرتا۔ خود سے یہ بھی نہیں پوچھتا کہ شہر کے لوگ گرمیوں میں جمعہ گوٹھ خیرات کرنے کیوں نہیں آتے۔ اب میں خود شہر میں رہتا ہوں۔