اعتماد کی سیڑھی ۔۔۔ آدم شیر
Adam Sher is one of the young and emerging short story writers of Pakistan. His stories discuss the problems and daily issues a common man is facing in the society.
اعتماد کی سیڑھی
( آدم شیر )
شام کے سات بجنے کو تھے۔ ٹریفک سگنل پر موٹرسائیکل روکی تو نیلی وردی پہنے ایک شخص میرے پاس آیا اور لجاجت سے پوچھنے لگا کہ پل پار کرنا ہے، بیٹھ جاؤں ؟ میں نے ایک عرصہ ہوا لفٹ دینا چھوڑ دیا ہے مگر لوگ لفٹ مانگنا نہیں چھوڑتے۔ خبر نہیں کہ میرے چہرے پر کیا لکھا ہے کہ دس لوگ چھوڑ کر میرے پاس آئیں گے۔ عمر رسیدہ افراد کو لفٹ دینے میں پریشانی نہیں ہوتی لیکن کسی جوان کو ساتھ بٹھاتے الجھن ہوتی ہے جیسے اُس ادھیڑ عمر آدمی سے ہوئی۔ مَیں نے اُسے سر کے کھچڑی بالوں سے پیوند لگی جوتی تک دیکھا۔ وہ میری نظر بھانپ گیا اور اُس نے شرمندگی چھپانے کے لیے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ قریب ہی ایک مشہور ادارے کا چوکیدار ہے۔ ادارے کا نام سنتے ہی مَیں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سبز بتی روشن ہونے پر موٹرسائیکل آگے بڑھا دی۔
’’وہ جی دفتر سے میری سائیکل چوری ہو گئی تھی، اب روز لفٹ مانگتا ہوں ۔ ‘‘ میں نے گردن ہلکی سی گھما کر ایک نظر اُس پر ڈالنے کی کوشش کی اور دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے سوچا کہ دفتر سے چوری ہوئی تو دفتر والوں نے نئی کیوں نہیں لے کر دی؟
میرے لیے صبح اور شام کے وقت موٹرسائیکل چلانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ عجب افراتفری ہوتی ہے کہ دل کے مریض کو ہر وقت دورے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور خیالی دنیا بسانے والا تو لازمی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے کے چکر میں رہتا ہے اور اسی دوڑ میں گر پڑتا ہے یا سیدھی راہ چلنے والے کو بھی گرا دیتا ہے۔ جن لوگوں کو پیدل چلنے کا سلیقہ نہیں ، وہ موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں چلا رہے ہیں تو ٹکریں کیوں نہ ہوں ؟ اور ٹکر مارنے والے کو اپنی غلطی کا عِلم نہیں ہوتا اور دوسرے پر چڑھائی کر دیتا ہے۔ اس وقت بھی مَیں ڈرتے ڈرتے موٹرسائیکل چلا رہا تھا کہ میرے دائیں بائیں سے مشینیں شور مچاتی گزر رہی تھیں اور مَیں اِن میں سے وہ سائیکل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا جو میرے پیچھے بیٹھے چوکیدار کی چوری ہو گئی تھی۔ میری تلاش معلوم نہیں کب تک جاری رہتی کہ اُس کی آواز سنائی دی۔
’’وہ جی !جس طرح آپ نے دیکھا، میں سمجھ گیا تھا۔ ‘‘
’’حالات بڑے خراب ہیں ۔ میں کسی کو لفٹ نہیں دیتا۔ اعتماد کرنا مشکل ہے۔ ‘‘
’’ہاں جی۔ پَر اعتماد تو کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘میں نے موٹرسائیکل کنارے کر کے روک دی اور حیرانی سے چوکیدار کو دیکھاجس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں اچانک رُکنے کا سبب پوچھ رہی تھیں لیکن میرے پاس جواب نہ تھا بلکہ سوال ہی سوال تھے۔ کیا واقعی اعتماد کیے بغیر گزارا ممکن نہیں ؟ اعتماد کی سیڑھی نہ ہوتی تو انسان کی پیڑھی آگے کیسے بڑھتی اور ہزاروں سال کا سفر کسی لفٹ کے بغیر کیسے طے ہو پاتا ؟ میں چوکیدار کو چند کلومیٹر کی لفٹ دینے کے لیے مخمصہ کا شکار تھا تو کیوں ؟ میں ذمہ دار ہوں یا حالات اتنے خراب کر دیے گئے ہیں کہ اپنے جیسوں پر اعتماد کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ خوف آتا ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال کی بجائے خود پانی میں نہ گر جاؤں ۔ نہیں جانتا، کسی نے کیوں کہا تھا کہ انسانوں پر اعتماد کرو مگر آنکھیں بھی کھلی رکھو۔
چوکیدار نے مجھے یوں سڑک کے کنارے موٹرسائیکل روکے سوچتا دیکھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا، ’’سر جی! آگے نہیں جانا؟‘‘ تو میں نے موٹرسائیکل دوبارہ آگے بڑھا دی۔ خبر نہیں آگے جا رہا تھا کہ پیچھے … کہیں جا بھی رہا تھا یا وہیں اگلے چوک میں جامد تھا جہاں چوکیدار اپنی راہ ہولیا تھا۔