جنت بدر ۔۔۔ احمد داود
جنت بدر
( احمد داود )
” میں چھپ کر دیکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم عشق کرو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے میرا منہ میٹھے سے بھر دیا اور کپڑوں پر عطر چھڑک کر خود ستون کی اوٹ میں چلا گیا۔ جس طرح تھوڑی دیر قبل چاند دیوار کی آڑ میں جا کر ہماری خاطر تاریکی پھیلا گیا تھا۔ اس محفوظ تاریکی تلے ، یخ گھاس پہ ہمارے جسم موسم سے بے نیاز اپنی اپنی نیاز بانٹنے کو تیار تھے۔
ہم محفوظ اندھیرے میں بیٹھے جوان جسموں والی مخلوق، ست برگے کے پھولوں کی باس میں گم، ان حیران آنکھوں کی آرزو سے بے خبر تھےجو ستون کی پرلی طرف ہمیں دیکھ رہی تھی۔ دو چور آنکھیں جو لوگوں کو عشق کرتے دیکھتی ہیں ہمارے سروں پہ سایہ کئے ہوئے تھیں۔ کبھی کبھار ہم اونچی آواز میں بولنے لگتے تو میں اس کی پریشانی کا احساس کر کے اداس ہو جاتا۔ وہ بوڑھا شخص ، جس کا بچپن یتیم خانوں کے دریچوں اور مسجد کے حجروں سے ہوتا ہوا رہن رکھی جوانی کے آنگن میں جھلس گیا تھا۔ اپنی بھو ک کا کشکول لیے راتوں کو گلیوں میں گھوما کرتا تھا۔ بند دروازوں کے اندر چرچراتی مسہریوں بولتی شکنوں اور اقرار و انکار کے لمحوں میں گھلے جسموں کو اپنے شفیق سائے کا تحفط دیتا۔
چوکیداروں کی آہٹ سن کر وہ کتے کی طرح دہرا ہو جاتا اور کتے کے بھونکنے پہ وہ بلی بن کر پرنالے پر چڑھ جاتا اور یوں ایک طویل عرصے تک وہ گشت کرنے والے بے رحم لوگوں سے محفوظ رہا۔ ۔۔۔۔ مگر کب تک ۔۔۔۔۔ ایک دن یا ایک رات کہ دن اور رات اس کے جسموں کے انمول ملاپ کی آندھی میں ڈھل چکے تھے۔ ۔۔۔۔ وہ پکڑا گیا ۔۔۔۔۔۔ تب گشت کرنے والوں نے اس کے نورانی چہرے پہ کالک مل دی یہ دیکھے اور جانے بغیر کہ اسکے رفیق سائے کی پناہ میں لوگ بدن کا وظیفہ کرتے ہیں۔ اور اب وہ رسوائی کی پوشاک اوڑھے شہروں سے دور قدیم محلوں کے کھنڈرات باغوں کے گنجان کنجوں اور پہاڑوں کی کھوہ میں لوگوں کو مٹھائی ، کھلونے، عطر، تعویذ اور دعایئں دیتا ہے اور کہتا ہے
” تم عشق کرو اور میں تمہیں دیکھوں گا “
” کوئی ہمیں دیکھ نہ لے؟ ” اس نے میرے پہلو میں پڑے پڑے اپنے بالوں میں چہرہ چھپاتے ہوئے کہا
” دیکھنے والی آنکھیں رہن رکھی جا چکی ہیں۔”
میں نے اسکا چہرہ بالوں کی بدلی سے نکال کر ہتھیلیوں کی محراب میں سجا لیا
” کوئی ہماری باتیں سن نہ لے۔ “
” سننے والے کان ۔۔۔۔۔۔ “
میں نے اپنے لبوں سے اسکے کان کی لو کو حدت بخشی
” چھوڑو، ہٹو، تمہیں تو عشق کرنا بھی نہیں آتا۔ “
” عشق ۔۔۔۔۔۔ کیسے کیا جاتا ہے ؟ “
میں نے اس کے بدن کو دور ہوتی چاندنی کے روبرو کھڑا کر دیا۔ “
” یوں ۔۔۔۔۔۔ اسطرح ۔۔۔۔”
اس نے اپنے لبوں سے میری زبان کو سہارا دیا۔ نوکیلی بھیگی زبان جو سانپ کے منہ سے نکل کر میرے تالو میں آ جڑی تھی ۔۔۔ سرسرانے لگی ۔۔۔۔ لہرانے لگی ۔۔۔۔۔ اسکے چمکیلے کٹیلے دانتوں تلے میری زبان نے لذت کے ان گنت پھول کھلتے محسوس ہوئے۔
” اس طرح “
سینے کے سنگ مر مر بے نام سروں کا نغمہ الاپنے لگے۔ ان کہی داستانوں کو عیاں کرتے ہم دونوں ۔۔۔۔ سکون کی پرلی طرف چور مہربان آنکھوں کی سسکیوں سے بے خبر وقت کو چٹکیوں میں مسلتے رہے۔
ستارے بہت نیچے آ چکے تھے ۔ درختوں کے آلنوں میں پرندے پروں کی گرمائش اوڑھے حیرت کی مہیں آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ اور جب تھوڑی دیر بعد میں نے یکسانیت سے اکتا کر پہلو بدلا تو وہ بولی
” تمہیں تو پیار کرنا بھی نہیں آتا۔ پتہ ہے عشق کیا ہے ؟”
” کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے ؟ “
” عشق ” اسنے بازو کھول کر ہوا کا راستہ کاٹا۔
” عشق کی دید آدمی کو مار دیتی ہے ۔۔۔۔ ہر ایک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا”
” اچھا۔ “
” ہاں ۔” اسکے پھیلے بازووں نے ستاروں کو آغوش میں بھرا اور پھر میرے گلے کا ہار بنا کر اپنے سینے کے چاند کو میرے ہونٹوں کے افق پر طلوع کیا تب ہم لپک کر چاند کی زمین پر اتر گئے۔ پرانے کھنڈرات، باغوں کی روش، محل کی ٹوٹی محرابیں اور ستون کی اوٹ میں روتا بوڑھا، ہر شئے اپنی محرومی کا راگ الاپ رہی تھی۔
” سنا ہے چاند پر چرخہ کاتنے والی ایک بڑھیا ہوتی ہے۔ “
” ہاں۔ “
” اس کا بوڑھا کہاں گیا ؟ “
” زمین پر آ گرا ہے۔ اس سے جدا ہو گیا ہے۔ “
” اس کا گذر کیسے ہوتا ہے ؟ “
” بڑھیا کا گذر کیسے ہوتا ہے ؟ “
” ہٹو۔ پرے ہٹو۔ تمہیں تو پیار کرنا نہیں آتا۔ “
” پیار کرنا تو بڑھیا کو بھی نہیں آتا تھا۔ “
” میں تمہیں سکھاوں ؟ “
تب ہم دونوں پھر
اچانک ہمارے قریب ، ستون کی اوٹ میں، کسی نے ہچکی بھری اور خامشی مزید گہری ہو گئی۔
” کون ہو سکتا ہے ؟” اس نے ہولے سے کہا۔
ہم دونوں لپک کر ادھر کو گئے۔
ہماری نظروں کے سامنے ستوں سے ٹیک لگائے چاند کا بوڑھا رخصت ہو رہا تھا۔
” یہ ۔۔۔ یہ تو مر رہا ے ” میرے لبوں سے نکلا۔
” یہ ہمیں دیکھتا رہا ہے ” وہ بولی،” یہ تاب نہیں لا سکا ناں۔ اس لیے یہ مر گیا ہے۔ عشق کی دید آدمی کو مار دیتی ہے ۔۔۔۔۔مگر آو۔۔۔چھوڑو ۔ تمہیں عشق کرنا سکھاوں۔ تمہیں تو ہر چیز سکھانی پڑتی ہے۔”
پارکوں کے تاریک کونوں، اجڑے ہوئے باغوں، محلوں کے کھنڈروں اندر، قدیم شہر کی بوسیدہ گلیوں میں ۔۔۔۔۔۔ جہاں کہیں ہمیں کوئی تنہا بوڑھا ملتا ہے ہم اسکی ہر ضرورت پوری کرنے میں منت کرتے ہیں اور کہتے ہیں
” ہم عشق کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور تم ہمیں دیکھت رہنا۔ “
دراصل ہم جنت سے نکال دئیے گئے ہیں۔