مکھی ۔۔۔ احمد ہمیش

مکھی

احمد ہمیش

( خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز ( مثلا مکھی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے،

میرا قد بہادر شاہ ظفر کے زوال سے ایک صدی چھوٹا ہے اور 19 سال سے میرے سر میں ہندوستان کے ایک چنڈال کے پاوں گڑے ہوئے ہیں۔ میں اس کا محکوم ہوں کیونکہ وہ جہاں چاہے میرا سر جھکا دیتا ہے۔ سر جھکتا ہے تو آنکھیں بھی جھک جاتی ہیں۔ اس عرصہ میں جب کہ ہندوستان میں روایتی بھوک جہالت، پستی، بد بختی اور تاریکی کے سطری اور غیر سطری منظر بھی مسخ ہو چکے ہیں تو ایک ہی منظر باقی رہ جاتا ہے۔ جہاں چنڈال میرے گاوں سے دو میل دور ایک بازار کی دو رویہ دھول خور تختوں سے جڑی ہوئی دکانوں سے گزر رہا ہے۔ اس کے دایئں ہاتھ میں ایک کوزہ ہے جس کے منہ پر اس نے ایک سرخ کپڑا لپیٹ رکھا ہے۔ ابھی میں نہیں بتاوں گا کہ کوزے میں کیا ہے، کیونکہ چنڈال کے پاوں کا بوجھ میرے سر کو اس قدر جھکائے ہوئے ہے کہ میری بصارت اور بازار کی سڑک کے درمیان محض ایک اندیشہ رہ جاتا ہے یا جب دکانوں کے دھول خور تختوں کے علاوہ تمام اشیا اور وجود بھی دھول خور معلوم ہونے لگتے ہیں۔ چنڈال کا چہرہ بھی مجھے صاف سنائی نہیں دیتا۔ اسی لئے مجھے پنج سالہ منصوبے کے بارے میں نہ کچھ معلوم ہے اور نہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی ہے کیونکہ مجھے سڑک پر محض دھول خور کھمبے، دھوتی، کرتے اور پاجامے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی تک قصبے میں بجلی نہیں آئی ہے۔ لیکن چنڈال کے ہاتھ میں کوزہ اور کوزے کے منہ پر لپٹا ہوا کپڑا محض اس لئے دکھائی دے رہا ہے کہ غالبا مجھے دن کی  روشنی کا گمان ہوا۔

چنڈال ہر دکان پر باری باری کچھ دیر رکتا ہے۔ جن دکانوں کے لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں وہ اس کے دایئں ہاتھ میں کوزہ دیکھتے ہی میکانکی طور پر منہ پھیر لیتے ہیں اور اس کے ہاتھ میں ہنوستاں کے لئے سکے ڈال دیتے ہیں۔ جن دکانوں کے لوگ چنڈال اور اس کے کوزے سے واقف نہیں وہاں وہ جان بوجھ  کر دیر تک رکتا ہے اور میرے کسی تبصرے سے قبل ہی کوزے سے سرخ کپڑا اٹھا لیتا ہے۔ کوزے میں کئی دنوں کے سڑے ہوئے بلغم اور پیپ کا آمیزہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو ایک لمحے کے لیے ان کے حلق میں ڈال دیتا ہے۔ چنڈال مزید سکے ملنے تک بایئں ہاتھ کی انگلی کوزے میں ڈالتا ہے اور اس سے وہ بلغم اور پیپ کے آمیزے کو چاٹنے لگتا ہے۔ ناواقف لوگ فورا ہی جو کچھ دیکھتے ہیں ، وہاں اتنی مہلت بھی نہیں ملتی کہ وہ چنڈال کے ہاتھ میں سکے پھینکتے ہی اسے دوبارہ دیکھ سکیں۔کیونکہ وہ سکے فورا حاصل کرتا ہے فورا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے گویا اس کے سوا واقف اور ناواقف وجود سبھی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ اس حد تک کہ اب کوئی بھی مجھے منظر کی تشبیہی بھیک نہیں دیتا۔ میری جیب میں سکے بہت کم ہیں۔ اس کے برعکس مجھے اطلاع ملی ہے کہ مجھے دور جانا ہے۔ اس کا مطلب فی الحال مرنا نہیں بلکہ میری مستقل محکومی ہے۔ کیونکہ چنڈال بہت آگے بڑھ چکا ہے ۔ اس کے پاس سکے زیادہ ہیں اور اسی تناسب سے میرے جسم میں خون بہت کم ہے۔ لیکن وہ میرے سر میں پاوں سے برابر ٹھوکریں لگاتا رہتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ 19 سال قبل میں ٹائفائڈ میں مبتلا ہوا تھا۔ اس وقت کا میرا نانی ہال، کچی دیواروں اور کھپریلوں سے بنے ہوئے مکان کے ایک کونے میں چارپائی پر پڑا پڑا دو مہینوں سے بخار میں بھن رہا ہوں۔ میری نانی مجھے ایلومینیم کے پیالے میں دودھ اور ساگودانہ کی پرہیزی غذا دیتی ہے۔ میرا باپ جس کا دایاں پاوں کلہاڑے سے کٹ گیا ہے، انگوٹھے کی طرف سے جب بھی پٹی ہٹائی جاتی ہے تو کٹے ہوئے گوشت پر میری نگاہ پڑتی ہے۔ مجھے دودھ اور ساگودانہ کی پرہیزی غذا سے اکتاہٹ ہوتی ہے۔ گھر میں گوشت پکتا ہے مگر نانی ایک بوٹی بھی کھانے کو نہیں دیتی۔ میری زبان کی نوک تلے تھوک ااگرچہ بخار کی جلن سے کڑوا ہو گیا ہے لیکن بصارت پر گوشت کا رنگ غالب ہے۔ میرے سامنے ایک کھلا دروازہ ہے اور دروازے کے پیچھے ایک طویل کمرے میں نیم اندھیرا ایک دلدل ہے۔ اگر دلدل نہیں تو کم از کم دھواں زدہ اندھیرے میں چارپائی پر پڑی میری ماں دروازے سے تڑپتی چیختی ہے۔ اندھیرے کو چارپائی کے سرہانے جلتے ایک مٹی کے دئے کی لو دھویئں میں تقسیم کرتی ہے۔ لو سے کالا گُل جھڑ جھڑ کر اندھیرے میں گر رہا ہے اور دھویئں میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ماں کے ضرورت سے زیاد پھولے پیٹ پر بھی کالا گُل جھڑ جھڑ کر گر رہا ہے۔ کبھی کبھار چمارن دائی کے ہاتھ لہراتے ہیں اور میری ماں کے قریب بیٹھی ہوئی محلہ کی عورتیں اس کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔

تین دن کی مسلسل چیخ و پکار کے بعد چوتھی رات کو میری ماں اتنے زور سے چلائی کہ اس کی چیخ ایک پست زمین پر چھائے ہوئے آسمان تک سنی گئی۔ ضلع بورڈ کا اسپتال میری نانی ہال سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے وہاں کوئی زچگی کا وارڈ نہین۔ ماں کی چیخ ذرا رکی تو چمارن دائی نے بتایا کہ اس کی چیخ کا سبب ایک سانپ تھا جو محدود آسمان سے زمین کے اس دھواں زدہ اندھیرے میں گرا جہاں اس کی چارپائی کا سرہانا تھا۔ سانپ کے گرنے کی آواز آئی، چمارن کے اچانک اشارے پر محلہ کی عورتیں ادھر ادھر ہٹ گیئں۔ آواز اور چیخ کے درمیان نانی نے فورا دیے کی لو تیز کردی۔ محلے کی عورتیں سانپ سانپ چلا رہی ہیں۔ میرے باپ کے پاوں کی پٹی کھل گئی ہے۔ وہ ڈاکٹر کے حساب سے اپنی جگہ سے اٹھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود معلوم نہیں کس طرح وہ لپک کر اٹھا اور ماں کی چارپائی کے پاس پہنچا۔ وہاں سانپ تڑپنے لگا۔ عورتوں نے میری ماں کی ٹانگوں پر کپڑا ڈال دیا۔ دیئے کی لو بجھ گئی۔ دوسری بار جب نائی دیئے کی لو جلاتی ہے تو ماں چپ ہو جاتی ہے۔ میرا بخار اتر رہا ہے اور میں پایئنتی کھڑا ہوں۔ ماں کی ٹانگوں پر پڑا کپڑا سرخ ہو گیا ہے۔ میرا باپ لڑکھڑاتے ہوئے باہر نکل رہا ہے۔ مردہ سانپ دلدل میں دھنس گیا ہے لیکن جب چمارن دائی نے ماں کی ٹانگوں کے اوپر سے سرخ کپڑے کو ہٹایا تو میں نے دو زندہ سنپولوں کو اُس کے پیٹ پر سے لڑھکتے دیکھا دائی نے انہیں ماں کی بغلوں میں رکھ دیا ہے ۔ وہ آدمیوں کے بچوں کی طرح رو رہے ہیں حمارن دائی ایک بھدی چیز سے ان سنپولوں کی ناف سے جڑی ہوئی سرخی مائل دو دھیا ملگجی رسیوں کو کاٹ دیتی ہے ۔ کاٹتے ہی رستوں کے رنگ سرخ ہو جاتے ہیں ، اس حد تک کہ وہ سرخی میری آنکھوں پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ میں نے کہا نا ۔ میری نانی مجھے ایک بوٹی بھی کھانے کو نہیں دیتی۔ میں بڑے دھیان سے کٹی ہوئی سرخ رسیوں کو دیکھتا ہوں۔ میں ان کی طرف سے آنکھیں ہٹاتا ہوں تو اچانک مجھے ماں کی آنکھیں دکھائی دیتی ہیں۔ ماں کی آنکھوں میں کچھ دیر جمی ہوئی سیاہ پتلیاں اب سرے سے غائب ہو چکی ہیںاور ان میں چاروں طرف دودھیا سفیدی پھیل رہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ پھیل پھیل کر ماں کے چہرے پر اترنے لگے ہیں چہرے سے گردن تک آگئی ۔ چھاتیوں سے ٹانگوں تک پہلے ہی سے ایک سفید چادر پڑی ہوئی ہے لہذا اسفیدی گردن سے اتر کر ماں کی چار پائی پر ڈھلک گئی۔ اس نے بغلوں میں پڑے ہوئے سنپولوں کو سفید کر دیا۔ ایک منی کی پرنی میں رکھے نو مہینوں کے سیاہی مائل جسے ہوئے ٹکڑوں پر بھی سفیدی پھیل گئی ہے اب مجھے یہ منظر دیکھنے کی ضرورت نہیں ، ضرورت جب پائیدار نہیں تھی تو کسی کی موت ، خدا کی مرضی ہو گی۔ اب احساس کا مسئلہ یوں حل ہو گیا ہے کہ موت ضرورت سے قبل ہی پائیدار بن کر آتی ہے ۔ محض موت ہی باخبر ہے۔ اگر موت یہ کہے کہ وہ ہندوستان کا سیاسی نظام ہے تو خدا کو اپنے محدود اختیارات پر حیرت ہو سکتی ہے ۔19 سال کے بورڈم کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا کی مرضی اتنی طویل ہو سکتی ہے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ 19 سال سے اب تک چنڈال ہی مسلسل ہے ۔ بھلا یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اسے کسی نے گولی ماری تھی یا اس کا ہارٹ فیل ہو گیا تھا بلکہ وہ تو خدا سے ماورا آج تک دائیں ہاتھ میں سرخ کپڑے سے ڈھکا ہوا کو زہ لئے پھر رہا ہے ۔ دیو مالا میں کوئی دیوتا بھکاریوں سے بور نہیں ہوتا بلکہ انہیں بھیک مانگنے کے انوکھے ڈھنگ بتاتا ہے ۔ خود سری تو محض راکشسوں میں ہے ۔ میں اکثر خدا کو راکشوں کو چلاتے دیکھتا ہوں۔ وہ ہندوستانی سنگیت سے واقف نہیں ۔ وہ ہاتھ جوڑ کر التجا نہیں کر سکتے اور غالباً اسی لئے انہوں نے ایئر انڈیا” کے ٹریڈ مارک کو دھیان سے دیکھا نہیں ۔ سرخ پگڑی ، مونچھ کے ساتھ استقبالیہ مسکراہٹ، چھاتی پر ہاتھ رکھے ایک طرف کو ترچھا اور آگے جھکا ہوا ۔ تاکہ باہر سے آنے والے ہر مہمان یا سیاح کو یہ خوش فہمی رہے کہ ایک پرانے مفعول ملک کا ٹریڈ مارک بھی صرف اسی کے لئے مفعول بنا ہوا ہے اور وہ جو مفعول نہیں ہے وہ سرے سے کسی کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔

اب چوک میں دائیں طرف کے مصروف فٹ پاتھ پر جو بالکل ننگا شخص گزرتی ہوئی

عورتوں کو دیکھ کر منہ بناتا، ایک ہاتھ میں کہیں سے برف کی ڈلی آگئی ہے ۔ ناک سے

ہتے گاڑھے کیچڑ اور گاڑھی چکٹ داڑھی کے درمیان اُسے چاٹتا ہے ۔ دوسرے ہاتھ سے مسکرا مسکرا کر گاڑھ بالوں میں دور تک ڈھکے ہوئے محور کو مسلنے لگتا ہے۔ پائخانے اور کولتار کا ملا جلا گاڑھا لیپ اس کے پیٹ ، چوتڑ ، اور کمر سے ہو کر محور تک چلا گیا ہے ۔ کبھی کبھی وہ ایک ہاتھ سے برف کی ڈلی بالوں سے ڈھکے محور پر ملتا ہے اور پھر اسے زبان سے چاٹنے لگتا ہے ۔ پاس سے گزرنے والی عورتیں منہ پر رومال رکھنے یا بے خبر دکھائی دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسروں کی طرح میں بھی آگے بڑھ جاتا ہوں ۔ بس غنیمت یہ ہے کہ دوسروں کی طرح میں اسے پاگل نہیں کہنا چاہتا ، مجھے بھوک اور پیاس سے گزرنا ہے ۔ اگر وہ تنگا شخص مجھے تسلیم کرلے تو کم از کم اپنی برف کی ڈلی مجھے ضرور دے سکتا ہے اور میں انکار نہیں کروں گا۔ ناک کا کیچڑ، پائخانے اور کولتار کالیپ برف کی ڈلی پر تو نہیں ٹھہر پاتا ۔ برف کی چمک اور سفیدی بہر حال باقی رہے گی ۔ مگر اصرار کے باوجود بھی وہ مجھے برف کی ڈلی نہیں دیتا۔ مجھے تسلیم نہیں کرتا ۔ یہی اب غنیمت ہے کہ وہ مجھے گالی نہیں دیتا ورنہ کبھی کبھی تو میں نے اسے بڑے اونچے موڈ میں دیکھا ہے ۔ کبھی جب راہ گیر اسے پیسے نہیں دیتے تو کہیں سے مختلف رنگ کے چاک اٹھا لاتا ہے اور فٹ پاتھ کی کسی خالی جگہ پر ملک کے تمام اعلیٰ حکام اور وزیروں کے نام لے لے کر ان کی ماؤں اور بیویوں کی ایک مشترکہ کشش ثقل بناتا ہے۔ رنگین چاک سے کشش 6 ثقل کے ہر ایک حصہ کو رنگ دیتا ہے ۔ اس دوران جب راہ گیرا اسے منع کرتے ہیں تو ہرا انہیں چاک کھینچ کر مارتا ہے اور کشش ثقل پر اکڑوں بیٹھ کر مشت زنی کرتا ہے ۔ کئی بار پولیس نے اُسے پاگل خانہ میں بند کیا۔ لیکن سپہ نہیں کیسے وہ وہاں سے بھاگ کر آجاتا ہے ظاہر ہے انتاجی دار شخص کسی کو تسلیم نہیں کر سکتا پھر ایک ہی شخص نے مجھے تسلیم کیا ۔ ایک حکومت سے زیادہ ایڈ وغیرہ پانے والے اخبار کا چیف ایڈیٹر ۔ میں اس سے ملنے گیا ۔ وہ ملا اور تعارف کے فوراً بعد اس نے میرے لئے کو کو کولا منگوایا ۔ کو کو کولا کا رنگ مجھے ایک پل کو اتنا اچھا لگا کہ میں اپنے پیٹ کے خالی ہونے کی بات بھول گیا ۔ ٹھنڈا کو کو کولا میرے خالی معدے میں اُترنے لگا اور میری آنکھوں میں اس حد تک روشنی آگئی کہ اس عرصہ میں مجھے چیف ایڈیٹر کا ایڈیٹوریل لکھنے میں منہمک ہونا بہت پسند آیا ۔ ایڈیٹوریل لکھتے ہوئے مجھے اس کی خوبی کا دل ہی دل میں معترف ہونا پڑا کہ وہ سگریٹ کے کش کے ساتھ بڑے توازن سے کرسی کے ایک طرف فرش پر تھوکتا اور پھر لکھنے لگتا۔ میں تھوکنے کا ڈھنگ نہیں جانتا کیونکہ میرے ہونٹوں میں توازن نہیں ہے ۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور میرا جی چاہا کہ اس سے استدعا کروں کہ وہ برائے کرم بجائے فرش پر تھوکنے کے میرے منہ میں تھوکے ۔ میں اگالدان کی طرح اپنا منہ اس کے متوازن ہونٹوں کے نیچے رکھ دوں اور وہ اس پر راضی ہو جائے کہ میرا منہ سدا اس کے ہونٹوں کے نیچے رہے تاکہ میرا منہ ہر روز اس کے قیمتی تھوک سے بھر جایا کرے ۔ لیکن یہ خواہش بھی دل ہی دل میں رہ گئی ۔ غالباً اس کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ میری آنتوں میں اکثر ہوا چلتی رہتی ہے اور اسی لئے مجھے معلوم نہیں کہ میرے جسم کے باہر بھی ہوا چلتی ہے۔ یوں میں انتہا پسند ہو جاتا ہوں ۔ مجہول نقطوں کی کوریں اوجھل ہونے لگتی ہیں اور ایک آدمی کے احساس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہوا کہیں نہیں چلتی ۔ ایک آدمی اگر میں ہوں تو اس ” میں ” کی بار بار دہرائی ہوئی مجہول آدمیت سے میں تنگ آگیا ہوں ۔ کیونکہ اجتمائی ماورائیت اپنے عکس کا مطلب نہیں سمجھاتی۔میں آج تک اس بنگالی بوڑھے کی لاش کا مطلب نہیں سمجھ سکا جو ایک بار مشرقی پاکستان میں بھیانک سائیکلوں کی زد میں آئی ہوئی اجتماعیت کی لاشوں کے ساتھ گڑھے میں پڑی تھی اور اس کے ہاتھ دعا مانگتے ہوئے آسمان کی سمت اٹھے ہوئے تھے اور تب سے میں دعا مانگنے کا ڈھنگ بھول گیا ہوں۔ کیونکہ میری عادت زمین ہے اور میرا سر اس کی سمت جھکا ہوا ہے بلکہ بتدریج جھکا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ زمین جھکی جارہی ہے۔ ایسے میں آسمان کی سمت ہاتھ نہیں اٹھا سکتا لیکن میرے ہاتھ مجھ سے بھی زیادہ جھکی ہوئی زمین کو بھی تو نہیں چھو سکتے پھر میرا سر کس زاویئے پر ہے۔ شاید میں اپنے ہی مرتب کئے ہوئے کسی کھڑ میں پڑا ہوں۔ اور جب تک کوئی طبعی عمل مجھے دوسرے کھڈ میں نہ منتقل کرے مجھے اول کھڈ میں پڑا رہنا ہے، میرے لئے زمین پر دو ہی شکلیں ہیں۔ میدان اور کھڈ۔ میدان میں دوسرے رہتے ہیں اور کھڈ میں میں ہوں، میرا میدان سے کوئی واسطہ نہیں اور کھڈ تو میدان کا ہی ایک کیمیائی ڈھانچہ ہے۔ میں اکثر ہر کھڈا اور میدان کے درمیان نسبت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میدان میری آنکھوں کے ایک خفیف سے جھکاؤ میں دکھائی دیتے ہیں اور جس درجہ پر میری آنکھیں جھکتے ہوئے وقفہ دیتی ہیں، وہاں کھڑ ہوتے ہیں۔ اس طرح سے دوسرے کھڈ میں گرتے ہوئے دوسرے کھڈ کی موجودگی مطلق ہوتی ہے۔ اور اول کھڈ میدان کی جگہ لے لیتا ہے، فرق محض صرف اتنا سا ہے کہ دوسرے کھڈ کی اشیاء وجود، سڑکیں، ہجوم اور شور کی بس پر چھائیاں رہ جاتی ہیں۔ لیکن کبھی نام اور پر چھائیاں تمام مسخ، اور میں ایک مسخ نقطہ پر اپنے علاوہ دوسروں کو بھی کھڈ میں کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوتا ہوں حالانکہ مجھے خوشی سے تالیاں بجانی چاہئیں لیکن میں اس دن بہت تھک گیا تھا۔

آصف علی روڈ کا نصف حصہ طے کرنے کے بعد میرے پھیپھڑوں میں نہیں ہونے۔ میں نے دیکھا کہ میں اور پیدل نہیں چل سکتا تھا دوسرے پل دیکھا کہ ایک تانگہ اجمیری گیٹ جا رہا ہے۔ تیسرے پل دیکھا کہ میں جلدی جلدی میں تانگے والے کو آواز دے کر روک رہا ہوں۔ سات سواریوں میں آٹھویں سواری کا اضافہ میں تھا۔ بلکہ تانگے والے کے مقدر میں سات سواریوں سے ملنے والے چودہ آنے میں مزید دو آنے کا اضافہ میں تھا، چوتھے پل دیکھا کہ گھوڑا سواریوں کے کسی غیر نسبتی بوجھ سے کہیں زیادہ مریل تھا۔ اس نے دیر سے لید خارج نہیں کی تھی۔ غالباً اسے سواریوں کے کسی بوجھ کا گمان نہ ہو گا اور جب تک وہ میری نگاہ میں زندہ رہا غالباً میں نے بھی اس جگہ کے بارے میں سوچا نہ ہو، جہاں اسے مرنا تھا۔ ممکن ہو اس نے پہلے خود کو تانگے والے کے مقدر سے خود کو علیحدہ کر لینے کا ارادہ کیا ہو یا وہ اس کی بابت اس قدر منطقی ہو چکا ہو، جس قدر اس کی متوقع موت! اس سے پہلے وہ بارش میں بھی خوب بھیگا ہوگا۔ یہ جانتے ہوئے کہ نئے ہندوستان میں گھوڑوں کو محفوظ رکھنے کے لئے روایتی اصطبل رواج میں نہیں رہے۔ محض ان کے نام سُنے جاتے ہیں۔ پہلے اصطبل کے زمانے کے تیز رفتار گھوڑوں کی لیڈ بڑے کام کی چیز تھی اسے گوالے خریدا کرتے اور اسے بھوسے میں ملا کر بھینسوں کو کھلاتے تھے گائیں تو بڑے شوق سے کھا لیتی ہیں۔ لیکن آج وہ لیڈ کی حیثیت ہی نہیں رہی اور پھر تانگے میں جوتے جانے والے گھوڑے کی لید کا کیا ٹھکانا! جہاں کی تہاں بیکار پڑی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مطلق نسیان کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اس کے کھروں سے ٹاپ کی آواز بالکل نہیں ابھرتی بلکہ کچھ ایسی آواز جو کبھی کیچڑ آلو درے کے خشک ہو جانے پر اس سے کسی چیز کو باندھ کر گھسیٹتے ہوئے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی اسے دیر تک نہیں سن سکتا۔ کیونکہ سننے والے کو یہ آواز ایک لمحہ کو یوں باور کراتی ہے گویا کیچڑ آلو درسے کے ریشے اس کے دانت میں پھنس گئے ہوں۔ پھر اس کے ساتھ ہی جو اس میں ایک چبھتی سی کھڑکھڑاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ جو اس کی تو کوئی سطح ہے نہیں، جس کے اندر ہی لیکن چکراتے ہوئے خون کے ساتھ ایک ہالہ بنتا ہے۔ موت کی تسخیر کرو۔ ظاہر ہے یہ جرات کسی ناپسندیدگی کے نتیجہ میں تخاطب اور حکم کے ما بین حواس میں شامل ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی وقت گھوڑا سڑک کے کنارے ایک موتری کے پاس رک جاتا ہے۔ سواریاں تانگے والے سے احتجاج کرتی ہیں کہ وہ جلد جلدی تانگا بڑھائے ورنہ اسے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔ اتفاق سے میں اس احتجاج میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ موتری میں پیشاب کر رہے ہیں۔

موتری جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ نالی میں جو پیشاب بہہ رہا ہے یا حاشیوں تک چڑھا آتا ہے ایک محدود سطری منظر ہے، پر شو رام، پر روز کتنی بار پیشاب کی دھار پڑتی ہے مگر بدستور پڑے ہوئے ہاں پیشاب کرنے والوں کے جوتوں کے تلوے آدھے آدھے ڈوب جاتے ہیں یہ لا محدود غیر سطری منظر ہے، کیوں کہ ٹوٹی ہوئی جگہوں پر جہاں سیمنٹ علیحدہ ہو گئی ہے وہاں بیچ بیچ میں گڑھے پڑگئے ہیں۔ نالی کا پیشاب حاشیوں سے اُتر کر گڑھوں میں آرہا ہے۔ گڑھوں کے آس پاس چھپ کر کئے گئے پاکخانوں کے باسی قلعے سے بن گئے ہیں ان میں کہیں کہیں پیشاب کی دھار لگنے سے شگاف پڑ گئے ہیں اور قلعہ کی کتھئی پر تیں چھوٹ چھوٹ کر گڑھوں میں گر گئی ہیں، کچھ لوگ پیشاب کر کے جاچکے ہیں۔ ایک لڑکا جس کے چہرے پر سڑک کی دھوپ سے منعکس موتری کی دیوار کا عکس پڑ رہا ہے، وہ ابھی تک پیشاب کئے جا رہا ہے۔ اتنی دیر کیوں؟ کیا اس کا مثانہ کمزور ہے؟ ضرور ہو گا۔ لیکن اس سے بھلا مجھے کیا مطلب ہے مجھے تو بہت دور جانا ہے۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ راجد حانی کا سرخ قلعہ اول کھڈ کی جگہ لے چکا ہے۔ اس کی بلندی اور سرخی مجھے معکوس دکھائی دے رہی ہے۔ لڑکا جوں ہی پیشاب کرنے کے بعد موتری کی نالی سے نیچے اُترا۔ اُس کے پاؤں لڑکھڑائے دائیں پاؤں سے پائخانے کے ایک کتھئی قلعہ کو ٹھوکر لگی۔ قلعہ ٹوٹ گیا اور بائیں پاؤں سمیت وہ دوسرے کھڑ میں گر گیا۔ تانگے والے نے گھوڑے کے چوتڑوں پر زور سے چابک لگائے معلوم نہیں وہ کسی طرح چلنے لگا۔ اس کی رفتار میں کسی معمولی نسل کے بیل سے بھی زیادہ سستی آگئی تھی۔ لہذا وہ اپنے غیر نسبتی بوجھ سمیت کانگریس کمیٹی کے دفتر کے قریب پہنچتے پہنچتے پگھلتی کولتاری سطح پر تپھسل گیا۔ اس کی دم پگھلتی کو ستار میں لتھر گئی، اس کی آنکھوں میں بہت پہلے ہی مسلسل دہرائی ہوئی رحم طلبی مسخ ہو چکی تھی۔ ہاں دم توڑتے ہوئے اس نے تازہ سبزلید خارج کی۔ میری زبان کی نوک میرے دانت سے چھل گئی تھی۔ اپنا خون چکھنے کے بعد مجھے شاید بولنے کی تاب نہیں رہ گئی تھی۔ پھر بھی میرے منہ سے ایک لفظ خارج ہوا “مقدر” میری خالی آنتوں میں چلنے والی ہوا نے اس لفظ کو سنا۔ میری آنکھوں نے اس لفظ کو دیکھا۔ لید باریک باریک ریشوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان کی تقدیر ٹھوس نہیں تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ میں اپنے پاؤں کے بل وہاں کھڑا تھا۔ اس وقت جب کہ زمین کا مجور تلوؤں کے نیچے، ہوتا ہے، اور آنکھیں آ! افق کو چھونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس عرصہ میں زمین نے اپنی سطح پر بددلی سے پھیلے ہوئے براعظم، چھوٹے چھوٹے جزیروں کا بوجھ اٹھائے ان گنت چکر لگائے ہوں گے۔ اشیاء وجود، نجوم اور شور…. ان سب کے درمیان میرے خود سر متعلقین اور دوست، کتھئی پائخانے کے اجاڑ قلعے، حیض کے چھیتیروں، اخباروں اور رسالوں کے پھٹے ہوئے تمام اوراق سبھی گھومتی زمین کی سطح کے ساتھ گھوم رہے ہوں گے۔ سبھی کیمیائی تبدیلیوں کا معاہدہ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ معاہدہ کب توڑا جاتا ہے؟ میں کسی کیمیائی تبدیلی کا معاہدہ ہوں، یہ مجھے کوئی نہیں بتلاتا۔

 میری آنت میں ایک معاہدہ ہوا کی گھٹن سے ٹوٹ گیا۔ ارضی سفیدی نے اُسے ایک نمایاں منظر میں ڈھالنا شروع کیا۔ میں اپنے بارش میں بھیگے ہوئے سر کو نہیں پونچھ سکا۔ بند چوکھٹا اچانک رک گیا۔ اس کا اس طرح رکنا اسکے بھاگنے سے کہیں زیادہ عجیب ہوگا۔ اس وقت جب کہ ٹھیک اس کے ساتھ ہی میری آنتوں میں چلتی ہوئی ہوا ٹرک گئی ہو۔ تو کیا ہوا رک گئی تھی؟ میں نے ذہن پر زور ڈالا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنی آنت میں جس معاہدہ کو ٹوٹتے دیکھا تھا، اس کے ان گنت ٹکڑے کچھ دیر چوکھٹے کی جالی کے باہر دکھائی دیئے۔ باہر بارش کا پانی تھا، جس میں تمام ٹکڑے ماند پڑنے لگے یہاں تک کہ دھیرے دھیرے سیاہ جھلیوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان کے درمیان گھرا پڑا رہا ہوں گا۔ اچانک میرے نتھنوں میں پیشاب کی تیز بو گھس گئی تھی۔ دماغ تک ایک تیزابی کمان کھنچ گئی۔ میرا سر کسی چیز سے ڈھلک گیا۔ اس گھڑی میں نے معلوم نہیں کیوں چاہا کہ اسی حالت میں پڑا رہوں لیکن اس کی مہلت نہیں ملی۔ دوبارہ میری ناک پر گیلا گیلا تیز جھکتا ہوا دباؤ پڑا، میری پیٹھ ضرور کسی سطح پر ہوگی، کیوں کہ وہ اپنے تلے دھنتی ہی جارہی تھی، میں نے پاؤں پھٹنے شروع کئے تو پائنتی کی طرف میرے گھٹنوں پر

ٹھوس دباؤ پڑا۔ اس طرح دباؤ سر سے پاؤں تک حاوی ہو گیا۔ “نام بتاؤ” لہجہ سے پتھر تک ایک انفعالی آکاش بانی۔ میں اپنا نام کیوں بتاؤں؟ شاید میں نے خود سے پوچھا۔ اس وقت جب میری زبان لڑکھڑا رہی ہو گی۔ مگر مجھے یقین دلایا گیا کہ میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ تو کیا میں اُسے مان لوں؟ اگر میں نے اسے مان ہی لیا ہو تو میری آنتوں کے باہر نکل کر پانی میں ماند پڑ جانے والے وہ ٹکڑے کہاں چلے گئے؟ سو یہ پتہ چلا کہ وہ آکاش بانی نہیں تھی۔ حکومت کی آواز۔ اُس نے میرے خشک بال مٹھی میں پکڑے اور مجھے سختی سے اٹھانے لگی۔ میں اٹھا یا نہیں، لیکن ایک طرف سزا خود اپنی جگہ انفعالی اور دوسری طرف سزا پانے والا مبتدی اینی میں۔ میں جو پچھلی گھناؤں کو بتدریج ایک نیم واضح لمحہ میں تقسیم کرتا ہوں، مگر ساتھ ہی ایک مسخ لمحہ میں فرض کرتا ہوں کہ میں ایک مسخ شیشہ ہوں جس کی سطح پر دھواں پھیلا ہوا ہے۔ راجدھانی کی پولیس بید مار مار کر دھویں کو ہٹانا چاہتی ہے لیکن دھواں نہیں ہٹتا۔ کیوں کہ میں وہ نہیں ہوں، جسے پولیس بنا سوچے سمجھے فرض کرکے کوئی معمولی کارنامہ کر سکے۔ میرم – احمد نے تو یوں ہی خواہ مخواہ اتنی محنت کی، اگر وہ کسی مطلب کے آدمی کو پکڑواتے تو حکومت انہیں ایک اعلیٰ مفعول ہونے کے عوض ایک تمغہ ضروری دیتی۔ حکومت! دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت ہو، جو اس حد تک مفعول نواز ہو کہ اس کے ملک میں کسی دُبلے پتلے مدقوق آدمی کو باقاعدہ ایک بھاری بھر کم انسپکٹر سمیت پوری گارڈ پکڑنے آتی ہے۔ اور پکڑے جانے سے پہلے ہی وہ آدمی مارے ڈر کے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے کئی کانسٹبل بہ یک وقت گھسیٹ کر پولیس ویگن میں ڈالتے ہیں اور تھانے لے جاتے ہیں۔ میرے سامنے جو مجرم کونے میں بیٹھے ہیں، وہ حیران ہیں، ان کے خیال میں، میں ایسا مجرم معلوم ہی نہیں ہوتا، جسے مارا پیٹا جائے۔ وہ خود جیب کترنے اور مار پیٹ کرنے کے جرم میں لائے گئے تھے۔ وہ فرش پر ہیں اور مجھے اُن کے درمیان ایک ٹوٹی ٹھوس دباؤ پڑا۔ اس طرح دباؤ سر سے پاؤں تک حاوی ہو گیا۔ “نام بتاؤ” لہجہ سے پتھر تک ایک انفعالی آکاش بانی۔ میں اپنا نام کیوں بتاؤں؟ شاید میں نے خود سے پوچھا۔ اس وقت جب میری زبان لڑکھڑا رہی ہو گی۔ مگر مجھے یقین دلایا گیا کہ میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ تو کیا میں اُسے مان لوں؟ اگر میں نے اسے مان ہی لیا ہو تو میری آنتوں کے باہر نکل کر پانی میں ماند پڑ جانے والے وہ ٹکڑے کہاں چلے گئے؟ سو یہ پتہ چلا کہ وہ آکاش بانی نہیں تھی۔ حکومت کی آواز۔ اُس نے میرے خشک بال مٹھی میں پکڑے اور مجھے سختی سے اٹھانے لگی۔ میں اٹھا یا نہیں، لیکن ایک طرف سزا خود اپنی جگہ انفعالی اور دوسری طرف سزا پانے والا مبتدی یعنی میں۔

میں جو پچھلی گھناؤں کو بتدریج ایک نیم واضح لمحہ میں تقسیم کرتا ہوں، مگر ساتھ ہی ایک مسخ لمحہ میں فرض کرتا ہوں کہ میں ایک مسخ شیشہ ہوں جس کی سطح پر دھواں پھیلا ہوا ہے۔ راجدھانی کی پولیس بید مار مار کر دھویں کو ہٹانا چاہتی ہے لیکن دھواں نہیں ہٹتا۔ کیوں کہ میں وہ نہیں ہوں، جسے پولیس بنا سوچے سمجھے فرض کرکے کوئی معمولی کارنامہ کر سکے۔ میرم – احمد نے تو یوں ہی خواہ مخواہ اتنی محنت کی، اگر وہ کسی مطلب کے آدمی کو پکڑواتے تو حکومت انہیں ایک اعلیٰ مفعول ہونے کے عوض ایک تمغہ ضروری دیتی۔ حکومت! دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت ہو، جو اس حد تک مفعول نواز ہو کہ اس کے ملک میں کسی دُبلے پتلے مدقوق آدمی کو باقاعدہ ایک بھاری بھر کم انسپکٹر سمیت پوری گارڈ پکڑنے آتی ہے۔ اور پکڑے جانے سے پہلے ہی وہ آدمی مارے ڈر کے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے کئی کانسٹبل بہ یک وقت گھسیٹ کر پولیس ویگن میں ڈالتے ہیں اور تھانے لے جاتے ہیں۔

میرے سامنے جو مجرم کونے میں بیٹھے ہیں، وہ حیران ہیں، ان کے خیال میں، میں ایسا مجرم معلوم ہی نہیں ہوتا، جسے مارا پیٹا جائے۔ وہ خود جیب کترنے اور مار پیٹ کرنے کے جرم میں لائے گئے تھے۔ وہ فرش پر ہیں اور مجھے اُن کے درمیان ایک ٹوٹی جھلنگا چارپائی دے دی گئی ۔ اُس میں کافی کھٹمل ہیں جو بُری طرح کاٹتے ہیں ۔ ہزار چاہنے کے باوجود بھی میں ان میں سے ایک کو بھی مار نہیں پاتا۔ ویسے مجھے تھر، لات اور

بید مارنے کے لئے کانسٹبل اور انسپکٹر آتے رہے ۔ پکڑے جانے سے قبل مجھے لداخ

بودھ دہار کے جس کمرے میں رہنے کی جگہ ملی تھی وہاں بھی چار پائی میں دو تین راتوں

تک مجھے کھٹملوں نے خوب کانا ۔ اس دوران ایک لداخی بھکشو لڑکے کا چکنا سفید جسم

دیکھ کر مجھے خیال آیا تھا کہ اگر وہ میری کچھ مدد کرتا تو کھٹملوں کے کاٹنے کا احساس بالکل

نہیں ہو پاتا۔ ویسے وہاں کئی بھکشو لڑ کے چکنے اور سفید تھے ۔ اب حوالات میں چار پائی پر

تو مجھے اکیلا ہو نا پڑ رہا ہے ۔ کھٹملوں کے کاٹنے سے نیند نہ نہیں آتی اور ہر آدھ گھنے

وقفے سے مجھے انسپکٹر کے کمرے میں پوچھ تاچھ کے لئے بلایا جاتا ہے۔ وہ ایک ہی بات کو

کئی طرح سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ کسی ملک کے لئے کسی ملک کے

خلاف جاسوسی کرنے میں کم از کم پاؤں کو چلنے کی مصلحتوں سے آگاہ ضرور کرتے ہیں اور

اس طرح چلنا میں نہیں جانتا ۔ انسپکٹر جس قدر بھی پوچھتا ہے ، جواب میں میں چپ

ہوں ۔ یہ بات نہیں کہ جواب نہیں دے سکتا ۔ بلکہ میں ا انسپکٹر کے سوالوں کو ہی

مرے سے فضول سمجھتا ہوں ۔ اتنا ہی فضول جتنا اُس کے سر سے کچھ اوپر دیور پر لٹکی

ہوئی مہاتما جی کی تصویر ۔ عدالتوں اور تھانوں میں عام طور پر مہا تھاجی کی تصویر دونوں

ہاتھ جوڑے ہوئے لگی ہے ۔ واہ بہت خوب ۔ میری پیٹھ پر جتنی بید ماری گئی ہے اتنا ہی

میں زندہ ہوں ۔ اسی تناسب سے میں مر بھی سکتا تھا۔ میں نے اپنے وکیل سے التجا کی کہ

وہ مجھے میرے ملک میں مرنے کی اجازت دلوا دے ۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ میں مرنے

کے بعد ہر گز ہرگز اپنے ملک میں نہیں رہوں گا۔

میرے باپ کی پیدائش سے کئی برس پہلے میرے دادا افریقہ گھومنے گئے تھے ۔ وہاں

وہ کسی جنگی قبیلہ میں پھنس گئے تھے۔ یہ پتہ نہیں کہ وہاں سے کیسے بچ نکلے وہاں افریقہ

سے ہندوستان اگر انہوں نے دیکھا کہ بہت سے اچھوت مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک بد بخت مزدور عورت نے کھپریل چھاتے ہوئے گیلی مٹی کا لو دا غلط جگہ جما دیا۔ دادا نے دیکھا تو انہوں نے غصہ میں آکر اس کی ناک پکڑ لی پر انگلیوں کے دباؤ سے عورت کی ناک کا کیچڑ نکل کر ان کے ہاتھ میں لگ گیا، بس کیا تھا۔ اتنی بات پر ہی ان کا غصہ اتنا بڑھا کہ انہوں نے فوراً ہی اس کا گلا گھونٹ دیا۔ باقی اچھوت مرد اور عورتیں یہ منظر دیکھ کر وہاں سے کام چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بعد میں ان پر مقدمہ چلا، معلوم نہیں ہائی کورٹ نے انہیں کسی طرح بری کر دیا۔

 گاؤں والوں کا خیال تھا کہ دادا شاید اتنے بڑے حادثے کے بعد دوبارہ افریقہ چلے جاتے لیکن مقدمے سے بری ہونے کے بعد وہ گاؤں میں ہی رہے۔ مزاج میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ جب تک بیوی زندہ رہیں ان کو مارتے پیٹتے رہے۔ بیوی مر گئیں تو میری ماں گھر میں مستقل بہو بن کر رہنے لگی۔ لیکن وہ بری طرح سے بہری تھی۔ کان کی خرابی کے ساتھ دماغ بھی کم کم رہتا۔ اسی لئے گھر میں اسے ڈانٹا پھٹکارا جانے لگا۔ دادا تو اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے میرے باپ کو مجبور کیا کہ وہ اسے طلاق دے دیں۔ کئی بار اسے نکل جانے کا حکم ملا، لیکن اُسے بھی ضد ہو گئی تھی، وہ اڑ گئی باس نے ان عورتوں سے لڑنا شروع کر دیا، جو اس کے خلاف تھیں۔ ایک اور عجیب بات تھی کہ جب بھی اسے طلاق کی دھمکی دی جاتی تو وہ ایک صندوق کے پاس جاتی اور اسے کھول کر بڑے جوش و خروش سے نہ جانے کیا کیا چیزیں نکالتی اور اس عرصہ میں میرے باپ کی پھوپھی زاد بہن جو اتفاق سے ماں کی حاسد تھی، اس نے کئی بار سوچا کہ ماں کا سیاہ صندوق توڑ دیا جائے لیکن جب اس میں ناکام رہی تو اس نے محلے کی عورتوں سے ماں کو پٹوایا۔ جب ماں کو محلے کی عورتیں پیٹ رہی تھیں تو اس دوران کسی عورت نے مجھے افیم کی ہلکی سی مقدار کھلا کر سلا دیا۔ میرا باپ گھر میں موجود نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تو کیا کرتا۔ اسے دادا ہی کی طرح ماں سے چڑ تھی۔ طلاق کے سوال سے کچھ ہی دن قبل ماں کی انگلی سویاں پارنے کی مشین سے کٹ گئی تھی۔ خون کافی بہا۔ فرش تک خون سے گہرا ہو گیا۔ ماں بے ہوش ہو گئی۔ اُس کے دوسرے ہی دن میرے باپ نے اسے میکے بھجوا دیا۔

اتفاق سے ایک حادثہ ہو گیا۔ دادا کو مرنا تھا۔ مرنے سے پہلے ہی تو ماں کے طلاق کا سوال اٹھا تھا۔ لیکن اسے اچانک دبا دیا گیا نہ باپ نے ماں کو میکے سے سسرال بلا لیا۔ کیونکہ مذکور حادثہ کو کچھ اس قدر اہم بنایا گیا کہ ماں کے طلاق کا سوال اُس کے آگے کمزور پڑ گیا۔ سنا کہ دادا مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے کوئی عمل کر رہے تھے۔ عمل کی انتہا میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے سہ طرفہ سمندر پھیلا ہوا ہے۔ سامنے دور سے کوئی جہاز چلا آرہا ہے۔ جوں جوں وہ قریب آتا جاتا ہے ان کی پیٹھ سخت ہوتی جاتی ہے۔ جہاز نزدیک آگیا، لیکن اس کے ٹھہرنے کے لئے کوئی بندرگاہ نہیں۔ جہاز کے کپتان کو عملے نے رائے دی کہ لنگر کہیں نہ کہیں ڈال دیا جائے۔ تب فرضی جہاز کے کپتان کو اچانک سوجھی۔ اس نے عملے کو بنا سوچے حکم دیا۔ عملے نے لنگر اُن کی پیٹھ میں ٹھونکنا شروع کیا۔ لیکن حیرت کہ نہ تو ان کے منہ سے کوئی چیخ نکلی اور نہ ہی خون اہاں پیٹھ کچھ بے ترتیب ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔

سچ مچ اُن کے جسم میں خون ہی نہیں تھا۔ پیٹ کے مرض نے پیٹھ کو سخت کر دیا تھا۔ پیٹ میں ان گنت کیڑے کلبلاتے ہوں گے۔ ایسے کیڑے جو محض کلبلاتے ہیں، بولتے نہیں۔ تو کیا ان کی چپ پیٹھ کی تقسیم سے پہلے ایک سازش تھی۔ ضرور ہوگی۔ کیونکہ میں نے ان کیڑوں کو دادا کی موت سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہاں ان کے بارے میں دوسروں سے ضرور سنا تھا۔ اور وہ لنگر؟ کیا لنگر بندرگاہ میں گاڑا جاتا ہے؟ یا کوئی ایسی چیز، جیسے زمین کا محور ہ سوچنے کو تو سوچتا ہوں کہ زمین کا محور یا تو لوہے کا ہوگا یا شیشم کی لکڑی کا، معلوم نہیں کسی طرح ان کے پیٹ کے کیڑوں نے سمندر بنایا اور اس میں جہاز کے وجود کو فرض کیا۔ افسوس کہ مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا۔

دادا کو محلے کے لوگ مسجد کے صحن سے لاد پھاند کر لائے اور گھر کے صحن میں پڑی ہوئی ایک پرانی چارپائی پر ڈال دیا۔ جانکنی سے قبل انہیں انیما دیا گیا۔ زرد پائپ سے ان کا پائخانہ بہہ بہہ کر فرش پر گرنے لگا۔ زرد سیاہی مائل پتلا پائخانہ پورے صحن میں پھیل گیا۔ ایک طرح کی کھاری تیزابی بو کے درمیان ڈھیروں سفیدی مائل کیڑے پائخانے کی سطح پر کلبلانے لگے تب میرے باپ نے میری ماں کو فرض یاد دلایا، کہ چونکہ زندگی بھر دادا اس سے نفرت کرتے رہے لہذا اب موقع ہے کہ وہ ان کا پائخانہ صحن کے فرش سے صاف کرے۔ موت پاکی میں ہونی چاہئے۔ بلکہ ماں کو ایک طرح سے کفارہ کا بھی موقع ہے کہ وہ مرتے مرتے اپنی آنکھوں سے بہو کو اپنا پائخانہ صاف کرتے دیکھ کر اس کی خدمت پر خوش ہوں اور اسے معاف کر دیں۔ میں نے دیکھا کہ ماں فرض ادا کرنے پر تیار ہو گئی۔ اس نے ناک پر کوئی کپڑا بھی نہیں باندھا اور جلدی جلدی دائیں ہاتھ سے پائخانے کو فرش سے ہٹا کر ایک بڑے تسلے میں ڈالنے لگی۔ تسلا بھر گیا تو نل سے بالٹی میں پانی بھر بھر کر پورے صحن کو دھویا۔ دادا دم توڑتے ہوئے ماں کو دیکھتے ر تے رہے بلکہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے معاف بھی کر دیا۔ یہ ایک غیرسطری منظر تھا۔ کیونکہ پہلے کبھی دادا اور ماں کے درمیان ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ زندگی میں وہ میرے باپ سے ماں کو طلاق دلوانے کی دھمکی اس لئے دیتے رہے کہ مرتے ہوئے وہ ماں سے اپنا پائخانہ صاف کرواسکیں۔ گھر میں دوسروں کا پائخانہ صاف کرنے پابندی سے بھنگن آتی تھی۔ بھنگن کو اجرت ملتی تھی۔ لیکن میری ماں جو بھنگن نہیں تھی اسے ایک مرتے ہوئے آدمی کا پائخانہ صاف کرنے کے عوض کوئی مزدوری نہیں دی گئی۔ یہی غنیمت ہے کہ اُسے کسی طرح ایک مرتے ہوئے آدمی نے معاف کر دیا اور وہ اس معافی پر خوش تھی۔ اس کے بعد تو میں نے کبھی اسے سیاہ صندوق کے پاس جاتے نہیں دیکھا۔ سیاہ صندوق کہیں ناپید ہو گیا۔ اچھا ہی ہوا۔ ورنہ جب میری اس پر نگاہ پڑتی، مجھے اس کی مالکہ کی متضاد لا تعلقی پر حیرت ہوتی۔ مجھے دوسروں کی طرح کسی چیز پر حیران ہونے کا ڈھنگ نہیں سکھایا گیا۔ فرض کر لیں کہ میں اٹلس کے سمندری نقشوں میں جہاز کی تصویر دیکھ رہا ہوں۔ تصویر میں مجھے کپڑے نہیں دکھائی دیتے۔ بلکہ وہاں سچ سچ کا غذ پر نیلے سمندر اور سمندروں میں ایشیا، افریقہ یا یورپ اور امریکہ کے ٹیڑھے میڑھے حاشیوں پر اور ان کے کہیں کسی سیاہ نقطہ پر جہاز کی تصویر دیکھ رہا ہوں تو جہاز شاید اس نقطہ پر ٹھہرا ہوا ہے، جو یقیناً بندرگاہ ہے۔ جہاز کی تصویر نقطہ سے ذرا بھی نہیں ہلتی۔ یوں میں چاہتا ہوں کہ اپنے گرد سمندری نقشوں کو لپیٹ کر سو جاؤں۔ مجھے فرضی جہاز کی کلپنا سے نیند آجاتی ہے۔ خود فرضی جہاز اس سیاہ نقطہ سے کبھی نہیں ہلتا جو مردہ ہے مگر قبرستان میں دادا کی قبر کے گرد کچھ ایسی ملی جلی روشنی ہو رہی ہے، جہاں سنی سنائی تاریکی بھی ہے اور دھوپ کا گمان بھی۔ یا یوں سمجھ لیں کہ تاریکی ایک طرح کا کا گہرا تیزابی محلول ہے۔ جس میں دھوپ کا گمان تحلیل ہو رہا ہے۔ اس گمان میں میرا ایک عزیز پاکستان سے ہندوستان میں دادا کی قبر کے پاس آتا ہے۔ شروع میں اس کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ معلوم نہیں وہ کسی طرح قبر کھول لیتا ہے۔ بالکل سڑے گلے لکڑی کے تختوں کے نشان دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ قبر میں اب دادا کا ڈھانچہ سڑ گیا ہو گا لیکن اس کے بجائے اس میں ایک دیگ میں دادا کی ٹانگیں پکی ہوئی مع شوربے کے موجود ہیں۔ ان کے جسم کے باقی حصے چھوٹی چھوٹی بوٹیوں میں ان کے پکے ہوئے سر کے ساتھ شوربے کی سطح پر تیر رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی بھاپ کا اٹھنا یوں لگتا ہے کہ میں اور عزیز اکٹھے ہی بھاپ کے ساتھ پھیلتی ہوئی گوشت کی بو محسوس کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ گمان کہ ہم نے دو چار بوٹیاں نکال کر کھائیں۔ پھر واضح طور پر دیکھتا ہوں کہ اس عزیز کے ہاتھ میں ایک اٹیچی کیس ہے، جسے دائیں ہاتھ سے وہ کھولتا ہے۔ اس میں تہہ کئے کچھ کپڑے، حبیب بینک کراچی کی پاس بک، ٹوتھ پیسٹ، شیو بنانے کا سامان اور ٹارچ وغیرہ موجود ہیں۔

 یہاں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ بائیں ہاتھ سے دیگ میں تیرتے ہوئے دادا کے مسخ سر اور کچھ بوٹیوں کو نکال کر اٹیچی کیس میں ڈالنے لگا تو اس سے پہلے سے رکھی ہوئی چیزیں شوربے میں کیوں نہیں بھیگیں، اس عرصہ میں اس نے میری طرف دیکھا ہی نہیں۔ کچھ مسخ لمحوں بعد اچانک سنی سنائی تاریکی کے محلول سے سورج کا نکلنا، افق ندارد، ایک طویل میدان کا سامنا۔ بنا افق کا میدان۔ دور دور تک چھوٹے بڑے کھاد کے ٹیلے۔ حیرت۔ سورج میدان کی سطح سے کچھ ہی اوپر اور گمان پھر یہ بھی پتہ چلتا کہ میں یہ منظر کھڑا ہوا کہاں دیکھ رہا ہوں اجوں ہی وہ آگے کچھ کھادکے ٹیلوں کو پار کرتے ہوئے اوجھل ہوا چاہتا ہے تو ایک مسخ لمحے میں مجھے افق کی موجودگی کا گمان ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سورج کا ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ جانا ۔ ایک سنگین آپریشن ۔ اس کی گونج جتنی تیزی سے میری طرف بڑھتی ہے اتنی ہی سستی سے میرا پیچھے ہٹنا ۔ پھر بھ پھر بھی کچھ فاصلہ ہے باقی رہتا ہے یعنی سستی میں تیزی اور تیزی میں سستی ۔ منتشر عمل ۔ جو بھی اس میں اوجھل ہوا وہ امر نہ ہوا ۔ مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ امر ہونے کی خواہش تو بچکانہ ہے۔ گریش چندر نے مجھے معلوم نہیں کیوں مشورہ دیا کہ میں گھر لوٹ جاؤں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں گھر لوٹ آیا، یہ جانتے ہوئے کہ پھر گھر چھوڑ دوں گا۔

ابھی میں گھر کے اس کمرے میں ہوں ، جہاں کبھی نہیں تھا ۔ اسی کمرے میں میری آٹھ سالہ بہن گردن توڑ بخار میں کچھ دن مبتلا رہ کر مر گئی تھی، میں نے اُسے مرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ کیوں کہ اس وقت میں لاہور میں تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کمرے میں کبھی اس کا بستر مرگ ہوگا ، ہمیں اس کی گمشدہ پکار کا لحاظ نہیں کر رہا ہوں ۔ ضلع کی پولیس نے دراصل مجھے گاؤں میں ہی محسوس کر رکھا ہے محض ان معنوں میں کہ میں گاؤں سے باہر ایک فرلانگ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اور کمرے میں پڑے پڑے گھٹن ہوتی ہے ۔ چاہتا ہوں کسی طرح وقت کٹ جائے ۔ پولیس کے ڈر سے کوئی بھی میرے گھر کا رخ نہیں کرتا کہ مبادا کوئی مجھے گاؤں سے باہر نکلنے کی ترکیب بتانے میں پکڑ لیا جائے ۔ گھر بالکل خالی ہے ۔ میرے باپ کی دوسری بیوی اور اس کی بہنیں سیلاب کے ڈر سے محفوظ گاؤں میں چلی گئی ہیں۔ کبھی باپ ملنے آتا ہے اور دو ایک روپے کا چاول دال لے آتا ہے ۔ کچھ چائے کا سامان بھی ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر پولیس کا جھگڑا نہ ہوتا تو وہ کہیں میری شادی کر دیتا ۔ مطلب یہ کہ غیر محفوظ آدمی سے کوئی اپنی لڑکی نہیں بیا ہے گا بس ایسے میں حرام مغز کی پرانی عادت خود کو دہراتی ہے۔ ایک ٹوٹی سی تپائی پر ٹائمز آف  انڈیا کا کسی بہت پرانی تاریخ کا اخبار پڑا ہے ۔ ا اخبار بار گرد سے آتا ۔ دے تا ہے ۔ یوں ہی پھونک مارنے سے ٹائیٹل بیچ کی گرد صاف ہو جاتی ہے ۔ اتفاق سے ایک کالم میں ایک سنگین سرخی کے نیچے کا سٹرو کی تصویر چھپی ہے ۔ کاسٹرو کے چہرے میں کوئی ایسی بات ضرور ہے بات کیا ہے ، بالکل واضح طور پر خون گرم کرنے والی تصویر کا سٹرو کا چہرہ ایک طرح کا اشتہاری محور – یعنی ایک نمایاں محور سے دوسرے محور نمایاں ہوتے ہیں ۔ حالانکہ میرے جسم میں خون ہی کم ہے ۔ پولیس کے ڈر کے ساتھ کبھی کبھ فاقہ بھی برداشت کرنا ۔ باپ کسی دن راشن نہ لاسکے تو بنا کھائے پئے سو رہنا پڑتا ہے ، لیکن چند دن سے یوں بھی نیند نہیں آئی کہ گھر کا پائخانہ اٹھانے جگنی ہیلنا آئی تھی ۔ میں نے اسے دیکھتے ہی سوچا کہ اگر ایک بھوک حل نہ ہو تو دوسری بھوک توازن پورا کر سکتی ہے ۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک بھوک حل نہیں ہو سکتی ۔ ایک آدمی جب پوری طرح کھانا ہی نہیں کھائے گا تو اس کے پیٹ میں فضلہ ہی کتنا بنے گا ؟ اور اگر کچھ بن بھی جائے تو جگنی ہیلنا محض اسے اسے ہی ہی ! اٹھانے کیوں آئے آ گی ؟ مطلب یہ یہ کہ کہ : جگنی ہیلنا کا صحیح استعمال کیوں نہ ہو ۔ وہ خود بھی سمجھتی ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ لیکن وہ اپنے پیشے کا احساس دلاتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ باپ نہیں آیا ظاہر ہے کھانا نہیں مل سکتا ۔ بھوک آنتوں کی الجھن سے ؟ بھی گزر گئی ۔ ہے ۔ لیکن جگنی ہیلنا پاس ہی کھڑی ہے۔ ایک بھوک کو بھلا کر دوسری بھوک جسم میں کیسے محسوس کی جائے کرنا ہو گا ۔ کیا سپہ ، جو اتفاق سے پاس کھڑی ہے وہ بھی اوجھل ہو جائے ۔ ممکن ہے، بعد میں پولیس اتنی بھی مہلت نہ دے ۔ اگر میں یہ سوچوں کہ میرا تعلق ایک خود ساختہ ذہنی طبقہ سے ہے تو یہ ضروری نہیں کہ ذہن سے میں ہر گھڑی مطمئن رہ سکتا ہوں ۔ کبھی کبھی تو خالص ذہن محض ایک فرضی جسم بھی مہیا نہیں کر سکتا ۔ اگر ایک اونچے طبقے کی کشش ثقل بڑے اسٹائل سے صاف کی جاتی ہے اور خالص اسٹائل سے استعمال بھی ہوتی ہے یا کموڈ پر فٹ ہوتی ہے تو میرے کس کام کی جو لوگ اس کے ہے۔ لئے دوڑ لگا سکتے ہیں ، وہ لگائیں ۔ اس طرح تو میں بھی دوڑ لگا سکتا ہوں ۔ لیکن وقت ضائع  ہو گا۔ ایک چیز اگر نہیں ملتی تو اس کی طرف سے ذہن کو یکسر خالی بھی تو کیا جا سکتا ہے ۔ سو ، میں جگنی ہیلنا کے اوپر لیٹ کر اسے ڈھانپ لیتا ہوں ۔ اس غلط فہمی میں کہ اس طرح ایک بھوک پر دوسری بھوک ڈھانپ دی جائے بلکہ میں نے تو اس سے استدعا کی ہے کہ جب تک پولیس میرے گاؤں ہے ں میں ہی مجھے محبوس رکھتی ہے اس وقت تک وہ مجھے سے ملتی رہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ غنیمت ہے ۔ کچھ دن ہوئے میں نے بھیگا پاجامہ پہن لیا ۔ اس سے محور پر رنگ دارم کے دانے نکل آئے ۔ محور کے آس پاس بھی وہ پھیل گئے ہیں۔ جتنی دیر کھجاتا ہوں، حرارت محسوس ہوتی ہے ۔ اگر تھوڑی دیر کی گرمی کے لئے محور کو کھجاتا ہوں تو کہیں جگنی ہیلنا رنگ دارم کی چھوت کے ڈر سے بھاگ نہ جائے ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ اس طرف دھیان ہی نہیں دے رہی ہے ۔ وہ خود سر عورتوں کی طرح بے کار باتیں نہیں کرتی اور نہ وقت خراب کرتی ہے ۔ وہ مجھے یقین دلا رہی ہے کہ وہ مجھے کسی طرح بھی جذب کر سکتی ہے ۔ اُس کی چھاتیوں پر چھے سینے سے جما ہوا میل دکھائی دیتا ہے لیکن میں اعتراض نہیں کر سکتا۔ صبح سے دوپہر ڈھلے تک کھانے کی کوئی چیز میرے پیٹ میں نہیں گئی۔

اس سے قبل میں نے اسے کئی بار بلوایا ۔ وہ نہیں آئی۔ کیوں کہ اُس کی ماں اسے پیٹتی ہے بلکہ اُسے مار پیٹ کر کوٹھری میں بند کر دیتی ہے اور یوں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ جب اس کے گھر میں بھی فاقے ہوتے ہیں تو وہ خالی ہاتھ کیوں – واپس آتی ہے مجھے اس کی چھوٹی بہنوں سے پتہ چلا تو میں نے ایک وقت کا باپ کا لایا ہوا چاول دال وغیرہ گاؤں کی دکان پر بیچ ڈالا، جو پیسے ملے اسے اسکی ماں کو دے دیا۔ اس دور اندیشی سے کہ دوسرے دن باپ پھر راشن لے آئے گا ۔ باپ کسی دوسرے گاؤں میں بچوں کو دینی تعلیم دیتا ہے ۔ جگنی ہیلنا اپنی ماں اور اپنی بہنوں کے ساتھ داروغہ یوسف حسین مرحوم کے خالی کھنڈر مکان کے سائبان میں رہتی ہے ۔ دن کے ایک تتصر حصہ میں وہ کچھ گھروں میں حکماتی ہے ۔ کیوں کہ کئی گھر لوگوں کے مرجانے یا پاکستان چلے جانے سے کھنڈر ہو گئے ہیں ۔ چار پانچ گھر ہی باقی ہیں جن میں وہ کماتی ہے اور اس کی چھوٹی بہنیں وہاں سے کھانا مانگ کر لے جاتی ہیں

دوسرے دن میرا باپ شام ڈھلے گھر آ گیا۔ پوٹلی میں چاول دال کے علاوہ چائے کا سامان بھی تھا۔ باپ کو بخار تھا ۔ اُس نے کہا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا۔ صرف چائے پئے گا۔ میں نے چائے بنائی ۔ چائے پی کر اس نے خواہش ظاہر کی کہ چونکہ اس کو بخار ہے ، لہذا میں اُس کے پاس ہی چارپائی بچھا کر سو رہوں ۔ مجھے بہت برا لگا ۔ اس کے با وجود اس کا بستر بچھایا ۔ اس کے ہاتھ پاؤں دبائے کہ کسی طرح اُسے نیند آجائے ۔ رات گئے تک اس کے سو جانے کا انتظار کیا ۔ جب اسے نیند آگئی تو کھانا کھایا اور تب اسے اکیلا چھوڑ کر باہر نکلا ۔ دور تک اندھیری ۔ کتوں کی آواز میں تنگی ہوئی گلیاں پار کر کے جگنی ہیلینا کے گھر پہنچا۔ بے صبری میں اُسے سوتے سے جگایا۔ اس کے پاس ہی لینا بکری کا بچہ منایا ۔ میں نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر دھیان سے اُس کی سوتی ماں اور بہنوں کو دیکھا ، وہ سوتی رہیں ۔ جب کوئی غیر ضروری آہٹ نہیں ہوئی تو اس کو احتیاط سے سائبان کے دوسرے حصہ میں لے گیا۔ وہاں چمگادڑیں کافی تھیں ۔ اکھڑی ہوئی سیمنٹ پر بنا کچھ بچھائے اُسے چت لٹا دیا ۔ اس کے گولے دانتوں کی بو محسوس ہوئی ۔ میں نے سوچا ، کچھ پروا نہیں ، یوں تو اس کی ناف تلے کے بالوں میں بھی گیلا گیلا کچھ لتھڑگیا ہے ۔ انگلی سے چھو کر ناک کے پاس لے جایا جائے تو پچھلی کے دھوون کی بُو آتی ہے ۔ وہ بالکل اسی طرح پڑی ہوئی ہے کہ جو کچھ اس عرصہ میں اس کا گیلا ہو گیا ہے ، اسے نہ دھوئے گی ، نہ صاف کرے گی ۔ ممکن ہے ، دباؤ کی بوچھاڑے اس کی پیٹھ چھل گئی ہو ۔ اس بار میرا پیٹ بھی تو بھرا ہوا تھا نا۔ پھر بھی مجھے آنگن میں اکیلا پڑا ہوا باپ یاد آیا ۔ ضرور اس کی آنکھ کھل گئی ہوگی ۔ لیکن جگنی ہیلنا کو یکا یک بند کر دینا نا ممکن ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ عام طور پر کسی کو قتل کر دینے کے بعد چاقو کو دھو کر صاف کر لیا جاتا ہے ۔ تو کیوں نہ میں اپنے چاقو کو دھو کر صاف کرلوں ۔

 جنگی ہیلنا کا نیم تاریکی میں بھاپ کی طرح لڑھکنا یہ کسی چیز سے اٹھنے کا عمل ہو سکتا ہے لیکن کون اٹھ رہا ہے ، جگنی ہیلنا یا میں ؟ میں تو اس سے گزر گیا ہوں ۔ انوپ  شہر روڈ پر چپ چاپ چل رہا ہوں ۔ مطلب یہ کہ اب میں اس کمرے میں نہیں ہوں ۔ یا اس کھنڈر مکان کے سائبان میں نہیں ہوں ۔ میں نے اپنے محبوس ہونے کی پروا نہیں کی ۔ میں گاؤں سے بھاگ آیا ہوں ، علی گڑھ یونیورسٹی کا ایریا۔ یہاں میں چاقو صاف کروں گا ۔ گاؤں میں اسے چھپا نہیں سکتا ۔ یہاں چھپانے کی ضرورت ہے اور نہیں بھی ۔ پولیس یونیورسٹی ایریا میں زیادہ نہیں آتی ۔ اور پھر یہ کہ میں نے مزمل ہاسٹل کے ایک کمرے میں انجینئرنگ کالج کے ایک طالب علم صلاح الدین کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے پناہ لی ہے … اور اس طرح اکثر مہمان آتے ہیں ، ڈائننگ ہال میں کھاتے پیتے ہیں ۔ اور کچھ دن رہ کر چل دیتے ہیں ۔ کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا اور نہ کسی پردہ استنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ اکتا جائے۔

ملائی اسٹال کے پاس ایک پاگل عورت پارو اپنے پالتو کتے کو ڈھونڈ رہی ہے ، حالانکہ اس کی یہ کھوج فضول ہے ۔ دراصل یہ سب کچھ میں صلاح الدین کو بتانا بھول گیا ۔ کئی بار میں نے پارو کو سویرے سویرے مزمل ٹی اسٹال سے تین چار فرلانگ پر سڑک کے پاس پھرتے دیکھا ہے ۔ اُس نے اپنے پالتو کتے کو اپنے ہونٹ چاٹنے کی تربیت دے رکھی تھی لیکن اس نے پچھلے ہی ہفتے اسکا گلا دبا کر مار ڈالا ۔ کیونکہ وہ اس کے ہونٹ چاہتے چاہتے سست ہو گیا تھا ۔ کتے جب کسی چیز کو سونگھتے ہوئے اسے ایک لمحہ گھورتے ہیں تو دراصل وہ اس چیز سے اکتساب کرتے ہیں کہتے ہڈی چباتے نہیں بلکہ گوشت کے گمان میں گوشت کے تجسس کو چباتے ہیں ۔ اس عمل میں اُن کی آنکھیں کم از کم گوشت کی تصوری چکناہٹ سے قریب ہو جاتی ہیں ۔ ایسے میں جب اُن کے دانتوں سے کوئی آواز پیدا ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تصوری چکناہٹ کے امکان سے گزر رہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ بس وہ گزرتے ہی رہتے ہیں ۔ پارو کے کتے نے سخت غلطی کی ۔ وہ عام کتوں سے مختلف تھا۔ اُسے تو تصوری چکناہٹ کے بجائے عورت کے ہونٹ ملے ۔ کم از کم ہونٹ چاٹنے میں اسے سست نہیں ہونا چاہئے تھا۔

پارو کے میلے کرتے سے ادھر ادھر لٹکی ہوئی دھجیاں پیٹھ اور سینے کی طرف سے جھڑ کر نیچے گر جاتی ہیں۔ ۔ اس کے بغلوں میں بڑھے ہوئے بال ناف کی طرف جھول رہے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے بال ٹوٹ گئے تو یوں لگتا ہے کہ بالوں سے بندھے ہوئے پستان نیچے آرہیں گے ۔ نیچے پڑے پڑے بے کار ہو جائیں گے ۔ اُن پر پھپھوندیاں لگ جائیں گی ۔ یوں ابھی پستان گرے نہیں ہیں ۔ لیکن میں اپنے جسم کے کسی حصے میں فرض کر رہا ہوں کہ پستان گر گئے ہیں ۔ ان کے اوپر سے کئی موسم گزر گئے ہیں ۔ پھپھوندیاں جب روٹیوں میں لگتی ہیں تو روٹیاں ناکارہ ہو جاتی ہیں ۔ زمین کا ایک حصہ پھپھوندیوں سے ڈھک گیا ہے ۔ کیوں کہ پستان ناپید ہو گئے ہیں ۔ ابھی دن کی روشنی باقی ہے ۔ اور ہفتہ کے آخری دن کے آخری لمحہ سے گزرنا ہے ۔ صلاح الدین نے مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا ۔ لیکن میں اس کے پاس جانا بھول گیا ۔ میں اب تک جہاں کھڑا ہوں ، وہاں شام اتر رہی ہے ۔ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں ، وہ ٹھوس نہیں ہے ۔ ممکن ہے وہ خواب ہو یا شاید اب تک مجھے کوئی ٹھوس چیز دکھائی بھی دی تو ہر دم کسی سیال اندیشے کی طرف لڑھکتی ہوئی ۔ میں خود ایک سیال اندیشہ ہوں ۔ مجھے ٹھوس چیزوں کو سمجھنے کی تربیت نہیں دی گئی ۔ مجھے گھڑی میں وقت پہچاننے کا ڈھنگ نہیں آتا ۔ اس کے برعکس زمین نے مجھے فرض کیا ۔ ممکن ہو ، زمین ٹھوس رہی ہو ۔ حقیقت یہ یہ کہ کئی دن سے بارش ہو رہی ہے۔ مجھے موقع ہی نہیں ملتا کہ کسی چیز کو ٹھوس مان کر چلوں ۔ بارش کی بوچھاڑ میرے چہرے کو بگاڑ رہی ہے ۔ غالباً میرا جسم کیچڑ کا گڑھا ہے ۔ کبھی کبھی اس گڑھے میں مجھے پاروکی کشش مقتل دکھائی دیتی ہے۔ اس میں کسی ناؤ کے چلنے کا گمان ۔ کبھی اس گمان میں ایک سرخ بادبان کا ہوا سے ہلنا اور کبھی بادبان کی جگہ ایک کالی سونڈ لے لیتی ہے ۔ فرض کر لیں کہ پارو سڑک کے نالے کے ایک حاشیے پر بیٹھی پیشاب کر رہی ہے ۔ فرض کیوں ؟ پاگل عورتیں تو کہیں بھی بیٹھ کر آزاد اور کھلے روپ پیشاب کرتی ہیں ، لیکن وہ خود سر عورتوں سے بہتر ہیں جو بظاہر کسی کی پرواہ نہیں کرتیں ۔ ان کا بال جھٹک کر چلنا ، بہ یک وقت ” ناستلجیا ” اور سازشی فینٹسی ۔ یوں وہ جسے پسند کرتی ہیں ، پہلے اس کے منہ پر پیشاب کرتی ہیں ، پھر سوشل پرائویسی یا سم  بھوگ کے دوران کلاسیکی آسنوں کا مطالبہ مجھے معلوم ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک ایسی عورت ایک یونیورسٹی مین انگریزی ادبیات کی پروفیسر ہے۔ ایک ایسی ہی عورت ایک انگریزی میگزین کی مینجنگ ایڈیٹر ہے۔ایک ایسی ہی  عورت سوشل ریفارمر ہے اور اسے دنیا کے صرف دو مردوں میں اپیل دکھائی دی۔ ایک وہ جو مر چکا ہے پنڈت نہرو اور ایک وہ جو زندہ ہے۔۔۔۔صدر ناصر !! اس میں حیرت کی کونسی بات ہے ؟ لیکن میں یہ سب کچھ اس لیے سوچ رہا ہوں کہ بارش کی بوچھار میرے چہرے کو بگاڑ رہی ہے۔ باقی چیزوں کے وجود تو بس نام کے ی ہیں۔ ان سے مسخ چپ چپاتی نفرتیں، غیر مرئی محبوبایئں ۔۔۔

میں ان تمام لوگوں کو بھولتا جارہا ہوں، جو مجھے روکتے تھے ۔ جب مجھے کسی بیرونی

تاثر کو موضوع بنانے کی خواہش ہوتی ۔ وہ کہتے تھے کہ میری خواہش غلط ۔ میں تردیدا

کرتا ہوں کہ میری خواہش غلط نہیں بلکہ بیرونی تاثر ہی میری خواہش ہے یا اس سے مراد

ہر وہ مسخ چیز ہے جو بیرونی عمل میں دکھائی دیتی ہے ۔ میں اس کو اس انتہا میں دیکھنے کی

کوشش کرتا کرتا ہوں ہوں ۔ میں نے اپنے بستر کو کئی با بار دیکھا تو ایک عرصہ بعد پتہ پتہ چلا کہ میں یا میرے کمینے اعصاب محض اس پر سوتے ہی رہتے ہیں ۔ میں نے اس بستر کے ٹکڑے

ٹکڑے کر ڈالے ہیں اور اب ارادہ ہے کہ دنیا کے تمام زچہ خانوں میں انہیں بانٹ

دوں ۔ سورج دوسرے ملکوں کے سویروں پر چمکنے جا چکا ہو گا اور میں اپنے ہی ملک میں

(جو مجھے قبول کرنا نہیں چاہتا اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ پچھلے تین سال کے دوران

جس قدر تیزی سے صرف ہوا ہوں ، اس عرصہ میں اس غیر سطری دن کے لئے زبان

نہیں ملی ہے۔ جب بہت سے ہنستے لوگوں کے درمیان وہ میرے منہ میں داخل ہو گئی ۔

لوگ محض مجھ پر ہنس رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چائے کی پیالیاں تھیں ، کمرے کے

دروازے بند تھے ۔ حالانکہ دیوار کے ایک کونے میں دنیا کا گلوب رکھا ہوا تھا۔

باہر سیلاب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گو میں زندہ نہیں کہہ سکتا۔ اسی لئے تو یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں شہری بے وقوف ہیں

دوسرے انہیں اسی طرح جانتے ہیں۔ یوں کمرے کے دروازے اس اندیشے سے بند

کئے گئے ہوں گے کہ شاید میری بات غلط ہو ، اور انتشار زندہ لوگوں نے مجھے سختی سے

منع کیا کہ میں اپنا منہ بند رکھوں ، مگر میرا منہ بند ہی نہیں ہوتا تھا ۔ آخر لوگ مجھ پر

ہنس پڑے ۔ وقار اور ناصر مجھے ایمان سے نکال لے گئے۔ ہاں یہ خیریت ہوئی کہ جب وہ

میرے منہ میں داخل ہوئی تو شاید ان میں سے کسی نے نہیں دیکھا ۔ ایک سال تک

میں یہی سوچتا رہا کہ ممکن ہو کسی نے نہیں دیکھا ہو کیوں کہ اس عرصہ میں وہ لگاتار

میرے حلق میں انکی رہی یہاں تک کہ اس عمل میں ایک ذاتی سی یکسانیت نے مجھے

تھکا دیا ۔ میں یہ بھول گیا کہ میرا کوئی منہ ہے اور اس سے آگے حلق ہے اور حلق میں

کوئی چیز نکلی ہوئی ہے یہاں تک کہ میرے جو کپڑے کسی وقت بھیگ گئے تھے ، وہ اب

تک مجھے صرف کر رہے ہیں ۔ مجھے خشک صاف ستھرے کپڑے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرا ایک ڈھلا ہوا پاجامہ پاکستان میں کسی نے چرالیا، میری قمیضیں ، ہندوستان کی ایک ٹرین میں سفر کرتے ہوئے برتھ پر سے کسی نے اٹھالی، میری کتا بیں اور ” آیئنے میرے” دوست بنا مانگے اٹھا لے گئے ۔ اب مجھے کسی غیر سطری دن کا حادثہ یاد نہیں آتا ۔ وہ میرے معدے کے اوپری موڑ پر آگئی ہے ۔ دھیرے دھیرے وہ خاص نالی کی ڈھلان

میں سرک رہی ہے ۔ اتنی بے وقوف کہ وہ یہ نہیں جانتی ، اب وہ ایک طرح کے رقیق

اندھیرے میں گرنے ہی والی ہے ۔ گرنے سے قبل وہ ایک طرح کی چکنی نیم سیاہ بلکہ

نیلی گولی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ میں اس طرح کے اندیشے میں خود

کیوں مبتلا ہوں جب کہ وہ اس طرح کے اندیشے سے بہت پہلے ہی معدے میں گر چکی

ہے ۔ اس کے جھر جھراتے ہوئے پر اس سے الگ ہو کر رقیق اندھیرے میں بکھر چکے ہیں

آنکھوں کے آگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


انکھ پر اتنے ہی پہرے جتنے میرے روایتی فکر نا قلب پر سائنس کے مکرر انکشافات میں ان

انکشافات کی جیتے جی تاب نہیں لا سکتا، جب تک کہ ہر آنکھ پر سے پہرہ ہٹا نہ لیا جائے ۔

اس طرح جب ہر آنکھ آزاد ہو جائے گی تو غالباً اس کے سامنے کا ہر دائرہ ایک سیارہ ہوگا

اور ہر سیارے میں غالباً پرانے احمقوں کی طرح مجھے وہ نیلی روشنیاں دکھائی دینے لگیں

گی جو آزاد روحوں کی آنکھیں ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک سفر کے دوران کا وہم ہے جسے ایک

ناکام اختتام کی سمت جانا ہے ۔ کنڈکٹر سلیپر کے دوسرے دروازے کے پاس ایک سیٹ پر

بیٹھا اونگھنے لگا۔ ا ہے ۔ اُس کی پیٹھ اس کے فرض سے اکڑی ہوتی ہے، کیونکہ وہ مسافروں

کی طرح شاید کہیں پیر پھیلا کر سو نہیں سکتا۔ میں سفید چھت پر لگے ہوئے بلبوں کی نیلی

روشنی میں اپنے کونے کی برتھ سے پورے سلیپر کا ایک سرسری جائزہ لے سکتا ہوں ۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے کھڑکی کھول لی ہے ۔ ایسے میں اگر چھت سے لگے ہوئے

نیلے روشنی کے بلب بجھ جائیں اور سفید چھت تاریک ہو جائے ، تب بھی میں اپنے

سامنے کی برتھ پر لیٹی ہوئی عورت کی سرخ پیٹھ کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں ، کیونکہ

کھڑکی کے کھلنے سے باہر کی ہوا بخوبی اندر آ رہی ہے ۔ جو بھی مسافر جاگ رہا ہے اس کی

آنکھوں میں ہوا داخل ہوئی ہوگی تو کیا باہر کی ہوا ، اس وقت آنکھوں میں داخل ہوتی

ہے جب اندر کی اشیاء کے لئے بصارت مشکوک ہو جائے یا ذہن میں پچھلے منظر مسخ

ہونے لگیں جیسا کہ شروع میں ، میں نے عورت کی سرخ پیٹھ دیکھی تو مجھے حیرت ہوئی

حیرت نے پہلا کوڑا لگایا تو اس وقت عورت تے کر رہی تھی ۔ شاید اسی لئے اس کا شوہر

اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا ۔ پھر حیرت نے دوسرا کوڑا لگایا کہ قے کرنے کے بعد

عورت چت لٹائی گئی ۔ اس کی ناف اس کی پیٹھ کے رنگ سے مختلف تھی ، جسے میں چور

آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لازمی طور پر میں اس کے شوہر سے ڈرتا رہا ،

لیکن اسے بھائی یا دوست سمجھنے میں محض میرا ایک دھندلا سا ارادہ شامل رہا ہو گا مگر ناف

پر نگاہ پڑی تو مجھے اپنی کوشش بالکل فضول لگی ۔ نہ کوئی دبی دبائی ہوس اور نہ ہی کوئی ارادہ۔ محض تجسس۔۔۔۔ بلکہ تیسرا کوڑا ۔ جب میں نے اچھی طرح د دیکھا کہ عورت کی ناف پر کوئی سفید مرہم دیتا ہوا ہے ۔ جہاں اندر دبے دبے سے کچھ کھلی کے سرخ چکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی پیٹھ کی سرخی بھی کھجلی کے سُرخ چکتوں کی ہوگی ۔ ہو سکتا

ہے وہ پیٹھ پر سفید مرہم لگانا بھول گئی ہو یا اگر مرہم لگایا ہو تو وہ پوری طرح نہ لگ سکا

ہو ۔ لیکن شاید میں اس کی عملی سڑچکی ہو ۔ خود میری جلد کی سطح پر بغلوں سے پیٹھ تک

عجیب بے تکی سی چن چناہٹ ہوتی رہتی ہے اب جب کہ نیلی روشنی کے بلب بجھ گئے

ہیں ، جلد کی سطح چن چناہٹ کی انتہا میں سلگنا چاہتی ہے ( بظاہر یہ مبالغہ ہے ۔ پھر بھی خود

پر رحم کھانے کا یہ پرانا طریقہ ہے) ویسے ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے ابھی میری آتیں

اس کے بارے میں سوچ رہی ہیں ۔ ابھی میرے پیٹ کے اس پاس کچھ نہ کچھ حرکت

باقی ہے ابھی میں برتھ پر کروٹیں لے رہا ہوں ۔ ابھی میں چاہتا ہوں کہ برتھ لکڑی کے

بجائے کھردرے پتھر کی ہو جائے ۔ میرے جسم کی حدوں سے چوگنا پھیل جائے تاکہ

میں اس پر زور زور سے اپنی پیٹھ رگڑنے لگوں اور پتھریلی سطح پر میری جلد اس حد تک

چھل جائے کہ جگہ جگہ سوراخ بن جائیں ۔

یک پل کو میری نگاہ سفید چھت کے ڈھلوان حاشیوں پر پڑتی ہے ۔ ” اکز اہسٹر”

کے سوراخ مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ یکا یک ان کا ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونا ، پھر

ایک طرح کی دھندلی کپکپاہٹ کے ساتھ ان کا بڑا آکار، جو اپنی جگہ ایک بڑے سوراخ کو

حاوی کر دیتا ہے ۔ پورے سلیپر میں دھندلی کپکپاہٹ کا رینگنا اور فرش اوجھل ، اور

درمیان میں درد رقیق جالیوں کا پھیلنا ۔ پانی ہی پانی ۔ شاید ڈوب رہا ہوں چنڈال نے

مجھے اطلاع دی ہے ۔ دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، لہذا شانتی سے ڈوبتے چلے جاؤ ۔ بچپن

میں اپنے گاؤں کے قریبی پوکھرے میں نہاتے ہوئے اپنے ساتھی لڑکوں کے ساتھ ” بیٹا

بیٹی کا کھیل کھیلا کرتا تھا اور اس کھیل میں سبھی لڑکے پانی میں ایک جگہ ٹھہر کر

شہادت کی انگلی کو انگوٹھے سے دبا کر پانی کی سطح پر ضرب لگاتے ۔ اگر کسی ایک کی

ضرب سے سطح  پر ” بڑک” کی آواز سے اہوتی تو ہر ہوتا اور کھو اسے پانی میں ڈبکی کا ٹھیک ٹھیک ڈھنگ نہ آتا تھا۔ اس طرح بڑک کی آواز پیدا ہی نہیں ہو پاتی ، مجبوراً مجھے پانی میں ڈنکی لگانی پڑتی ۔ شاید مقابلے کی الجھن میں شاہ لڑکوں کی تلاش میں پانی کے اندر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا مگر کوئی نظر نہ آتا۔ سوائے زرد جالیوں کے یا پانی کے اوپر، سطح پر فاضل منی کا کوئی گاڑھا جما ہوا خاتمہ !

آج میں پھر رقیق جالیوں میں گھرا ہوا ہوں ۔ مقابلہ کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا

کہ شاہ لڑ کے پانی سے نکل کر ، کپڑے پہن ، اپنے گھروں کو جاچکے ہیں ۔ میں اب کسی کی

تلاش میں نہیں ہوں نہ ہی میرا کوئی گھر ہے ۔ اگر میرا کوئی گھر نہیں ہے تو کم از کم مجھے

پانی سے تو باہر نکلنا چاہئے ۔

چنڈال کا فیصلہ ہے کہ میں پانی سے باہر نکل سکتا۔ چنڈال نے مجھ سے گہری

نا انصافی کی ہے ۔ میں اس پر چیچٹا چاہتا ہوں ۔ مگر ایک دم یہ بھول جاتا ہوں کہ چیتے

ہوئے آدمی کی کوئی شکل بھی ہو سکتی ہے ( یہ جانتے ہوئے کہ یہ سب پر واضح ہے ) جو چیز

میرے معدے میں کچھ عرصے کے لئے گم ہو گئی تھی وہ اب میرے ٹخنوں میں اتر آئی ہے

چنڈال کا دعوی ہے کہ وہ اُس کا دیوتا اور حاکم ہے ۔ وہ مجھے اس طرح کے سفر کی سزا دے

گا ۔ ایک روکھے بالوں والی عورت مجھے تسکین دیتی ہے کہ نہیں ، سزا کوئی نہیں دے

گا۔ حالانکہ سزا یقینی ہے کیونکہ وہ جو ٹخنوں میں اتر آئی ہے وہ کسی وقت ایڑیوں کے

ریشوں میں بھی اتر آئے گی ۔ اس کا خاتمہ نا ممکن ہے!

تصنیف کا عرصہ 1963-65

مطبوعہ ماہنامہ ” اقدار ” پشنه 1966

اور مجموعہ کی صورت میں اشاعت 1967

انگریزی اور دوسری زبانوں میں تراجم ، بعد 1970

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.