نئی دنیا کی تلاش ۔۔۔ انوار احمد

نئی دنیا کی تلاش

( انوار احمد )

بچپن ہی سے اسے شوق تھا کہ وہ بھی کولمبس کی طرح ایک نئی دنیا کا سراغ لگائے۔ اسی لیے جب جغرافیے کی ٹیچر نے  اسے گلوب، نقشوں اور سلایئڈوں کے ذریعے دنیا دکھانے کے بعد پوچھا، ” کوئی سوال ؟ ” تو وہ اپنی نشست سے اٹھ کر پوچھنت لگا، ” مس۔ یہ دنیا واقعی ساری کی ساری ڈھونڈی جا چکی ہے ؟ ” مس کے کنڈل والے بالوں اور چمکیلے گالوں میں ایک ساتھ بل پڑے اور پھر وہ گرجے کی گھٹیوں کی طرح ہنس پڑی اور بولی، ” او۔ ننھی روح۔ یہ دنیا گم کب ہوئی تھی ۔ “اس نے زبان کو تالو سے آزاد کرانے کی کوشش میں کئی مرتبہ آنکھیں جھپکیں اور پھر کہا، ” ایسکیوز می مس۔ میرا مطلب تھا ہ اب کوئی اور کولمبس نہیں بن سکتا ؟ ” اس کا ٹیچر نے جو بھی جواب دیا وہ پوری کلاس کے قہقہوں میں گم ہوگیا۔ البتہ اس دن سے اسے کولمبس جونیئر کہا جانے لگا۔

کچھ عرصے بعد اسے پتہ چلا کہ ہر کرسمس پر وہ جس ڈیڈی کا شدت سے انتظار کیا کرتا تھا وہ ممی کے ایک دوست سے ذخمی ہو کر کسی ستارے پر چلا گیا ہے۔ تب اس نے ستاروں کو آنکھیں جھپکے بغیر دیکھنے کی مشق شروع کر دی۔ اسے وہم ہو گیا تھا کہ ہر بار جب اس کی آنکھ جھپکتی ہے اسی وقت کسی نہ کسی ستارے سے ابھرنے والی اسکے ڈیڈی کی شبیہ بگڑ جاتی ہے۔

پھر اسے سچ مچ خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ جب وہ ایک بڑی خلائی رصد گاہ میں ملازم ہو گیا۔  کا کام صرف ستاروں کی چال پر نظر رکھنا ہی نہیں تھا بلکہ نت نئی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنا اور کسی روز اچانک ابھرنے والے ستارے کا انتظار کرنا تھا۔ طاقتور دور بینوں کے شیشوں میں سے دیکھتے دیکھتے وہ آپ سے آپ ایک اور دنیا کا باشندہ بن گیا۔ ایسی دنیا، جہاں معلوم بھی ہر لحظہ نامعلوم کی دھند میں لرزتا رہتا۔ ستارے اس حقیقت سے بے خبر، آہستہ آہستہ چلنے میں مگن رہتے کہ کوئی آنکھ قریب سے، بے پناہ دلچسپی سے انہیں تک رہی ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا کہ ستارے ایک دوسرے کے مدار کے قریب آ کر کچھ دیر کے لیے شاید ایک دوسرے کو پہچاننے کی خاطر رک جاتے اور اس وقت وہ حالت دہشت میں یہ خیال کرتا کہ اس کے ڈیڈی کسی ستارے کی کمک لے کر قاتل کو ڈھنڈتے پھرتے ہیں۔

کوئی اس کے اندر ہی اندر یہ سرگوشی کرتا رہتا کہ کسی وقت وہ ستاروں کا مشاہدہ کرتا کرتا وہاں انسانی زندگی کے آثار تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مگر اس رصد گاہ کے انچارج پروفیسر بروس نے اسکو پہلے ہی دن متنبہ کر دیا تھا کہ کسی تارے کی مخلوق کو دل نہ دے بیٹھنا کیونکہ یہ تارے انسانی زندگی سے یکسر خالی ہیں۔ پروفیسر بروس تو زمینی مخلوق سے بھی دل لگانے کا قائل نہیں تھا۔ کیونکہ ایک رات خلا کی سیر کرتے کرتے وہ تھک کے گھر گیا تو اس کی بیوی ماریا کسی اور کے ساتھ چاند پر چہل قدمی کر رہی تھی۔

بہر حال، کولمبس جونیئر نے اپنی آنکھیں دوربینوں اور اپنے خیال زمینوں کے حوالے کر دیے۔ اس طرح ہزاروں نوری سالوں کا فاصلہ سمٹ گیا اور وہ روشنی کی دیوار سے گزر کر ویران پہاڑوں اور غاروں کو دیکھنے کے قابل ہو گیا۔ اور وہ اس امید پر مستقلا وہیں آباد ہو گیا کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے ہم جنس کو تلاش بھی کر لے گا۔ جاگتے میں تو خیر اس کا کام ہی یہی تھا ، خواب میں بھی وہ اسی دنیا کی سیر کرتا رہتا۔

ایک دن پروفیسر بروس نے اسے یہ خوشخبری سنائی کہ اب اس رصد گاہ کو خلا میں ہی منتقل کرنے کے انتظامات مکمل ہو گئے ہیں جہاں آکسیجن کا وافر ذخیرہ کر لیا جائے تو زمین کی کشش سے آزاد ہو کر یکسوئی سے تمام مشاہدات اور تجربات کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اگلی رات وہ خلا کے ڈارک روم میں منتقل ہو گیا۔ کولمبس جونیئر نے نو تنصیب دوربینوں کو دیکھا ۔ اس رات اس کی بادشاہی تھی۔ اس نے طے شدہ راستوں اور زاویوں سے ہٹ کر اپنی مرضی سے چاروں طرف دوربینیں گھمایئں ، پھر وہ خوشی سے پاگل ہو گیا جب ایک روشن ستارہ اسکی آنکھوں کے عین سامنے آ گیا ۔ کمپیوٹر کا ایک بٹن دبا تے ہی اسکے سامنے تصویروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔ اس نے دیکھا وہاں کیمپ لگے ہیں اور ان میں کوئی نوجوان مرد نہیں تھا، وہ سب بچو﷽، بوڑھوں اور عورتوں پر مشتمل تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سرہانے کھڑی صبح گمشدہ نوجوانوں کا ماتم کر رہی ہے۔ پھر اس بین میں بچوں کی وہ کرلاہٹ شامل ہو گئی جسے بھوکے بچوں کے ماں باپ ہی جان سکتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ اس پر کچھ عورتیں اور بسکٹ نما چیزیں کہیں سے ڈھونڈ لایئں۔ مگر یہ ابھی بچوں کے حلق تک پہنچی نہیں تھیں کہ شاید کسی اور سیارے سے مخلوق اتری  اور اپنی سنگینیں بچوں کے خالی پیٹوں میں اتار دیں۔ پر وہ بچے عجیب ضدی تھے، مر گئے پر بسکٹ اپنے ہاتھ سے نہ گرنے دیے۔ بچوں کی بھوک کے کارن ماوں کی چھاتیاں تھل تھل کر رہی تھیں۔ وہ اچانک دودھ کی بجائے خون کے مدار پر گردش کرنے لگیں ، بوڑھوں کی داڑھیاں بھیگ گیئں اور انکی پگڑیاں ، کھوپڑیوں کے ساتھ ہی کھل گیئں ۔ قاتل لاشوں پر ناچنے لگے ۔ کولمبس جونیئر کاخون منجمد ہونے لگا کیونکہ اس نے دیکھا کہ معصوم انسانوں پر ہلاکت نازل کرنے والے مقتولین کے لہو سے ان کے جسموں اور پوشاکوں پر مسیحا کی صلیب کے نشان بنانے لگے۔ کولمبس جونیئر نے اس وقعے کی رپورٹ پروفیسر بروس کو ان الفاظ میں دی۔

” آج رات میں نے ایک نئی دنیا تلاش تو کر لی ہے مگر میں خوش نہیں، کیونکہ وہاں جو انسان تھے وہ ذبح کر دیے گئے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں انہیں انسان مانتے مجھے ڈر لگتا ہے ۔”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031