کووں سے ڈھکا آسماں ۔۔۔ انور خاں
کووں سے ڈھکا آسمان
( انور خاں )
آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ لوگ آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ ان کے اطراف میں بے شمار عمارتیٰن تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔
” بڑی سردی ہے ” ایک نے کہا
” اور ہوا بھی ایسی تیز ہے ” دوسرے نے کہا
” جیسے رامپوری چاقو ہڈیوں میں اتر رہا ہو۔ ” تیسرے نے بات پوری کی
” سنتے ہیں دن بھی نکلنے کا نہیں “، چوتھے آدمی نے کہا
“یہ تم سے کس نے کہا ” پہلا آدمی پریشان ہو کر بولا
” شہر میں ایسی افواہیں ہیں ” وہ آدمی بولا
” بھلا ایسا ہو سکتا ہے ؟ ” دوسرے آدمی نے کہا
” ایسا نہیں ہو سکتا ” تیسرا بولا
” آگ دھیمی ہو رہی ہے ” چوتھا آدمی بولا
” ہمارے پاس ابھی اور لکڑیاں ہیں ”
” اس شہر کی سڑکیں اس قدر صاف ہیں۔ کہیں کاغذ، لکڑی یا کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جسے جلا کر آدمی خود کو گرم رکھ سکے “
” آگ رات بھر جل سکے گی ؟ “
” کیا پتا “
” اور ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ رات کتنی لمبی ہے۔ “
” رات تو کاٹنی ہی ہو گی “
” چاہے رات کتنی لمبی ہو “
وہ چپ ہو گئے اور دیر تک چپ رہے۔ آسمان ان گنت کووں سے ڈھکا تھا۔ تیز سرد ہوا، رامپوری چاقو کی طرح ہڈی میں اترتی تھی۔ اطراف میں بلند عمارتیں تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔
قدموں کی چاپ سن کر انہوں نے سر اٹھایا۔ ایک دبلا پتلا، کھچڑی سے بالوں والا آدمی ان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ آدمی آگ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
” کون ہو تم ؟ کیا کرتے ہو ؟ “
” پردیسی ہوں، کہانیاں جمع کرتا ہوں ” اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
“کہانی ؟ ” انکی آنکھیں چمک اٹھیں۔
” پردیسی کوئی کہانی سناو کہ رات کٹے “
” میرے پاس کوئی کہانی نہیں ” اس نے کہا
” یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ “
” میں شہر کے تقریبا ہر آدمی سے مل چکا ہوں “
” کسی کے پاس کوئی کہانی نہیں ؟ ” پہلے آدمی نے پوچھا
اس نے نفی میں سر ہلا دیا
“مجھے تو یقین نہیں آتا۔” پہلے آدمی نے کہا
” مجھے بھی یقین نہیں آتا ” دوسرے آدمی نے کہا
” لیکن یہ سچ ہے ” تیسرا بولا
” یہ سچ ہے ؟ ” چوتھے نے پوچھا
” ہاں یہ سچ ہے ” کہانی جمع کرنے والے نے کہا
” مجھے یقین نہیں آتا “
” مجھے بھی یقین نہیں آتا “
” کسی مکان میں روشنی نظر نہیں آتی ” چوتھے آدمی نے کہا
” ہاں ایک بھی کمرے میں روشنی نہیں ہے “دوسرے نے غور سے اپنے اطراف دیکھتے ہوئے کہا۔
” شہر کی بجلی فیل ہو گئی ہے ” کہانی جمع کرنے والا بولا
” بجلی فیل ہو گئی ہے ؟ ” پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا
” بجلی فیل ہو گئی ؟ ” دوسرا آدمی بڑبڑایا
” کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہو گی ؟ “
” ہاں میں نے ایسا ہی سنا ہے ” اس نے کہا
” آگ دھیمی ہو رہی ہے ” پہلا آدمی بولا
” اور لکڑیاں جمع کرنی چاہیئں “
دوسرا آدمی اٹھ کر اطراف میں ایسی چیز تلاش کرنے لگا جسے جلایا جا سکے۔ کچھ دیر بعد وہ مایوس ہو کر لوٹ آیا اور آگ کے پاس بیٹھ گیا۔
” سالی، اس شہر کی میونسپلٹی اس قدر واہیات ہے کہ شہر میں ایک تنکا بھی نہیں ہے “
” آگ دھیمی ہو رہی ہے ” کہانی جمع کرنے والا بولا۔
کافی دیر وہ خاموش بیٹھے رہے۔ جب آگ بہت ہی دھیمی ہو گئی تو پہلے آدمی نے کپڑے اتار کر آگ میں جھونک دئے۔ سب نے آگ میں اپنے کپڑے جھونک دئے۔ کہانی جمع کرنے والے نے بھی۔
” پتا نہیں کتنی رات باقی ہے ؟ ” تیسرے آدمی نے کہا
” کیسے کٹے گی یہ رات ؟ ” چوتھا بولا
” کیوں نہ ہم کہانی بنایئں “
” ہا ” سب کے منہ سے نکل گیا۔ ” کتنی مزیدار بات “
” تو پہلے تم ہی شروع کرو ” پہلا آدمی بولا
” گلابی صبح ” کہانی جمع کرنے والا کچھ سوچ کر بولا
” ہنستا بچہ ” پہلے آدمی نے کہا
” شرماتی لڑکی ” تیسرے نے کہا
” پھونس کا مکان ” دوسرے آدمی نے کہا
” مٹھی بھر چاول ” چوتھے آدمی نے کہا
” مچھلی کا شوربہ ” پہلے آدمی نے کہا
” کافی کا پیالہ ” دوسرا آدمی بولا
” روئی کی دُلائی ” تیسرا بولا
سب ہنس پڑے۔
آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا تھا اور تیز سرد ہوا رامپوری چاقو کی طرح ہڈیوں میں اترتی تھی۔ اطراف کی بلند و بالا عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے اور وہ دوہرا رہے تھے۔ گلابی صبح، پنستا بچہ، شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان، مٹھی بھر چاول، مچھلی کا شوربہ، کافی کا پیالہ، روئی کی دُلائی۔
آسمان دھواں دھواں، ہوا اور فضا کووں کی کایئں کایئں سے پٹ گئی۔ مِلوں کے بھونپُو بجے۔ پھر ایک موٹا سا آدمی بنیان اور نکر پہنے گیلری میں آ کر دانت مابجھتا کھڑا ہوا۔ ایک عورت اپنے بال سمیٹتی آئی اور ایک ادھوری انگڑائی لے کر لوٹ گئی۔ نوکر چاکر دودھ کی بوتلیں، ڈبل روٹی، مکھن، سبز ترکاریاں خریدنے نکلے۔ پھر ایک بس سڑک پر سے گزری جس میں چند آدمی بیٹھے تھے۔ کئی مکانوں سے ٹرانئزسٹر کی آوازیں آیئں۔ فلمی گیت اور اشتہارات نشر ہونے لگے۔ اسکے بعد کارپوراشن کی گاڑی آئی اور سڑک کے موڑ پر رک گئی۔ وہاں چند لوگ، برہنہ اکڑے پڑے تھے۔ کچھ لوگ گاڑی میں سے اترے، آدمیوں کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، اور گاڑی پھر چل پڑی۔