13 ۔۔۔ ڈاکٹر انور سجاد

13

ڈاکٹر انور سجاد

میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے سامنے سر جھکائے لوگوں کی قطار میں کھڑا ہوں۔ سب سے اگلے آدمی کی ناف سے لے کر سب سے پچھلے آدمی کی ناف تک ایک سرنگ ہے۔ ( اس تاریک سرنگ میں کیڑے رینگ رہے ہیں )

میں سرنگ کی دیواروں کو ٹٹولتا، ٹھوکریں کھاتا دفتر کی کھڑکی تک پہنچا ہوں۔ ایمپلائمنٹ ایکسچینچ کے کلرک نے ایک کاغذ تہہ کر کے میرے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔” اس کاغذ میں وہ تمام راز ہیں جن کے لئے تمہیں زندہ رہنا چاہئے۔ ” اس نے فقرہ تان کر میرے سر میں مارا ہے۔ میں خوشی خوشی کاغذ کی تہیں کھولتا ہوں، کاغذ با لکل صاف ہے۔

ٹھک ٹھک ٹھک، ابھی دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی تھی۔ میں نے کتاب سے نظریں اٹھائی ہیں اور کسی کو اپنے سامنے اوزار لئے کھڑا دیکھ رہا ہوں۔ کہتا ہے میرا میٹر بند کرنے آیا ہے ( تاکہ وہ تمام بلب بجھ جایئں جن کی کرنوں کے جمال میں میں پھنسا ہوں)۔ میں اسے یقین دلاتا ہوں کہ میرے گھر میں بجلی نہیں ہے۔ اگر کسی زمانے میں تھی تو محکمے والے بل کی عدم ادایئگی کے باعث کاٹ گئے ہیں۔ وہ اپنا غار سا منہ پھاڑے ہنس رہا ہے۔ اس کے لمبے لمبے گوشت خور دانتوں سے مجھے کوئی خوف نہیں آیا۔ اس نے ہوا میں پکڑے رینچ سے ہوا کو کھٹکھٹایا ہے۔

ٹھک ٹھک ٹھک ، میرے سر میں دستک ہوتی ہے۔

وہ کھڑا رہے گا اور میری آنکھیں اطمینان سے کتاب کے الفاظ چاٹتی رہیں گی کیونکہ میرا میٹر خفیہ تہہ خانے میں ہے۔

یہ تہہ خانہ کہاں ہے ؟

جانے میں اس کوٹھڑی میں کب سے ہوں، خستہ دیواریں کونوں میں ایک دوسرے کے ساتھ لکڑی کے جالوں سے بندھی ہیں۔ ہر لحظہ یوں لگتا ہے جیسے جالوں کی گرہیں کھل جایئں گی۔ کوٹھڑی میں کوئی روشنی نہیں ۔ میں دیکھ سکتا ہوں۔ مکڑیوں کی آنکھیں بلب ہیں اور میری آنکھیں روشنی۔ جانے ہم کب سے ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے ہیں۔ ( کبھی کبھی یہ سوال درد بن کر میرے سر میں دھڑکنے لگتا ہے )

میں گھر سے نکل آیا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں دن نکل آیا ہے۔  روشنی اتنی تیز ہے کہ کائنات سورج کا عکس پڑنے سے سیاہ ہو گئی ہے ۔ میرے جوتے کچی گلی کی کچی اینٹون سے زیر لب سازش کر رہے ہیں۔ میرے پیر اس سازش کا شکار ہو رہے ہیں اور میرے سر کی طرح دکھنے لگے ہیں۔ سر اور پیر کے درمیان مکڑی کے جالے میں ، لا تعداد پلاٹینم کے تار۔

(پیارے بچو۔ خوش آمدید )

انہوں نے مجھے گھر سے نکلتے دیکھ لیا ہے اور مختلف آوازے کستے ہیں، میں مسکرایا ہوں اور میری ساری مسکراہٹ لہو بن کر میرے ہونٹون سے بہہ نکلی ہے۔ آج ان کا نشانہ صحیح لگا ہے۔ ان کی ہنسی نے مجھے دھکا دیا ہے، اینٹوں اور جوتوں کے درمیان اُلٹے ٹیپ ریکارڈر چلنے لگے ہیں۔

( خدا حافظ۔ پیارے بڈھے)

ان میں سے ایک نے بڑی تیزی سے میری طرف دیکھا ہے اور میری نظریں فورا اپنے ہاتھ کی طرف اٹھ گئی ہیں۔ چھوٹا سا پیارا پیارا۔ نرم نرم اس ہاتھ میں پتھر ہے۔

مین چلتی بس میں چڑھا ہوں جو بس سٹاپ پر آ کے رکی تھی۔ کھڑکیوں میں مکان ، بجلی کے کھمبے، لوگ، درخت بھاگے جا رہے ہیں۔ میں ساکت ہوں، با لکل ساکت۔ بس کی سیڑھیوں پر صرف میری نگاہ کے دھبے ناچ رہے ہیں۔

گرڑ گرڑ، بس رکتی نہیں، چلتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے اترنا کہاں تھا۔ اوہ ہاں، اچھا نہیں، اگلے سٹاپ پر سہی۔ اچھا تو پھر اگلا سہی۔

ایک جھٹکے کے ساتھ بس اچانک رک گئی ے۔ میں نے کنڈکٹر کو تلاش کرنا چاہا ہے تاکہ اسے ٹکٹ کے پیسے دے دیں لیکن بس میں کوئی نہیں۔ مسافر نہ کنڈکٹر نہ درایئور۔ یہ ڈرایئور کہاں چلا گیا۔ میں نے بس سے اتر کر ڈرایئور کو تلاش کرنا چاہا ہے لیکن بس بیابان کی خاموشی کا محور ہے۔ جانے کون سی جگہ ہے۔ مجھے واپس چلنا چاہیئے۔ یں خود بس سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ خاموشی۔ انجن میں شاید کوئی خرابی ہوگئی ہے۔ میں نے اتر کر بونٹ اٹھا کر انجن میں جھانکا ہے، پنکھے کے پٹے میں میرا سر پھنسا ہوا ہے۔

( ماتھے پپر لکھا ہے ڈرایئور۔)

موم بتی روشن ہے، سب سے باہر نیلا حلقہ، پھر نارنجی، پھر پیلا اور درمیان میں سیاہ تلک۔ شعلہ منور ہے، جانے کہاں سے ایک پروانہ یہ شعلہ چوری کرنے آیا ہے۔ اس نے خاموشی سے غوطہ لگایا ہے۔ چور کا جال مشروم بن کر آسمان کو اٹھا ہے، وہ ایک اور آیا۔ ایک اور۔ ایک اور۔

موم مشروم کے ستونوں میں چنی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ منجمد ٹیلے اور پیلے حلقے لیکن سیاہ تلک پتھر ہے اور میں اس پتھر کے آیئنے میں محفوظ ہوں۔

بہت تیز قسم کی بدبو ہے۔ ایمونیا اور انتڑیوں کے باسی، بی کولائی فضا پر محیط ہیں۔ گودام میں آ کر گوشت اور اناج کی زندگی اور موت گڈ مڈ ہو گئی ہے۔ بی کولائی میں زندگی ہے اور یہ زندگی گودام کی موت، فرش پر کاکروچوں کی لا تعداد فوجیں گامزن ہیں۔

یہ بدبو کہاں سے آ رہی ہے۔

چند کاکروچ اپنی صفیں چھوڑ کر مجھ پر حملہ آور ہو گئے ہین۔ ان کے جسموں سے نکلی آریاں اور خاردار منہ میرے پیروں پر چل رہے ہیں۔ میرے پیروں کا درد، سفر کرتا گھٹنوں تک آ گیا ہے۔ وہاں تک پلاٹینم کے تار بجھ گئے ہیں۔ مجھے ہنسی آ رہی ہے کہ آخر یہ کاکروچ چاہتے کیا ہیں۔ ( یہ بدبو مجھ سے تو نہں ا رہی )۔

میں وہ بدبو ہوں جو اس شخص کے اندر جذب ہو رہی ہے جو کاکروچوں پر ہنس رہا ہے۔ یا وہ شخص ہوں جو کاکروچوں کے پیر چاٹ رہا ہے۔

میرے سینے میں الٹی گڑی لا تعداد میخون والا فل بوٹ اٹھا لو۔ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔

خورد بینی خلیوں سے بنے چھوٹے چھوٹے چیتھڑے سات رنگوں کا چشمہ ہیں۔ دھنک پگھل کر سرخ ہوئی ہے اور بہہ نکلی ہے۔لہو کے پہلے قدم جمتے جاتے ہیں، دوسرے قدم اوپر سے پھسل کر پہلے بن جاتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان قدموں میں میرے قدم بھی ہیں، میں اس دریا پر پکنک مناے آیا تھا۔ دریا میرے گرد ایک بہت بڑی قوس میں گھوم کر دائرہ بن گیا ہے۔ میں اس سرخ سانپوں کی کنڈل میں قید ہو گیا ہوں۔ کنڈل کے وسط میں بیٹھا خورد بین سے رومال کے خلیوں میں فرار کی راہ ڈھونڈھ رہا ہوں۔ خورد بین کی آنکھ سے لا تعداد آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔

ہر آنکھ میری آنکھ ہے، میں کس راہ سے نکلوں ۔ ؟

دیکھو میں کونے کے سرے کا چُنا ہوا اور قیمتی پتھر رکھتا ہوں۔ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا یا ٹھیس لگنے کا پتھر ٹھوکر کھانے کی چٹان ہوا۔ کیوں کہ وہ نافرمان ہوئے ۔

پتھروں پر میرا نام کنندہ ہے اور میں نے ہی پتھروں کے تخت پر بیٹھے شخص کے ہاتھوں میں وہ کتاب دیکھی جو کہ اندر سے اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور جسے مہریں لگا کر بند کیا گیا تھا۔

کون ان مہروں کو توڑنے کے لائق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون ان مہروں کع توڑنے کے لائق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے سر میں مہرے توڑنے کی آوازوں سے کنکجھورے رینگ رہے ہیں۔

سیاہی مائل سبز رنگ پیروں کے راستے ٹانگوں میں سفر کرتا ہوا میری گردن تک آ پہنچا ہے۔ پلاٹینم کے تار بجھ گئے ہیں، سر اور پیروں کے درمیان لکڑی کے جالوں میں لفظ مصلوب ہے۔ اس کی بوندیں خاردار تاروں سے ٹپکتی ٹپکتی اٹک گئی ہیں۔ لا تعداد چیونٹیاں بوندوں کا رس چوس کر لوٹتی ہین۔ پیاسی چیونٹیوں کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہیں اور کھلکھلاتی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی کھلکھلاہٹ سے میرے گوشت کی دیوار پر گدگدی ہوتی ہے۔

میرے جسم کے تین چوتھائی حصے میں جو کہ پانی ہے، بلبلے پھوٹ کر ہنس رہے یں۔ ان کے متعفن بھبکوں سے میرا سر چکرا رہا ہے، ڈھیلا ہو رہا ہے۔ اس لفظ کے آخری سانس کیوں ختم نہیں ہوتے۔ ایک لمحہ بس ایک لمحہ

یہ لمحہ پھیل کر ابدی ہو گیا ہے

مجھے لطف آنے لگا ہے

یہ نالی میں اوندھا پڑا تھا

یہ لاوارث ہے ہم اسے آپ کے پاس لے آئے ہیں

ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔ جاہل

اس پر ٹیکے کا کوئی بھی اثر نہیں ہوا۔ میں نے اس کے لعاب دار گوشت کا نمونہ خورد بین سے دیکھا ہے جو تصدیق کرتا ہے کہ اس کو پیروں سے لے کر گردن تک زہرباد ہو گیا ہے۔ اس کے سر کو بچانے کے لئے اسے جسم سے علیحدہ کرنا ضروری ہے۔

” لیکن ڈاکٹر۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں “

” نہیں تمہیں تکلیف ہے”

” نہیں ‘

” بیوقوف۔ مجھے تم سے زیادہ علم ہے۔ سر کو بچانا پڑے گا۔”

” قتل ہونے میں بڑی لذت ہے۔”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031