نیلا دروازہ ۔۔۔ انور جمال
نیلا دروازہ
(انور جمال)
نیلا دروازہ …… گلی میں دو دروازے بالکل آمنے سامنے تھے ,ایک کا رنگ نیلا تھا, دوسرے کا سبز …… یہ دونوں دروازے اکثر ایک دوسرے سے رنگ تبدیل کیا کرتے .کبھی نیلا سبز ہو جاتا اور کبھی سبز نیلا یا کبھی دونوں ہی نیلے یا دونوں ہی سبز ,, جب میں رات کو دو یا تین بجے گھر لوٹتا تو بڑی دقت پیش آتی کہ کس دروازے کو بجاؤں … یہ تو اچھی طرح معلوم تھا کہ میرے گھر کا دروازہ سبز رنگ کا ہے لیکن جب دونوں ہی نیلے یا سبز ہو چکے ہوں تو کوئی کیسے تمیز کرے ۔ نیلے دروازے کے پیچھے ایک کرائے دار خاتون نئی نئی محلے میں آئی تھیں جن کا شوہر رات کو ڈیوٹی پر ہوتا تھا ۔ مجھے خوف ہوتا کہ اگر میں نے غلط فہمی میں کسی دن نیلے دروازے پر دستک دے دی تو کہرام مچ جائے گا لوگ دھڑا دھڑ دروازے کھڑکیاں کھول کر باہر نکل آئیں گے اور مجھے بد کردار اور بدچلن ثابت کرتے ہوئے میری بیوی کے آگے پیش کردیں گے ۔ بیوی کے سامنے اس طرح سے پیش ہونا کتنا بھیانک ہوتا ہے یہ تو معلوم ہی ہو گا آپ کو اس لیے میں کبھی کبھی گلی میں پڑے پڑے صبح کر دیتا ہوں مگر اپنے گھر نہیں جاتا ..صبح میری بیوی خود ہی آکر نیم غنودگی یا بے ہوشی کے عالم میں مجھے اٹھا کر گھر لے جاتی ….اسے معلوم ہے کہ سر پہ آنے والی چوٹ کے باعث آج کل میں غائب دماغ رہنے لگا ہوں ..مجھے دن میں تارے نظر آتے ہیں,,,, کبھی کبھی میں دیکھتا ہوں کہ چاند آسمان کا گول گول چکر کاٹ رہا ہےاور پھر وہ دھیرے دھیرے زمین کی طرف آنے لگا ہے,,, قریب اور قریب اور قریب ,,, یہاں تک کہ وہ میری گلی میں اتر کر بالکل سامنے آن کھڑا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے پتہ نہیں کہاں سے اس کے ہاتھ میں ایک جھاڑو آجاتا ہے اور وہ نیلے دروازے کے سامنے جھک جھک کر کچرا سمیٹنے لگتا ہے اور تب جھکنے کے سبب اس کا دودھیا چاندنی کا سا گریبان جھلکنے لگتا ہے ,, ایکدم سے میں اپنے سر پر ہاتھ مار کر پلکیں جھپکاتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو وہی کرایے دار خاتون ہے… جانے مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے.. میں پریشان ہو جاتا ہوں اور اپنے سبز دروازے کو جلدی سے بند کر کے کسی کمرے میں گھس جاتا ہوں… کبھی کبھی میں اس کمرے سے ہفتوں باہر نہیں آتا.. ہاں میرے رونے کی آوازیں ضرور باہر آتی ہیں…. پھر مجھے کسی طرح کھینچ کھانچ کر باہر نکالا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارا نہیں دراصل تمہاری بھابھی کا کمرا ہے… محلے کی بڑی بوڑھیاں میری اس حالت پر افسوس کرنے آیا کرتیں… ہائے ہائے کتنا ذہین اور پڑھا لکھا لڑکا تھا. بے چارے کے ساتھ بہت برا ہوا.. اللہ کرے اس شخص کے ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں جس کے غنڈوں نے اس کی پھینٹی لگائی تھی… ارے مارنا تھا تو کم از کم سر پہ تو نہ مارتے……. وہ ہمدردی سے باتیں کرتیں اور میری بیوی کے آنسو نکال کر چلی جاتیں.. یہی سب دیکھ کر میں زیادہ سے زیادہ گھر سے باہر رہنے لگا ہوں ۔ ۔ ۔ ایک دن یونہی کسی جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پیاری سی صنف نازک اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہاتھوں میں یاتھ ڈالے جاتی نظر آئی..مجھے یاد آیا کہ میرا بھی ایک ایسی ہی لڑکی کے ساتھ تعلق تھا.. وہ مجھے پسند کرتی تھی اور میں اسے…مگر وہ پوچھا کرتی تم بڑے آدمی کب بنو گے ؟ میں سے بتاتا کہ میں کافی بڑا ہوں.. چھپا رستم ہوں.. اپنی ذات میں بند ہوں.. دنیا کے سامنے نہیں آسکا اب تک.. تو وہ ہنستی نادان تھی وہ.. اسے معلوم نہیں تھا کہ بڑے لوگ ہماری وجہ سے ہی بڑے کہلاتے ہیں.. وہ بلا شرکت غیرے اتنے بڑے نہیں ہوتے.. وہ ایک گلوکار پہ مرتی تھی.. ہر وقت اس کے گانے سنتی رہتی اور خود بھی اس کی طرح گانے کی کوشش کر کر کے میرے کان کھاتی رہتی.. کہتی.. ہائے کتنا رومینٹک ہے وہ.. اس کے گانوں کے بول دیکھو.. جیسے ایک ایک لفظ موتی میں پرویا ہو… جادوگر ہے وہ جادوگر… اس کی تعریفیں ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھیں یہاں تک کہ ایک دن میں پھٹ پڑا اور یہ انکشاف کرنے لگا کہ اس نوجوان گلوکار کی آواز بڑی اچھی ہے.. اس میں کوئی شک نہیں.. لیکن اس کے سارے ہٹ گانے میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہوتے ہیں ..اگر میں لکھنا بند کردوں تو وہ فٹ پاتھ پہ آجائے.. جانے میرا یہ انکشاف کس قدر بلند وبانگ تھا کہ شہر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں.. پھر جانے کہاں سے ایک اخباری رپورٹر میرا سب سے بڑا ہمدرد بن کر سامنے آگیا.. اپنی کسی چیز کو دوسرے کی ملکیت ہوتے دیکھنا کتنا کربناک ہوتا ہے اس بارے اسے پہلے ہی معلوم تھا جبھی وہ ہاں ہاں میں سر ہلاتا رہا اور لکھتا رہا.. میں نے لکھوایا کہ دنیا والو.. بتاؤ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص تو شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے مگر دوسرا خود کو گمنامی کے اندھیروں میں چھپائے رکھے.. اگلے دن گلوکار مجھ پر چیخ رہا تھا ..کمینے آدمی تجھے پے منٹ کردی تھی میں نے… پھر منہ کیوں کھولا… دو ٹکے کے نالی کے کیڑے… اور پھر اس نے طیش کے عالم میں کوئی بھاری چیز میرے سر پہ دے ماری…. میں کسی جگہ بیٹھا یہی سب سوچ رہا تھا.. سوچتے سوچتے رات ہو گئی.. اپنی گلی میں داخل ہوا تو ایک بار پھر دونوں دروازوں کی سازش کا شکار ہوگیا.. دونوں ہی نیلے رنگ کے ہوچکے تھے.. فرق صرف اتنا تھا کہ ایک تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور دوسرا سختی سے بند…. ادھ کھلے دروازے کو ٹرائی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے میں اندر داخل ہوا… چپکے چپکے چوروں کی طرح چلتے ہوئے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے گھر کو پہچاننے کی کوشش کی اور پہچاننے میں کامیاب ہو گیا.. میرا ہی گھر تھا یہ اور یہ میرا ہی کمرا تھا مگر یہ کیا.. کمرے کا دروازہ کھولتے ہی مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ..بیڈ پر وہی سامنے والی کراے دار سورہی تھی.. وہی چاند سا مکھڑا.. وہی نازک نازک ہاتھ.. وہی سفیدی چھلکاتا ہوا گریبان.. پھر اس سے پہلے کہ میں الٹے قدموں واپس آتا کسی شیطان نے جھاڑو سے مجھ پر وار کیا اور دھکا دے کر اس کے اوپر پھینک دیا… صبح آنکھ کھلی تو سب سے پہلے میں یہ دیکھنے دوڑا کہ دروازہ نیلا ہے یا سبز….. پیچھے سے آواز آئی.. کہاں جا رہے ہیں ناشتہ تو کرلیں……. دروازہ نیلا تھا… یعنی ایک تو بدکاری اوپر سے ناشتہ بھی.. میں اپنے سبز دروازے کی طرف لپکا.. بدقسمتی سے میری بیوی دروازے سے جھانک رہی تھی.. اس نے مجھے سامنے والے مکان سے نکلتے دیکھ لیا تھا.. کہنے لگی.. یہاں کیوں آرہے ہو…. جاؤ جاؤ.. وہیں جاؤ….. میں نے ہاتھ جوڑ دیے.. آئی ایم سوری.. رات کو غلط فہمی ہو گئی تھی.. کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی… وہی تمہارا گھر ہے.. مجھے خوشی ہے کہ تم وہاں گئے.. اس نے کہا… یقیناً وہ طنز کر رہی تھی.. میں زبردستی اندر گھس گیا اور اپنا کمرا تلاش کرنے لگا.. کمرا کہیں نہیں ملا تو اس کے پاؤں پڑ گیا.. پلیز مجھے کمرے میں لے چلو.. مجھے کچھ ہورہا ہے… حقیقت یہ تھی کہ میں حواس باختہ ہو رہا تھا.. مجھے خود کو ایک کمرے میں بند کر لینے کی سخت ضرورت آن پڑی تھی.. آخر اس نے مجھے ایک کمرے میں دھکیل دیا گیا.. میں نے جلدی سے کنڈی لگا کر خود کو محفوظ کیا اور کمبل اوڑھ کر ایک جگہ دبک گیا… پھر شاید میری آنکھ لگ گئی یا بے ہوش ہوگیا.. ہوش آیا تو شام کے پانچ بج رہے تھے اب میں خود کو کافی بہتر محسوس کر رہا تھا.. یہی وجہ تھی کہ آنکھ کھلتے ہی میں نے جان لیا کہ یہ میرا نہیں بھابھی کا کمرا ہے… کیونکہ ان کا تمام تر فرنیچر شیشم کی لکڑی کا تھا.. خود کو برا بھلا کہتے ہوئے آئینے میں اپنا سراپا دیکھا…تو مزید مایوسی ہوئی.. کیسا تھا میں اور کیسا ہو گیا ہوں.. کمرے سے نکلا تو بھائی اور بھابھی کو لونگ روم میں ہنستے ہنساتے پایا.. آئیے آئیے مہاراج… سو کے اٹھ گئے؟ بھائی کے لہجے میں طنز تھا.. اس نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا ..بھوک لگ رہی ہوگی.. بھابھی نے تشویش ظاہر کی.. میں پوچھتا ہوں کہ جب تم پر غائب دماغی کا دورہ پڑتا ہے تو میرے ہی کمرے میں کیوں آکر بند ہوتے ہو؟ بھائی نے شکوہ کیا… مجھے نہیں پتہ…. میں ایک صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا.. یہ بتائیں میرے سر پر چوٹ آئی کیسے ؟ تمہیں کوئی چوٹ نہیں آئی ..اس طرح کی باتیں تم نے خود مشہور کی ہیں اپنے نشے کی لت کو چھپانے کے لیے..خدا کے لیے اب نشہ چھوڑ دو.. مانا تمہارے پاس بہت پیسہ ہے اور یہ مکان بھی تمہی نے خرید کر دیا ہے ہمیں. مگر وہ پیسہ کب تک چلے گا. ایسا نہ ہو ایک دن تمہیں بھی میری طرح رات رات بھر ڈیوٹی کرنی پڑے… اب وہ دن دور نہیں.. بھابھی نے کہا ..اس کے پاس جتنا پیسہ تھا سب ختم ہوگیا.. ایک عرصے سے اس کا کوئی گانا ہٹ نہیں ہوا.. لوگ اسے بھولتے جارہے ہیں ..بھابھی نے چرکا لگاتے ہوئے میری یاداشت لوٹا دی.. تب یاد آیا کہ نیلے دروازے کے پیچھے چاند چہرے والی چاندنی ہی دراصل میری بیوی ہے اور سبز رنگ کا دروازہ میرے بھائی کے گھر کا ہے.. مجھے سب یاد آگیا تھا.وہ گلوکار بھی میں ہی تھا جس کے گانے کبھی ٹاپ ٹین لسٹ میں ہوتے اور ہر چینل پہ چلتے تھے.. میں صوفے سے اٹھا.. بھائی میں ناشتہ کر کے آتا ہوں.. یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا.. نیلا دروازہ اور چاندنی دونوں میرے منتظر تھے.. چاندنی کو بھی میں نے یہی باور کرایا تھا کہ سر کے چوٹ کی بدولت میری دماغی حالت درست نہیں آجکل… مگر امید ہے کہ جلد ٹھیک ہو جاؤں گا… شاور اور ناشتے کے بعد حسب معمول میں باہر نکل گیا.. گلیوں اور بازاروں میں لوگ آ جا رہے تھے.. ہر طرف گہما گہمی تھی تاہم دکانوں میں رکھے ہوئے میوزک پلیئر خاموش تھے.. انہیں انتظار تھا کسی سپر ہٹ البم کا جو میں انہیں دے نہیں پا رہا تھا اور یہی میرا سب سے بڑا دکھ تھا.. میرے پاس صرف ایک گلا تھا. گیت یا نغموں کے بول نہیں تھے.. شدید دکھ اور محرومی کے احساس نے مجھے گھیر لیا.. کیا مجھے دولت اور شہرت اب کبھی نہیں ملنے والی.. کیا میں ایک بار پھر گمنامی کے اندھیروں میں غائب ہونے والا ہوں؟ انہی سب سوالوں نے میری یاداشت ایک بار پھر چھین لی.. بس اتنا یاد تھا کہ میں پی رہا ہوں ..پیے جا رہا ہوں.. رات آدھی سے زیادہ بیت گئی تو میں اپنی گلی میں لوٹ آیا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگا کہ میرا گھر کونسا ہے..آج بھی دونوں دروازوں نے اپنے اپنے رنگ تبدیل کیے ہوئے تھے..میں نے دونوں پر لعنت بھیجی اور چبوترے پر لیٹ کر اپنے اچھے دنوں کو یاد کرتے کرتے سو گیا.. امید تھی کہ میری بیوی کسی وقت آ کر لے جائے گی.. کافی دیر بعد کسی نے میرے گالوں پر بوسہ دیا.. آنکھ کھولی تو سامنے بھابھی کو پایا.. جلدی سے اٹھ بیٹھا.. وہ افسوس کرتے ہوئے بولی.. چچ چچ.. اس طرح تو تم مر جاؤ گے..تم گلوکار ہو مگر اپنے گانے کا ایک مصرع بھی خود سے نہیں لکھ سکتے.. کسی اور سے لکھواتے ہو تو وہ اتنا اچھا نہیں ہوتا..صرف میرے ہی لکھے ہوئے گانے تمہیں آسمان کی بلندیوں پر لے گئے تھے…کب تک دور رہو گے.. مان لو کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں.. تم میرے بغیر کچھ نہیں اور میں تمہارے بغیر … …دیکھو کتنا چاہتی ہوں تمہیں.. مگر تم سنگدل ہو .. محبت کا اظہار کرتی ہوں تو مارنے لگتے ہو ..ہاتھ اٹھا دیتے ہو مجھ پر…. پچھلی بار تم نے پتھر اٹھا کر میرے سر پر مار دیا تھا.. ..مگر کوئی بات نہیں ..چاہو تو مجھے جان سے مار دو….یہ جان بھی تمہاری ہے.. مجھے پتہ تھا اب وہ بولتی چلی جائے گی ..اور آخر میں رونا بھی شروع کر دے گی.. میں نے ہاتھ اٹھانے کی بجائے آہستگی سے ہاتھ چھڑایا اور نیلے دروازے کو سامنے پا کر چپ چاپ چلا گیا..چاندنی سو رہی تھی… میں اس کے پہلو میں جا کر لیٹ گیا..اور دل ہی دل میں عہد کیا کہ اب اپنی چاندنی سے کبھی بے وفائی نہیں کروں گا…. کتنی اچھی تھی وہ.. کتنا بھروسہ کرتی تھی مجھ پر…. بس اس میں ایک ہی کمی تھی کہ اسے شاعری نہیں آتی تھی.. کاش میری چاندنی ہی مجھے اچھے اچھے نغمے لکھ کر دیا کرتی …بہرحال اس رات میں مطمئن ہو کر سویا… آج ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا..مگر صبح پانچ بجے آنکھ کھلی تو دل دھک دھک کرنے لگا ….. اف… کمرے کا فرنیچر, الماری, سنگھار میز ,شو کیس سب شیشم کی لکڑی کا تھا.. اٹھو…. جلدی نکلو……. صبح ہونے والی ہے.. میں نے اسے زور زور سے ہلایا…. اونہوں… سونے دو ناں… اس نے لپٹنے کی کوشش کی… میں نے دھکا دے کر دور کیا .. جیسے تیسے اسے کمرے سے نکال کر کنڈی چڑھائی اور کمبل اوڑھ کر ایک جگہ دبک گیا