ایک کاندھا چاہیے۔۔۔انور ظہیر رہبر

ایک کاندھا چاہیے

انور ظہیر رہبر

ایک کاندھا مل سکتاہے؟

اُس نے اپنے سامنے بیٹھے جوڑے سے پوچھا جوایک دوسرے کے کاندھے پر باری باری سر رکھ کر سفر کررہے تھے۔

سفر تھا بھی بہت طویل اور تھکا دینے والا۔ٹرین کی پٹری خراب تھی نئی ڈالی جارہی تھی اس لیے ٹرین کی بجائے مسافروں کو ایک لمبی سی بس میں سوار کردیا گیا تھا۔ بس دیکھنے میں کیڑے لاروا سے ملتی جلتی تھی۔ بس ہائی وے پر بھاگ رہی تھی لیکن اسے صرف 80 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ہی چلنے کی اجازت تھی اور بس میں بیٹھ کر یہی لگ رہا تھا کہ بس کا انجن بھی اس سے زیادہ کا محتحمل نہیں ہوسکتا ۔

“ٹرینیں اپنی اپنی پٹریوں پر چلیں تو ہی درست ہوتا ہے ۔ کہیں رُک جائیں اور یا کہیں پٹری سے اُتر جائیں تو عموماً منزل تک پہنچنے میں بڑی دشواریاں ہوتی ہیں۔ دیکھیں نا سفر طویل ہوگیا ہے اور میں بہت تھکا ہوا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں خاتون کے ساتھ بیٹھ جاؤں اور کچھ دیر اُن کے کاندھے پر سر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلوں ۔”

اُس شخص نے اُسے ایسا گھورا جیسے وہ اُسے کچا ہی نکل جائے گا۔

پھر اُس نے سوال کرنے والے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے موبائل فون پر بہت دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگ گیا ایسے جیسے کہ اُس کے پیچھے بیٹھے شخص نے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا۔

بس اپنے اسٹاپ پر پہنچ کر رُک گئی۔ بس کے دروازے کھول دیے گئے۔ مسافر اُترنے لگے ۔ وہ جوڑا بھی نیچے اُترا اور اُس کے پیچھے وہ شخص بھی۔

وہ جیسے ہی اُترا اُسےایک پولیس کی وردی میں اور ایک عام لباس والے شخص نے مخاطب کیا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ اُسے ایک ویگن میں بٹھایا گیا۔ ویگن ایک میڈیسنی چلتی پھرتی کلینک لگ رہی تھی۔

آپ ذہنی توازن کے بیماروں کو ذہنی توازن کے اسپتال پہنچانے والی ویگن میں ہیں ۔ ہمیں آپ کے بارے میں آپ کے سامنے بیٹھے شخص نے اطلاع دی تھی ، جو کہ خود بھی ایسی ہی ایک دوسرے کلینک میں کام کرتا ہے۔

“کیا!!!! وہ چیخا۔ ارے وہ تو صرف ایک مذاق تھا۔”

“جی ہوسکتا ہے لیکن میں آپ سے مذاق نہیں کررہا۔۔۔”

اُسے دوسری صبح ذہنی مریض کے طبی معائینہ کے لیے ڈاکٹرکے سامنے پیش کیا گیا ۔ ایک لیڈی ڈاکٹر اُس کے سامنے موجودتھی جونہایت ہی دلکش لگ رہی تھی ۔ لیڈی ڈاکٹر نے اُس شخص کا استقبال ایک خوبصورت سی مسکراہٹ سے کیا۔ اُس شخص نے بھی لیڈی ڈاکٹر کو بہت اچھے اندازمیں دیکھا۔ ڈاکٹر نے اُسے بیٹھنے کو کہا اور وہ کرسی کو اپنی جانب کھینچ کر بیٹھ گیا۔

ڈاکٹر نے گفتگو کا آغاز کیا۔

“ مجھے آپ کا آج مکمل چیک اپ کرنا ہے ۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گی کہ میرے ہر سوال کا جواب مکمل اور درست دیجیے گا۔ مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہے اور آپ کے خاندان کے بارے میں جاننا ہے ساتھ ہی آپ کی تمام ذاتی تفصیلات بھی۔ “

اتنا کہہ کر ڈاکٹر نے پھر ایک بھرپور مسکراہٹ سے اُس شخص کی طرف دیکھا۔

“ جی میں ہر سوال کا مکمل جواب دینے کی پوری کوشش کروں گا لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ مجھے جو ذہنی توازن کا مریض بناکر یہاں لایا گیا ہے وہ غلط ہے میں پاگل ہرگز نہیں ہوں ۔ مجھے ہر بات کا مکمل پتہ ہے اور زندگی کے ہر زاویے کو جانتا ہوں ۔ اس لیے آپ مجھے پہلے اس کیٹگری سے باہر نکال دیں ۔ میرا وعدہ ہے کہ میں سب سچ بتاؤں گا۔ “

اُس شخص کی باتوں پر ڈاکٹر نے پھر مسکراہٹ سے اُسے دیکھا اور جواب دیا۔

“ یہ تو آج کی باتوں اور آپ کےمکمل چیک اپ کے بعد ہی فیصلہ کروں گی ۔ فی الحال آپ سوالوں کا جواب دیں پھر میں آپ کے سر کا ایم آر آئی کرواؤں گی یہ دیکھنے کے لیے کہ دماغ کی بناوٹ میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔”

ایک توقف کے بعد ڈاکٹر نے اُس سےمختلف سوالوں کے بعد اُس شخص کو کہا کہ وہ اپنا مکمل نام اور اپنے بارے میں تفصیل سے بتائے ۔

“ میرا نام ماتھیو سرائیکا ہے ۔ میں سری لنکا کے جنوب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا ہوں۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ میری ماں تو مجھے پیدا کرکے ہی اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔ جب چھ سال کا تھا تو باپ بھی تپ دق کے مرض میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کوئی بھائی بہن نہیں تھا اس لیے تایااور تائی نے میری پرورش کی لیکن زیادہ پڑھایا نہیں ۔ میں نے دس جماعت پاس کرلیا اور آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر تایا نے مجھے کھیتی باڑی میں لگا دیا۔ میرا کھیتی باڑی میں بالکل دل نہیں لگتا تھا۔ میں تایا سے بہت ڈانٹ کھاتا لیکن خود کو تیار ہی نہ کرپایا کہ دلمجعی سے کھیتی باڑی کا کام کروں ۔ پندرہ سال میں دس جماعت مکمل کی تھی پانچ سال کھیتی باڑی کا کام نہ سیکھنے میں ضائع کردیا۔ تایا مجھ سے شدید پریشان تھا۔ ایک دن اُس نے مجھے ایک ایجینٹ کے حوالے کیا اور کہا کہ

“ تُم جیسے نکمے کی یہاں اُسے بالکل بھی ضرورت نہیں ہے اس لیے یہاں سے جاؤ یہ ایجینٹ تُم کو کہیں یورپ پہنچا دے گا وہاں جاکر اپنی قسمت آزمائی کرو۔ میں اور تمہیں بیٹھا کر نہیں کھلا سکتا۔ “

یہ کہہ کر اُس شخص نے اپنا گلا تھوک سے تر کیا تو ڈاکٹر نے میز پر پڑے پانی کے جگ سے ایک گلاس میں پانی اُس کی طرف بڑھایا۔ پانی کے چند گھونٹ پینےکے بعد وہ پھر گویا ہوا۔

“ یورپ آکر سات سال سے ایک ملک سے دوسرے مُلک دھکے کھا رہا ہوں ۔ نا کوئی پناہ ٹھیک سے ملی ہے اور نہ کوئی جاب۔ آج تک کسی لڑکی نے بھی لفٹ نہیں کرائی۔ یہاں تک کے پناہ گزین کے کمیپ میں جہاں میں رہتا ہوں کسی غیر ملکی عورت نے بھی مجھے اپنے پاس نہیں آنے دیا۔ اب میری عمر آٹھائیس سال ہونے والی ہے ۔ زندگی کے اتنے سال یوں ہی گنوا چکا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اب زندگی ڈھنگ سے گزاروں، کہیں نوکری کروں کہیں کوئی اچھے سے فلیٹ میں رہوں اور کوئی اچھی سی لائف پاٹنر بھی ہو۔”

اب کی بار اُس نے کافی طویل وقفہ لیا تو ڈاکٹر بول پڑی ۔

“ تمہاری کہانی بہت دکھ بھری ہے اور اس میں مجھے مکمل سچائی نظر آرہی ہے ۔ تو یہ بتاؤ کہ کل جو تمہیں یہاں لا گیا ہے اس کی کیا وجہ بنی؟”

“ جی ڈاکٹر صاحبہ یہی تو بات سمجھ نہیں آئی ۔ دیکھیں میری بھی خواہش ہوتی ہے کہ میری زندگی کے اس سفر میں کوئی ساتھی ہو۔ کل ٹرین بند تھی اور مجھے بس میں سفر جاری رکھنے کا کہا گیا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا اور نیند کا غلبہ بھی تھا۔ گردن ادھر اُدھر لڑھک رہی تھی۔ سامنے والی سیٹ پر ایک جوڑا بیٹھا تھا جو باری باری ایک دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ کر سفر کو انجوائے کررہا تھا۔ میں انسان ہوں، مرد ہوں میرا اچانک دل چاہنے لگا کہ مجھے بھی کوئی اپنا کندھا دے جہاں میں سر رکھ سکوں ۔ بس اسی لیے اُس جوڑے سے بات کی اور خاتون کا کاندھا مانگ بیٹھا۔ ایسا بھی کیا تھا سوچا چلو مذاق کرتا ہوں لیکن یہ تو بڑا مہنگا پڑ گیا اور مجھے خبطی سمجھ کر یہاں بھیج دیا گیا۔”

“ اچھا آپ کو عجیب نہیں لگا اس طرح کسی سے اُس کا کاندھا مانگتے ہوئے۔ اور سچ بتائیں کیا کوئی ایسی چیز طلب کی جاتی ہے ؟ اور کوئی مرد اپنے پارٹنر کے پاس آپ ایک اجنبی کو بھلا کیوں بیٹھنے دے گا۔ یہ تو مکمل بے وقوفی ہے اور ایسا کوئی نارمل آدمی کرتا ہے بھلا؟”

ڈاکٹر نے پھر سے اُس کی طرف نہایت مہربان ہو کر دیکھا اور پوچھا۔

“ جی میں مانتا ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن خواہش تو خواہش ہے نا ۔ میں اپنی خواہش کے آگے مجبور ہوگیا تھا۔ میری کوئی بُری نیت تھوڑی تھی۔ “

“ مانا کہ آپ کی بُری نیت نہیں تھی لیکن آپ سوچیں کہ اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ ہوتے اور کوئی اجنبی آپ سے یہی سوال کرتا تو آپ کو کیسا لگتا؟”

ڈاکٹر نے اُس کے خاموش ہونے پر پھر ایک سوال داغ ڈالا۔ وہ ڈاکٹر کے اس سوال پر ایک کھسیانی ہی ہنسی اپنے چہرے پر لاتے ہوئے بولا،

“ ڈاکٹر صاحبہ میری بیوی یا میری کوئی دوست۔۔۔۔”

اتنا کہہ کر اُس نے اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر نے گفتگو کے بعد اُس کے کئی ٹیسٹ کروائے ۔ چار دن ہوچکے تھے اُسے اس کلینک میں ۔ وہ دیکھتا ہر کونے میں، کہیں راہداری میں کوئی نا کوئی شخص کھڑا اپنے آپ سے گفتگو کررہا ہوتا ۔ ہر شخص یہاں کسی نا کسی مسائل کی گھتی سُلجھانے میں لگا نظر آتا۔ اُسے اپنی حالت پر خود ہی ترس آرہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں اور یہاں پہنچ گیا ہوں اب جب یہاں سے باہر نکلوں گا تو یقینا ذہنی توازن کھو چکا ہوں گا۔

آج پانچویں دن اُسے پھر سے ڈاکٹر کے پاس پیش کیا گیا۔

“ ڈاکٹر صاحبہ میں یہاں رہ رہ کر پاگل ہوجاؤں گا مہربانی فرماکر مجھے یہاں سے رہائی دلائیں ۔”

اُس نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی بڑی عاجزی سے بولنا شروع کیا۔

“ ارے آپ پہلے بیٹھیں تو ۔”

ڈاکٹر نے بڑے ہی نرم لہجے میں اُس کو کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور جب وہ کرسی پربیٹھ گیا تب ڈاکٹر اُس سے پھر سے مخاطب ہوئ،

“ دیکھیے آپ کے ٹیسٹ نے ثابت کیا ہے کہ ۔۔۔ “

ڈاکٹر کچھ کہتے کہتے رُک گئی ۔

“ نہیں پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا آپ کے خاندان میں کوئی شخص ایسا تھا جو نارمل نہیں تھا یعنی آپ سمجھ رہے ہیں نا میری بات ۔ کوئی شخص جو کہ کچھ عام صورت حال سے ہٹ کر الگ سا تھا؟ ”

ڈاکٹر نے اُسے سمجھاتے ہوئے پوچھا۔

“ جی ڈاکٹر صاحبہ میرے ایک تایا تھے ۔ جو میرے بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے اس لیے مجھے تو یاد نہیں ہے کہ وہ کیا کرتے تھے صرف سُنی سُنائی بات ہی بتا سکتا ہوں کہ وہ اکثر کمرے میں زور زور سے اکیلے میں باتیں کیا کرتے تھے ۔ خاندان میں مشہور تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھے ۔”

وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ بول گیا لیکن حیرت سے ڈاکٹر کا منُہ تک رہا تھا کہ آخر ڈاکٹر نے ایسا کیوں پوچھا۔ پھر اُس سے صبر بھی نہ ہوا اور بول پڑا

“ ڈاکٹر صاحبہ آپ اس بات کو جان کر کیا کریں گی، وہ تایا تو میرے بڑے ہونے سے پہلے ہی گُزر گئے تھے اور مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ وہ کیا کرتے تھے ، نارمل تھے یا اب نارمل !!

“ ہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔”

ڈاکٹر نے اپنی بات شروع کی

“ آپ کے ٹیسٹ کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ آپ کے دماغی خلیوں کی نشوونما اور رابطہ پوائنٹس کے دوران پائے جانے والے نیرون درمیانی رابطے کو متاثر کررہےہیں۔ اس میں جو خاص اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نیرون انگریزی حروف سی اور ٹی کے نام سے جاننے جاتے ہیں اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن لوگوں کو والد اور والدہ دونوں سے ٹی ٹائپ وراثت میں ملتا ہے اُنہیں سائیکوز یا شیزوفرینیا کے شکارہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور بدقسمتی سے آپ کے اندر بھی ٹی ٹائپ زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ انہونی باتیں سوچتے ہیں ۔ “

ڈاکٹر نے اپنی بات مکمل کرلی لیکن وہ تو ایسے بیٹھا تھا جیسے وہ یہاں نہیں بلکہ کہیں اور ہی موجود ہو۔ یہ ساری سائنسی اصطلاحات اُس کے لیے بالکل اجنبی تھیں اور وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ ڈاکٹر اُس کی شکل دیکھتے ہوئے معاملے کو بھانپ چکی تھی اُس نے پھر سے بولنا شروع کیا۔

“ دیکھیے عام زبان میں بس میں یہی کہوں گی کہ آپ کی ذہنی کفیت مکمل طور پر صحت مند نہیں ہے اس لیے کچھ دن یہاں رہ کر علاج کروانا ہوگا۔ لیکن میں بتا سکتی ہوں کہ آپ کو زیادہ دن یہاں نہیں رہنا ہوگا اگر آپ دوائیں وقت پر لیں گے تو جلد صحت یاب ہوجائیں گے ۔”

ڈاکٹر کی باتیں اُسے مزید پریشانی میں لے جارہی تھیں ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں ابتک تو پاگل نہیں تھا لیکن اب ہوجاؤں گا۔ اُسے کل والا وہ شخص بھی یاد آیا جو اُسے بتارہا تھا کہ وہ یہاں اس لیے آیا ہے کہ وہ ایک ایسی چادر بُننا چاہتا تھا جو پورے آسمان کو ڈھانپ سکے۔ یعنی وہ بھی میری ہی طرح انہونی باتیں سوچ رہا تھا ۔ اُسے بھی شاید یہی دماغی مسئلہ ہے۔ اُس کی پیشانی پر پیسینے کے قطرے جمع ہونا شروع ہوچکے تھے ۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اُس کو لگ رہا تھا کہ یہاں کا ماحول اُس کی جان ہی لے لیے گا۔ اُسے یہاں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ نظر آیا ۔ اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ تینوں وقت کا لھانا جو اُسے کمرے میں ملتا تھا یونہی واپس چلا جاتا تھا۔ ایک دن ، دو دن لیکن تیسرے دن وہاں کے عملے نے بات ڈاکٹر تک پہنچائی کہ اُس شخص نے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور کچھ کھا پی نہیں رہا ہے ۔ ڈاکٹر اُس کے کمرے میں چلی آئی اور اُسے دیکھا تو ایسا لگا کہ وہ برسوں کا بیمار ہے ۔ کھانا پینا بند کرکے وہ بہت لاغر ہوچکا تھا۔ وہ تو پہلے ہی دبلا پتلا ساتھا اب اس طرح سے مزید لاغر سا ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر نے اُس سے پوچھا

“آپ نے یہ کیا حال بنالیا ہے کھانا پینا کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟”

“ میں اُس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے یہاں سے باہر نہیں نکالا جائے گا۔”

وہ اس انداز میں بول رہا تھا جیسے وہ اپنا آخری فیصلہ سُنا رہا ہو۔

ڈاکٹر نہایت ہی دھیمے انداز میں اُسے سمجھانے لگی

“ دیکھیے آپ کو یہاں آپ کی دیکھ بھال کے لیے ہی رکھا گیا ہے ۔ جیسے ہی آپ ٹھیک ہوں گے آپ کو گھر بھیج دیا جائے گا، لیکن آپ یہ سب کریں گے تو نہ صرف یہاں کا قیام لمبا ہوگا بلکہ آپ کی طبعیت مزید خراب ہوجائے گی۔”

“ مجھے کچھ نہیں معلوم ڈاکٹر صاحبہ ۔ میں ابتک بالکل ٹھیک رہ رہا تھا اور مجھ میں کوئی ایسی پاگل پن والی بات بھی نہیں تھی۔ نہ ہی میں نے کسی کو کوئی تکلیف پہنچائی ، پھر یہاں کیوں رہوں اس طرح؟”

اُس نے سوالیہ نگاہوں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔ ڈاکٹر کی خاموشی دیکھ کر وہ یہی سمجھا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اُس میں اس خوبصورت ڈاکٹر کا بھی مکمل ہاتھ ہے ۔

اُس کے مسلسل بھوک ہڑتال سے اُس کی حالت لاغر ہوتی جارہی تھی پھر ڈاکٹر نے اُسے ایک ہاسپٹل منتقل کروادیا جہاں اسے ڈرپ لگائی گئی اور اسی ذریعے سے غذا جسم میں داخل کی جانے لگی ۔ اُس نے محسوس کرلیا تھا کہ وہ اب پاگل خانے کی کلینک سے نکل کر ایک عام اسپتال آچکا ہے اب وہ یہاں سے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک دن شام کو جب نرس اُسے ٹہلانے کے لیے اسپتال کے پارک میں لے گئی تو اُسے موقع ہاتھ لگ گیا اور وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔

واپسی ہوئی تو اُس کے فلیٹ کے پڑوسی اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ وہ واپس آگیا ہے ۔ کئی لوگوں نے دریافت کیا کہ وہ کہاں تھا تو اُس نے صفائی سے جھوٹ بولتے ہوئے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقع کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ پندرہ دن کی بھوک ہڑتال کے باعث اُس کا جسم نہایت کمزور ہو چکا تھا۔ سردی کے اس سخت موسم میں اُس کے جسمانی حالت نے اُسے مزید پریشان کرنا شروع کردیا۔ ایک رات اچانک اُسے بہت تیز بخار نے آ دبوچہ ۔ اُس کے پڑوسی نے فوری طور پر ایمرجینسی ڈاکٹر کو فون کیا ۔ ڈاکٹر نے گھر آکر اُس کا معائینہ کیا تو اُسے دوبارہ سے اسپتال میں داخل کروادیا۔ کمزور جسم میں کسی خطرناک وائرس نے حملہ کردیا تھا۔ اُس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی ۔ ایک دن لیٹے لیٹے اُسے کچھ خیال آیا اُس نے نرس سے کاغذ اورقلم کی درخواست کی ۔ پھر اُس نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ پر کچھ لکھا اور اُسے فولڈ کرکے اپنے اسپتال کے لباس کی جیب میں رکھ لیا۔ جب اُس کا پڑوسی جس نے اُسے ایمرجنسی ڈاکٹر بلانے میں مدد کی تھی اُس سے ملنے اسپتال آیا تو اُس نے وہ کاغذ اُس پڑوسی کو پکڑاوایا اور کہا

“ میری حالت اچھی نہیں ہے مجھے لگتا ہے اب میں نہیں بچوں گا۔ تُم میرے مرنے کے بعد اس کاغذ پر لکھی ہدایت پر ضرور عمل کرنا۔”

اُس کی حالت بگڑتی چلی گئی اور پھر ایک دن اُس کے جسم سے روح پرواز کرگئی۔ جب پڑوسی کو اطلاع ملی تو اُس نے اُس کاغذ کو کھول کر دیکھا کہ اُس میں کیا لکھا ہے۔ اُس نے اس کاغذ پر اُس کلینک کا پتہ لکھا تھا اور کہا تھا کہ اُس خاتون ڈاکٹر سے رابطہ کرکے اُس شخص کو تلاش کیا جائے جس نے اُسے اُس کلینک پہنچایا تھا۔ پھر اُس نے درخواست کی تھی کہ جب اُس کی لاش کے تابوت کو میت کی گاڑی میں رکھا جائے تو وہی مرد اور عورت جو اُس کے ساتھ بس میں تھے اُسے کاندھا دے کر اُس کی لاش کو میت گاڑی میں رکھوائیں اور جہاں جہاں کاندھے کی ضرورت ہو انہیں ہی کہا جائے!! !!!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930