ادراک ۔۔۔ اشفاق عمر
اِدراک
اشفاق عمر
بسیط رات کادامن کچھ زیادہ ہی کشادہ محسوس ہورہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے روح کی گہرائیوں میں اُترتے محسوس ہورہے تھے۔اسے یہ سردہوائیں اپنے اندر موجود اندھیروں کی دین بیچینی کا درماں محسوس ہورہی تھیں ۔ سنسان راستے پراندھیرے کا دامن چیرتے ہوئےبس تیزرفتاری سے آگے اور آگے بڑھتی ہی جارہی تھی۔وہ کھڑکی پرسرٹکائے اندھیرے کویوں نِہارتاجارہا تھا جیسے اُس میں اُس کی کوئی متاع گُم گَشْتَہ پوشیدہ ہو ۔
اس کے چہرے سے ٹکرانے والی سرد ہواؤں کے جھونکوں نے اس کے ذہن کو سُبک رفتار بنادیاتھا۔ ماضی کی دبیز تہوں سے زندگی کے پل یوں نکل نکل کر اس کے سامنے آتے جارہے تھے جیسے انہوں نے اسے اپنے بوجھ تلے پیس دینے کا تہیہ کررکھا ہو۔ان بیتے ہوئے لمحوں کی کسک نے اس کے ذہن میں اس کے گمان سے بھی پرےایک کشیدہ منظر کشید کردیا تھاجس کے بوجھ تلے وہ دبتا جارہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اندھیروں کو نِہارتی اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔ پھر اچانک جیسے اس کے ذہن میں کوئی ورق پلٹ گیا ہو۔اب اس کے ذہن میں مستقبل کی فکریں پھنکارنے لگیں۔ ماضی کے ڈنک اور مستقبل کے اندیشوں نے اسے بے حال کردیا۔قریب تھا کہ اس کا چکراتا ذہن کسی سیاہ قنات کے پیچھے پناہ لےلیتا ایک خوشگوار یاد کا جھونکا اس کے دل و جاں کومعطّر کرتا گزر گیا۔ اسے لگا کسی ازلی پیاسے کو آبِ سکون میسّر آگیا ہو مگرآہ ! یہ سرور بس پل بھر کا تھا۔
وہ یوں ہی بس کی کھڑکی پر اپنا چہرا جھکائے بیٹھا تھا کہ اچانک ایک عجیب سی چیز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ کافی دیر سے اندھیرے کی گہرائیوں میں جھانکتی اس کی آنکھوں کے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔ اسے گاڑی سے تھوڑی ہی دور روشنی کا بادل سا نظر آیا۔پہلی ہی نظر میں عجیب نظر آنے والے اس منظرکو ذہن نے فوراً ہی مسترد کردیا کہ کسی نزدیکی علاقے میں موجود روشنیاں ہوں گی۔
اس کا ذہن پھر سے خیالات کی پریشان کن دنیا میں کھوگیامگر تھوڑی ہی دیر میں اسے پھر ایک عجیب احساس نے گھیر لیا۔ اس نے جس روشنی کے بادل کو کسی علاقے کی روشنیاں سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا تھا وہ مستقل طور پر اس کے ساتھ سفر کررہا تھا۔اِس بار اُس نے غور سے دیکھا تو اسے لگا کہ یہ آسمان میں سفر کرتا کوئی سفیدبادل کا ٹکڑا ہے ۔
اس کا ذہن پھر سے اپنی الجھنوں میں گم ہوگیا۔ پریشانیاں پھر سے اسے بی چین کرنے لگیں۔ دھیرے دھیرے اس نے اپنے آپ کواندھیرے کی دبیز چادروں تلے دبا پایا۔
دکھ اپنی جگہ مگر سرد ہواؤں کے جھونکے بھی اپنا کام پورا کرنا نہیں بھولتے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا ذہن ہلکے سرمئی رنگوں کےپردوں کی تہوں میں چھپتا جارہا ہے۔زندگی کی سیاہیوں نے اس کے اندر جو اندھیرے اُتاردیے تھے وہ ہلکے ہوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔مگر یہ کیا!!!!!!
اس نے اپنا وجود کھوتے اندھیروں کا توادراک کرلیا مگراسے محسوس ہی نہیں ہوا کہ اس کے اندر روشنی پاؤں پسارنے لگی ہے۔اس نے توسرد ہواؤں کو اپنے مرض کا علاج جانا جو اس کے ذہن کو تھپک تھپک کر سلا رہی تھیں مگراس کا ذہن اُس روشنی کا احاطہ ہی نہیں کرسکا جس کا منبع اس کے تخیل سے پرے تھا۔
اچانک اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ روشنی کا بادل جسے وہ اپنے ساتھ ساتھ سفر کرتا محسوس کررہا تھا وہ کہیں باہر نہیں اس کے اندرہی تھا۔دھیرے دھیرے اس کے ذہن نےگواہی دے ہی دی کہ جس روشنی کو وہ ایک بیرونی شے سمجھ رہا تھا وہ روشنی تو اس کے وجودکا حصہ تھی، اس کے اندر ہی تھی۔
وہ اپنے اندر موجود اندھیروں سے لڑتے لڑتے فراموش کربیٹھا کہ اس کے اندر ازل ہی سے نور کی وہ کرنیں موجودتھیں جو صبح صادق کا پتہ دیتی تھیں۔ کاش اسے اسی وقت ادراک ہوجاتا جب اندھیرےاس کے اندراُترنے لگے تھے۔
Top of Form