جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے۔۔۔بلراج مینرا
جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے
بلراج مینرا
حضور!
مجھے اس فضول و بے معنی سلسلے میں واقعی کچھ کہنا ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ مرجاؤں گا اور یوں دنیا سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔مگر ایسا نہ ہوا اور اتفاقاً مجھے اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا۔
جی ہاں، میں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے۔میں اس الزام کو بخوشی قبول کرتا ہوں۔۔۔میں سمجھتا ہوں، میری ’ہاں’ الزام کو ہر لحاظ سے جرم ثابت کرتی ہے اور مجھے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔
آپ میری صورت پر نہ جائیں۔۔۔میں ستم زدہ نہیں ہوں۔۔میں نے تو ستم ڈھائے ہیں۔ان گنت ستم جو بھیانک ہیں اور یہ آخری ستم، یہ خودکشی کی کوشش تو ایسا ستم ہے جو سماج کی اجلی نظروں میں مکروہ ہے۔میں ایک سانس میں بہت کچھ نہیں کہہ سکتا۔اس لیے اپنی سست رفتاری پر معافی چاہوں گا۔۔۔ہوسکتا ہے، آپ آج میرا بیان ہی سن سکیں، اور چالیں پچاس مقدمے نہ بھگتا سکیں۔
مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ خودکشی بزدلوں کا کام ہے۔۔۔میں بھی کتنا بڑا بزدل ہوں کہ خودکشی کا یسا ڈھنگ اپنایا جو ناپختہ تھا اور پکڑا گیا۔اگر کسی ادیوگ پتی یا سیاست داں کی طرح منصوبہ بندی کرتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔۔۔ہاں میں بزدل ہوں اور مجھے اپنی بزدلی کا احساس پہلی بار ہوا ہے۔
اگر کسی نے کافی ہاؤس میں مجھے بزدل کہا ہوتا تو کافی کی پیالی اس کے سر پر ہوتی۔۔۔مگر اس عدالت میں میں خاموش رہا۔یہاں میرے ہاتھ میں کافی کی پیالی تو نہیں تھی، مگر میرے منہ میں زبان تو تھی، اور ہے۔میں کم از کم چلا ضرور سکتا تھا۔۔۔اب بھی چلا سکتا ہوں۔۔۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں بالکل خاموش رہا۔خاموش رہا،چلایا نہیں۔۔۔۔چلاتا تو توہین عدالت کا مقدمہ بھی بن جاتا اور مجھ پر بزدلی کے الزام کے ساتھ ساتھ بدتمیزی کا الزام بھی عائد ہوجاتا۔۔۔ویسے آپ چاہیں تو مجھے آپ بیک وقت بزدلی اور بد تمیزی، دونوں جرموں کی سزا دے سکتے ہیں۔
اس وقت مجھے صرف ایک بات کا احساس ہے۔۔۔کہیں میرا بیان آپ حضرات کو بور نہ کردے۔بوریت کا احساس، نامردی کے احساس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔۔۔کوئی بھی ماہر نفسیات میری بات کی تصدیق کرسکتا ہے۔
جی ہاں، میری یہی کوشش ہوگی کہ میرا بیان آپ حضرات کو بور نہ کرے۔۔۔میرے دوست وہ جو کونے کے بینچ پراداس بیٹھے ہوئے ہیں، میری بات سے متفق نہیں ہوں گے۔ان سب نے اپنی زندگی کی ان گنت شامیں میرے ساتھ گزاری ہیں۔زندگی کے اداس ترین لمحات میں انہیں میرے قرب اور میری باتوں سے راحت ملی ہے۔یہ سب غمگین چہرے لیے میرے پاس آئے ہیں اور بشاش چہرے لیے واپس گئے ہیں۔۔لیکن اب مجھے اپنے آپ پربھروسہ نہیں ہے۔خودکشی کی ناکام کوشش نے مجھے متزلزل کردیا ہے۔۔۔پھر بھی میری یہی کوشش ہوگی کہ میری زندگی کی داستان، جس کا نقطۂ عروج خودکشی کی ناکام کوشش ہے، پوری افسانوی تفصیل کے ساتھ آپ تک پہنچے اور آپ پل بھر کے لیے بھی بور نہ ہوں۔
جب میں نے ہوش سنبھالا، میں نے دیکھا کہ میری مختصر سی دنیا میری اور میرے والد کی ذات پر مشتمل ہے۔۔۔میں ابھی اپنی دنیا کو اچھی طرح پہچان بھی نہ پایا تھا کہ میرے والد دوسری بڑی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیے گئے اور میرے ذہن میں ان کی فوجی شخصیت کے دھندلے سے نقوش ہی باقی رہ گئے۔
جنگ کی بھٹی میں جھلس کر مرنے سے پہلے وہ مجھے اپنے دوست ڈاکٹر کھرے کے پاس چھوڑ گئے۔۔۔میری عمر دس کے لگ بھگ تھی۔میں اپنی کچی سمجھ کے ساتھ، ڈاکٹر کھرے کے سائیں سائیں کرتے بنگلے میں، اپنے والد کی غیر موجودگی شدت سے محسوس کرتا۔
ایک کمی، ایک اکیلا پن، ایک شدید احساس۔۔میں اپنے ہم عمر جماعتوں میں گھل مل نہ سکا۔
میری ذہنی تشکیل میں میری تنہائی کا بڑا ہاتھ ہے۔
اونچے درختوں اور گھنی باڑ سے گھرے ڈاکٹر کھرے کے وسیع و عریض اور تقریباً ویران بنگلے میں ایک تو وہ خود رہتے تھے، ہر دم سٹیتھو سکوپ گلے میں لٹکائے جو سوتے وقت بھی ان کے گلے میں پھنسا رہتا۔اور ایک ان کی بیٹی مایا رہتی تھی، انھی کی طرح خاموش اور اکیلی۔
وہ جب کبھی، ناشتے کے وقت یا کھانے کے وقت، اکھٹے ہوتے، اکیلے نظر آتے۔ایک دوسرے سے الگ، ایک دوسرے سے کوسوں دور۔
اس اداس بنگلے میں تیسرا جیو تھا ایک بچہ۔۔۔میں، ان دنوں کا راجو، ایک اکیلا۔
ہاں، وہ ایک سہمے ہوئے نوکر بھی تھے جو بنگلے کے پچھواڑے گیراج نما کوارٹروں میں اپنے دن رات گزارتے۔کام کاج کے سلسلے میں وہ بنگلے میں موجود ہوتے تو بچتے اور کتراتے ہوئے نظر آتے۔
آپ خود شناخت کرسکتے ہیں کہ اس رنگ کے پس منظر میں کون سی شے دس برس کے ایک اکیلے بچے کی نگاہ کا مرکز بن سکتی ہے۔مایا۔ہاں مایا، ڈاکٹر کھرے کی بیٹی۔میں آج بھی مایا کو دیکھ سکتا ہوں، محسوس کرسکتا ہوں۔میانے قد کی گوری چٹی جوانی جس کے بدن میں زردیاں گھلی ہوئی تھیں۔اس کی پیلی پیلی سی رنگت بڑی بھلی لگتی۔باریک بھووں کے تلے اس کی بڑی بڑی بے چین آنکھیں ہر وقت کسی انجان دھیان میں کھوئی رہتیں۔اس کے گہرے گلابی ہونٹ مجھے ایک کھلے گھاؤ کا احساس دلاتے۔اس کے چہرے، بازوؤں اور پنڈلیوں کے دھڑکتے ماس میں نیلی رگیں صاف نظر آتیں۔جب کبھی اس کا آنچل ڈھلک جاتا تو اس کے کھلے گلے کے چست اور تنگ بلاؤز میں اس کی تندرست اور جوان چھاتیاں ایک بے قرار معجزہ لگتیں۔
جب کبھی بن پڑتا، میں مایا کو بس دیکھتا رہتا۔اس کے پاس جانا چاہتا، اس سے باتیں کرنا چاہتا، اسے چھونا چاہتا۔
سچ کہتا ہوں،میں نہیں جانتا کہ لڑکپن کا موہ اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مایا کے بدن کولفظوں میں تو میں نے آج باندھا ہے، پر کل کا سچ بھی یہی کچھ ہے۔ممکن ہے، تب میرے الفاظ کچھ اور ہوتے، پر جذبے کی صداقت یہی ہوتی۔
میں نے اسے چھونا چاہا، لیکن وہ مجھ سے دور دور رہی۔
آج وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دوریوں کی یہ زنجیر توڑڈالنے میں اس کی دردمندی نے خوبصورت بھومیکا نبھائی۔
وہ زمانہ، جو اس بنگلے میں میری تنہائی کا زمانہ تھا، اسی زمانے میں میرے مستقبل میں نئی تنہائیوں کے امکان پیدا ہوگئے۔میرے والد جنگ میں ہلاک ہوگئے۔
دس برس کے بچے کا باپ زندہ تھا اور بچہ اکیلا تھا۔اب دس برس کے بچے کا باپ مرچکا تھا اور بچہ اکیلا تھا۔۔اپنے آپ میں سمٹی، اپنے آپ میں گم مایا جیسے یکایک چونک اٹھی، جاگ پڑی، چھلک گئی۔اس دکھ بھری گھڑی میں، درد مندی کے ناطے، وہ میرے قریب آگئی، بہت قریب۔قریب آتی چلی گئی، مجھے پرچانے، سنبھالنے، بچانے ، جانے کس کس خیال کے تحت۔
ظاہر ہے،مایا مجھ سے عمر میں بڑی تھی، بہت بڑی۔ان معنوں میں کہ میں ابھی ایک بچہ تھا اور وہ تھی ایک مکمل جوان عورت۔میں نے اسے کبھی ہنستے کھیلتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی مجھے اس کے ساتھ کبھی کوئی مرد نظر آیا تھا۔۔بہت بعد کی بات ہے، جب میں نے ایف ۔اے کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ بی ایس سی کے بعد ایم بی بی ایس کے جھمیلے سے فارغ ہوچکی تھی، تب بھی وہ مجھے الگ اور اکیلی نظر آئی۔میری موجودگی اور میرا ساتھ دوسری بات ہے۔لیکن بات ان دنوں کی ہے جب وہ میڈیکل کالج میں تھی اور میں کین ٹونمنٹ(Cantonment)کے ایک اسکول میں۔
میں نے مایا کو ہمیشہ کتابوں میں گم دیکھا تھا۔۔۔میں خود بھی کتابوں کا مارا ہوا تھا۔تنہائی اور خاموشی کے ان دنوں میں آپ سے آپ کتابیں میری دوست بن گئی تھیں۔جہاں تہاں، جیسے تیسے جو کتاب بھی ہاتھ لگتی، چاٹ جاتا۔کچھ پلے پڑتا، کچھ سرپر سے گزرجاتا۔کچھ کتابیں بدن میں سرسراہٹ بن کر رینگنے لگتیں اور میں مایا کے وجو د میں نہ جانے کیا کھوج پانے کا جتن کرتا۔
آج اس مفلس بیان میں کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ ہائے، کتابوں کو دوست بنانے والوں کی زندگی فقط ایک خرابی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔اچھے ہیں وہ لوگ جنہیں کتابوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
میں اسکول سے کوئی دو بجے لوٹتا اور مایا شام پانچ کے قریب۔ڈاکٹر کھرے کا پتہ ٹھکانا نہ مجھے معلوم ہوتا، نہ اسے۔۔۔دھواں دھواں شام، سائیں سائیں کرتا بنگلہ، کوئی ویرانی سی ویرانی اور ہم دونوں۔
ہم چائے پینے لگتے تو نوکر دبے پاؤں کھسک جاتے۔رات کا کھانا کھانے بیٹھتے تو نوکر اندھیرے میں غائب ہوجاتے۔ڈاکٹر کھرے کا ساتھ، ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔وہ تھے اور ان کے غیر موجود مریض۔
ڈاکٹر کھرے کی دنیا میں، ان کے اندر باہر کی دنیا میں ہر شے یا تو کوئی مرض تھی یا پھر کوئی مریض۔۔۔ان کی نظروں میں ہم دونوں، میں اور مایا، ایک بچہ اور ایک جوان عورت، کوئی مرض تھے یا مریض، کون جانے۔
میں جانتا تھا کہ مایا کو آگے چل کر ڈاکٹر بننا ہے۔وہ ڈاکٹر تو بنتی ہی مگر اس کا تشخص ڈاکٹرکھرے جیسا ہرگز نہ ہوتا۔
ایک شام، میرے والد کے ہلاک ہونے کے کچھ دن بعد، میرے قریب آجانے کے کچھ دن بعد، وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔ایسا پہلی بار ہوا تھا۔
میں اس کے کمرے کو آنکھوں میں بھر رہا تھا کہ اس کی آواز مجھے اس کے قریب لے آئی۔’میں یہاں پلنگ پر ذرا پاؤں پسار کربیٹھوں گی، تم کرسی کھینچ کر پاس آجاؤ۔آج ہم چائے یہیں پئیں گے۔‘
وہ پلنگ کی پشت کا سہارا لے کر اور ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی۔
میں چپ چاپ کرسی پر بیٹھا رہا۔
نوکر چائے رکھ کر دبے پاؤں کھسک گیا۔
اس نے چائے بنائی اور ایک پیالی میری طرف بڑھا دی۔ہم چائے پینے لگے۔
ان دنوں میں نے کہیں کچھ پڑھا تھا اور سمجھ نہ پایا تھا۔وہ بات کچھ اوٹ پٹانگ طورسے میرے ذہن میں تھی۔نہ جانے کیا ہوا، میں کہہ بیٹھا۔’مایا دیدی، آپ بہت زرد دکھائی دیتی ہیں۔‘
اس نے میری طرف بڑے دھیان سے دیکھا، جیسے اس نے میری بات بڑے دھیان سے سنی ہو:’کیا مطلب؟‘ پھر کچھ رک کر اس نے کہا۔’ذرا پھر کہو اپنی بات۔‘
میں نے دھیمی آواز میں کہا۔’آ پ کچھ پیلی پیلی ہیں۔‘
اس نے پھر مجھے غور سے دیکھا۔’اچھا۔۔مگر تمہاری دیدی تمہیں لگتی کیسی ہے؟‘ اس نے خود کو اپنے روپ سے الگ کرلیا۔
میں چپ رہا۔
اس نے کہا ’بولو نا۔‘
میں بول اٹھا۔’بہت اچھی۔۔بڑی پیاری‘
اس نے چائے کی ٹرے تپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔’تمہاری بات تمہاری عمر سے بڑی ہے۔مجھے ڈر لگتا ہے، کہیں تم وقت سے پہلے جوان نہ ہوجاؤ۔‘
میں کچھ سمجھ نہ پایا۔کبھی کبھی کتابوں میں لکھی ہوئی کچھ باتیں بھی میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔مجھے چپ دیکھ کر اس نے کہا۔’ابھی ابھی تم نے یہی کہا تھا نا کہ میں کچھ پیلی پیلی سی ہوں ، پر تمہیں اچھی لگتی ہوں۔میرے چھوٹے سے بڑے بچے، لڑکیوں کو ہمیشہ تھوڑا سا anaemicرہنا چاہیے۔‘ اس کی آواز میں مجھے ایک حدت سی محسوس ہوئی۔
میں پھر خاموش رہا۔میں کچھ سمجھ ہی نہ سکا تھا، بس میں نے سوچ لیا کہ اپنے کمرے میں جاتے ہی ڈکشنری میں anaemicکے معنی ضرور تلاش کروں گا۔
وہ جو کہتے ہیں نا۔’یہ شام ابھی کہاں ہوئی‘۔ہائے وہ شام۔چھوٹی عمر میں پہلی قید۔
چھوٹی عمر میں احساس کی یہ نوعیت۔جانے دنیا والے کیا کہیں گے۔
وہ شام اسیری تھی یا رہائی، بس یوں جانیے، اس شام کے ساتھ شاموں کے ایک حسین سلسلے کا آغاز ہوا۔
انتطار کی کربناک لذت اور ملن کی اطمینان بخش آسودگی۔
تنہائی کے لمحے، جدائی کے لمحے۔ہر شے سرد اور پرائی۔
ملن کی گھڑیاں، زندگی کا مقصد۔ہر شے زندہ اور اپنی۔
ایک ویران بنگلے میں ، ایک چھت کے نیچے بھید بھرے ماحول کی پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ نہ میرا دم نکلتا تھا نہ مجھے چین ملتا تھا۔
آج سوچتا ہوں تو حیران ہوجاتا ہوں۔کیسا شدید تھا میرالڑکپن۔
ان دنوں جی چاہتا تھا کہ کمروں کی دیواریں ڈھا دوں۔۔بس ایک بڑی سی چھت کے نیچے ایک بڑا سا کمرہ ہو۔۔دیواریں بھی تو جدائی اور فاصلے ہوتی ہیں!
ہر شام، رات کا گہرا رنگ پکڑتے ہی تمام ہوجاتی۔۔۔میں بوجھل قدم اٹھاتا مایا کے کمرے سے لوٹ آتا، یا وہ پرسکون انداز میں میرے کمرے سے لوٹ جاتی۔
کبھی کبھی ہم ایک ساتھ اٹھتے، ڈرائنگ روم میں ایک ساتھ کھانا کھاتے اور پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے۔کئی برس بیت گئے۔اب بہت کچھ میں سمجھنے لگا تھا اور بہت کچھ میری سمجھ میں آجاتا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے۔
میری طبیعت قدرے ناساز تھی اور خدا جانے کس نوکر نے کب ڈاکٹر کھرے کو خبر دی تھی۔ڈاکٹر کھرے گاؤن پہنے، گلے میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے اور ہاتھوں میں چرمی تھیلا پکڑے ہوئے آئے۔انہوں نے مجھے دیکھا، میرا ماتھا چوما اور بولے:’بس اتنی سی بات۔۔۔کچھ نہیں ہے۔آج آرام کرو۔اسکول مت جانا۔یہ تین گولیاں چار چار گھنٹوں کے وقفے سے کھالینا اور چھٹی۔۔مایا تو اس وقت کالج میں ہوگی۔مائی پوئر بے بی!‘
میں نے ڈاکٹر کھرے کو بہت دنوں کے بعد دیکھا تھا۔۔وہ مجھے حیرانی میں چھوڑ کر چلے گئے۔میں تمام دن بستر میں دبکا پڑا رہا۔جی چاہتا تھا کہ روؤں اور جی بھر کے روؤں لیکن نہ رو سکا،نہ پڑھ سکا، نہ سوسکا۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔اور جب کھلی تو شام ڈھل چکی تھی۔شب خوابی کے اسی لباس میں، جو میں نے پچھلی رات ہی سے پہنا ہوا تھا، میں بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا۔مایا کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔
میں نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ذرا سنبھلا اور بنا آواز کیے ، ہولے سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا۔اب تک کا معمول یہ تھا کہ مایا پانچ بجے کے قریب کالج سے واپس گھر آتی تھی۔تب تک میں بن سنور کر تیار ہوچکا ہوتا، جیسے ہمیں کہیں باہر جانا ہو۔کبھی وہ میرا ماتھا چوم کر، کبھی میرے گال پر ہلکا سا چانٹا مار کر، اور کبھی مجھے بازوؤں میں سمیٹ کر کہتی:’کیا ہمیں کہیں جانا ہے۔لوزرلین میں یا سکینڈل پوائنٹ پر؟‘
میں تیز آواز میں صرف اتنا کہہ پاتا:’دیدی، یہ بھی کوئی بات ہے بھلا۔‘
جب میں مایا کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا، وہ دیوار کی جانب رخ کیے پلنگ پر دراز ہے۔اس نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے۔میں کرسی پر چپ چاپ بیٹھ گیا اور اسے اسی حالت میں دیکھتا رہا۔اس کی وہ حالت، اس کی بے خبری کا وہ عالم۔تھوڑی دیر کے بعد میں نے دھیرے سے کرسی کھسکاتے ہوئے ہلکی سی آواز پیدا کی۔اس نے کروٹ بدلی اور مجھے دیکھا۔اس کے ہونٹوں پر بڑی کمزور سی مسکان تھی۔اپنا نیچے اوپر کھسکا سرکا لباس درست کرتے ہوئے اس نے کہا۔’کب سے بیٹھے ہو؟’
کچھ سوچ کر میں نے جواب دیا:’دیدی، آ پ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیوں بیٹھے ہو؟‘
اس نے میرے چہرے پر نگاہیں جما کر کہا:’ادھر آؤ۔میرے پاس بیٹھو!‘
میں اٹھا اور اس کے پاس جا بیٹھا۔
میرا ہاتھ تھام کر وہ بولی۔’تم تو بالکل پاگل ہو۔‘
میں نے کہا:’ اور وہ جو کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتا ہے، وہ کیا ہے؟‘
اس نے میرا گال تھپتھپایا:’اسے پاگل کون کہتا ہے۔‘پھر میرے نائٹ سوٹ کا کالر کھینچتے ہوئے، میرا چہرہ اپنے چہرے کے قریب لاتے ہوئے اس نے کہا:’بتاؤ تو بھلا آج ہمیں کہاں جانا ہے!‘
میں بے اختیار اس سے لپٹ گیا:’دیدی۔۔۔۔‘میرے ہونٹ اس کا کندھا چھورہے تھے۔اس کے بازوؤں کا حلقہ تنگ اور سخت ہوچلا تھا۔میری کمزور چھاتی میں اس کے تندرست اور جوان پستان کھبنے لگے تھے۔میں نے بمشکل تمام گردن اٹھائی اور بھنچی بھنچی آواز میں صرف اس قدر کہہ سکا۔’دیدی۔۔‘مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگی۔
اس نے گرفت ڈھیلی کی، میرے گالوں کو سہلایا اور پھر میرے ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا:’میرا سمجھ دار نادان بچہ‘
مایا تب تک مجھے ’میرا چھوٹا سا بڑا بچہ‘ کہتی آئی تھی۔اب پہلی بار اس نے مجھے’میرا سمجھ دار نادان بچہ ‘ کہا تھا۔میں نے آنکھیں پھیر کر، دیوار پر نظریں جما کر اس سے پوچھا۔’آپ میرے کمرے میں کیوں نہیں آئیں؟‘وہ میرے دائیں ہاتھ کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی۔’تم نے آج مجھے پیلی پیلی سی دیدی کیوں نہیں کہا؟‘میں کیا کہتا۔۔۔میں نے کہا:’دیدی، آپ سچ مچ پیلی ہیں۔‘
’اور؟‘
’بڑی اچھی، بڑی پیاری۔‘
اس نے پچکارنے کے انداز میں کہا۔’راجو، بتاؤ تو بھلاanaemicکے معنی کیا ہیں؟‘
میں نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا۔۔اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان تھی۔
میں نے کہا۔’آپ تو ہر بات یادرکھتی ہیں!‘
’تم کیا ہر بات بھول جاتے ہو؟‘وہ فوراً بول اٹھی۔
’او دیدی، آپ مجھے مارتی کیوں نہیں، پیٹتی کیوں نہیں!‘ میں بھرائی ہوئی آواز میں یک لخت کراہ اٹھا۔
اس نے میرا جھکا ہوا سر اٹھایا اور میری آنکھوں کو پڑھتے ہوئے کہا۔’راجو، میں گئی تھی تمہارے کمرے میں۔۔۔تم سورہے تھے۔۔آج میرا اپنا جی اچھا نہیں، اس لیے رک نہ سکی۔‘
میں تقریباً رو پڑا۔’آپ بیمار ہیں کیا؟‘
اس نے میری ہتھیلی چومتے ہوئے کہا۔’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔بس ذرا جی اچھا نہیں۔‘
اب جو میں نے اسے بہت غور سے دیکھا تو وہ مجھے بہت زرد دکھائی دی۔۔۔میں نے پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا۔’تم نہیں سمجھو گے۔‘
میں قدرے تیز آواز میں بول اٹھا۔’پر کیوں نہیں دیدی؟‘
وہ دھیمی آواز میں بولی:’اس لیے کہ یہ تمہارے سمجھنے کی بات نہیں۔‘ وہی ہلکی سی مسکان اس کے لبوں پر تھی۔
میں نے کہا۔’ہاں میں نادان بچہ ہی تو ہوں؟‘
اس نے میرے سر پربڑی محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔’تو تو پگلا ہے۔راجو، میں پیریڈ سے ہوں۔اس سے پہلے کبھی اتنا خون ضائع نہیں ہوا۔اسی لیے تو جی اچھا نہیں۔اگر ڈاکٹر صاحب جلدی آگئے تو انہیں کہنا پڑے گا۔‘
میں خاموش ہوگیا۔۔۔اداس ہوگیا۔میں نے کہا۔’پر دیدی، آپ تو خود ڈاکٹر ہیں۔‘
اس نے کہا۔’ ابھی کہاں راجو ، ابھی کہاں۔۔۔پھر راجو تن بدن کے بھید تو کھلتے کھلتے ہی کھلتے ہیں۔‘
میں کچھ نہ کہہ سکا۔بہت دیر تک چپ رہا۔
اس نے پھر بات شروع کی۔’اب بتاؤ، میراجی کیوں اچھا نہیں؟‘
میں جھینپ سا گیا۔اس نے میری بھووں کو اپنی انگلیوں سے چٹکیاں لیتے ہوئے کہا۔’کون کہتا ہے، تم نادان ہو۔۔۔نادان تو میں ہوں۔‘اس نے مجھے کندھوں سے پکڑکر جھکایا اور لپٹا لیا۔پھر بازو میرے گرد باندھ لیے۔اس کا آنچل اس کے کولہوں کے نیچے دبا پڑا تھا۔ننگے ملائم پیٹ اور پتلی کمر سے ذرا اوپر تنگ بلاؤز میں جکڑے پڑے اس کے گول اور سخت ابھار مجھے پھونک رہے تھے۔میرے مشتعل اعضامجھ سے پوچھے بنا ایک انجانی کہانی کہہ رہے تھے اور وہ گرم گرم سانس چھوڑتی سب کچھ سن رہی تھی۔میری آنکھوں سے گرم گرم آنسو ٹپکنے لگے۔میں نے اس کی کانپتی ہوئی گرفت میں کسمساتے ہوئے اپنے جلتے ہوئے ہونٹ اس کی پھڑکتی ہوئی رگوں والی گردن پر رکھ دیے۔۔۔میرے آنسوؤں اور میرے ہونٹوں سے اس کی گردن بھیگ گئی۔
میں بڑی مشکل میں تھا۔میرے ہاتھوں نے بڑی سختی سے اس کا چہرہ تھام رکھا تھا۔۔میرے منہ سے نکل گیا۔’میں کیا کروں، میں بڑی مشکل میں ہوں۔‘
اس نے بھنچی بھنچی آواز میں بہت دھیمے سے کہا:’میرا جوان بچہ۔۔اچھا مجھے سانس تو لینے دو۔‘
میں بمشکل اس کے تن سے الگ ہوسکا۔اس نے پھر کہا۔’بہت مشکل میں ہونا! میں ہوں نا تمہاری مشکل!‘
میں نے اس کے ابھاروں پر سر رکھ دیا۔اس نے میرا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے ہوئے مجھے اٹھایا۔وہ تکیے پر سر دھرے پلنگ پر دراز تھی۔۔میں اس کے بالکل پاس ٹانگیں نیچے لٹکائے بیٹھا تھا۔اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری گود میں رکھا اور جیسے بڑے پیار سے، بڑی شفقت سے میری مشکل جان لی۔’میں خود مشکل میں ہوں۔ہم آج اپنی مشکل حل نہیں کرسکتے۔۔ہاں، میں تمہاری مشکل ضرور آسان کرسکتی ہوں۔۔اچھا یہ بتاؤ، تم نے اب تک مجھے چوما کیوں نہیں، کیا تم مجھ سے پیار نہیں کرتے؟‘
میں نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنی طرف کھینچا اور اس کے کھلے ہوئے ہونٹوں کے گھاؤ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔میری گود میں پڑے اس کے متحرک ہاتھ میری مشکل آسان کرنے لگے۔جانے کب، یگ بیتے یا پل، میں بڑے زور سے کانپا۔میری فولادی مشکل جیسے ابل پڑی، گرم چشمے کی مانند پھوٹ بہی۔پھر میں بمشکل منزل تک پہنچنے کی تھکن میں اس پیلی پیلی سی رنگت والے بدن سے لپٹ کر سوگیا۔صبح سویرے میری آنکھ کھلی۔۔میں نے خود کو اسی کمرے میں ، اسی پلنگ پر پایا۔اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔میرا ہاتھ چومتے ہوئے اس نے کہا۔’تم میرے مرد بچے ہو۔‘
اس کی بڑی بڑی آنکھیں سرخ تھیں۔میں بنا کچھ کہے چلا آیا۔وہ دن یا اگلادن، یا اس سے اگلا دن۔۔کتنے زمانے، کتنے جیون۔۔
میں اسکول سے واپس آنے کے بعد، کبھی بن سنور کر اور کبھی نائٹ سوٹ پہنے مایا کا انتظار کرتا۔۔ہفتوں ہم نے ڈرائنگ روم میں چائے پی۔کبھی کبھی وہ صاف لفظوں میں کہتی۔’پڑھائی میں دھیان نہ دو گے تو مجھے کھو دو گے۔‘میں چپ رہتا۔بس اسے چاہت بھری نظروں سے دیکھتا رہتا۔۔بھلا میں اسے کیسے کھوسکتا تھا۔۔کھودیتا تو مر نہ جاتا۔وہ ایم ۔بی ۔بی ۔ایس کے جھمیلے سے فارغ ہوچکی تھی اور مجھے ابھی ایف۔اے کا امتحان پاس کرنا تھا۔۔میں نے دن رات ایک کردیے۔نظروں کی زد میں یا نظروں سے پرے۔موجود یا غائب۔۔مضبوط دیواروں کی روک یا ہاتھ بھر کا فاصلہ۔۔سب کچھ منظور تھا لیکن اسے کھودینا منظور نہ تھا۔رتجگے اور تھکن۔۔آنکھوں کی جلن اور نیند کا نشہ۔۔کتابیں، قلم، کاغذ اور پیلی پیلی دیدی کا مرد بچہ۔مہینوں بعد ایف۔اے کا نتیجہ نکلا تو مجھ سے پہلے مایا ہی کو خبر ملی اور اسی نے مجھے بتایا کہ میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہوں۔ڈاکٹر کھرے نے بھی ایک دن کہا۔’میں جانتا تھا، یہی ہوگا!‘ یہی ایک بات بیتے برسوں میں انہوں نے ہر چھوٹے بڑے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر مجھ سے اور مایا سے کہی تھی۔اب وقتی طور پر میں فارغ تھا۔۔مایا اسپتال چلی جاتی اور میں بنگلے کی دیواروں سے سر پھوڑتا، بنا سرٹکرائے۔
ایک دن کھانا کھاتے وقت مایا نے پوچھا:’تمہارے کالج میں لڑکیاں بھی تو ہیں نا؟‘
میں چونکا۔۔لیکن چپ رہا
’بولو نا۔۔کچھ تو بولو۔‘اس نے پھر کہا۔
میں نے بڑے ضبط کے ساتھ جواب دیا۔’آپ کے کالج میں بھی تو۔۔۔آپ کے اسپتال میں بھی تو۔۔’ میں جواب مکمل نہ کرسکا۔
’تم بڑے دکھی ہو نا۔۔تم نے میرا دکھ کبھی جانا ہے؟‘ اس کی آواز میں بڑا درد تھا۔
مجھے ایسا لگا، جیسے میری دھڑکنیں رک گئی ہیں۔
وہ مجھے ہمیشہ پڑھ لیتی تھی۔۔۔اس نے مجھے فوراً پڑھ لیا
وہ اٹھی، میرے پاس رکی، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔میں کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ پلنگ پر ۔۔میری دھڑکنیں جو چند لمحے پہلے رک سی گئی تھیں، بڑے زوروں سے پھڑ ک رہی تھیں۔اس نے مجھے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔’کوئی مشکل تمہیں پریشان تو نہیں کرتی؟‘
میری نظریں جھک گئیں۔’او دیدی۔۔۔پلیز‘
’دیدی؟‘
میری نظریں جھکی رہیں۔’آپ مجھ سے بڑی بھی تو ہیں۔میں آپ کو دیدی، مایا دیدی نہ کہوں تو کیا کہوں۔۔اور کچھ میرے دھیان میں آیا ہی نہیں۔پھر دیدی کہنا مجھے اچھا بھی تو لگتا ہے!‘
وہ چپ رہی، ہم بہت دیر تک چپ رہے۔میری نظریں جھکی رہیں۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ وہ میری طرف دیکھ رہی ہے۔
’میری طرف دیکھو۔‘اس کی آواز لپکی۔
میں نے گردن اٹھائی۔ اس کی طرف دیکھا۔
اس نے کہا۔’یہاں، میرے پاس آکر بیٹھو۔‘
میں بس کھینچتا چلا گیا۔۔اس کے پاس بیٹھ گیا۔
اس نے اپنی نشست کا زاویہ بدلتے ہوئے، ذرا مڑتے ہوئے میرے کندھوں پر اپنے مہربان ہاتھ رکھے اور میری پیشانی کو چومنے کے بعد کہا۔’سچ مچ تم میرے مرد بچے ہو۔۔۔راجو، جب تم بڑے ہوجاؤ گے، ایک ایک بات کی باریکی سمجھنے لگو گے۔جب کبھی تمہارے دھیان میں تمہاری دیدی آئے گی، جب تمہیں ان دنوں کی یاد آئے گی۔مجھے بتاؤ ذرا جو تم اپنی دیدی کو بری عورت تو نہ سمجھو گے!‘
اس کی آواز میں اتنا درد تھا، اتنی گہرائی تھی کہ میں تو بس ڈوب گیا۔جانے میں نے کیا کہنا چاہا اور جانے کیا کہہ بیٹھا۔۔اب دھیان میں آتا ہے کہ آنسوؤں کی چلمن سے اسے دیکھتے ہوئے میں نے کہا تھا۔’دیدی میری اچھی دیدی، مجھے بتائیے، پیار کیا برے لوگ کرتے ہیں؟‘
مجھے یاد ہے، میری گردن جھک گئی تھی اور میرے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں پھیل گئی تھیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے پیار کا سمبندھ برے لوگوں کے ساتھ جوڑ کر اس سے سوال نہیں پوچھا تھا۔عورت اور پھر بری عورت تو دور دور تک میرے ذہن میں نہیں تھی۔اور دیدی تو میری اپنی چاہت کا روپ تھی۔۔میں نے دو چار لفظوں میں بس اتنا کہا تھا۔’دیدی، تم کتنی اچھی ہو۔۔۔برے لوگوں سے تمہارا کیا واسطہ!‘
میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس نے کہا۔’آج میں ہوں اور تم مجھے پیار کرتے ہو۔جب میں نہ رہی ، تب تم کس سے پیار کروگے؟‘اس نے ایک سرد آہ بھری اور میرے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھاتے ہوئے کہا:’جب کوئی ہوتا ہے تو ایک بات ہوتی ہے۔جب کوئی نہیں ہوتا، تب وہ بات رہتی ہے کیا؟‘
میں چپ چاپ، اداس اور غمگین ، بجھا بجھا سا بیٹھا رہا۔۔پتا نہیں، وہ مجھ سے کیا کچھ کہہ رہی تھی یا خود اپنے آپ سے۔
’میں ایک ڈاکٹر کی بیٹی، خود ایک ڈاکٹر، اتنی پڑھی لکھی۔۔پھر یہ سب کیا ہے، کیوں میری جان پر بنی ہے!‘ اس نے کہا تو خود اپنے آپ سے، لیکن میں نے سنا، صاف طور پرسنا۔
’دیدی، آج آپ کو کیا ہوگیا ہے؟‘میں نے خود کو مایوس آواز میں کہتے سنا۔
وہ کانپی، سنبھلی، اپنے آپ میں آئی۔۔اس نے باری باری میری ہتھیلیاں چومنا شروع کردیں۔’آج میں ہوں اور تم مجھے پیار کرتے ہو۔یہی کافی ہے۔‘
آج حیران ہوتا ہوں، میں نے کیسے کہا۔’ مایا دیدی۔جب آپ سپتال میں ہوتی ہیں، جب آپ اپنے کمرے میں ہوتی ہیں، جب آپ سوجاتی ہیں۔جب آپ مجھ سے دور ہوتی ہیں، جب آپ میری نظروں کے سامنے نہیں ہوتیں۔۔جب آپ مجھ سے پڑھنے کو کہتی ہیں اور جب میں آپ سے دور رہ کر ، رات رات بھر پڑھتا ہوں۔۔۔جب آپ میرے قریب ہوتی ہیں، میرے ساتھ ہوتی ہیں۔۔دیدی، میرے لیے آپ ہر وقت ہوتی ہیں اور میں ہر وقت آپ سے پیار کرتا ہوں۔۔۔’
میری ہتھیلیوں کو چومتے ہوئے اس کے گیلے ہونٹ بے حرکت ہوگئے۔۔اس نے میری طرف دیکھا، پھر میرے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا۔’اور جب میں نہ رہی، تب؟‘
میں نے سنجیدگی سے کہا۔’ہوسکتا ہے تب میں بھی نہ رہوں۔ہوسکتا ہے ، میں رہوں۔۔۔لیکن دیدی، آج یہ پیار، یہ چاہت اور کل وہ دھیان ، وہ تڑپ۔۔میرے دھیان میں تو آپ پل پل کی تڑپ بن جائیں گی۔۔ایک وقت آئے گا، نہ میں رہوں گا، نہ وہ تڑپ۔تب کہیں ہوگا پیار کا انت۔۔کیوں دیدی، کتنے یگ ہیں، ہماری مٹھی میں!‘
میرے رخسار چومتے ہوئے اس نے جیسے خودکلامی کی۔’مایا، دیکھو اپنا کرشمہ۔۔تمہارا راجو وقت سے پہلے جوان ہوگیا۔۔عمر سے پہلے سمجھ دار بن گیا!‘ مجھے جھینپ نے آن پکڑا۔میں نے گردن جھکالی۔
میں شانت تھا۔۔وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔اس نے کہا۔’شرماتے کیوں ہو۔اور تھکے تھکے سے کیوں لگتے ہو؟‘
میں بول اٹھا، ’نہیں تو۔۔تھکن کیسی دیدی؟‘
’تو پھر تم میری طرف دیکھتے کیوں نہیں؟‘
میں نے اس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھا۔۔وہی میری پیلی پیلی سی خوبصورت اور جوان دیدی۔وہی اس کے بدن کی رعنائیاں، وہی جادو، وہی بے قراری۔میں اس کے پاس بیٹھا تھا، وہ میرے قریب بیٹھی تھی۔۔کون کس سے جڑا بیٹھا تھا۔’آج مجھے توڑ دو راجو۔۔۔آج خود ٹوٹ جاؤ راجو!‘
میرا ماتھا تپنے لگا، کانوں کی لویں دہکنہ لگیں، آنکھیں جلنے لگیں۔’جسم کی بھول بھلیوں میں ہر راستہ ہم ایک ساتھ طے کریں گے۔میں تم پر ہر بھید کھول دوں گی۔۔میں تم سے بڑی ہوں نا۔۔تمہاری دیدی ہوں نا!‘
اس نے میرے چہرے کو اپنے نازک ہاتھوں میں بھرتے ہوئے میرے پیاسے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور پھر دھیرے دھیرے چومنے لگی۔۔چومتی رہی۔میری مٹھیاں بھنچ گئیں۔میرے ہاتھوں میں سختی آگئی۔میرے بازو اکڑ گئے۔اس نے میرے ہاتھ سہلائے اور ہولے ہولے دو جلتے بدنوں کے بیچ اپنے پستانوں پر رکھ دیے۔’اپنی ہتھیلیوں سے میری چھاتیاں مسلو، اپنی مٹھیوں میں قید کرلو۔‘
جانے کب اس نے کہا۔۔جانے کب میں نے سنا۔۔’پیار کرنے والوں کے بیچ دیواریں کیوں۔۔کپڑوں کی دیواریں کیوں؟‘
میں نے ڈری ہوئی آواز میں کہا۔’دیدی، دروازہ کھلا ہے!‘
اس نے میرے تمتماتے گال پر ہلکا سا پیار بھرا چانٹا مارا:’پاگل ہے میرا مرد!‘
اس نے پہلی بار مجھے ’مرد‘ کہا تھا۔۔۔مگر پھر بھی دروازہ تو بند ہونا ہی چاہیے تھا نا!مجھے اٹھاتے ہوئے اس نے کہا:’چاہو تو دروازہ بند کردو۔۔راجو، کوئی آیا ہے کبھی یہاں۔نوکر تو جرات کرنہیں سکتے۔ڈاکٹر صاحب آگئے اور انہوں نے کچھ دیکھ بھی لیا تو فوراً چپ چاپ چلے جائیں گے۔وہ ایک ڈاکر ہیں۔وہ جان جائیں گے ہم پیار کے ماروں کو۔۔یوں بھی ہمارا پیار کسی دوسرے کی الجھن کیوں؟اور کسی دوسرے کی الجھن، ہماری الجھن کیسے؟‘
میں ایک قدم تک نہ اٹھا سکا۔۔حیرت کے مارے وہیں اس کے پاس کھڑا رہا۔اس نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو میں نے اس کے گورے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’دیدی، پیار کرنے والوں کے بیچ کپڑوں کی دیواریں کیوں؟‘
اس کی بڑی میٹھی آواز مجھے سنائی دی۔’دروازہ بند کردوں؟‘
میں وہیں اس کی گود میں گرپڑا۔’آپ مجھے سزا کیوں نہیں دیتیں؟‘
اس نے مجھے اٹھایا، پلنگ پر بٹھایا اور خود کھڑی ہوگئی۔۔اس کا آنچل فرش پر گرا پڑا تھا۔اس نے اپنے گرے ہوئے آنچل کی طرف دیکھا اور میں نے جھک کر آنچل ہاتھوں میں تھام لیا۔۔وہ بنا کچھ کہے دھیرے دھیرے گھومنے لگی اور ساڑی میرے متحرک ہاتھوں میں آتی چلی گئی۔ساڑی میرے ہاتھوں میں تھی اور وہ ہاتھ بھر کی دوری پر میرے پاس کھڑی تھی۔اس نے قدم بڑھا کر میرے بالوں میں انگلیاں کھبوتے ہوئے کہا۔’پریمیکا کے بدن سے اترا ہوا ہر کپڑا پریمی سے محبت مانگتا ہے۔میری ساڑی بڑے پیار سے تہہ کرو اور کرسی پر رکھ دو۔‘کتنی پریشانیاں تھیں اس کام میں۔میرے ہاتھ جیسے میر ے بس میں نہ تھے۔پوری توجہ کے باوجود جانے کتنا وقت لگ گیا۔ساڑی کرسی پر رکھنے کے بعد دھک دھک کرتے دل سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔بلاؤز اس کی باہوں میں پھنسا پڑا تھا، ہک الگ ہوچکے تھے۔اس نے میری طرف دیکھا، پھر گردن جھکا کر اپنے ابھاروں کو دیکھنے لگی۔۔میں نے بڑی مشکل سے بازو پھیلائے اور کانپتے ہاتھوں سے اس کے پستانوں پر جھولتا بلاؤزدھیرے سے الگ کرڈالا۔جانے مجھے کیا ہوا، میں نے آن کی آن میں معطر بلاؤز میں اپنا منہ چھپا لیا۔میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔بڑی دیر تک بلاؤز میں منہ چھپائے روتا رہا۔
’میری طرف دیکھو۔‘اس کی آواز سنائی دی۔
بڑے ضبط کے ساتھمیں نے بلاؤز ساڑی کے اوپر رکھ دیا اور اس کی طرف دیکھا۔وہ تکیے پر سر رکھے دراز تھی۔اس کی جوان مغرور اٹھانیں انگیا میں بندھی پڑی تھیں اور ریشمی پیٹی کوٹ نے اسے کمر سے گھٹنوں تک ڈھانپ رکھا تھا۔میں بے چارگی سے جیسے اس کے خاموش حکم کا منتظر تھا۔وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں اسے۔آج، اتنے برسوں کے بعد، میں کہہ سکتا ہوں، اس رات کی دھڑکتی تنہائی میں، روشن کمرے کی ہر شے ہماری نظروں کے تصادم سے سلگ اٹھی تھی۔اس نے۔۔وہ پلنگ تھا یا بستر یا اوڑھنا بچھونا جسم و جاں کا، جسم وجاں کے لیے۔۔اپنی بانہیں اٹھائیں، میری جانب پھیلائیں، ہاتھ کھلے،انگلیاں متلاشی، بانہیں گول اور چپٹی یا متوازی، ٹھیک نشانے پر مرکوز۔لپکتی بانہوں کی درمیانی محفوظ وسعت، یا کہوں اسے مجھ پناہ گیر کا دشت امکاں۔وہ منظر جو زندگی بھر کا روگ بن جائے، ایسا منظر جس کا بھید کتابوں کی سرد گرم رفاقت بھی نہیں کھول پاتی۔ان بانہوں کا سونا پن تو ایک جادوئی بلاوا تھا۔اور پھر میں ان بانہوں میں تھا، ان کی کسی ہوئی گرفت میں نرم نرم تپش کا خاص مہمان۔
گرم گرم سانسوں کے درمیان اس کی مدھر آوازہولے سے ابھری۔’جب بدن ایک دوسرے سے لپٹ جائیں تو ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے۔ایک دوسرے کو جی بھر کر دیکھ لیں، ایک دوسرے کو جی بھر کر چوم لیں تو لپٹ جانے کا سرور کچھ اور ہی ہوتا ہے۔‘ اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔اس نے مجھے کندھوں سے تھام کر ہولے سے اٹھایا اور خود بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔پھر دائیں ہاتھ سے میری ٹھوڑی اٹھا کر اس نے میری آنکھیں چوم لیں۔’بولو، یہ انگیا ہے یا کوئی ڈربہ۔اتنی دیر تو کوئی کبوتروں کو بھی قید نہیں رکھتا۔کھول دو یہ ڈربہ اور رہا کردو اس حسین اور بے قرار جوڑے کو۔۔‘
میری آنکھیں بند تھیں۔وہ میری گری ہوئی پلکوں پر باری باری اپنے ہونٹوں کے پھاہے رکھ رہی تھی۔۔میرے ہاتھں نے اس کی ننگی پیٹھ سہلاتے سہلاتے اس کی انگیا کے بند کھول دیے، پتلی سی طنابیں اس کی بانہوں سے الگ کردیں۔میری گری ہوئی پلکیں، اس کے ہونٹوں کے پھاہے۔۔۔میں نے سنا۔’یہ جو اک ریشمی شامیانہ سا بندھا ہے میری کمر کے گرد، اب تم بتاؤ، اور کون ہے جو ہٹائے گاا سے۔۔۔‘
میرے ہاتھوں نے اس کا حکم مانا۔۔۔اک ڈوری اور اک گانٹھ۔گانٹھ جو کھلی، ڈوری جو ہوئی ڈھیلی، میں نے جو اٹھائیں پلکیں، اس نے جو پساریں ٹانگیں، شامیانہ ہوا بدن سے الگ۔
’ تن بدن کی یہ آزادی اور تم اس سے محروم۔۔۔ان ہاتھوں کی برکت، تم ہوگے آزاد!‘
سچ مچ ان ہاتھوں میں بڑی برکت تھی۔۔کپڑوں کی دیواریں ان ہاتھوں نے ڈھادیں، بڑے پیار سے اور بن آواز۔آواز تو بس میں نے اس کی سنی۔’نہ کوئی الجھن، نہ کوئی پردہ۔۔تم مجھے آنکھوں میں بھرلو اور میں تمہیں۔۔اتارلیں یہ بدن آنکھوں میں سدا کے لیے۔۔۔‘
وہ پلنگ کی پشت کا سہارا لے کر ، سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر اور ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئی۔۔میں لرزتی ٹانگیں لٹکائے اس کے پاس بیٹھا تھا۔اس کی پنڈلیاں میرے کولھوں کو چھو رہی تھی۔۔میری گود میں اک اور وجود کی توانائی گرمئ حیات بن چکی تھی۔میں اسے آنکھوں میں اتار رہا تھا۔۔کھلے بال، دمکتی پیشانی، گہری آنکھیں، تمتماتے رخسار اور مسکراتے ہونٹ۔وہ گردن، وہ کندھے، وہ بانہیں، وہ بالوں بھری گیلی بغلیں۔بدن کے تناسب سے کچھ بڑے پستان، بھرے بھرے اور گول، پیلے پیلے سے گورے ابھاروں کی اٹھانوں پر کرشمے کی صورت پھیلے ہوئے کتھئی رنگت کے دائروں میں زندہ، ٹھوس اور سربلند سر پستاں۔میری نظریں تو بس وہیں رک گئیں، وہیں ٹھہر گئیں، وہیں کی ہورہیں۔
میں یہ دیکھ نہ پایا کہ اس کی نظریں میرا کیا کچھ سمیٹ رہی ہیں۔تب میرے منتظر کانوں نے اس کی آواز سنی۔’بھر لو میرے پستانوں کو اپنی مٹھیوں میں، چومتے رہو، میرے ابھاروں کو، چوس لو رس ان اٹھانوں کا۔۔پگھلادو، بہادو ان میں چھپا برسوں پرانا درد۔۔۔‘
اس کی آواز، اس کے لفظ، اس کا حکم۔۔یوں جانو، ایک کتھا کہانی۔۔
وہ خاموش سیاہ سلگتی رات۔۔۔
وہ دو جلتے بدن،پیار کی ایک عجب دھن میں مگن۔۔۔
وہ ایک انمول لمس، نعمت ہے، جس کا نام۔۔۔
ایک ایک مسام کی بیداری، ایک ایک رگ کی تڑپ۔۔۔
ایک ایک فتنے کی سخت جانی، لبوں کی آنچ تلے تپتی ہوئی۔۔۔
جب میرے اس ناقابل بیان وجود کی ناقابل برداشت توانائی اس کے بھیگے ہاتھوں کی رہنمائی میں، اس کی بھیدوں بھری گود کی گہرائی میں، اس کی مدد اور تعاون کے ساتھ ایک جدو جہد میں ڈھل گئی، تب وہ، وہ نہ رہی اور میں ، میں نہ رہا۔۔بس جسم و جاں ایک لاوے کی صورت پھوٹ بہے اور ہمیں بہالے گئے۔
صبح منہ اندھیرے جب میری آنکھ کھلی ، میں نے اپنا چہرہ اس کے پستانوں میں گم پایا۔۔وہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھائے، میری نیند ٹوٹنے کا انتظار کررہی تھی۔میرا بدن ساکت تھا۔ایک میرا دل دھڑک رہا تھا اور ایک میری پلکوں میں حرکت ہوئی تھی۔پھر بھی وہ جان گئی کہ میری نیند ٹوٹ چکی ہے۔۔نیند ٹوٹنے کی آواز نے سن لی تھی، جیسے اس کے باخبر پستان سوتی اور جاگتی آنکھوں کے فرق کو خوب پہچانتے ہوں۔اس نے بڑے پیار سے کہا۔’اب تم مرد سے ایک پیارے سے بڑے بچے بن جاؤ۔اپنے کمرے میں جاؤ۔نہاؤ، پھر بھرپور ناشتہ کرو۔۔۔کالج بھی تو جانا ہے تمہیں!’
میں نے اس کے پستانوں کو مٹھیوں میں بھر لیا تھا اور پستانوں کے سخت جان سروں کو باری باری چوم رہا تھا۔
اس نے پھر بڑے پیار سے کہا۔’اپنی دیدی کا کہا نہیں مانو گے!‘
میں فوراً اٹھ بیٹھا۔۔میں نے بے اختیاری میں اس کے ہاتھ تھامے اور چوم لیے۔اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔پھر اس کے ہاتھ میری گود میں تھے۔اور وہ فتنہ جو سر اٹھا چکا تھا، اس کے ہاتھوں کی پیار بھری نرمی اور آنچ محسوس کررہا تھا۔وہ خود تپنے لگا تھا۔اس نے بانہیں کھولیں، مجھے ان میں بھرا اور پھر جیسے مجھے اوڑھ لیا۔اس نے خود مشتعل فتنے کو جائے پناہ بخشی جو ایک زلزلے کی زد میں تھی۔جب زلزلہ تھم گیا تو اس نے شفقت سے میرا ماتھا چوما:’اب تو اپنی دیدی کا کہنا مانو گے!‘
میں نے اس کی طرف دیکھا۔اس نے کہا:’تم سے اٹھا نہ جائے، چلا نہ جائے پھر بھی تم کالج جاؤ گے۔پورے دھیان سے ہر لکچر سننا۔گھر آنے کے بعد اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سوجانا۔سوتے رہنا۔میں خود تمہیں جگاؤں گی۔‘دن بھر میں نیند سے لڑتا رہا ،تھکن سے لڑتا رہا۔کالج میں کانوں سے جو کچھ سنا، دھیان میں رکھنے کا جتن کرتا رہا۔گھر لوٹا، کھانے سے فارغ ہوا، کپڑے بدلے، پلنگ پر لیٹا اور سو گیا۔رات کے دس بجے ہونگے، جب میری آنکھیں کھلیں۔وہ پاس بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی۔اس کی انگلیاں ہولے ہولے میری چھاتی میں ہلکی سی گدگدی پیدا کررہی تھیں۔میں مسکرادیا۔میں نے دیکھا، تپائی پر دودھ بھرا گلاس رکھا ہے اور ایک طشتری میں ناشپاتی اور سیب کے قتلے پڑے ہیں۔اس نے کہا۔’اٹھو، منہ پر چھینٹے مارو اور کچھ کھاپی لو۔پھر سوجانا۔‘
میں نے کہا۔’نہیں دیدی!‘
’اچھا پہلے اٹھ تو پڑو، باقی باتیں بعد میں۔‘
غسل خانے سے آنے کے بعد میں نے پھل کھائے، دودھ پیا۔
اس نے کہا۔’راجو، مجھے کچھ سڈنی کارلٹن کے بارے میں بتاؤ۔‘
میرے منہ سے نکل گیا۔’دیدی یہ بھی کوئی بات ہوئی!‘
اس نے نرمی سے کہا۔’نہیں راجو۔۔کیا تم چاہو گے کہ تم بیمار پڑ جاؤ اور تمہاری دیدی کو دکھ ہو؟‘
میں چپ رہا۔اس نے کہا۔’لیٹ جاؤ راجو۔میں تمہارے پاس بیٹھی ہوں۔۔کچھ بات کرو۔جب تمہیں نیند آنے لگے تو سوجانا۔جب تم سوجاؤ گے، میں بھی تمہیں دیکھتے دیکھتے یہیں تمہارے ساتھ سوجاؤں گی۔۔کیوں ٹھیک ہے نا۔۔تم یہی تو چاہتے ہو کہ تمہاری دیدی تمہارے پاس رہے۔دیکھو میں تمہارے پاس ہوں اور صبح جب تمہاری آنکھ کھلے گی، تم مجھے اپنے پاس پاؤ گے۔۔اب مجھے بتاؤ، وہ ایک پل، دھڑ سے گردن الگ ہونے سے پہلے کا وہ پل، اس پل سڈنی کارلٹن کے ذہن میں کیا تھا؟اس پل کیا اس کی پریمیکا اس کے دھیان میں تھی؟اس پل کیا موت کے تماشائیوں کے قہقہے اور آوازے اس کا وقت برباد کررہے تھے؟اس پل کی حقیقت کیا تھی؟اس پل کا سچ کیا تھا؟ مجھے یاد ہے، میں کچھ بھی نہ کہہ پایا تھا۔۔مجھے یاد ہے، اس کی چھلکتی آواز کے طلسم میں میں نے اس ایک پل کو گزرتے دیکھا اور پھر ادھر سڈنی کارلٹن کی گردن دھڑ سے الگ ہو کر گری، ادھر میرا سر نیند کی آغوش میں لڑھک گیا۔