گیند ۔۔۔ چترا مدگل
گیند
(چترا مدگل )
انکل ۔۔۔ او انکل! ۔۔ پلیز۔ سنئے نہ انکل ۔۔۔! ” تنگ سڑک سے تقریباً متصل بنگلے کی فینسنگ کے اس جانب سے کسی بچے نے انہیں پکارا۔ سچدیوا جی ٹھٹھکے، آواز کہاں سے آئی؟ غور کیا۔ کچھ سمجھ نہیں پائے۔ کانوں اور گنجے سر کو ڈھکے کس کر لپیٹے ہوئے مفلر کو انہوں نے تھوڑا ڈھیلا کیا۔ ذیابیطس کا سیدھا حملہ ان کی سننے کی طاقت پر ہوا ہے۔ اکثر دل چوٹ کھا جاتا ہے جب ان کے نہ سننے پر سامنے والا شخص اپنی جھنجھلاہٹ کو کوشش کے باوجود دبا نہیں پاتا۔ سات آٹھ ماہ سے اوپر ہی ہو گئے ہوں گے۔ ونے کو اپنی پریشانی لکھ بھیجی تھی انہوں نے۔ جواب میں اس نے فون کھٹکا دیا۔ سننے کے آلے کے لئے وہ ان کے نام روپے بھیج رہا ہے۔ آشرم والوں کی مدد سے اپنا علاج کروا لیں۔ بڑے دنوں تک وہ اپنے نام آنے والے روپے کا انتظار کرتے رہے۔ غصے میں آ کر انہوں نے اسے ایک اور خط لکھا۔ جواب میں اس کا ایک اور فون آیا۔ ایک پیچیدہ کام میں الجھا ہوا تھا۔ اس لئے انہیں روپے نہیں بھیج پایا۔ اگلے ماہ ایک ہندوستانی دوست آ رہے ہیں۔ گھر ان کا لاجپت نگر میں ہے۔ فون نمبر لکھ لیں ان کے گھر کا۔
ان کے ہاتھوں پونڈس بھیج رہا ہوں۔ روپے یا تو وہ خود آشرم آ پہنچا جائیں گے یا کسی کے ہاتھوں بھیج دیں گے۔ نام ہے ان کا ڈاکٹر منیش کشواہا۔ ڈاکٹر منیش کشواہا کا فون آ گیا۔ رامیشور نے اطلاع دی تو بے چینی سے فون سننے پہنچے۔ منیش کشواہا نے بڑی اپنائیت سے ان کا حال چال پوچھا۔ جاننا چاہا، کیا کیا تکلیفیں ہیں انہیں۔ شوگر کتنا ہے؟ بلڈ پریشر کے لئے کون سی گولی لے رہے ہیں؟ کتنی لے رہے ہیں؟ پیشاب میں یوریا کی جانچ کروائی؟ کروا لیں۔ کیوں اکیلے رہ رہے ہیں وہاں؟ ونے کے پاس لندن کیوں نہیں چلے جاتے؟ اس کی بیوی ۔۔۔ یعنی ان کی بہو تو خود ڈاکٹر ہے۔۔۔۔! روپیوں کی کوئی بات ہی نہ شروع ہوئی ہو۔ جھجھکتے ہوئے انہوں نے خود ہی پوچھ لیا،” بیٹا، ونے نے تمہارے ہاتھوں علاج کے لئے کچھ روپے بھیجنے کو کہا تھا۔”
منیش۔ کو اچانک جیسے یاد آیا” کہا تو تھا ونے نے، آشرم کا فون نمبر لکھ لو، بابوجی کو کچھ روپے بھجوانے ہیں ۔۔۔۔ مگر میرے نکلنے تک ۔۔۔ دراصل، مجھے ابھی انتہائی مصروفیت میں وقت نہیں ملا کہ میں انہیں یاد دلا دیتا ۔۔۔” ونے کو خط لکھنے بیٹھے تو کانپنے والے ہاتھ غصے سے زیادہ کچھ زیادہ ہی تھرتھرانے لگے۔ حروف پڑھنے کے قابل ہو سکیں تبھی نہ اپنی بات کہہ سکیں گے! طے کیا۔ فون پر کھری کھوٹا سنا کر ہی چین لیں گے۔ فون پر ملی مارگریٹ۔ بولی، کہ وہ ان کی بات سمجھ نہیں پا رہی۔ ونے گھر پر نہیں ہے۔ مانچسٹر گیا ہوا ہے۔ مارگریٹ کے مکمل غیریت کے لہجے نے انہیں مایوس کر دیا۔ چھلنی ہو اٹھے۔ بہو کے ساتھ بات چیت اور سلوک کا کوئی طریقہ ہے یہ؟ فون تقریباً پٹک دیا انہوں نے۔ کچھ اور ہو نہیں سکتا تھا۔ غصہ میں وہ صرف ہندی بول پاتے ہیں یا پنجابی۔ مارگریٹ ان کی انگریزی نہیں سمجھتی تو ہندی، پنجابی کیسے سمجھے گی؟ پوتی سوینا سے باتیں نہ کر پانے کا ملال بھی انہیں کریدتا رہا۔ حالانکہ باتیں تو وہ اس گڑیا کی بھی نہیں سمجھتے۔
ڈھیلے کئے گئے مفلر میں ٹھنڈی ہوا سرسراتی دھنسی چلی آ رہی تھی۔ ڈھیٹ! نومبر کے آخر آخر کے دن ہیں۔ سردی کی آمدسبھی کو پسند ہے۔ انہیں بالکل نہیں۔ شام بلا وقت سیندوری ہونے لگتی ہے۔ دھندلکا ڈگ نہیں بھرتا۔ چھلانگ بھر اندھیرے کی آستین میں ڈوب لیتا ہے۔ آشرم سے سیر کو نکلے نہیں کہ پلٹنے کی کھدبد مچنے لگتی۔ مفلر کس کر لپیٹا اور آگے بڑھے، تاکہ ‘مدر ڈیری’ تک رسائی کا معمول مکمل ہو لے۔ مکمل نہ ہونے سے بے قراری ہوتی ہے۔ کسی نے پکارا نہیں۔ کون پکارے گا؟ شبہ ہوا ہے۔ ایسے شبہات خوب ہونے لگے ہیں ادھر۔ اپنے علم میں دوائی کی گولیاں رکھتے ہیں پلنگ سے ملی تپائی پر، ملتی ہیں دھری تکئے پر!
آس پاس مڑ کر دیکھ لیا۔ نہ سڑک کے اس پار نہ اس پار ہی کوئی نظر آیا۔ ہو تب ہی نہ آئے! قدم بڑھا لیا انہوں نے۔ کب تک کھڑے رہیں؟ پہلے وہ چار پانچ لوگ جمع ہو کر شام کو ٹہلنے نکلتے۔ ایک ایک کر وہ تمام بستر سے لگ گئے۔ کوئی بیس روز پہلے تک ان کا روم پارٹنر کپور ساتھ آیا کرتا تھا۔ اچانک اس کے دونوں پاؤں میں میں فیل پاہو گیا۔ ڈاکٹر ورما نے بستر سے اترنے کو منع کر دیا۔ کپور انہیں بھی سیانی ہدایت دے رہا تھا کہ ٹہلنے اکیلے نہ جایا کریں۔ ایک تو ساتھ صحبت میں سیر کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے، اور پھر ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے چلتے ہیں۔ ساوتری بہن جی نہیں بتا رہی تھیں مسٹر چڈھا کا قصہ؟ راہ چلتے اٹیک آیا، وہیں ڈھیر ہو گئے۔ تین گھنٹے کے بعد جا کر کہیں خبر لگی۔ صحت کا خیال کرنا ہی ہے تو آشرم کے اندر اندر ہی آٹھ دس چکر مار لیا کریں۔
بوڑھی ہڈیوں کو بڑھاپا ہی ٹنگڑی مارتا ہے ۔۔۔۔۔
کپور کا مشورہ ٹھیک لگ کر بھی عمل کرنے کے قابل نہیں لگا۔ انہیں ذیابیطس ہے۔ صرف گولیوں کے بل پر محاذ نہیں لیا جا سکتا اس آدم خور بیماری سے۔ روجو زندہ تھی تو انہیں کبھی اپنی فکر نہیں کرنی پڑی۔ نت نئےنسخے گھونٹ گھوٹ کر پلاتی رہتی۔ کریلے کا رس، میتھی کا پانی، جامن کی گٹھلی کی پھنکی ۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا!
” یہ انکل ۔۔۔ چا چا، ادھر پیچھے دیکھئے نا! کب سے بلا رہا ہوں ۔۔۔ فینسنگ کے پیچھے ہوں میں۔” پیچھے ادھر آئیے ۔۔۔ ادھر دیکھئے نا ۔۔۔” فینسگ کے پیچھے سے اچکتا بچہ ان کی بے دھیانی پر جھجھلایا۔ ہکا بکا سے وہ دوبارہ ٹھٹھک کر پیچھے مڑے۔ اب صحیح ٹھکانے پر نظر ٹکی۔
” او تو پکار رہا ہے مجھے؟” فینسنگ کے اس پار سے بچے کے اچکتے چہرے نے انہیں یکبارگی مسرت سے بھر دیا۔
” کیوں بھئی، کس واسطے ۔۔۔؟”
” میری گیند باہر چلی گئی ہے۔”
” کیسے؟” بچے کا لہجہ ان کے فضول سے سوال سے جھنجھلا اٹھا
“بالنگ کر رہا تھا۔ “
” اچھا ۔۔۔۔ تو باہر آ کر خود کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے اپنی گیند؟” بچے کا مطلب بھانپ کر وہ مسکرائے۔
” گیٹ میں تالا لگا ہوا ہے۔”
“تالا کھلوا لو ممی سے!”
” ممی نرسنگ ہوم گئی ہیں۔”
” نوکرانی تو ہوگی گھر میں کوئی؟”
” بدھو رام گاؤں گیا ہے۔ گھر پر میں اکیلا ہوں۔ ممی باہر سے بند کر کے چلی گئی ہیں۔” بچے کے بھولے چہرے پر لاچاری نے پنجا کسا۔
” ہو، اکیلے کھیل رہے ہو؟”
” اکیلے ۔۔۔ ممی کسی بچے کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتیں۔”
” بھلا وہ کیوں؟”
“مجھے بھی غصہ آتا ہے، بولتی ہیں بگڑ جاؤ گے۔ یہاں کے بچے جنگلی ہیں۔”
“بڑی غلط سوچ ہے۔ خیر ۔۔۔۔ تمہیں نرسنگ ہوں ساتھ لے کر کیوں نہیں گئیں؟”
ماں کی بے وقوفی پر انہیں غصہ آیا۔ گھنٹے آدھ گھنٹے کی ہی بات تو تھی، بچے کو اس طرح اکیلا چھوڑتا ہے کوئی؟
“ممی گھنٹے بھر میں نہیں لوٹے گی انکل، رات کو نو بجے کے بعد لوٹے گی۔”