با پردہ بیسوا ۔۔۔ دانش علی راو
با پردہ بیسوا
دانش علی راو
سردیوں کی خنک راتوں میں جب ہم دوست اپنے دفتر سے نکل کر گھر کو جانے والی گاڑی کا انتظار کرتے تو میں اکثر اپنے دوستوں سے رحمت کے بارے میں بات کیا کرتا۔
میرے دوست مجھے عیاش انسان سمجھتے اور ایک ٹوٹی فٹ پاتھ کی جانب اشارہ کر کے کہتے
“ابھی میرے کھیلنے کودنے کے دن ہیں میں کیسے ابھی ایسا سوچ سکتا ہوں” اور سنی ان سنی کر دیتے۔
رحمت صرف اپنے نام سے ہی رحمت تھی
بظاھر یوں لگتا تھا جیسے وہ سب کیلئے زحمت رہی ہوگی۔
ماں باپ کے گزرنے کے بعد شوہر نے اس سے جمع پونجی اینٹھ کر چھوڑ دیا پینتیس سالہ رحمت اپنے تین بچوں سمیت ہماری گلی میں ہی رہتی تھی۔
ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی خاص ہنر سے بھی نا آشنا تھی۔
لوگوں کے گھروں کی صفائی ستھرائی اور آس پڑوس کی جانب سے دیے گئے سامان پر ہی اپنا گزر بسر کر رہی تھی۔
غریبی اور معاشرے کا ناروا سلوک اُسکے چہرے پر خوب عیاں تھا۔
وہ اپنے پاؤں میں بڑے بڑے گھُنگرُوَوں والی چاندی کی پازیبیں پہنتی اور اکثر سنسان گلی سے اٹھتی چھن چھن کی آواز اُسکے گزرنے کا پتہ دیتی۔
وہ پازیبیں اب میلی ہو چکی تھیں اُنہیں دیکھ کر ہمیشہ مجھ میں اُسے تحفتاً نئی پازیب دینے کی خواہش جاگتی ۔
دفتر کے بعد گاڑی آنے تک ہم وہاں کھڑے اِدھر اُدھر کی ہانکتے یا اُس ٹوٹی فٹ پاتھ کی طرف ٹکٹکی باندھے رکھتے۔
اس علاقے میں انگریز کے دور کی وہ آخری فٹ پاتھ تھی جو اب تک بچی ہوئی تھی۔
اس خستہ حال فٹ پاتھ پر ویشیا عورتیں روز اپنے حسن کا جلوہ بکھیرتیں۔
سورج ڈھلتے ہی اس قبیل کی بہت سی عورتیں آدم زادوں کا دھیان اپنی جانب کھینچنے کی تگ ودو میں لگی رہتیں۔
روز گاہکوں کا ایک سمندر اس حسین جھیل کو خود میں سمانے امڈ آتا اُن میں چند متوسّط طبقہ کے گاہک موٹر سائیکل پر بیٹھے سر ہیلمیٹ سے ڈھانپے مناسب داموں بات بننے کی کوشش کرتے رہتے۔
جب اُونچے درجے والے گاہک گاڑیوں میں آتے تو اُن کے گرد ایک جھمگھٹا لگ جاتا۔
پھر کُچھ شرمیلے گاہک بھی نظر آتے جو اپنے کسی یار دوست کو آگے بھیج دیتے اور خود چند فرلانگ پر کھڑے سودا طے پانے کا بے صبری سے انتظار کرتے۔
اس ٹھٹھرتے جاڑے میں بھی اُنکا اپنا ہی جلوہ تھا
کھلی لمبی لمبی زُلفیں، تنگ لباس، ننگی آستینیں اور چہرے کو اس حد تک سنگھارا ہوتا کہ پاس سے گزرتی گاڑیوں کی روشنی کی چمک اُنکے چہرے کو مزید درخشاں کر دیتی ۔
اُنہوں نے اپنے مددگار کے طور پر خواجہ سراؤں کو رکھا ہوتا یا ایک اُدھیڑ عمر کی عورت کھڑی اُنکی ترجمانی کرتی رہتی۔
جیسے ہی کوئی بندہ فٹ پاتھ کے قریب آتا تو فوراً وہ اسے اپنی جانب کھینچنے کے لیے لپکتیں۔
کُچھ بھاؤ تاؤ کرتے اور بات بن جاتی پھر وہ فاحشہ نئی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی۔
ایک سرد رات جب معمول کے مطابق حسن سرِ بازار نیلام ہونے کی چاہ میں تھا مجھے کُچھ بدلا بدلا سا لگا جس نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔
ان تمام چمکتی دمکتی فحشاؤں میں ایک نئی باپردہ فاحشہ کا اضافہ ہوا۔
جو ان سب سے کُچھ فاصله بنا کر سیاہ برقع اوڑھے کھڑی تھی مانو حُسن پر نظر بٹو۔
کلائیوں سے نیچے کے ہاتھ اور صرف آنکھیں ہی نمایاں تھی۔
وہ فاحشہ کم اور ایک ضرورت مند زیادہ لگ رہی تھی۔
اس دن میں نے کُچھ دیر کھڑے ہو کر اُسکی جانب دیکھا پر اُسکے لیے کوئی گاہک نہ آیا۔
پھر گاڑی آنے پر ہم گھر کی جانب روانہ ہوئے۔
اگلے روز پھر وہ اُسی جگہ سُن کھڑی تھی اسے دیکھ کر مجھے تجسّس ہونے لگا۔
“سنو اُسکی جانب کوئی نہیں آتا بیچاری فارغ اپنا وقت برباد کرتی رہتی ہے” میں نے اپنے دوستوں سے کہا۔۔
“جناب کُچھ دِکھے گا نہیں تو بِکے گا کیسے یہ کہہ کر اُنہوں نے بات ٹال دِی”.
اُس رات میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔
میرے دھیان کے پرندوں نے رحمت سے اُڑ کر اب اس پر منڈلانا شروع کر دیا تھا ۔
آخر کیا وجہ ہوگی جو وہ وہاں آئی؟
وہ اوروں جیسی کیوں نہیں؟
وہ پیشے سے تو فاحشہ بالکل بھی نہیں لگتی۔
ضرور اُسکی کوئی مجبوری رہی ہوگی۔
یہ تمام سوالات میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
اگلے روز جب میں دفتر کے لیے گلی سے گزرا تو معمول کے مطابق رحمت نظر آئی پر آج وہ میری توجہ کا مرکز نہیں تھی بلکہ میں اُسی فاحشہ کے خیالوں میں گم تھا۔
رات کو چھٹی کے بعد میں پھر دوستوں کے ساتھ کھڑا اسے ہی دیکھتا رہا۔
گھر کو جانے والی گاڑی آئی اور گزر گئی پر میں اُسی پر ٹکٹکی باندھے کھڑا رہا۔۔
کُچھ لمحے دیکھتے دیکھتے ایک گاہک اُسکی جانب بڑھا پر وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوگی۔
اُسکی یہ حرکت دیکھتے ہی میں سمجھ چکا تھا وہ پیشے سے فاحشہ نہیں تھی۔
میرا تجسس آسمان کی حدوں کو چھونے لگا۔
” کیوں نہ اس سے بات کی جائے اور اس کے بارے میں جانا جائے اور یہ خواہش میں نے اپنے دوستوں کو ظاہر کی”
“لگتا ہے جناب آپ سے سچ میں رہا نہیں جا رہا آپکو جلد شادی کر لینی چاہئے” یہ بول کے اُنہوں نے میرا مذاق اڑایا اور چپ کروا دیا۔
گھر آ کر رات گئے تک میں پھر اسی کی یاد میں محوِ پرواز رہا۔
اس رات میں نے ارادہ کر لیا کہ کل دفتر سے میں اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان سے چند لمحے بعد نکلوں گا۔۔
اگلے روز چٹھی کے بعد کام کی غرض سے میں مزید کُچھ دیر دفتر ہی میں بیٹھا رہا ۔
جب میرے دوستوں کو گئے قریباً گھنٹہ ہوا تو میں دفتر سے یہ ارادہ کر کے نکلا۔
آج اس سے کسی نے قیمت پر بات کروں گا
میرے من میں عجیب اور غریب سوالات جنم لے رہے تھے۔
اور ایک جانب یہ بھی ڈر تھا اگر کسی نے مجھے اس سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو لوگ جینا محال کر دیں گے اور میری شرافت کا ٹوکرا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گا۔
پر میرا ارادہ پختہ تھا اور میں انہی سوچوں میں گم روڈ پر آگیا۔
وہاں پہنچ کر میری نظر روڈ پر بِکھرے کانچ کے ٹکڑوں اور خون کی بہتی باریک ندیوں پر پڑی۔
ساتھ ایک ٹھیلے والے سے معلوم پڑا کہ کوئی فاحشہ اچانک بیچ سڑک آگئی اور تیز رفتار گاڑی اسے کچلتی ہوئی نکل گئی۔
سڑک پر پڑا خون ابھی جما نہیں تھا یہ دیکھ کے میں چکرا گیا۔
طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے میں نے اس باپردہ فاحشہ سے ملنے کا ارادہ ترک کیا اور گھر کی جانب چل نکلا۔۔
پھر ہر رات کی طرح اُسی کی سوچوں کو خود اور سوار کیا۔
میرے جذبات میں اس قدر گرمی آ چکی تھی کہ میں اُسے اپنی ہم ہمنوا بھی بنانے کا ارادہ رکھنے لگا تھا۔۔
اگلے روز جب دفتر کے لیے اس فٹ پاتھ کے ساتھ لگی ایک چھوٹی ڈھیری کے قریب سے گزرا جو کہ رات ہوئے حادثے کے بعد ٹوٹے کانچ کا ملبہ تھی جس میں پڑے کانچ کے ٹکڑے خون سے سنے تھے۔
میں نے دو قدم آگے بڑھائے اور ہڑ بڑا کر واپس مڑا۔
میں نے جیسے ہی اس ڈھیری کو غور سے دیکھا اس میں پازیب کا خون سے لتھڑا ٹکڑا دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
میں گھر کی جانب لپکا۔
گلی میں پہنچتے ہی ایک سرد جھونکے نے رحمت کے گھر کے دروازوں میں لگے پردے کو اڑایا اور مجھے چند عورتیں افسردہ چہرہ لیۓ ایک چارپائی کے گرد بیٹھی نظر آئیں۔
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور میرے اوسان خطا ہوگئے۔
اس روز کے بعد نہ وہ بیسوا نظر آئی اور نہ ہی کبھی رحمت نظر آئی۔۔۔