دھند میں سے نکلتا دن ۔۔۔ رشید امجد
Rasheed Amjad is a prominent fiction writer and critic. He portrays real life in his short stories and is recognized as symbolic writer. He has received many awards from Pakistan and India.
دھند میں سے نکلتا دن
( رشید امجد )
شام کی نیم تاریکی میں دور سے آتے گھوڑوں کی چاپ اور غبار نے وقت کی گنتی کو الٹ پلٹ کر دیا۔ ایک پر اسرار چاپ نے صدیوں کے سوئے رشتوں کو جگا دیا، دھند میں سے طلوع ہوتے منظر سے ایک چھوٹا سا کارواں ا بھرا، چیزیں آہستہ آہستہ واضح ہونے لگیں۔ تھکے ہوئے گھوڑوں پر مسافت زدہ چہروں والے سپاہیوں کے درمیاں جھولتی ہوئی ایک عماری، اس کے مخملی شقہ کو تھامے حنائی انگلیاں اور اس کے پیچھے سے جھانکتی مخمور آنکھیں ،
’’ہم رات یہیں گزاریں گے۔‘‘ قریب پہنچ کر کماندار نے کہا۔
’’لیکن یہاں تو‘‘
’’ملکہ عالیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ‘‘ اس نے بات کاٹ دی۔ ’’وہ اور سفر نہیں کر سکتیں۔‘‘
چوکی کا چھوٹا سا کمرہ فوراً خالی کر دیا گیا۔ سواری قریب آ گئی۔ پردے ہٹے، غاشیہ بردار نے پائدان ساتھ لگایا۔ مخملی پاؤں باہر آیا، پھر دوسرا۔۔۔ شام کی نیم تاریکی ہی میں چودھویں کا چاند نکل آیا۔ ایک شان استغنا سے کوٹھری پر نظر ڈالی گئی، پھر گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔ ’’ہم یہیں باہر قیام کریں گے۔‘‘
چھوٹی سی چوکی کے چھوٹے سے اہل کار نے ایک تخت نما چوکی برآمدے میں بچھا دی۔ غاشیہ بردار عماری سے مخملی فرش اٹھا لایا۔
چوکی پر بیٹھتے ہوئے ایک عجیب پرواہی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے مقنع کھولا۔ زلفیں سارے عالم میں بکھر گئیں اور چاند کے گرد گہرے بادل تیرنے لگے۔ اس کا سب کچھ تیز بارش میں بہہ گیا۔
کماندار کو حکم ہوا۔۔۔ ’’تم لوگ بھی اب آرام کرو۔‘‘
سپاہی اور کماندار گھوڑوں کو کھول کر نیم دائرے میں بکھر گئے۔
وہ اسی طرح دم بخود، لٹا پٹا، وہیں کھڑا رہا۔۔۔
نیم آنکھوں سے اس پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا گیا۔۔۔ ’’اتنی دیر سے ایسے ہی کھڑے ہو، پتھر تو نہیں ہو گئے۔‘‘
اس نے گھبرا کر اپنے آپ کو ہلایا،
گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔ وہ ہنستے ہنستے دوہری ہو گئی۔
وہ رات بیتی نہیں ، بس ٹھہر گئی۔ صدیوں پر پھیل گئی۔ لگا زمانے بیت گئے ہیں اور شناسائیاں رشتوں میں بدل گئیں جو بدنوں سے نکل کر روحوں میں اتر گئے ہیں۔
صبح جب کارواں چلنے لگا تو سوار ہوتے ہوئے اس پر بے نیازی کی نظر پڑی، وہ اس کے لیے اجنبی نہیں تھی۔ اس بے نیازی میں ایک لگاؤ، ایک پیغام تھا، اس خاموش پیغام نے اس کے پاؤں کھول دئیے اور وہ سنگلاخ راستے پر جاتے کارواں کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کاروان مسافت کی دھند سمیٹتا فصیل شہر کے بڑے دروازے پر لمحہ بھر کو رکا۔ مخملی شقہ ذرا سا کھلا۔ دو مخمور آنکھوں نے اس پر ایک عجیب نظر ڈالی۔ حنائی انگلیوں سے چھوٹا معطر رومال اڑتا ہوا اس کے پاؤں سے جا لگا۔ اگلے لمحے کارواں فصیل کے اندر گم ہو گیا۔
اس نے جھک کر رومال اٹھایا۔ اس کا معطر پیغام اس کے سارے وجود میں اتر گیا۔ رومال کو سینے سے لگائے وہ وہیں فصیل کے ساتھ بیٹھ گیا۔
شاید دو دن بعد یا دو صدیوں بعد اسے شاہی قیام گاہ میں طلب کیا گیا۔
ایک رعب دار گونجتی آواز نے پوچھا۔۔۔ ’’چوکی چھوڑ کر تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ جواب تھا ہی نہیں۔
رعب دار آواز کے پیچھے مخملی پردوں کے پیچھے ہلکا سا ارتعاش ہوا یوں لگا جیسے اس کے پیچھے چھپی مخمور آنکھوں نے کچھ کہا ہے۔ حنائی انگلیاں بے تابی سے پردے پر مچلتی رہیں۔
’’جواب دو۔۔۔ ‘‘
’’میں۔۔۔ ‘‘ وہ کچھ نہ بول سکا۔
کچھ کہا گیا۔۔۔ لیکن وہ سن نہ سکا۔
سپاہی اسے نرغے میں لے کر باہر آئے، ایک طویل دالان سے گزر کر قلعہ کے دوسرے حصے کے طرف بڑھے۔ پھر سیلن زدہ سیڑھیاں اتر کر وہ ایک نیم تاریک راہداری میں داخل ہوئے ایک اندھیری کوٹھری کا دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیل دیا گیا۔
کوٹھری کا دروازہ بند ہوتے ہی سیلن، بو اور تاریکی نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نگل گئی اور قمیض کے نیچے سینے سے لگا معطر رومال کھسک کر نیچے جا گرا۔
صدیاں الٹ پلٹ ہو گئیں۔
شام کی اس نیم تاریکی میں دور سے آتی ویگنوں اور جیپوں کی آواز، ایک پر اسرار چاپ اور انجانی سی خوشبو، انجانے ان دیکھے رشتوں کی خبر دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے مہاجرین رجسٹریشن کے لیے رکتے ہیں اور پھر بل کھاتی سڑک سے ہوتے شہر کی طرف چلے جاتے ہیں۔
وہ سر جھکائے رجسٹر پر اندراج چیک کر رہا ہے۔
’’سر۔۔۔ ‘‘
سر اٹھاتا ہے، اس کا نائب جانے کب سے کھڑا ہے۔
’’کیا بات ہے دلاور خان؟‘‘
’’سر! یہ عورت آپ سے بات کرنا چاہتی ہے‘‘
دلاور خان کے پیچھے کھڑی عورت اس کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ جاتی ہے۔ صدیوں کے فاصلے نقطے میں سمٹ جاتے ہیں ، بھوک سے ستے ہوئے چہرے، پھٹے لباس اور ننگے پاؤں ، ایک ہاتھ سے دروازے کے پٹ کا سہرا لیے، گود میں دودھ پیتے بچے کو سنبھالے وہ التجا بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے۔
’’صاحب جی۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں وہی ترنم ہے، لیکن مخمور آنکھوں میں وہ شان بے نیازی نہیں ، بھوک اور مجبوری کا اداس پن ہے۔
’’صاحب جی۔۔۔ مجھے آج رات یہاں رکنے دیں ، میرا بچہ ٹھیک نہیں۔
اس حالت میں اسے لے کر میں رات کو سفر نہیں کر سکتی، صاحب جی۔۔۔ ‘‘
وہ اس کے پیچھے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ کماندار ہے، نہ سپاہی۔
وقت بھی کیا شئے ہے۔
’’صاحب جی۔۔۔ راستے میں ہمارے قافلے پر حملہ ہوا۔ میرا شوہر بھی۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔
’’صاحب جی! میرا بچہ بیمار ہے۔۔۔ مجھے رات۔۔۔ ‘‘
سرحدی چوکی کے برآمدے میں نیم تاریکی میں ، وہ ایک کونے میں زمین پر سمٹی بیٹھی ہے۔ بچہ اب بھی اس کی گود میں آرام کر رہا ہے۔ سپاہی نے ایک مگ میں چائے اور ڈبل روٹی کے دو تین سلائس اس کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ وہ سر جھکائے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے بچے کو دیکھتی ہے، پھر ڈبل روٹی کا ٹکڑا منہ میں رکھ کر چائے کا مگ اٹھا لیتی ہے۔
وہ کچھ فاصلے پر پتھر بنا، اسے دیکھے جا رہا ہے، بس دیکھے ہی جا رہا ہے۔
کہتے ہیں ملکہ نے رات کو اپنے شوہر سے وعدہ لیا تھا کہ قیدی کو معاف کر کے دوبارہ اپنی چوکی پر بھیج دیا جائے۔ صبح کماندار کو حکم دیا گیا کہ جاتے ہوئے قیدی کو رہا کر دیا جائے، لیکن تخت دلی پر قبضہ کرنے کے نشے نے سارے لشکر کو ایک عجیب بے قراری میں ڈال رکھا تھا۔ کماندار قلعہ سے رخصت ہوتے ہوئے شاہی حکم بھول گیا۔
صدیاں بیت گئیں ، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کوٹھری کی سیلن، بو اور تاریکی میں بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس نے کیسے جان دی!