سرنگ کے دوسری طرف ۔۔ ۔ کوثر جمال

.

سرنگ کی دوسری طرف

کوثر جمال

(سڈنی، آسٹریلیا)

ویران سڑک تھی اور دن کا وہ پہر جب تاریکی اجالے کو آسانی سے پچھاڑ لیتی ہے۔نومبر کی خزاں رسیدہ شام کو تیزی سے بڑھتے اندھیرے نے دبوچ لیا تھا۔ اور آج اس نے غلطی یہ کی تھی کہ کوئی ٹیکسی لینے کی بجائے ٹیوشن سینٹر سے پیدل ہی گھر کی طرف چل دی تھی۔ ٹیوشن سینٹر جہاں وہ ملازم تھی وہاں سے اس کے گھر تک کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا البتہ یہ راستہ غیر معمولی طور پر سنسان تھا۔ اسے کبھی کبھاراس پرسکون راستے پر پیدل چلنا اچھا لگتا تھا کہ یہ انسانی ہجوم کی یلغار سے قدرے محفوظ اور فطرت کے حسن سے بھرپور راستہ تھا۔ سڑک کی دونوں اطراف کے بیشتر درخت اپنی پرانی پوشاکیں اب اتار چکے تھے۔ تاہم کچھ سدا بہار درخت ایسے بھی تھے جہاں اب بھی پنچھیوں کے آشیانے محفوظ تھے۔ عام طور پر اس کی ایک کولیگ اس کے ہم راہ ہوتی تھی، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئی چلتیں تو راستہ آسانی سے کٹ جایا کرتا تھا۔

لیکن آج وہ اکیلی تھی۔

ابھی وہ کچھ ہی دور گئی ہو گی کہ ایک کار اس کے بالکل قریب آ کر رکی، یوں جیسے اس کا راستہ کاٹ رہی ہو۔ پھر جو کچھ ہوا آنا” فانا” ہوا۔ اسے عقب سے کسی نے اپنے مضبوط بازووں کی گرفت میں بے بس کیا تھا۔ اس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔ شاید اسے بیہوش کیا گیا تھا۔ بعد میں بے پناہ اذیت اور بے توقیری کی شدت جب اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی تو اس نے بے طرح چاہا کہ کاش وہ کبھی ہوش میں نہ آتی۔ جو کچھ ہوا وہ دوسروں کے لیے ایک افسوسناک خبر تھی، اس کے خاندان کے لیے ایک ایسا اندوہناک حادثہ تھا جس میں ان کی عزت کی دھجیاں بکھر گئی تھیں۔ حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا تھا کہ وہ اس خبر کو چھپا کر روائتی انداز سے اپنے خول میں چھپنے اور اپنے بھاگوں اپنی توقیر بچانے کے قابل بھی نہیں رہے تھے، جیسا کہ اس سماج کے متوسط طبقے میں ایسے واقعات کی “پردہ پوشی” کا عام رواج تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ خود اس کے لیے اذیت کا ایسا دورانیہ تھا کہ وہ نہ تو اس کی مدت کا تعین کر سکتی تھی اور نہ ہی اس کی شدت کا۔

جو حادثہ تھا وہ ہو چکا تھا۔ اس کا جسم اور روح دونوں ہی زخموں سے چور چور تھے۔ بہت گھاو اور چوٹیں آئی تھیں کیونکہ اس نے آسانی سے خود کو پامال ہونے نہیں دیا تھا۔ وہ پوری طاقت سے دو مردوں کی وحشت و بربریت کا مقابلہ کرتی رہی تھی۔ یہ گھاو کچھ ظاہر تھے، کچھ پوشیدہ۔ اب ان ضربوں اور زخموں کے علاج کی ضرورت تھی۔ انسان نے بہت محنت سے اپنے اور دوسروں کے جسموں پر لگے زخموں کے علاج دریافت کیے ہیں۔ گھاو مندمل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے نشان رہ جاتے ہیں۔ چوٹوں کا درد آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے اور پھر کبھی کبھار سرد موسموں میں جاگتا ہے۔ کچھ حادثے ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان سے ہمیشہ کے لیے کچھ نہ کچھ چھین لیتے ہیں، جیسے کوئی عضو یا کوئی حس، انسان کو مجبورا” ان محرومیوں کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ ان سب نقصانات کے باوجود اس میں فطری طور پرزندہ رہنے کی خواہش اور جہد کی طاقت موجود رہتی ہے۔ لیکن ۔۔۔ اُس کے ساتھ گزرا حادثہ ان سب سے مختلف تھا۔ اس خوفناک رات کو گزرے کچھ ہفتے بیت چکے تھے۔ وہ اب صدمے کے اثرات سے آہستہ آہستہ باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جسم بحال ہو چکا تھا۔ پھر بھی کچھ ایسا تھا جو اپنی جگہ جوں کا توں موجود تھا۔ اس اذیت ناک رات کی دہشت نے اس کے احساسات و خیالات ابھی تک اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھے تھے۔ وہ جب تنہا ہوتی تو اسے اپنی ہی چیخیں سنائی دیتیں۔ وہ اپنے آپ سے باہر نکل کر اپنے کچلے جانے کا منظر دیکھتی تو جسم کا تمام پانی جلد کے مساموں سے بہہ نکلتا۔ ایک ست رنگی کیفیت کا بھیانک آکٹوپس تھا جس کی گرفت سے آزاد ہونے میں اس کی ساری طاقت صرف ہو جاتی۔ وہ دیر تک غسل کرتی رہتی لیکن یہ کیسی گندگی تھی جو کسی طرح صاف نہیں ہو پا رہی تھی۔ یہ کیسا داغ تھا جو اس کے اجلے لباس پر بھی دیکھنے والے دیکھ سکتے تھے، اور دیکھتے رہیں گے، شاید ہمیشہ، عمر بھر۔ یہ سوچ کر اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ مایوسی اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی۔ ماہرِ نفسیات نے کہا تھا کہ اس کریہہ تجربے کے ذہنی اثرات سے نکلنے میں اسے کچھ زیادہ وقت لگے گا۔ کیونکہ حادثہ جتنا اذیت ناک تھا اتنی ہی وہ طبعا” حساس بھی تھی۔

اذیت کے اس سفر میں ایک اضافی بات ایسی تھی جو اسکے ساتھ ہو چکی زیادتی کی شدت کو کئی گنا بڑھا رہی تھی۔ اس کی زندگی کے بہی کھاتے میں ایک ایسا نقصان لکھ دیا گیا تھا جو بے پناہ اور دائمی تھا۔ ایسا عظیم خسارا جو اس کی پوری زندگی کو گرہن زدہ کر چکا تھا اور جس کا کوئی ازالہ نہیں تھا، اسی طرح جیسے اس کے معاشرے میں اس جیسی لڑکیوں کے ساتھ صدیوں سے ہوتا آیا تھا۔ اس کے آس پاس کی زندگی میں، اپنوں اور پرائیوں کی سرگوشیاں اور بولتی نگاہیں انگنت سانپوں کی طرح اسے اپنے جسم پررینگتی، ڈنک مارتیہوئی محسوس ہوتیں۔ جسم کے نیل دور ہو چکے تھے لیکن ان سانپوں کا زہر اس کی روح کو نیل و نیل کر رہا تھا۔ اسے سب سے زیادہ تکلیف اپنے منگیتر کے رویے سے ہوئی، جس کی آنکھوں میں اس کی چاہت کے چراغ بجھ چکے تھے۔ کیا وہ واقعی چاہے جانے کے قابل نہیں رہی تھی؟ کیا اس کا منگیتر کبھی اسے عزت بھری محبت دے سکے گا؟ اس طرح کے کئی سوال اسے عجیب سی کیفیت میں مبتلا رکھتے جیسے وہ زمین کی بجائے پانی پر چلنے کی کوشش کر رہی ہو۔گو اس کی منگنی برقرار تھی کیونکہ اس رشتے کی گرہ دونوں طرف کے خاندانوں نے اپنے اپنے مفادات کی طاقت سے لگائی تھی، لیکن اس منگنی کا قائم رہنا اب زبردستی کے احسان کا ایسا بھاری بھر کم پتھر تھا جس کے بوجھ تلے اسے سانس لینا دشوار لگ رہا تھا۔ کیا اس کی زندگی اسی طرح پانی پر چلتے ہوئے گزرے گی؟ وہ پریشان کن سوچوں میں گھری بے بسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی چلی جاتی۔ عجیب حادثہ تھا جو جسمانی اور ذہنی صدموں کے ساتھ ساتھ اسے بے مثال تنہائی کی دلدل میں اتار چکا تھا۔ وہ اپنے سب پیاروں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلی ہو چکی تھی۔ اس کا باپ جب اسے دیکھ کر اپنا سر جھکا لیتا تھا تو اسے اپنا آپ گندگی کا ایسا ڈھیر لگتا جو اپنے خاندان کے لیے باعثِ شرم تھا لیکن جس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں تھا۔ ‘اگر میں اپنی جان لے لوں تو کیا میرے خاندان کی عزت واپس آ جائے گی؟’ اس نے یہ بھی سوچا۔ لیکن اس کی دادی تو جب بھی اسے دیکھتی تو گہری آہ بھر کر کہا کرتی تھی کہ ایک بار کی کھوئی ہوئی عزت کبھی واپس نہیں ملتی۔ اس کا شدت سے جی چاہتا کہ کبھی اپنی ماں کا وہ پیار دیکھے جسے وہ ہوش سنبھالنے سے ابتک دیکھتی آئی تھی۔ لیکن ماں کے پیار پر رحم کا جذبہ غالب آ چکا تھا۔ یہ سوچ کر اسے جھرجھری سی آ جاتی کہ وہ اب پیار کی بجائے رحم کے قابل تھی۔

پھر کچھ وقت گزرا اور دھیرے دھیرے ایک بھرپور زندگی جینے کی خواہش اس کے اندر انگڑائیاں لینے لگی۔۔۔۔۔ اسی خواہش کے زیرِ اثر اس کی سوچ آخرِ کار انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور اس نقصان پر سوال اٹھانے لگی جو کہنے والوں کے مطابق اس کا ہو چکا تھا۔ وہ اس نقصان کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس نے تو کوئی غلطی، کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ وہ مظلوم تھی اور لوگ کہتے تھے وہ گوہرِ عصمت گنوا بیٹھی۔ اس کے جسم پرجو گھاو لگا تھا وہ دو لوگوں نے لگایا تھا۔ دو بھوکے، بے حس، سفاک مردوں کی جنسی درندگی نے۔ عجیب بات تھی کہ وہ مرد جو انسان کے مقام سے گر کر درندے بنے تھے وہ اس معاشرے میں آسانی کے ساتھ جی سکتے تھے، گو وہ مجرم تھے، گرفتار ہو چکے تھے اورامید تھی کہ وہ اپنے جرم کی سزا بھی کاٹیں گے، اس کے باوجود ان کی عزت ان کے پاس رہے گی۔ معاشرہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی عزت ختم گئی۔ لیکن وہ جو انسان کے مقام پر موجود تھی، جس نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا، جس نے چوری نہیں کی تھی، ڈاکہ نہیں ڈالا تھا، وحشی نہیں بنی تھی وہ اس سب کے باوجود بے آبرو ہو گئی تھی۔ اسے آبرو جیسے اس نازک آبگینے سے نفرت محسوس ہونے لگی جسے جانے کب اور کیوں عورت کے جسم میں رکھ دیا گیا تھا۔ جسم پر لگنے والے زخم تو ایک حادثے کا نتیجہ تھے لیکن اب اس کی روح پر مسلسل گھاو لگانے والی ایک ایسی معاشرتی سوچ تھی جو مظلوم کی بجائے مجرم کے ساتھ کھڑی تھی۔ ان معنوں میں اس پر ظلم کرنے والے دو افراد نہیں، بلکہ پورا معاشرہ تھا۔ ایسی سوچ کا رکھوالا معاشرہ جو عورت کو انسان کے مقام سے گرا کر ایک شے کی حیثیت سے اس کے استعمال کے قاعدے قانون بنا چکا ہے۔ معاشرہ جو ظالم کی بجائے مظلوم کے جسم پر ایک انمٹ مہر لگانے کی رسم کا نابینا امین ہے۔ “بے آبرو ہو جانے کی انمٹ مہر”۔ ۔۔۔۔ یوں اس نے واضح طور پر اپنے دشمن کو دیکھ لیا، افسوس کہ یہ دشمن اس کے آس پاس اس کی عزیز ترین ہستیوں کے ذہنوں میں بھی موجود تھا۔

اس حادثے کے بعد ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ اسے اب رات کی تاریکی اچھی لگنے لگی تھی۔ اس تاریکی میں کوئی ملامت بھرا لہجہ، کوئی رحم بھری نگاہ اس کے وجود میں سوراخ نہیں کرتی تھی۔ رات کی کوکھ میں پلتے بھوتوں، عفریتوں، چڑیلوں کے روائتی تصورات دم توڑ چکے تھے۔ انسان اور ان کی سوچیں اور رویے تو ان سے کہیں زیادہ خوفناک تھے۔ خاموشی اور اندھیرا اب اس پر مہربان تھے۔ آج بھی ایک گھپ اندھیری رات تھی، اس کے مقدر جیسی، کسی امید سے عاری۔ خاموشی کا ہر سو پہرہ تھا۔ وہ برآمدے کے ستون سے ٹکی دیر سے اپنے دل کی دھڑکنوں کو سن رہی تھی، وہ زندہ تھی، اس کا دل پوری درستی سے اپنا کام کر رہا تھا۔ پھر اس کی نگاہیں اس جگنو پر جا ٹھہریں جس کے جسم میں کوئی دیا روشن تھا۔ یہ ننھا سا کیڑا تاریکی کے مہیب عفریت کے مقابل اپنی ذرا سی روشنی کا معجزہ دکھا رہا تھا۔ وہ کسی خارجی اجالے کا محتاج نہیں تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسے کئی جگنو نظر آئے، جگنووں کا ایک قافلہ۔ یہ قافلہ جتنا بڑا ہوتا گیا، اندھیرا اتنا ہی کمزور پڑتا گیا۔ یہ دیکھ کر اچانک ایک خواہش نے اس کے ذہن میں انگڑائی لی، تاریکی کو بے جان کرنے کی خواہش، جگنووں کے قافلے سے جا ملنے کی آرزو۔ نئی طرح کی جڑت سے زندگی کشید کرنے کا خیال ایک توانائی کی طرح اس کی رگ و پے میں دوڑنے لگا۔ مجھے جگنو بننا ہو گا، مجھے جگنووں کا قافلہ تلاش کرنا ہو گا، اس نے سوچا۔ وہ پُر جوش قدموں سے چلتی ہوئی اپنے کمرے میں واپس آئی، بتی جلائی اور آئینے میں خود کو دیکھنے لگی۔ اسے اپنا آپ گزرے کل سے کچھ مختلف لگا۔ آج اس کی آنکھوں کے چراغ روشن تھے۔ اب اسے معاشرے کی بینائی تلاش کرنا تھی۔ یہ ایک مشکل کام تھا، بہت ہی مشکل۔ لیکن خود اپنی سوچ کی بیداری اور زندگی کا کوئی مقصد پا لینے کے بعد، کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہی اسے اپنی روح پر لگے زخم کا درد کچھ کم ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا، کچھ سوچ کر مسکرائی اور آہستگی سے اپنی انگلی کو منگنی کی اس انگوٹھی سے آزاد کیا جو کسی ان چاہے احسان کی طرح اسے دن رات کاٹتی رہتی تھی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930