تہوار ۔۔۔ کوثر جمال

“تہوار”

کوثر جمال

شہر کی انتظامیہ نے یہ خاص دن منانے کے لیے ایک بڑے سے میدان میں ضروری انتطامات کیے تھے۔ اس میدان میں عارضی شیڈز کی قطاریں حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بڑے، بچے بوڑھے، مرد، عورتیں، غرض کون تھا جو وہاں نہیں تھا۔ ان کے چہروں پر ایسی حریص چمک تھی جو بھوکی صورتوں پر بعد مدت اچھا کھانا میسر آنے کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ اور لوگ اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجود تھے کہ ایک عام آدمی کے لیے اس ہجوم میں سے راستہ بنا کر ان شیڈز تک پہنچنا کارِ محال تھا۔ خاندانوں اور دوستوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھے تھے کہ کہیں ان میں سے کوئی اس میلے میں کھو نہ جائے۔ گو انتظامیہ نے سختی سے تاکید کی تھی کہ قطاریں بنانے کا تہذیبی اصول نہ توڑا جائے لیکن جب معاملہ ایسے کسی میلے کا ہو تو اصول کسے یاد رہتے ہیں۔ حیرت یہ تھی کہ انتطامیہ نے اپنے اہل کاروں کو نظم و ضبط کی پابندی کے لیے کافی تعداد میں یہاں تعینات نہیں کیا تھا۔۔ جو تھوڑے بہت لوگ اس کام کے لیے مقرر کیے گئے تھے وہ تو نظم و ضبط قائم رکھنے کی بجائے سب سے پہلے شیڈز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یوں تو سارا میدان ہی بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا آمیز مہک میں بسا ہوا تھا لیکن شیڈز کے قریب تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ شیڈز کے چھجوں سے کھال ادھڑے مردہ جانوروں کے ننگے جسم لٹک رہے تھے۔ چھوٹے بڑے جانور ۔۔۔۔۔ اورآسماں حدِ نگاہ تک جلتے بھنتے ماس کے دھوئیں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔
ارے ہاں، یہ تو آپ کو بتانا مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ یہ سگ خوری کا سالانہ تہوار تھا، جسے اب ہر سال بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ فضا میں تیز موسیقی اور پاپ میوزک کے شور میں انسانوں کے چپڑ چپڑ کھانے اور ہڈیاں چبانے کی آوازیں بظاہر دبی ہوئی تھیں لیکن ان آوازوں کو آنکھوں سے دیکھ کر سنا جا سکتا تھا۔ میں بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں موجود تھا۔ ہم سارے دوست جب تک شیڈز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو دوپہر سے شام ہو چکی تھی۔ لوگوں کا ہجوم اب کچھ چھٹ چکا تھا۔ ہم نے ایک شیڈ کے پاس قدرے کم لوگوں کو دیکھ کر وہاں اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر ہمیں ڈسپوزایبل پلیٹیں تھما دی گئیں۔ دوکاندار نے جب میری پلیٹ میں میری پسند کی کوئلوں پر بھنی ہوئی بوٹیاں ڈالیں تو میں نے غور کیا کہ وہ مجھے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ عجیب خوفناک سی مسکراہٹ تھی اس کے بےڈھنگے سے تھوبڑے پر۔ میں نے بےتابی سے ایک بھاپ چھوڑتی گرم گرم بوٹی منہ میں ڈالی۔ لیکن اس کا ذائقہ اتنا کسیلا اور ناقابلِ برداشت تھا کہ خدا کی پناہ ۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے قے کر دی۔ تعجب ہوا کہ لوگ کیسے مزے لے لے کر یہ سب کھا رہے تھے۔ سوچا اپنے دوستوں سے پوچھوں کہ انھیں یہ گوشت کھانے میں کیسا لگا۔ لیکن جب نگاہ دوڑائی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میدان خالی ہو چکا تھا۔ عجیب ہو کا عالم تھا۔ میرے دوست مجھے چھوڑ کے کیوں چلے گئے، کہاں چلے گئے ۔ اپنے آپ کو یوں اچانک اکیلا پا کر پہلے حیرت ہوئی اور پھر بے پناہ خوف مجھ پر طاری ہو گیا۔ میں نے فوری ردِعمل کے طور پر وہاں سے بھاگنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔ لیکن اس وقت تک دو غراتے ہوئے قد آدم کتے اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے مجھے اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔ جس دوکاندار سے میں نے ابھی ابھی اپنا سودا خریدا تھا، اس کی اونچی ہنسی کی بھوں بھوں سارے میں گونج رہی تھی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930